بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب تک میں نے ممتاز مفتی کی کتاب الکھ نگری نہیں پڑھی تھی تب تک میں سوچتا تھا کہ بندے کو جو کام بھی کرنا چاہئے وہ شدت کے ساتھ کرنا چاہئے۔ اس کام کے کرنے میں اتنی شدت ہونی چاہئے کہ بس آپ کو ہر جگہ وہی اور وہی اور بس وہی کام نظر آنا چاہئے۔ کوئی معیار نہیں ہونا چاہئے بس ایسا جنون ہو کہ جو ہر وقت ہر لمحہ بس اس کام کو کرنے کا حکم دے۔ جس طرح الکھ نگری کے مطابق قدرت اللہ شہاب سے مل کر ممتاز مفتی کے شدت پسندی کے بارے میں خیالات تبدیل ہو گئے ایسے ہی الکھ نگری پڑھنے کے بعد میرے خیالات بھی تبدیل ہو گئے کیونکہ جب میں نے اس کتاب کو پڑھا تھا تب میں نے شدت پسندی پر بہت سوچا۔ مختلف حوالوں سے جائزہ لیا۔ میرے خیال میں شدت پسندی زندگی کے ہر میدان میں آخر کار نقصان ہی دیتی ہے۔ ہو سکتا ہے میری سوچ غلط ہو لیکن فی الحال میں کچھ ایسا ہی سوچتا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ شدت پسندی کہیں پر فائدہ بھی دیتی ہو لیکن میری نظر میں ”عام طور“ پر اس کے فائدے سے زیادہ نقصانات ہیں۔ جب ہم کسی کام (چاہے کام اچھا ہی کیوں نہ ہو) کے معاملے میں شدت پسند بنتے ہیں تو ہمارا مقصد صرف وہی ایک کام بن کر رہ جاتا ہے، ہمارے دماغ پر وہی کام سوار ہو جاتا ہے تو ہمیں دنیا کا سب سے اچھا کام وہی لگنے لگتا ہے۔ بس پھر یہاں سے نقصانات شروع ہو جاتے ہیں۔ جب ایک ہی کام کا بھوت ہم پر سوار ہوتا ہے تو پھر ہم دیگر فرائض کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس شدت پسندی کے بھوت کی وجہ سے ہمارا دل کرتا ہے کہ باقی لوگ بھی ہماری طرح دیگر کام چھوڑ کر یہی کام کریں جو ہم کر رہے ہیں۔
اصل ماحول تب خراب ہوتا ہے جب ہماری ٹکر کسی دوسرے اچھے کام کے شدت پسند سے ہوتی ہے۔ ہم پر ہمارے کام کا بھوت سوار ہوتا ہے تو دوسرے پر اس کے کام کا۔ہم اسے اپنی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔ ہم کہتے ہیں ہمارا کام دنیا کا سب سے افضل کام ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرا کام ہی اصل انسانیت ہے۔ بس پھر یہ کھینچا تانی، ضد میں تبدیل ہوتی ہے۔ ضد سے تھوڑا بڑھتی ہے تو انا کا مسئلہ آ جاتا ہے کہ اگر ہم نے ہار مان لی تو لوگ کیا کہیں گے۔ انا کو بچاتے بچاتے دوسرے کو دشمن سمجھنے لگتے ہیں اور پھر میدان جنگ سج جاتا ہے۔ یوں جنگ میں سب جائز قرار پاتا ہے تو دوسرے کو زیر کرنے کے لئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال ہوتے ہیں اور تمام حدیں عبور ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر جب یہ شدت پسندی نظریات میں آتی ہے تو پھر بے شمار نقصانات کرتی ہے۔
کئی دفعہ ہم شدت پسند ہوتے ہیں تو مخالفت میں بھی شدت پسند پیدا کر دیتے ہیں۔ فرض کریں میں اردو کے ساتھ لگاؤ میں شدت پسند بنتا ہوں تو ایک وقت آئے گا جب میں دوسری زبانوں فرض کر لیتے ہیں کہ انگلش سے نفرت کرنے لگوں گا اور چاہوں گا کہ لوگ انگلش مکمل چھوڑ دیں اور صرف اردو کی طرف ہی آ جائیں بلکہ اگر میری شدت پسندی حدوں کو چھوئے گی تو میں یہاں تک سوچ جاؤں گا کہ جن کی مادری زبان انگلش ہے وہ بھی اردو کی طرف آ جائیں۔ ان حالات میں جب میں شدت پسندی پر اترے ہوئے انگلش کی مخالفت کر رہا ہوں گا تو جو لوگ انگلش کی طرف رغبت رکھتے ہیں پہلے وہ مجھے روکنے کی کوشش کریں گے۔ جب میں باز نہیں آؤں گا تو وہ تھوڑی سختی سے روکیں گے اور اس طرح کرتے کرتے وہ میری اور میرے نظریات کی مخالفت میں اردو کی بھی مخالفت شروع کر دیں۔ میں ان سے چڑوں گا اور وہ مجھ سے چڑیں گے۔ میں اپنی طاقت کے مطابق مخالفت کروں تو وہ اپنی طاقت کے مطابق کریں گے۔ یوں میری شدت پسندی کی مخالفت میں شدت پسندی وجود میں آئے گی اور مفت میں نقصان دو زبانوں کا ہو جائے گا۔ بے شک میرا اردو سے لگاؤ اپنی جگہ درست ہو لیکن میری شدت پسندی اس درست کو بھی غلط کر دے گی۔ یوں میں اردو کا فائدہ کرتے کرتے نقصان زیادہ کر جاؤں گا۔ بالکل اسی طرح لوگ مذہب، قوم اور علاقہ وغیرہ کی محبت جو کہ ایک فطرتی عمل ہے سے آگے بڑھتے بڑھتے شدت پسندی پر اتر آتے ہیں اور پھر ایسا میدان جنگ سجتا ہے کہ جس میں لڑائی تو ہوتی ہے لیکن اپنے ہی مذہب، اپنی ہی قوم اور اپنے ہی علاقہ کا نقصان تک کر دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ لوگوں کا فطرتی طور پر رحجان کسی خاص شعبہ کی طرف ہوتا ہے۔ ٹھیک ہے آپ کا رحجان جس طرف ہے آپ وہ کام کریں اور خوش اسلوبی سے کریں بس اپنے اندر شدت پسندی نہ لائیں اور میانہ روی کا مظاہرہ کریں کیونکہ شدت پسندی انسان کو ان حدوں تک لے جاتی ہے جہاں پر انسان کو صرف اپنا کام ہی اچھا نظر آتا ہے اور باقی دنیا فضول لگتی ہے۔
شدت پسندی سے بچیں، میانہ روی کا مظاہرہ کریں اور زندگی میں ایک سیدھا سا اصول بنائیں کہ بے شک آپ کا خدا سچا ہے اور دوسرے کا خدا جھوٹا ہے لیکن دوسرے کے خدا کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اپنے خدا کی سچائی ثابت کریں کیونکہ اگر آپ نے دوسرے کے خدا کو جھوٹا ثابت کر بھی دیا تو آپ کا خدا تو وہیں کا وہیں ہے اور اس کی سچائی ابھی ثابت کرنا باقی ہے جبکہ اگر آپ اپنے ایک خدا کی سچائی ثابت کر دیں گے تو باقی سارے خدا پھرررررر۔۔۔۔
اگلا حصہ:- آخری حدوں کو چھوتی ہوئی شدت پسندی
برٹرینڈرسل نے کہا تھا کہ -مفہوم ۔ “مجھے آپ سے اختلاف ہے لیکن میں آپ کے اختلاف کرنے کے حق کے لیے اپنی جان دے دوں گا”
محترم بلال صاحب مذکورہ مضمون کی گزشتہ اور حالیہ تحریر پڑھ چکا ہوں اور اس حوالے سے آپ کے معاشرتی حوالے سے ذاتی خیالات کی بھرپور عکاسی بھی ملی، ماشاءاللہ ‘اللہ آپ کو اسی درد دل و احساس انسانیت کی دولت سے مالا مال کرے۔
میرے بھائی جو حقائق آپ نے بیان کئے ہیں حقیقت حال اسے کچھ مختلف نہیں، نیوٹن کا مشہور قانون ’’کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔۔۔ الخ‘‘ جب کسی فرد کو ئی عمل سرزد ہوتا ہے تو لازما اس عمل کا ردعمل بھی فوری طور یا بدیر سامنے آتا ہے ۔۔۔۔
اسلام نے اس معاملہ میں ہمیں کیا خوبصورت ترغیب دی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:”ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو‘‘۔
”ہر کام میں میانہ روی اختیار کرو‘‘ حدیث نبوی (ترمیم کے بعد)
سورت 5 ۔ المآئدہ آيت ٨٧ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور حد سے نہ بڑھو کہ خدا حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
سورت 7 ۔ الاعراف آيت 31 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو۔ بیشک اللہ تعالٰی حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا
ايک آيت ميں براہِ راست ميانہ روی کی ہدائت ہے جو اس وقت ميرے ذہن ميں نہيں آ رہی