ہمارے ہاں ”جگاڑ ٹیکنالوجی“ اتنے عروج پر ہے کہ ہم نے فیس بک سے بھی کئی جگاڑ لگا لئے ہیں۔ فیس بک انٹرنیٹ پر حلقہ احباب بنانے اور ایک دوسرے کو اپنے بارے میں آگاہ رکھنے کے لئے بنی تھی، مگر ہم اس سے وہ وہ کام لے رہے ہیں کہ مجھے لگتا ہے مستقبل میں شادیوں کی تقریبات بھی فیس بک پر ہی ہوا کریں گی۔
خیر چلیں آپ کو فیس بک اور اس کے بکیوں کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔
سب سے پہلے ملئے فیس بکی مفتی اعظم سے۔
فیس بکی مفتی اعظم کے سائے میں کئی ایک چھوٹے چھوٹے ”بکی مولبی“ کام کرتے ہیں۔ یہ سب ”من ترا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو“ کے مصداق چلتے ہیں۔ ہر کسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اور کفر کے فتوے ان کے ہاں تھوک پر دستیاب ہیں۔ بس کبھی غلطی سے بھی ان کے خلاف کچھ نہ کہیے گا، نہیں تو آپ کا ایمان ایسا بُک کریں گے کہ خود ایمان کو خبر نہ ہو گی اور آپ فیس بک تو کیا اپنا فیس دیکھ کر بھی ڈریں گے۔ ان کا سب سے مؤثر ہتھیار بغیر حوالے کے کوئی بھی بات اس انداز میں تیار کرنا ہوتی ہے جس سے یہ لوگوں کے جذبات آسانی سے قابو کر سکیں اور پھر جذباتی لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے ہوئے بغیر سوچے سمجھے دے شیئر پر شیئر اور لائیک پر لائیک۔ باتیں ایسی کہ جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔اگر آپ انہیں سمجھانے کی خاطر یا ان سے بحث برائے تعمیر کرنا چاہو تو چونکہ ان کے پاس کوئی حوالہ نہیں ہوتا لہٰذا ذاتیات پر اترتے ہوئے ایسی گالیاں دیں گے کہ آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ ان کی باتوں میں اتنا وزن ہے کہ چھوٹی سے بڑی ہر بات پر شیطان انہیں روکتا ہے اور یہی چیز ان کی پہچان ہے کہ جب کوئی چیز شیئر کرتے ہیں تو ساتھ لکھتے ہیں کہ ”جب آپ اسے شیئر کرنے لگے گے تو شیطان آپ کو روکے گا“۔ اگر آپ ان سے حقیقی زندگی میں ملیں تو حیرانی یہ ہو گی کہ ان کا اسلام سے اتنا ہی واسطہ ہے جتنا آج کل ایک عام مسلمان کا ہے مگر فیس بک پر یہ بکی مفتی اور بکی مجاہد اعظم کے نام سے مشہور ہوئے بیٹھے ہیں۔
یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ فیس بکی ”مولبیوں“ کے علاوہ اصلی والے مولوی اور مفتی یعنی اچھے لوگ بھی فیس بک پر موجود ہیں، جو اصل معنوں میں اسلام کے لئے کام کر رہے ہیں اور کسی دوسرے کو بدنام کرنے کی بجائے اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کی ہر بات کے ساتھ حوالہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ نہایت ہی اعلیٰ ظرف کے مالک ہیں اور ان کی بات میں اتنا وزن ہوتا ہے کہ شیطان انہیں نہیں روک پاتا۔
فیس بکی ٹیگئے
یہ فیس بک کی سب سے خطرناک اور ڈھیٹ جنس ہے۔ ہر چیز میں آپ کو راہ چلتے گھسیڑ لے گی۔ چیز چاہے کسی کی بھی ہو یا کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتی ہو، چاہے آپ کا اس چیز سے کوئی تعلق بنتا ہو یا نہیں، مگر ان کا کام ہے کہ ہر چیز میں آپ کو ٹیگ کرنا۔ دیکھو جی اگر کوئی چیز ہمارے بارے میں یا ہمارے شوق کے بارے میں ہے تو پھر ہمیں ضرور ٹیگ کرو مگر اپنے ہمسائیوں سے پوچھ رہے ہو کہ لسی ہے یا نہیں تو بھلا اس میں ہمیں ٹیگ کر کے ذلیل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
