فیس بک چلاتے ہی پہلے صفحہ (News Feed) پر عجب دھماچوکڑی مچی ہوتی ہے۔ ایک دن تو دور، کچھ گھنٹوں بعد ہی استعمال کریں تو اتنے میں ناجانے کیا کیا اپڈیٹ ہو چکا ہوتا ہے۔ اگر ”فرینڈ لسٹ“ تھوڑی بڑی ہے تو پھر حالات اور بھی سنگین ہیں۔ ”لائیکیا“ اپنی اچھل کود میں مصروف اور ”ٹیگیا“ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے۔ ”شیئریا“ ہر دو منٹ بعد جو بھی نظر آیا اسے شیئر کرنے کو کارِثواب سمجھتا ہے۔ کوئی کسی گروپ میں شامل کرتا ہے تو کوئی گیم کی درخواست بھیجتا ہے۔ غرض یہ کہ ”ہوم“ پر تازہ ترین پوسٹ اور نوٹیفکیشن کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایسے میں بندہ عجیب سے جنجال پورہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کئی جگہ بحث کر بیٹھتا ہے۔ اگر بحث نہ بھی کرے تو مختلف لوگوں کی نرالی منطق اور عجیب عجیب حرکات پر اس کا دل ضرور کڑہتا ہے۔ فقط چند منٹوں کا ”فیس بکی“ بننے سے دماغ کا دہی بن جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ فیس بک کا غیر محتاط استعمال واقعی کئی لوگوں میں چڑچڑا پن اور کئی ایک خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔
کئی لوگوں کو فیس بک نشے کی طرح لگ چکی ہے۔ اگر ایک دو دن استعمال نہ کریں تو انہیں بے چینی سی ہونے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی بیماری دیکھنے میں آئی ہیں۔ کچھ لوگ احساس کمتری اور کچھ احساس برتری کا شکار ہو رہے ہیں۔ کئی لوگوں کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ وہ اتنی ”زبردست چیزیں“ شیئر کرتے ہیں مگر بہت تھوڑے لوگ پسند کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف کئی لوگ ”ہجوم“ اکٹھا کر کے واہ واہ حاصل کرنے کو اپنی فتح سمجھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ فیس بک کو لے کر اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ اگر انہوں نے سب کے حالات اور ہر چیز پر نظر نہ رکھی تو وہ پیچھے رہ جائیں گے۔
فیس بک کس لئے بنی ہے؟ اسے اور اپنی ضرورت کو سمجھے بغیر اندھا دھن غیر محتاط استعمال کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ بہت بہتری آ سکتی ہے اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ فیس بک ایک سوشل میڈیا ہے نہ کہ نشریاتی ادارہ۔ اگر غور کر لیا جائے کہ ہم اسے کیوں استعمال کرتے ہیں اور اس سے کس طرح فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں، مزید ہمارے ہر لائیک، شیئر اور کمنٹ وغیرہ پر ایک اخلاقی ذمہ داری عائد ہے اور ہمارے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی ردِعمل ہوتا ہے۔ اگر یہ احساس پیدا کر لیا جائے کہ ہمیں ساری دنیا کے چھوٹے سے چھوٹے عمل پر نظر رکھنے کی نہیں بلکہ اپنے قریبی اور ضروری حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تو کئی خرابیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
