میرے لکھنے کا شوق تو پرانا ہے مگر یہ نہیں کہوں گا کہ بچپن سے ہے، کیونکہ بچپن میں یہ شوق نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ بچپن میں اصل شوق، جنون اور بہت کچھ کرکٹ ہوا کرتی تھی۔ تب کرکٹ کا ایک میگزین تھا، اُدھر میگزین شائع ہوتا، اِدھر ہم اپنی ڈائری میں اپنی من پسند کی خبریں اور ریکارڈ لکھ لیتے۔ اس کے علاوہ ہم ہر میچ کو براہ راست دیکھتے اور اپنی کمنٹری لکھتے، تجزیے درج کرتے اور نہ جانے کیا کیا کرتے۔ پھر ایک ایسا حادثہ ہوا کہ ہم نے کرکٹ ڈائری لکھنی بند کر دی اور ڈائری بلکہ ڈائریاں بے وفا صنم کے خطوط کی طرح جلا دیں۔ اجی کیا کرتے تب بچپنا تھا اور ہم کافی جذباتی تھے۔
کیا مزے کے دن تھے۔ صبح صبح اٹھنا۔ بلا پکڑنا اور کچھ کھائے پیئے بغیر دشمن پر یلغار کر دینا۔ کبھی ”غازی“ لوٹنا تو کبھی شکست کو ”روند“ کی نظر کر دینا (روند پنجابی لفظ ہے جو کہ ہمارے علاقے میں ”دھوکہ“ کے لئے استعمال کرتے تھے)۔ سائیکلوں پر سفر کرتی ”بین الدیہاتی“ کرکٹ ٹیم کا اپنا ہی مزہ تھا۔ نہ گرمی لگتی تھی اور نہ ہی سردی۔ گرمیوں کی سخت دھوپ میں بھی کرکٹ تو سردیوں کی کانپتی صبح میں بھی کرکٹ۔ شام ہونے کے قریب ہوتی تو اوور کم کر دیتے مگر میچ ضرور کھیلتے۔
میں غالباً بارہ تیرہ سال کا تھا، تب میں اپنے ایک کزن کے گاؤں گیا۔ وہاں ایک بہت بڑا ٹورنامنٹ ہو رہا تھا۔ دیکھا کہ وہ سکور لکھنے کے لئے عام کاغذ کی بجائے باقاعدہ سکور لکھنے والی ایک خاص کاپی استعمال کر رہے ہیں۔ میرا دل کیا کہ ہم بھی ایسی کاپی خریدتے ہیں اور آئندہ اسی پر سکور لکھیں گے۔ اپنے چھوٹے سے قریبی شہر کی ہر دکان سے پتہ کیا مگر وہ کاپی نہ ملی۔ پھر میرے ذہن میں ترکیب آئی کہ کاپی خود تیار کرتا ہوں۔ بس ایک صفحہ بناتا ہوں پھر اس کی فوٹو سٹیٹ کروا لوں گا۔ مکمل خاکہ تو تیار کر لیا کہ کاپی کیسی ہونی چاہئے اور سکور کے لئے کن کن خانوں کی ضرورت ہے مگر مسئلہ یہ تھا کہ عام لکھائی کی بجائے اچھی لکھائی کروانی تھی اور خطاط اس کے کافی پیسے لے گا۔ تو میں نے اس صفحہ کی تیاری کے لئے، یہ طریقہ اختیار کیا کہ اپنی ایک پرانی کتاب سے ضرورت کے حروف اور الفاظ تلاش کر کر کے کاٹے، اپنے مطلوبہ الفاظ تیار کیے اور ایک کاغذ پر چپکا دیئے۔ پھر اس تیار شدہ کاغذ کی فوٹو کاپی کروائی تو ایک دم زبردست چیز تیار ہو گئی۔ ویسے جو لوگ پرانے طباعت کے نظام سے واقف ہیں وہ اس طریقہ کو سمجھ گئے ہوں گے۔
ہمارے گاؤں کے پاس کوئی میدان نہیں تھا۔ بس ایک پرائمری سکول تھا جس میں درخت اتنے کہ گیند کو سرحد تک پہنچنے کے لئے کسی معجزے کا انتظار کرنا پڑتا۔ گیند آف پر کھیلتے مگر فیلڈر لیگ والا دوڑ رہا ہوتا کیونکہ درخت کو لگ کر دوسری طرف چلی جاتی۔ کھلاڑی اپنی طرف سے چھکا لگاتا، گیند تیزی سے سٹریٹ کی طرف بھاگتی مگر چند لمحے بعد معلوم ہوتا کہ وکٹ کیپر کیچ پکڑ چکا ہے۔ اس سب کے باوجود ہم انہیں درختوں والے میدان (جنگل) میں کھیلتے بلکہ کئی ایک ٹورنامنٹ بھی کروائے۔ اسی میدان میں ایک جگہ درختوں کی ٹہنیوں کا ایسا جھنڈ تھا کہ اس میں گیند جانے کا مطلب تھا یقیناً کیچ۔ اس میں جب گیند جاتی تو سارے فیلڈر اس کے نیچے ہاتھ کھولے کھڑے ہوتے۔ تب دل کرتا تھا کہ اللہ کرے یہ سارے کے سارے درخت ختم ہو جائیں۔ جب بھی طوفان آتا تو ”طوفان کرکٹ کلب“ دعائیں کرتا کہ یااللہ کچھ درخت گرا دے۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ جو فلاں درخت تھا وہ طوفان کی نظر ہو گیا ہے۔ اس دن تو پھر ہم نے باقاعدہ جشن منایا۔
ہمارے لئے سب سے مزے کے دن گندم کی کٹائی کے بعد سخت گرمی والے دن ہوتے کیونکہ ان دنوں زمینیں خالی ہوتیں اور جہاں چاہتے میدان بنا لیتے۔ سکول سے چھٹیاں ہوتیں۔ ٹورنامنٹ کرواتے۔ مزے ہی مزے تھے۔ مگر جس دن زمین میں ہل چلتا تو جس کی زمین ہوتی اسے دل ہی دل میں بہت گالیاں دیتے اور وہ دن ”یومِ سیاہ“ ہوتا۔ گیند بلا پکڑے افسردہ حالت میں کسی درخت کی چھاؤں میں بیٹھے ہوتے۔ زمین میں چلنے والا ہل دراصل ہمارے ارمانوں پر چل رہا ہوتا اور اپنے بڑوں سمیت سارے گاؤں کو کوستے کہ گاؤں کی اتنی زمین ہے تو اس میں سے تھوڑی ہمیں کھیلنے کے لئے کیوں نہیں دے دیتے۔۔۔
کہیں آتے جاتے کھلی جگہ نظر آتی تو سب سے پہلے یہی خیال آتا کہ یہاں ”پچ“ کے لئے کونسی مناسب جگہ ہے اور پھر خیالوں خیالوں میں وہیں کھیل رہے ہوتے۔ اکثر سوچتا تھا کہ بڑے ہو کر میدان کا کچھ کرنا ہے، مگر بچہ تھا، یہ نہیں معلوم تھا کہ بڑے ہونے کے ساتھ ترجیحات بدل جائیں گی۔ تین چار سال پہلے تک پھر بھی کبھی کبھی میدان کا خیال آ جاتا تھا مگر آج وہ وقت ہے کہ کبھی خیال بھی نہیں آیا کہ بچوں کے لئے میدان ہونا چاہئے۔
ہمارے گاؤں کی دو چھوٹی اور ایک بڑی ٹیم تھی۔ ان دنوں ہمارا شمار چھوٹی ٹیم میں ہوتا تھا لیکن بڑی ٹیم میں آدھے سے زیادہ کھلاڑی چھوٹی ٹیموں سے ہی چنے جاتے۔ اصل مزہ تب آتا جب دوسرے گاؤں والوں کے ساتھ مقابلہ ہوتا۔ ایک تو اس میں گاؤں کی بڑی ٹیم اور سارے اچھے کھلاڑی ہوتے اور دوسرا، دوسرے گاؤں کے کھلے میدان میں کھیلنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا۔ ویسے جب شروع شروع میں دوسرے گاؤں والوں کے ساتھ میچ ہوتا تو میرے دل میں یہی خوف ہوتا کہ پتہ نہیں مجھے کھیلائیں گے یا پھر پانی پلانے والوں میں رکھیں گے۔ وہ کیا ہے کہ ایک تو میں چھوٹا تھا اور دوسرا میں کوئی تیس مار خاں کھلاڑی نہیں تھا۔ یاد نہیں کہ تب کبھی کوئی چھکا لگایا بھی تھا یا نہیں، البتہ باؤلر تھک جاتے مگر ہم آؤٹ نہیں ہوتے تھے۔ وکٹوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار کی طرح موجود ہوتے۔ جب ہم بیٹنگ کرتے تو ساری فیلڈنگ وکٹ کیپر کے ساتھ سلپ پر کھڑی ہوتی۔ وہ کیا ہے کہ ہم گیند کو زیادہ تکلیف نہیں دیتے تھے، بس معمولی سا چھیڑتے تھے تو وہ پیچھے کی طرف سرحد پار ہو جاتی۔ باؤلر کو اپنی رفتار پر غصہ آتا۔ ہمارے ساتھ کئی کھلاڑی دس بیس سکور بنا کر آؤٹ ہو چکے ہوتے مگر ہم وکٹ بچائے رکھتے۔ یوں تو اب ”اور بھی غم ہیں زمانے میں ’کرکٹ‘ کے سوا“ مگر ادھر ادھر سے سنتے ہیں کہ لوگ مصباح الحق کو باتیں کرتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ لگتا ہے یہ ہماری کرکٹ سے ہی متاثر ہو کر ایسا کرتا ہے۔ بہرحال کچھ ہم بڑے یعنی ”بین الدیہاتی“ کھلاڑی بن چکے تھے اور خاص طور پر جب گاؤں کی بڑی ٹیم کا کپتان ہمارا دوست شیدا بنا تو پھر ہماری موجیں ہو گئیں کیونکہ وہ بھی ہماری بیٹنگ سے بہت متاثر تھا، اوپر سے اس نے ہماری درینہ خواہش پوری کر دی یعنی ہم وکٹ کیپر بھی بن گئے۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ فاسٹ باؤلر کو ہم دل ہی دل میں گالیاں دیتے کہ کمینے چھکا کھا لے مگر گیند پیچھے نہ آنے پائے کیونکہ اس سے ہماری بے عزتی ہو سکتی ہے۔ خیر شیدے نے ہمیں موقعہ دیا تو ہمیں اچھا کھیلنے کا جوش ہوا۔ اتنی پریکٹس کی کہ ہم مصباح الحق سے آفریدی بن گئے۔ مگر ساتھ ہی خود کو جبری ریٹائر بھی کر دیا۔
جو بھی تھا، پھر بھی مزے کے دن تھے۔ آپ مندرجہ بالا باتوں سے یہ نہ سوچئے گا کہ ہم گئے گزرے کھلاڑی تھے۔ اجی ہم آخری دنوں میں آفریدی بن چکے تھے اس لئے کئی ٹورنامنٹ میں اچھے سکور پر انعام بھی جیتے تھے۔ جہاں چھوٹے بھائی صاحب کے تعلیم میں جیتے ہوئے انعامات پڑے ہیں وہیں پر اچھے سکور پر ملنے والی ہماری دو چار ”کپیاں“ بھی پڑیں ہیں، وہ کیا ہے تب میڈل یا شیلڈ کا رواج نہیں تھا۔ خیر یہ ”کپیاں“ ہمیں بچپن کی یاد دلاتی ہیں تو ”رونا“ آتا ہے کہ ہم نے کیوں ریٹائرمنٹ لی۔ شاید اگر کھیلتے رہتے تو بہت بڑے ”سپر سٹار“ ہوتے مگر شکر بھی کرتے ہیں، چلو اچھا ہی ہوا کہ اِدھر پاکستان کی قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کہ ایمان ڈولے اور ادھر ہم نے کرکٹ چھوڑ دی، ورنہ اگر ہمارا ایمان ڈول جاتا تو ہم برطانیہ کی جیل میں ہی ”ڈول“ جاتے۔
کرکٹ کے متعلق ہی میرے بچپن کا ایک عمل آج بھی میرا مذاق بناتا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ میں نے بلا خود خریدنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے تو ابا جان ساتھ ہوتے تھے مگر اس دن میں اکیلے ہی بلا خریدنے چلا گیا، میرے پاس تیس روپے تھے۔ دکان والے کو کہا کہ چچا تیس روپے کا بلا ہے؟ تو اس نے مجھے ایک بلا پکڑیا، میں نے اسے پیسے دیئے اور گھر۔ گھر والوں نے جب خریداری کی تفصیل پوچھی تو میرے بتانے پر سب ہنسے اور آج بھی کبھی کبھی یہ کہہ کر چھیڑتے ہیں کہ ”چچا تیس روپے کا بلا ہے؟“