فیس بکی شیئرئے، لائیکئے اور کمنٹئے
ایک اندازے کے مطابق ان حضرات کا کام روزانہ کی بنیاد پر ہر صورت میں چالیس پچاس شیئر، دو چار سو لائیک اور بیس پچیس کمنٹ کرنا ہوتا ہے۔ ان کی حرکات میں سب سے زیادہ پایا جانے والا لفظ Awesome ہے۔ یہ مواد کو ترجیح نہیں دیتے بلکہ بھیڑ چال کا حصہ بنتے ہوئے اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ انہوں نے ہر اوٹ پٹانگ چیز کو شیئر وغیرہ کر کے اپنا ہدف پورا کرنا ہوتا ہے۔
فیس بکی ٹائیلٹی کڑیاں
یہ کڑیاں ایک عظیم مشن لے کر فیس بک پر آتی ہیں۔ جہاں ان کے دیگر کئی اہم مقاصد ہیں وہی پر ان کا ایک مقصد اپنے غسل خانے، اس میں لگے شیشے اور اپنے موبائل کی مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ تقریباً روزانہ غسل خانے میں شیشے کے سامنے کھڑی ہو کر موبائل سے ایک عدد تصویر بناتی ہیں، پھر بکیوں کو لٹاتی اور بکیوں کو دلی تسکین پہنچاتی ہیں۔ سب سے زیادہ لائیک اور کمنٹ انہیں ہی ملتے ہیں۔
فیس بکی کُڑیانے
یہ بیک وقت دو پروفائلیں رکھتے ہیں۔ ایک لڑکے اور دوسری لڑکی کی۔ کُڑیانے آپ کو ہر جگہ مل سکتے ہیں۔ دراصل یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے۔ پہلے اپنی اصل پروفائل سے کچھ لگاتے ہیں اور پھر لڑکی والی پروفائل سے خود ہی اپنی تشہیر کرتے ہیں۔ اوپر سے ہمارے ویلے فیس بکی تو لڑکی کا نام سنتے ہی شیئر پر شیئر اور لائیک پر لائیک شروع کر دیتے ہیں۔ یوں ان کڑیانوں کی خوب تشہیر ہو جاتی ہے۔ ویسے کڑیانے لڑکیاں ”پھسانے“ کے لئے بھی دو پروفائلوں کو ہتھیار کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ پہلے لڑکی والی پروفائل سے کسی لڑکی سے دوستی بڑھاتے ہیں پھر باتوں باتوں میں اور بہانوں بہانوں میں لڑکی کو اپنی اصل پروفائل کی طرف قائل کرتے ہیں۔ ویسے اصل مزہ تب آتا ہے جب کڑیانے کی ٹکر کسی کڑیانے کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور نتیجہ شکست کی صورت میں مُنڈیانی پیدا کرتا ہے۔
فیس بکی مُنڈیانی
یہ فیس بک پر سب سے مزے کی آئیٹم ہیں۔ یہ ایسے لڑکے ہوتے ہیں جو جب بھی اپنا کیمرہ چلاتے ہیں تو اس کا مقصد اچھی سی تصویر بنا کر فیس بک پر لگانا ہوتا ہے۔ روزانہ نہیں تو آئے دن اپنی پروفائل پکچر تبدیل کرتے ہیں۔ ماڈلنگ کر کر کے تصاویر بنواتے ہیں اور فیس بک پر اس امید سے چڑھاتے ہیں کہ کاش کوئی ٹوئیلٹی کُڑی اسے لائیک کرے اور ”ٹانکا فِٹ“ ہو جائے۔
فیس بکی ادیب اور شاعر
آپ نے وہ لطیفہ تو سنا ہو گا، جس میں ایک شاعر دوسرے کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے تو کوئی بندہ پوچھتا ہے کہ اجی کیوں بھاگ رہے ہو تو شاعر صاحب فرماتے ہیں کمبخت اپنا شعر سنا کر بھاگ گیا ہے اور میرا نہیں سن رہا۔ بالکل جی انہیں شاعر صاحب کی طرح آپ کو آج کل فیس بکی شاعر بھی ملیں گے۔ پہلے تو خود دو چار پروفائلیں بنا کر ان سے ہی اپنی شاعری پر واہ واہ کرتے ہیں، ایسی پروفائلوں میں ایک پروفائل ضرور کسی خوبصورت صنف نازک کی تصویر سے لبریز ہوتی ہے۔ اب جہاں خوبصورت لڑکی نے کمنٹ کیا ہو وہاں پر مشٹنڈوں کی قطار نہ لگے، یہ تو ایک بہت بڑا جرم ہو گا لہٰذا جرم سے بچنے کے لئے کئی اور لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد تھوڑا بہت حلقہ احباب تیار ہو جاتا ہے، فیس بکی شاعر واہ واہ وصول کرتے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ ان میں اکثریت ان شاعروں کی ہوتی ہے جن کی حقیقی زندگی میں کسی لڑکی نے لتر سے خاطر کی ہو مگر یہ اسے محبوبہ کی بے وفائی تصور کرتے ہوئے دل جلے شاعر بن جاتے ہیں۔ ان کا زبان اور ادب سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا بس ایک ہی مقصد ہے کہ وہ فیس بکی دل جلے شاعر کہلائیں۔ جبھی تو آپ کو رومن اردو میں لکھتے ہوئے فیس بکی رومنی شاعر، خوبصورت انجان لڑکی کی تصویر لگا کر شاعری تیار کرنے والے فیس بکی بے غیرت شاعر اور لڑکی کی پروفائل بنا کر اپنی شاعری پر خود ہی واہ واہ کرنے والے فیس بکی کڑیانے شاعر ملیں گے۔ میرے جیسے پینڈو جو نئے نئے فیس بک پر آتے ہیں وہ اتنے میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ جی ان کے دوستوں میں شاعر لوگ بھی ہیں، جبکہ انہیں یہ نہیں پتہ ہوتا کہ دراصل یہ شاعر نہیں بلکہ بُکیوں کی بَک بَک ہے اور اصل زندگی میں انہیں کوئی جانتا تک نہیں۔
فیس بکی سیانے اور فلاسفر
وہ لوگ جو عام زندگی میں بات بھی نہیں کر سکتے یا بات کریں تو لفظ لفظ چول مار رہا ہوتا ہے، ان کا مطالعہ صفر ہوتا ہے۔ دو چار بڑی بڑی باتیں رٹ اور دو چار ٹاک شوز دیکھ لیتے ہیں، پھر انہیں دو چار باتوں کو فیس بک پر ہر جگہ لکھتے ہوئے اپنے فلسفے جھاڑ رہے ہوتے ہیں۔ انہیں بات کرنے کی ذرا بھی تمیز نہیں ہوتی۔ فوراً توں تراں پر آ جاتے ہیں۔ دلیل سے ان کی جان جاتی ہے اور ہمیشہ بات کو آئیں بائیں شائیں ہی کرتے ہیں۔ ان کے سب سے عام استعمال والے الفاظ ”تمہیں نہیں پتہ، ایسا نہیں ہے، میں بتاتا ہوں“ وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ فیس بکی فلاسفر کا سب سے زیادہ نقصان ان لوگوں کو ہوتا ہے جو بچارے علم کے حصول کے لئے ان کے درمیان پھنس جاتے ہیں اور نا چاہتے ہوئے بھی لاشعوری طور پر گمراہی کے کھائیوں میں گرتے جاتے ہیں۔
فیس بکی ون مین آرمی (One man Army)
یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں دراصل بکی لیڈر، منتظم یا وڈا وڈیرہ بننے کا شوق ہوتا ہے۔ خود سے کچھ کر تو نہیں پاتے مگر دو چار فیس بک پیج یا گروپ بنا کر سرِبازار ریڑھی لگا لیتے ہیں۔ ادھر ادھر سے دو چار سو بندوں کو گروپ میں ٹھوک دیتے ہیں۔ چار پانچ دن تو گروپ یا پیج پر خوب بونگیاں شیئر کرتے ہیں پھر جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی کام کا گروپ یا پیج بنانا غلط نہیں مگر ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنی دادا گیری بنانے کے لئے فضول فضول پیج یا گروپ بناتے رہتے ہیں۔ ان کے گروپ یا پیج کے نام بڑے مزے کے ہوتے ہیں۔ نام ایسے کہ جیسے انہیں پوری دنیا کی نمائندگی سونپ کر مریخ پر بھیجا جا رہا ہے۔ دراصل یہ لوگ ون مین آرمی ہوتے ہیں۔ گروپ یا پیج کا نام دیکھو تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ پورے پاکستان کا متفقہ پیج ہے مگر اس پیج میں ہوتا صرف وہی فیس بکی ون مین آرمی۔
فیس بکی مسکین
مجھے ان لوگوں پر بہت ترس آتا ہے۔ دراصل یہ مطالعہ کے شوقین، علم و تحقیق سے دلچسپی لینے والے اور ہر دم کچھ سیکھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہ تھوڑی سی بھی غلطی کر دیں تو سمجھو رضیہ پھنسی غنڈوں میں۔ بیچارے دن رات ایک کر کر کے اس امید پر کچھ تیار کرتے ہیں کہ چلو فیس بک پر کچھ داد ہی مل جائے گی مگر کوئی انہیں منہ ہی نہیں لگاتا جبکہ ساری داد تو کُڑیانے لوٹ لیتے ہیں۔ آخر ایک دن یہ لوگ یا تو ہمت ہار کر فیس بک سے کنارہ کشی کر جاتے ہیں یا پھر یہ بھی کُڑیانوں والی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کونسی چیز یا بات وغیرہ سوشل میڈیا کے کس زمرہ (فورم، بلاگ یا سوشل نیٹ ورک وغیرہ) پر بہتر رہتی ہے۔ یہ بیچارے فیس بک کو ہی اوڑنا بچھونا بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خیر انہیں کے لئے ”اپنے قیمتی الفاظ ضائع مت کیجئے“ تحریر لکھی ہے۔
فیس بکی ملنگ
اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں فیس بک کو ٹھیک استعمال کر رہے ہیں۔ یہ اپنی سوچ اور شوق کے مطابق فیس بک پر اپنا حلقہ تیار کر لیتے ہیں اور اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ نئے لوگ بھی ان کو آ ملتے ہیں مگر یہ نئے لوگ بھی انہیں کی طرح کے مخلص اور ملنگ ہی ہوتے ہیں اور اگر نئے لوگ ملنگ نہ بھی ہوں تو ان سے مل کر ملنگ بن جاتے ہیں۔ گو کہ فیس بک پر ایسے لوگوں کی نہایت محدود حوصلہ افزائی ہوتی ہے، مگر یہ لوگ کچھ اس طرح کی ذہنیت رکھتے ہیں کہ ہزار کڑیانے بے شک ان کی چیز کو لائیک یا کمنٹ نہ کریں مگر صرف ایک فیس بکی ملنگ ان کے کام کو پسند کر لے تو ان کے لئے یہی کافی ہے۔ فیس بکی ملنگ شیئر، لائیک اور کمنٹ بھی کرتے ہیں مگر یہ ہر اوٹ پٹانگ بونگی کی بجائے اچھی چیزوں کو پسند کرتے ہیں۔ یہ فیس بک کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں بھی لوگوں کے قریب ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو سکتا ہے۔ جیسے یہ شاعر، ادیب، فلاسفر یا تخلیق کار وغیرہ بھی ہو سکتے ہیں مگر یہ صرف فیس بکی شاعر یا ادیب ہی نہیں ہوتے بلکہ عام زندگی میں بھی لوگ انہیں جانتے ہیں۔ فیس بک کو تو یہ صرف انٹرنیٹ پر اپنا حلقہ احباب بنانے اور ان تک اپنی چیز کا پیغام پہنچانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، فیس بک کو یہ صرف ایک میڈیا ہی سمجھتے ہیں، جبکہ ان کا اصل میدان تو حقیقی زندگی ہوتا ہے۔
فیس بکی یا بکیا
فیس بکی یا بکیا وہ ہوتا ہے جو اکثر فیس بک پر پایا جائے۔ فیس بکیا ہونا غلط نہیں، اصل بات تو یہ ہوتی ہے کہ بکیا، بکیوں کے کس زمرہ سے تعلق رکھتا ہے۔