ہر کسی کی طرح فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا استعمال کرنے کا میرا بھی اپنا ایک طریقہ ہے۔ میری ضرورت کے متعلقہ دنیا میں کیا چل رہا ہے سے لے کر دوستوں کے حالات تک سب کچھ فیس بک سے معلوم کرتا ہوں۔ لیکن میں کم وقت میں زیادہ فیس بک استعمال کرتا، فیس بک کو بہت کم وقت دینے کے باوجود بہت کچھ سے باخبر رہتا اور کئی دوستوں سے گپ شپ کرتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ میں نے سوچ رکھا ہے، جس طرح حقیقی زندگی میں ہر انسان اور ہر شعبے کے متعلق باخبر نہیں رہا جا سکتا اور ہر دوست سے ہر وقت یا روزانہ گپ شپ نہیں ہو سکتی بالکل ایسا ہی حال انٹرنیٹ پر بھی ہے۔ اگر میں ضرورت سے زیادہ باخبر رہنے اور گپ شپ کی کوشش کروں گا تو ناکامی ہونی ہی ہے لیکن ساتھ ساتھ خرابیاں بھی پیدا ہوں گی، جیسے وقت ضائع اور فیس بکی نشہ۔ اس لئے میں ہر معاملے پر نظر رکھنے، ہر جگہ ٹانگ اڑانے، ہر کسی کی سوچ اور معاملات وغیرہ جاننے کی بجائے اپنے کام پر، اپنی ضرورت پر اور اپنے قریبی دوستوں پر ”نظر“ رکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ کچھ عرصے سے میں نے اپنے لیے فیس بکی مورچہ بندی اور حد بندی کر رکھی ہے۔ یہ سب مشکل نہیں بلکہ کوئی بھی کوشش کرے تو آسانی سے ممکن ہے۔ کئی دفعہ انسان ٹیکنالوجی سے اکتا بھی جاتا ہے۔ میں خود اکثر اس اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا تھا۔ میرے خیال میں اس کی وجہ ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔ اگر بندہ میانہ روی اختیار کرے اور توازن برقرار رکھے تو پھر شاید نہ اکتائے۔
میں نے فیس بک پر اپنی پسندیدہ فہرستیں (Interest Lists) تیار کر رکھی ہیں۔ جن میں خاندان، قریبی دوست، اردو سماج، ٹیکنالوجی، اخباروچینل، ضروری صفحات اور متفرقات قابل ذکر ہیں۔ جب فیس بک چلاتا ہوں تو ان فہرستوں پر بالترتیب نظر مارتا ہوں۔ اگر فارغ ہوں تو پھر بالکل تھوڑی سی ”نیوز فیڈ“ پر بھی نظر مار لیتا ہوں۔ ان فہرستوں کے نام ایسے ہیں کہ آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس میں کس قسم کے لوگ شامل ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اخبار اور چینل والی فہرست کے علاوہ جب کوئی بندہ یا پیج مسلسل یہ کام پکڑ لے کہ ایک دن میں ضرورت سے زیادہ سٹیٹس اپڈیٹ یا شیئر وغیرہ کرے یعنی ”شیئریا“ بن جائے تو میں اسے پسندیدہ فہرست سے نکال دیتا ہوں۔ کیونکہ اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہر اوٹ پٹانگ کو بندہ پڑھتا یا دیکھتا رہے۔ 🙂 ویسے بھی ابھی تک ہم مقدار کی بجائے معیار کے قائل ہیں۔ اس کے علاوہ جب کبھی نیوز فیڈ پر نظر مارتا ہوں تو جو بندہ یا صفحہ بہتر لگے اسے پسندیدہ فہرست میں شامل کر لیتا ہوں۔
فیس بک کا خطرناک ترین جانور ”ٹیگیا“ ہے۔ اس کا کام ہر اوٹ پٹانگ چیز میں لوگوں کو بلاوجہ ٹیگ کرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی چیز آپ کے متعلقہ ہو پھر تو ٹیگ کرنا مناسب ہے لیکن ہر اِدھر اُدھر کی چیز میں بغیر سوچے سمجھے ٹیگ کرنے والوں سے بچنے کے لئے پروفائل میں سیٹنگ کر رکھی ہے کہ جب بھی کوئی ٹیگ کرے تو وہ چیز میری اجازت کے بغیر میری ٹائم لائن پر ظاہر نہ ہو۔ گو کہ کوئی ٹیگ نہ کر سکے کی سیٹنگ بھی ہوتی ہے لیکن اس کو منتخب اس لئے نہیں کرتا کہ کہیں ضروری جگہ پر کسی دوست کو ٹیگ کرنا پڑ جائے تو اسے مشکل نہ ہو اور مجھے بھی اس ضروری چیز کا پتہ چل سکے۔ ٹیگیا جب مجھے ہر جگہ ٹیگ کرنا شروع کرتا ہے تو ”ان ٹیگ“ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے پیار سے سمجھاتا ہوں کہ بھائی مجھے ہر چیز میں ٹیگ نہ کیا کرو۔ کئی سمجھ جاتے ہیں لیکن بہتوں کو ”ان فرینڈ“ کرنا مجبوری بن جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور ”آئیٹم“ ہے گروپ۔ جسے دیکھو گروپ پر گروپ بناتا ہے اور دوسروں کو اس میں شامل کر دیتا ہے۔ پھر گروپ میں ہر پوسٹ کی نوٹیفکیشن آتی رہتی ہے۔ اس سے چھٹکارے کے لئے یا تو میں گروپ ہی چھوڑ دیتا ہوں یا پھر نوٹیفکیشن بند کر دیتا ہوں یا پھر ایسا کر دیتا ہوں کہ میرے دوستوں میں سے جب کوئی اس گروپ میں پوسٹ کرے تو صرف تب ہی مجھے اطلاع ملے۔ آخر دوستوں پر نظر بھی تو رکھنی ہوتی ہے۔ 🙂
یہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا صرف وقت گذاری ہی نہیں بلکہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے عمل کا بھی ردِعمل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے ہر ایک ایک کلک کا خیال رکھنا چاہئے۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ اس کا دوسروں پر کیا اثر ہو گا۔ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہئے کہ کئی ایجنسیز اور گروہ مختلف کاموں کے متعلق رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر بہت کام کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر کئی کاموں کو ضرورت سے زیادہ ہوا دی جاتی ہے۔ اور تو اور کئی لوگ من گھڑت اور فرضی کہانیاں بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ بہرحال اس موضوع پر پھر کبھی تفصیلی بات کریں گے۔ فی الحال یہی کہ کچھ بھی لائیک یا شیئر وغیرہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے کہ کہیں ہم جانے انجانے میں کسی کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے یا کسی کا آلۂ کار تو نہیں بن رہے۔
اللہ معاف کرے ااینا پرہیز
بھگو بھگو کے ماری ہے 😛 😛
تے پیج انویٹیشن دے بارے کُچھ نہیں لکھیا تسی
سرجی یہ کام آپ بھی خوب کرتے ہیں 😆
صرف پیج والا کام کرتا ہوں
اسی لئیے تو پوچھ بیٹھا
کے حضرات کے وچار میرے بارے کس حد تک ” گئے گزرے ” ہیں 😈
کچھ کچھ ٹھیک لکھا۔ دل کے پھپھولے پھوڑ کر بیٹھے ہو لالا
میں تو اکثر جان پہچان والے دوستوں اور اردو بلاگرز کے علاوہ کسی کو نا فرینڈ بناتا ہوں اور نا ہی اسکی دوستی کی درخواست منظور کرتا ہوں،کیونکہ پھر فیس بک صفحہ کیچھڑی بن جاتا ہے۔
جنابِ بلال صاحب آپ نے بلکل صحیح لکھا ہے ،اگر “فیس بکی “اس پر غور کریں تو اس بیماری سے نجات مل سکتی ہے
کچھ کچھ مجھ پر فٹ تو نہیں آ رہی یہ پوسٹ؟ بس اللہ کا کرم ہے ٹیگنے والا کام نہیں کرتا میں
بہت زبر دست تبصرہ کیا گیا ہے ۔ فیس بک پر نئے آنے والے حضرات کے لئے تو بہت مفید معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ مجھے بہت اچھا اور معلوماتی لگا ہے تو میںنے اپنی فیس بک وال پہ بھی شئیر کر دیا ہے۔ جزاک اللہ۔
فیس بُک کی تما م تر افادیت کے باوجود میرے خیال میں اس کے بیشتر استعمال کنندگان اس پر لایعنی اور لا حاصل مصروفیات میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔ اجنبی لوگوں کے ساتھ بے جارابطوں سےاپنی پرائیویسی سے محروم ہونےکے علاوہ بعض اوقات انتہائی منفی معاشرتی نتائج دیکھنے میں آتے ہیں، خصوصآ خواتین کے حوالے سے۔
چنانچہ میں بھی ان بے شمار لوگوں میں شامل ہوں جو انہی وجوہ کی بنا پر اس سب سے مقبول سوشل میڈیا سے استفادہ نہیں کرتے۔
لو جی کر لو گل 😛
بلال بھائی تو ہاتھ دو کر بیچارے فیس بکیوں کے پیچھے ہی پڑ گئے (ہنستے ہوئے)
بات تو آپ کی بالکل صحیح ہے اور میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں لیکن کیا کریں ہم بھی تو نئے نئے فرینڈزی (کڑیاں) سے دوستی کے چکر میں فرینڈزے(لڑکوں) سے دوستی کرلیتے ہیں