گزشتہ سے پیوستہ
صحرائے چولستان کے گھپ اندھیروں اور دہشت ناک ویرانوں میں… بھوکے پیاسے اور بھولے بھٹکے ہم چار کھوجی… کہیں کانٹے دار جھاڑیوں میں گھسنا پڑا تو کہیں ٹیلے پر چڑھ کر جائزہ لیا۔ کہیں گیڈر دم دبا کر بھاگے تو کہیں آوارہ کتوں نے راستہ روکا۔ مگر ہم بھی دھن کے پکے تھے اور راستے کے کتوں سے الجھنے کی بجائے اپنی منزل کی اور چلتے رہے۔ پچھل پیری تو نہ ملی لیکن ہمارے پیر بوجھل ضرور ہو گئے۔ اس سے پہلے کہ واقعی ہار جاتے، عمران صاحب نے زنبیل کھولی اور ہمیں نمکین دال کی عیاشی کرائی۔ پانی کا وہ ایک گھونٹ آب حیات تھا صاحب۔۔۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم وہاں کیسے پہنچے اور کیونکر بھٹکے؟ جی ہاں! آپ ٹھیک پہچانے۔ بلی کے خواب میں چھیچھڑے اور منظرباز کے خواب میں فوٹوگرافی۔ بس جی بہترین کمپوزیشن کے لئے، خوبصورت تصویر بنانے کے لئے یہ سب ہوا۔۔۔ اور ہوا کچھ یوں: مجھے یہ تو علم تھا کہ آج رات ہم صحرائے چولستان میں ٹھہریں گے، مگر یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ جگہ نواب آف بہاولپور کی پہلی رہائش گاہ یعنی قلعہ دراوڑ سے کتنی دور ہو گی۔ لہٰذا ہر ممکن صورت کی ذہن میں ساز باز کرتا رہا۔ بالفرض اگر قلعے سے دور ٹھہرے تو کاش وہاں سے مجھے کوئی موٹرسائیکل یا دیگر سواری مل جائے۔ یوں رات کو ہی قلعے پہنچ جاؤں گا اور تاروں بھرے آسمان کی فوٹوگرافی ہو جائے گی۔۔۔ جب یہ بات امیرِ کارواں ذیشان رشید سے کی تو انہوں نے کہا کہ ”بندوبست ہو جائے گا، ورنہ اپنی گاڑی ہی لے چلیں گے“۔۔۔ کمال جی کمال… جب سفر میں ایسے لوگ ساتھ ہوں تو فوٹوگرافی کا سواد آ جاتا ہے۔
ڈیرہ نواب صاحب سے نکلے تو زبیر فیض کھنڈ صاحب کی گاڑی روہی کے گہرے صحرے میں اترتی گئی اور پیچھے پیچھے ہماری گاڑی بھی۔ دراصل اب زبیر صاحب ہمارے میزبان اور کارواں کے راہنما تھے۔ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ان جیسے صاحبِ علم کی معیت میں پہلے صادق گڑھ پیلس دیکھا اور اب چولستان کی کھوج میں نکلے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ زبیر کھنڈ صاحب ایک بہترین لکھاری، ”مسافر لوگ“ کتاب کے مصنف اور زبردست سیاح ہیں۔ جب ہم اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو میں نے انہیں کہا کہ کیا مجھے یہاں سے کوئی موٹرسائیکل یا سواری مل سکتی ہے؟
زبیر صاحب:- ”آپ میری گاڑی لے جائیں، مگر جانا کہاں ہے؟“
منظرباز:- ”قلعہ دراوڑ تک، دراصل میرا دل ہے کہ نائیٹ فوٹوگرافی کر آؤں۔“
زبیر صاحب مسکراتے ہوئے:- ”جناب! آپ دراوڑ گاؤں میں ٹھہرے ہوئے ہیں اور یہاں قریب ہی پانچ چھ سو میٹر دور قلعہ ہے۔“
ایتھے رکھ سو۔۔۔ آسمان کی طرف منہ کر کے کسی نے دل ہی دل میں کہا: ہاں! فرید ٹھیک کہتا ہے کہ ”تم“ نے سارے انتظامات کر رکھے ہیں۔ اور خواجہ غلام فریدؒ نے کہا تھا ”میڈا خوشیاں دا اسباب وی توں، میڈے سولاں دا سامان وی توں“۔
شدید بھوک لگی تھی اور چائے کی طلب تو عروج پر تھی۔ دل تھا کہ جلدی جلدی کچھ کھانے کو ملے اور پھر قلعہ دراوڑ کی فوٹوگرافی کو چل دوں۔ کیونکہ چاند ڈوبے ہی جا رہا تھا۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ میں نے چائے کا انتظار بھی نہ کیا، کیمرہ اٹھایا اور چل دیا۔ یوں اس مہ خانے کو چلے ہم چار لوگ یعنی منظرباز، عمران احسان الٰہی مغل، ڈاکٹر محمد کاشف علی اور محمد اقبال صاحب۔۔۔ ویران راہ پر چلتے گئے، راستے ملتے گئے اور ہم پہنچے قلعہ ڈیراور (دراوڑ) کے پہلو میں۔ اور تلاش تھی ایسے مقام کی، جہاں سے فریم اچھا بن سکے۔ ایک جگہ سے چاند اور قلعہ کی ایک ساتھ تصویر بنائی۔ اور پھر جب چندہ بابو افق کے قریب ہوئے تو ہمارا قلعہ کے گرد چکر لگانے کا پروگرام بنا، تاکہ فوٹوگرافی کے لئے مزید بہتر زاویے ڈھونڈے جا سکیں۔ بس جی پھر وہی کہ ہمیں راستے کا علم نہیں تھا اور اپنے تئیں کھوج کو چل پڑے۔ جھاڑیوں سے گزرے۔ ٹیلوں پر چڑھ کر اچھی کمپوزیشن تلاش کرتے۔ یوں اونچے نیچے راستوں پر مارے مارے چلتے قلعہ کی مغربی سمت جو پہنچے تو لومڑیوں نے یوں راستہ کاٹا کہ راستہ ہی سوجھائی نہ دیا۔ ایک گیا دائیں اور دوسرا ہوا فصیل کی طرف۔ ٹیم ورک جو ہوا تو راستہ مل ہی گیا۔ باقیوں کا علم نہیں، مگر سچ پوچھیں تو تھکاوٹ اس قدر تھی کہ میرے لئے چلنا مشکل ہو رہا تھا۔ ایسے میں اگر راستہ نہ ملتا تو میں شاید ادھر ہی ڈھیر ہو جاتا۔ بہرحال جیسے تیسے قلعہ کی جنوب مشرقی سمت پہنچے۔ جگہ اچھی لگی تو ٹرائی پاڈ گاڑ دیئے۔۔۔ راستے میں دوستوں کو کہا تھا کہ اوہو! خیمہ تو گاڑی میں ہی رہ گیا ہے۔ وہ کیا ہے کہ قلعے کے آگے رنگ برنگا روشن خیمہ لگا ہوتا تو تصویر کو چار چاند لگ جاتے۔ مگر ہماری قسمت دیکھیئے کہ قلعہ کے قریب پہلے سے کسی نے خیمہ لگا رکھا تھا۔ واقعی ”تم“ نے سارے انتظامات کر رکھے تھے۔ بہرحال یہ خیمہ ایک فنکار سید احمد حسین کا تھا۔ جو ریت سے مختلف چیزیں بناتا ہے۔ اور یہاں بھی اس نے ایک مسجد، شیر، قائد اعظم کا مزار اور جل پری وغیرہ بنا رکھی تھی۔ دراصل چولستان جیپ ریلی قریب تھی اور یہ اسی کی تیاریاں تھیں۔ ویسے ریلی کے دوران قلعہ پر روشنیاں بھی لگائی جاتی ہیں۔ مگر وہ ابھی نہیں لگیں تھیں، لہٰذا جیسے تیسے ہمیں خود ہی قلعہ روشن کرنا تھا۔۔۔
آسمان ستاروں سے شدید لبریز تھا۔ یوں قلعے کے اوپر سٹار ٹریل بنانے کو دل کیا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ ایک تو تھکاوٹ اور دوسرا قلعے کو روشن کیسے کیا جائے؟ بہرحال کیمرے کو کہا کہ تو لانگ ایکسپوژر سے چل اور چلا ہی جا اور ہم روشنی کا کوئی بندوبست کرتے ہیں۔ اور پھر ہم نے موبائل ٹارچوں سے ہی اتنے بڑے قلعے کو روشن کر دیا۔ پہلے ڈاکٹر کاشف علی اور محمد اقبال صاحب نے قربانی دی اور دور فصیل کے قریب جا کر موبائل کی ٹارچ سے دیوار پر روشنی پھینکی۔ سوچا کہ شریف لوگوں کو کیا تنگ کر رکھا ہے۔ لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا، اور کیا یہ کہ باقیوں کو کیمرے کے پاس کھڑا کر کے خود دوبارہ مغربی سمت چل دیا اور دیوار پر ٹارچ سے روشنی پھینکتا گیا۔ واپس آیا اور پھر ایسا ہی کرتے شمالی سمت چل دیا۔ اور وہاں آوارہ کتوں نے ایسا گھیرا کہ الجھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ دو چار چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھائے اور ”للکرہ“ مار کر پتھر ”ہٹاویں“ دے مارے۔ سیدھے اس لئے نہ مارے کہ ایویں کسی کتے کو لگ جاتا اور وہ زخمی ہو جاتا تو پھر بھی ہمیں تکلیف ہونی تھی کہ ہم نے بے زبان جانور کو تکلیف پہنچا دی۔ خیر وہ کتے تو گیدڑ ثابت ہوئے اور دم دبا کر بھاگ گئے۔ اور میں نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔۔
جب واپس پہنچا تو اس وقت تک جنابِ کیمرہ صاحب پچیس منٹ کی سٹار ٹریلز بنا چکے تھے۔ اور مجھے اس تصویر کی صورت ایک اور تحفہ مل گیا۔۔۔ صحرا ٹھنڈا ہو چکا تھا اور بھوک ہمارے جسموں کو ٹھنڈا کرنے کے درپے تھی۔ رات کے ساڑھے دس بجے ٹھکانے سے فون آیا کہ آ جاؤ، کھانا تیار ہے۔ لہٰذا ہم نے مزید پانچ سات منٹ فوٹوگرافی کی اور پیٹ پوجا کو چل دیئے۔۔۔
(جاری ہے۔۔۔)
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں