اکتوبر 21, 2011 - ایم بلال ایم
12 تبصر ے

آخری حدوں کو چھوتی ہوئی شدت پسندی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
گذشتہ سے پیوستہ

یوں تو ہمارے معاشرے میں کئی گروہوں کو شدت پسندی کا بخار چڑھا ہوا ہے اور وہ اپنی آخری حدوں کو چھو رہے لیکن اس تحریر میں دو ایسی سوچ رکھنے والے گروہوں کی بات کرتے ہیں جو اپنی شدت پسندی کی وجہ سے مذہب، معاشرے اور انسانیت کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔

کچھ لوگ جہاد کے معاملے میں ایسے شدت پسند بنے ہوئے ہیں کہ ایک طرف ہر جائز و ناجائز حرکت کو جہاد میں شامل کر کے جہاد کو بدنام کر رہے ہیں اور دوسری طرف روشن خیالی کی مخالفت میں عورت کی آزادی ختم کرتے ہوئے عورت کو کال کوٹھری میں ڈالنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ اسی گروہ کی مخالفت میں ”میڈم“ کا لشکر میدان میں ہے جو عورت کی آزادی کے لئے ایسا شدت پسند بنا ہوا کہ عورت کو سرِبازار نیلام کرنے پر آ گیا ہے اور مخالفت میں جہاد جیسے اہم فریضہ کو بدنام کر رہا ہے۔

غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ ”مذہبی شدت پسند“ اور ”روشن خیال شدت پسند“ یعنی میڈم کا لشکر، دونوں ہی اپنی اپنی شدت پسندی کی وجہ سے انسانیت، مذہب اور معاشرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نہ ”مذہبی شدت پسندوں“ کا مذہب کو فائدہ ہو رہا ہے اور نہ ہی ”روشن خیال شدت پسندوں“ کا روشن خیالی کو فائدہ ہو رہا ہے۔ الٹا ان کی سوچ اور عمل سے اس کو نقصان ہو رہا ہے جن کا نام لے کر یہ شدت پسند بنے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں کسی کو تو آگے بڑھنا ہو گا اور اسلام کی درست تعریف کرتے ہوئے ان دونوں گروہوں کو بتانا ہو گا کہ اسلام تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔ اسلام ایک روشن خیال مذہب ہے۔ کسی کو تو ان دونوں گروہوں کو سمجھانا ہو گا۔ کوئی تو مردِ مومن اٹھے اور ان دونوں گروہوں کا قبلہ درست کروائے۔

مجھے رونا آتا ہے، جب روشن خیالی اور مذہب کو ہی مذہب کے نام پر بدنام کیا جاتا ہے۔ ہمارے نبیﷺ کی سنتوں کو کیسے یہ لوگ بدنام کر رہے ہیں کہ اب داڑھی سے لوگوں کو ڈر آتا ہے اور جس نبیﷺ نے عورت کو معاشرے میں بہت بڑا مقام دیا آج اسی نبیﷺ کے ماننے والے عورت کو قید کرنا چاہتے ہیں۔
میرا دل تب بھی دکھتا ہے جب ”میڈمی لشکر“ مذہب اور روشن خیالی کو ہی روشن خیالی کے نام پر بدنام کرتے ہیں۔ جس مذہب نے مرد کو حکم دیا کہ تم چاہے جانوں کے نذرانے دو لیکن عورت کی حفاظت کرو اور اسے حقوق دو لیکن آج یہ لوگ اسی مذہب کو بدنام کر رہے ہیں۔ جس مذہب کی روشن خیالی نے عورت کو لونڈی سے ملکہ بنا دیا۔ آج یہ ”میڈمی لشکر“ عورت کو ملکہ سے پھر سربازار نیلام کررہا ہے۔

کوئی تو ان شدت پسند گروہوں (مذہبی+روشن خیال)کو سمجھائے کہ اسلام بہت روشن خیال مذہب ہے۔ کوئی تو انہیں بتائے کہ بے گناہ انسان کو مارنا جہاد نہیں بلکہ ظالم سے ٹکرانے کو جہاد کہتے ہیں۔ انسانیت کی فلاح اور انسانیت کے دفاع کے لئے لڑنے کو جہاد کہتے ہیں۔ کوئی تو قدم بڑھائے اور ان کا دماغ روشن کرے اور اسلامی تعلیمات کا بتائے کہ اسلام عورت کو ملکہ بناتا ہے۔ ہے کوئی جو میانہ روی کا بتائے اور حق کی صدا لگائے۔۔۔

کاش کہ ہم ان شدت پسندوں کے جھرمٹ سے نکلیں اور میانہ روی پر عمل کریں۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مذہب اور روشن خیالی کی غلط تعریف بھی دشمن نے پھیلائی ہے۔ یہ ”مذہبی شدت پسند“ اور ”روشن خیال شدت پسند“ دونوں گروہ ہی دشمن کے ایجنٹ ہیں اور ان کا مقصد صرف اور صرف غلط تاثر دیتے ہوئے مذہب اور روشن خیالی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ہے تاکہ ہم لوگ جس طرف رغبت رکھتے ہیں بس اسی کے ہو کر رہ جائیں اور دوسرے کو سرے سے ہی غلط سمجھ بیٹھیں۔ جو لوگ عبادات کی طرف رغبت رکھتے ہیں وہ صرف عبادات میں ہی جھگڑے رہیں، جو جہاد کی طرف رغبت رکھتے ہیں وہ صرف ادھر لگے رہیں اور جو لوگ معاشرے کی فلاح چاہتے ہیں انہیں روشن خیالی کا ٹھیکہ دے دو۔ یوں پوری قوم بکھر کر رہ جائے اور اپنے اپنے کاموں میں شدت پسندی اختیار کرتے ہوئے صرف اپنے کام اور سوچ کو ہی درست سمجھے اور ایک دوسرے کی دشمن بن جائے۔ چاہے یہ دشمن کی سازش ہے یا ہماری خود کی خرابی ہے۔ جو بھی ہو لیکن ہمیں اس سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں صرف یہ دو گروہ ہی شدت پسند ہیں بلکہ اور کئی گروہ ہیں جن کو شدت پسندی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ ہمیں ہر قسم کی شدت پسندی کو روکنا ہو گا۔