آپ کو فیس بکی آنٹیاں، بچے ، بوڑھے، جوان، شاعر، ادیب، نقاد، تخلیق کار، فنکار اور فیس بکی لیڈر ہر دوسری پروفائل پر ملیں گے۔ان بکیوں کی تعداد اور قسمیں بہت زیادہ ہیں فی الحال ان کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ مزید ایک وقت میں ایک بندہ بکیوں کے کئی زمرہ جات سے بھی ہو سکتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ حقیقی زندگی میں جو انسانوں سے بہت دور ہے، فیس بکی زندگی میں اس کے ہزاروں دوست ہیں۔ وہ جس کا شعر کوئی نہیں سنتا فیس بک پر اسے بھی داد مل جاتی ہے۔ اور جو فیس بک پر بھی کچھ نہیں دراصل وہ بھی ایک عظیم الشان فیس بکیا ضرور ہے۔ فیس بکیا ہونا غلط نہیں بس یہ سوچیں کہ آپ بکیوں کے کس زمرہ میں آتے ہیں اور کیا آپ اپنے اور معاشرے کے لئے بہتر ثابت ہو رہے ہیں یا پھر۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فیس بکی بن کر آپ آسانی سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں دوست بنا کر ایک عام سے سٹیٹس، تصویر یا دو بول شاعری وغیرہ کے لکھ کرفوری کچھ لائیک اور کمنٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر یاد رہے یہ سب فیس بکیوں کی دھمالیں ہیں، مزا تب ہے جب آپ اصل زندگی میں بھی اتنے ہی قابل بنیں جتنے فیس بک پر بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اصل زندگی میں بھی اتنی ہی داد حاصل کریں، اتنے ہی لوگوں کے قریب رہیں جتنے فیس بک پر ہیں۔
یہ تحریر صرف مزاح کے لئے ہے، دل پہ مت لے یار!!!
فیس بکی بلاگروں کو تو آپ بھول ہی گئے 😳 🙁
آپ کو فیس بک پر پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے 😀
یہ فیس بکی ملنگ تو بہت کھوچل ہوئے نا! 😛 لطیفے بھی پڑھ لیے تصویریں بھی دیکھ لیں، سب تک اپنی بات بھی پہنچا لی، اور ملنگ بھی بنے رہے۔ 😉
فیس بک معاشرتی رابطے کا ذریعے ہے اور معاشرے میں سبھی رنگ پائے جاتے ہیں اور یہ رنگارنگی ہی اس کی خوبصورتی ہے۔ جیسے میلے ٹھیلے ہوتے ہیں وہاں سبھی کچھ ہوتا ہے۔ جس سے ہر کوئی اپنی پسند مزاج اور دلچسپی کے مطابق مستفید ہو سکتا ہے۔ کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں۔ فیس بک سب کے لیے ہے. بس اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔
ہمیں بیچ فیس بکی چوراہے پہ ننگا وئی کر دیا اور دل پر نا لے یار کہہ کر بھاگ لئے۔۔ 😆 😆
بحرحال اعلی اور اصلاحی تحریر ہے۔۔۔
میرا کام زیادہ تر کمپوٹر پر ہوتا ہے۔۔بس ایک پیج فیس بک کا وئی کھلا رہتا ہے۔۔کچھ نا کچھ پڑھنے کو مل ہی جاتا ہے۔
ویسے کبھی کبھی مفتیوں اور دو نمبری دینداروں کو انگلی کرکے بھاگ جاتا ہوں 😆 😆 😆
آپ نے تو ہماری کھال ہی اتارلی ہے،
اتنے سنگدل تو نہ تھے آپ، کہ کچھ عزت پیراں بھی تھی، کچھ بال ریش کے بھی سفید تھے، مگر آپ نے تو سب کو کٹہرے میں کھڑا کرلیا
انتہائی محترم بلاگر بلال صاحب آپ نےاس ہردلعزیز بلاگ میں فیس بکیوں پر ہلکے پھلکےمذاحیہ انداز میں کیا خوب لکھا ہے
معزز احباب میں نے محترم بلال صاحب اور ابوشامل صاحب کے بلاگز کی راہنما تحریروں سے مدد لے کر اپنا بلاگ شروع کیا۔ یوں محترم بلال صاحب اور برادر ابو شامل صاحب میرے غیر رسمی اساتذہ ٹھہرے
یار تو نے فیس بک ریٹائری کا تذکرہ نئیں کیا۔ 🙄
السلام علیکم!
بہت اعلیٰ
اور فیس بکی بزنس مین، انہیں تو آپ بھول ہی گئے۔۔۔
میں نے 2 بار پڑھا ہے شُکر ہے فیس بک پہ بکواس کرنے والوں کے بارے میں نہیں لکھا گیا میں محفوظ ہوں 😛
کیفے ڈی بکواس ۔ یہاں تو خوب بکواس جاری ہوگی
🙂 میں کافی عرصے سے کیفے ڈی بکواس کی خاموش قاری ہوں وہ بھی کبھی کبھی ۔۔۔
بلال آپ کی ہر تحریر لاجواب ہوتی ہے۔ ہمیشہ کی طرح زبردست لکھا ہے۔ شاباش۔
ایک دفعہ ایک فیس بکی شیئریااور لائیکا میرا دوست بن گیا۔ اب کیا دیکھتا ہوں کہ اس کا معمول ہوتا کہ پہلے ایک حدیث یا کوئی دینی قول وغیرہ کو شیئر یا لائک کرتا، اور اس کے چند منٹوں بعد کسی سیکسی دوشیزہ کی تصویر لائک کرتا۔ کہی بار ایسا ہوا تو خیال آیا ہوسکتا ہے اس بندے کو معلوم نہیں ہے کہ جب یہ شیئر یا لائک پر کلک کرتا ہے تو یہ عوامی ہوتا ہے اور اس کے دوست دیکھ سکتے ہیں۔ بہرحال ایسے بندوں کے علاوہ ٹیگئے کو پہلی انتباہ کے بعد دوست کی فہرست نکال باہر کرنا بہترین حل ہے۔
کیا مشاہدہ ، انداز اور ذوقِ نظر ہے بلال بھائی۔ فیس بُک توہے آجکل مگر کتابی چہرے عنقا ہو تے جا رہے ہیں۔ میک اپ کا یہ کمال ہے کہ نقلی چہرے بھی اصلی لگتے ہیں۔
مقالہ پورا نہیں ہے اسی لئے ڈاکٹر فیس بک کی سند نہیں دی جائے گی
بھئی واہ! بہت اچھا مشاہدہ کیا آپ نے اور بہت اعلیٰ مضمون تحریر کیا ہے۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں فیس بک استعمال نہیں کرتا ورنہ میرا شمار بھی کسی نا کسی کٹیگری میں ضرور ہوتا۔ 🙄
“ویسے اصل مزہ تب آتا ہے جب کڑیانے کی ٹکر کسی کڑیانے کے ساتھ ہی ہوتی ہے اور نتیجہ شکست کی صورت میں مُنڈیانی پیدا کرتا ہے۔”
ہاہاہاہا کیا جنسوں کا ملاپ کیا ہے۔اور کیسی اولاد پیدا کی ہے۔
چھا گئے ہو بلال بھائی۔ باقی ہم تو لیں گے دل پے۔ ہمکو بیکوقت ملنگ بھی گردان دیا اور مسکین بھی۔ تھوڑا دماغ نما چیز پر زور دیا تو پتا چلا کہ باقی اقسام میں سے بھی کچھ کی خصلتیں ہم میں پائی جاتی ہیں۔
ناؤ دیٹس کالڈ دا ریسرچ
تہاڈی خیر ۔۔۔ اے کی کیتا جے؟
واہ واہ کیا بات کی ہے. “فیس بکی ٹیم پاس” کے بارے میں بھی کچھ کہنا چاہیے تھا نا…………………….
شکر ہے میں نہیں استعمال کرتا۔ مہینے ایک دو میں آن لائن ہولیا تو ٹھیک ورنہ۔۔۔ 🙄
بھت ھی اعلی تحریر ہے جناب، بھت خوب۔
میرا پھلا اتفاق ھے آپ کی تحریر پڑھنے کا۔ بھت مزا آیا۔
اور جو کچھ بھی لکھا بالکل ٹھیک لکھا۔
ایسا ہی ہوتا ہے زیادہ تر۔۔۔۔۔
آپ جب بھی لِکھتے ہیں کمال کا لِکھتے ہیں۔ واقعی میں کُچھ لوگ بہت شیخیاں مارتے ہیں فیس بُک پر۔جزاک اللہ خیر۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
So I am a Lieut. General in Facebooki One Man Army 🙂
آپ نے تو فیس بکیوں کا پوسٹ مارٹم کر دیا ہے۔
میں فیس بک پر کچھ ہی دنوں سے جارہی ہوں اب پتہ نہیں میں کس کس اقسام میں شامل ہوگئی ہوں ۔مگر میں آپ سے اپنا ایک واقعہ شیئر کرنا چاہتی ہوں ہوا یہ کہ ایک صاحب نے مجھ سے دوستی ہاتھ آگے کیا تو میں نےان کو پہلے دیکھا بھلا لا تو وہ دینی علم ، ادبی چیزوں اور کمنٹ سے مہذیب لگنے پر میں نے بھی او کے کہدیا پھر کیا تھا انہوں نے کئی عام سی باتوں پوچھے تو میں نے اکثر باتوں میں نصیحت شامل کرتی رہی بعد میں میں نے اپنی عمر بتائی پہلے وہ مانے تیار ہی نہیں ہوئے پھر میں نے یقین دیلایا تو کہنے لگے ٹھیک ہے اس سے کیا ہوتا ہےکہکر کچھ ایسی بات پوچھی جو میں لکھنا تو دور کی بات سوچ تک نہیں سکتی کہا تو میں پہلے خود کو فیس بک سے نکلنے کا سوچا مگر پھر اسے ہی میں نے نکا ل باہر کیا ۔۔۔یا اللہ کیسے کیسے لوگ ہیں فیس بک پر نیکی کا لبادہ لپٹے ہوئے۔
واہ واہ بالکل سچ لکھا……
السلام علیکم بلال بھائی۔ ارے دل خوش ہو گیا آپ کی تحریر پڑھ کر ۔ بہت مدت بعد ایسی تحریر پڑھی جس نے کھلکھلا کر ہنسنے پر مجبور کر دیا۔ ایسی برجستہ اور لطیف طنزیہ کہ پطرس بخاری کی یاد آئے بغیر نہ رہ سکی۔ ہنستے مسکراتے رہئے اور مسکراہٹیں بانٹتے رہئے۔
میں تو ان فیس بکی ٹیگیوں سے بڑا تنگ ہوں ۔۔۔
ماشاء اللہ بلال میاں۔ لیکن فیس بک اور سوشل میڈیا کے استعمال سے عوامی سوچ پر جس طرح کے اثرات مرثب ہورہے ہیں، ذرا ان کے بارے میں بھی کبھی لکھئے گا۔
ویسے فیس بکیے نوسر بازیے یان منافقکیے کے بارے تفصیل سے لکھیں.. جو پیج کیسی اور مقصد کے لیے بناتے ہیں اور جب کافی لوگ جمع ہو جائیں تو اپنے اصل مذموم مقصد کی ترویج کرتے ہیں.. یہ لوگ ذیادہ تر کسی مشہور شاعر یاں فلاسفر کا نام کو استعمال کرتے ہیں اور پھر سیاسی کھیل شروع کردیتے ہیں
ویسے تیحریر پڑھ کر مزا آیا.. کافی دفعہ لبوں پر مسکراہٹ بھکری.. جسکے لیے میں آپ شکریہ ادا کرتا ہوں….
پر ھن میری واری کمنٹس دینا نا بھل جانا..
جناب اس تحریر میں آپ نے ہر قسم کی نسل کو بیان کر دیا۔۔۔ باقی جو بچے ہیں وہ بھی انہیں کی فروع ہیں۔۔۔ 😆
میں کئی مرتبہ اس تحریر کو پڑھ چکا ۔۔۔ اور ہر بار اتنی ہی شاندار ہے۔۔۔ 🙂
درست فرمایا