سویرے سویرے پڑھن کا سواد آ گیا جناب
بچپن میں کرکٹ کچھ دن کھیلی تھی ،لڑائی ہوگئی تھی دو گروہ بن گئے۔
میں نے بیٹ سے چھکے چوکے بے دریغ لگائے تو
ابا جی نے ٹھیک ٹھاک ہلدی سے ٹھکو ر کا طریقہ سمجھا دیا۔
بس وہ دن اور آج کا دن کرکٹ نام سنتے ہی الجھن ہوتی ہے۔
بچپن کی یادوں کے ماحول کا آپ نےنقشہ خوب کھینچا ایسا لگا کہ جیسے اپنی آنکھوں سے سب دیکھ رہا ہوں یا سب کچھ کا حصہ ہوں۔
بلال بھائی، اتنی جزئیات کے ساتھ بچپن کی یادوںکو احاطہ تحریر میں لانا! جناب آپ اب بھی قلم کے شاہد آفریدی ہیں۔
آئے ہائے ظالم۔۔۔ کیا کیا یاد دلا دیا۔۔۔
بہت خوبصورت اور سادگی سے بھرپور تحریر۔۔۔ آج کل بلاگستان میں ایسی تحاریر کی شدید کمی ہے۔۔۔
کرکٹ کا جنون تو ہمیں بھی بہت تھا۔۔۔ اچھے خاصے کھلاڑی تھے۔۔۔ اچھی کرکٹ بھی کھیلی۔۔۔ کالج کی ٹیم کا اوپننگ بلے باز تھا۔۔۔ امارات ائیر لائن کی جانب سے بھی کھیلا۔۔۔ یونیورسٹی کے لیے بھی کھیلا۔۔۔ پھر ایک دفعہ منہ پر گیند کھا لی، جس سے منہ اور جبڑا فریکچر ہو گیا۔۔۔ اس کے بعد گیند کا کچھ ایسا ڈر بیٹھا کہ کرکٹ کھیلی ہی نہیں گئی۔۔۔ اور اب صرف دیکھنے پر ہی اکتفا ہے۔۔۔
واہ بلال بھائی مزہ آ گیا۔ وہ کیا ہے کہ ہم بھی سوچتے ہیں مصباح نے ہمیں ہی کھیلتے دیکھ کر یہ اشٹائل اپنایا ہے لہذا آپ سے مل کر خوشی ہوئی اوپر سے ہم بھی دیہات میں رہتے تھے لہذا دیہاتی کرکٹ کا مزہ بھی خوب جانتے ہیں۔
اللہ خوش رکھے کہ ہم ناسٹلجیا کے ماروں کو ایک اور ماضی کی یاد دلا دی
واہ بلال کیا بات ہے آپ کی۔ آپ کی تحریر پڑھ رہا تھا اور اپنے بچپن کی پوری فلم آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ شاید ہم دیہاتیوں کا بچپن ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ 😀
۔ پھر ایک ایسا حادثہ ہوا کہ ہم نے کرکٹ ڈائری لکھنی بند کر دی اور ڈائری بلکہ ڈائریاں بے وفا صنم کے خطوط کی طرح جلا دیں۔ اجی کیا کرتے تب بچپنا تھا اور ہم کافی جذباتی تھے۔
وہ “حادثہ”۔ تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا۔ تحریر اچھی اور سادگی کی وجہ سے مزیدار ہے۔ دیہات کی زندگی کا ایک اپنا “فسوں” یا رومانس ہے۔ جس کے مقابلے پہ ۔لنڈن۔ روم۔ پیرس۔ نیویارک ہیچ ہیں۔ دنیا گھوم لیں مگر دل نہیں مانتا۔
“ڈول”
بقول شخصے
ہر کسی کی قیمت ہوتی ہے کسی کی کم کسی کی زیادہ، تُو بتا تیری کتنی قیمت ہے
ہممم بہت خوب کیا بات ہے۔ میری اور آپ کی کرکٹ تقریبا ایک جیسی ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ میں اب بھی کھیلتا ہوں اور آپ نے کھیلنا چھوڑ دیا ہے۔ میں بھی مصباح الحق کی طرح ہی کھیلتا ہوں وکٹ کیپرینگ میری بہت اچھی رہی ہے بچپن سے لیکن جب سے پرفیشنل کرکٹ کھیلی تو اس وقت آف سپن بولر بن گیا۔
اور ہاں تیس روپے کا بلا ہے کیا