نوٹ:- میں کسی خاص گروہ کو نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ میں ہر اس بندے کی بات کر رہا ہوں جو اس مذہبی و روشن خیال جیسی شدت پسندی میں ڈوب رہا ہے۔

اگلا اور آخری حصہ:- ہماری ضرورتیں اور شدت پسندی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”آخری حدوں کو چھوتی ہوئی شدت پسندی

  1. اسکی بڑی وجہ عام مسلمانوں‌کا عیسایت کی طرز پر علم کو ترک کردینا اور ہندوؤں کی طرح برہمن نسل کا ایک پرہت نما مولوی کھڑا کرلینا اور پھر گوشت پوست کے اس بت نے جو کہہ دیا وہی سہی، چاہے وہ اللہ اور اسکے رسول کے احکامات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ وللہ اگر عام مسلمان علم حاصل کرنا ہے مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے پر کاربند ہوجائے تو میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ 30 برس میں کایا پلٹی جا سکتی ہے کہ علم والی ایک نسل جوان ہوجائے گی۔

    1. محترم میں ان اشاروں سے کچھ سمجھ نہیں سکا۔ ہو سکے تو تھوڑی سی وضاحت کر دیں۔ وہ کیا ہے کہ میں نے دیکھا دیکھی ایویں ای یہ لگا دیئے ہیں لیکن چند ایک کے علاوہ باقیوں کی مجھے خود سمجھ نہیں آتی کہ ان کا مطلب کیا ہے۔

  2. ماشاءاللہ اس تحریر سے تو لگتا ہے کہ آپ نے میانہ روی اور اعتدال پسندی کی راہ اپنائی ہوئی ہے بزعم خود اور میڈمی لشکر کی اصطلاح کے استعمال سے تو لگتا ہے کہ اشارہ بلاگستان کی طرف ہے تو کیا میں پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ کس شدت پسند بلاگر نے عورت کو کال کوٹھری میں قید کرنے کا فتوی دیا ہے؟ یا یہ بھی اپنے آپ کو اعتدال پسند منوانے کے لیے خود ساختہ ذہنی اختراع ہی ہے۔۔۔

    1. پیارے بھائی میں نے نوٹ اسی لئے لکھا تھا کہ یہ کسی خاص گروہ کے لئے نہیں بلکہ ایسی سوچ رکھنے والوں کے لئے ہے جن کا اوپر ذکر کیا ہے۔ میڈمی لشکر کی اصطلاح سے آپ کو ”بزعم خود“ جو لگا ہے میری مراد ہرگز وہ نہیں تھی۔ یہ اتفاق ہو سکتا ہے کہ آج کل میں کسی بلاگر نے کچھ ایسی ہی تحاریر لکھی ہوں لیکن میری یہ تحریر صرف بلاگستان تک محدود نہیں اور نہ ہی آپ اسے بلاگستان تک محدود کریں۔ میں نے عام معاشرے کی بات کی ہے۔۔۔ یہ ساری باتیں میری ”خود ساختہ ذہنی اختراع“ نہیں بلکہ میں ان دونوں اقسام کے لوگوں سے بالمشافہ ملنے اور ان کے خیالات جاننے کے بعد ان نتائج پر پہنچا ہوں جن کا اوپر ذکر کر دیا ہے۔ ویسے اگر مجھے کسی خاص بلاگر یا بندے سے اختلاف ہوتا تو میں براہ راست اسے مخاطب کرتا۔ اصطلاح کا استعمال ہی یہ واضح کر رہا ہے کہ یہ ہر ہر ایسی سوچ رکھنے والے کے لئے۔
      باقی جہاں جہاں میرے نظریات اور سوچ سے اختلاف ہو وہاں وہاں پوچھنے کی ”جسارت“ نہیں بلکہ ضرور پوچھیں۔ آپ پوچھنے اور تنقید کا پورا پورا حق رکھتے ہیں اور میری کیا مجال کہ میں آپ کو روکوں۔
      اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے۔۔۔آمین

  3. نوٹ:- میں کسی خاص گروہ کو نشانہ نہیں بنا رہا بلکہ میں ہر اس بندے کی بات کر رہا ہوں جو اس مذہبی و روشن خیال جیسی شدت پسندی میں ڈوب رہا ہے۔

    میڈم اور میڈمی لشکر کا ذکر کرنے کے بعد یہ نوٹ کچھ جچ نہیں رہا ہے!
    🙂

    1. محترم یہ ایک اصطلاح استعمال کی ہے۔ اب آپ کو سمجھ نہ آئے یا پھر آپ اسے کسی خاص فرد کی طرف لے جائیں تو پھر میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ ”چور کی داڑھی میں تنکا“۔

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *