اللہ کے نام سے ابتدا، جو مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت ہے جبکہ میرے خیال میں یہاں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں، اگر کہیں ہے بھی تو وہ صرف آٹے میں نمک کے برابر۔ اس میں حیران ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ پاکستان کے موجودہ نظام پر غور کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ جمہوریت میں عوام کی اکثریت کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں۔ چند مثالیں دیتا ہوں، تھوڑا سا غور کیجئے گا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ الیکشن 2013ء میں کل 14.8 ملین ووٹ لے کر مسلم لیگ نون کو قومی اسمبلی میں 126 نشستیں (سیٹس) ملتی ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے کل ووٹوں کے آدھے سے بھی تھوڑے زیادہ یعنی 7.6ملین ووٹ لے کر تحریک انصاف کو صرف 28 نشستیں ملیں۔ اگر پاکستانی قوم کی رائے اور تناسب دیکھیں تو پھر تحریک انصاف کی کم از کم مسلم لیگ نون سے آدھی نشستیں ہونی چاہئیں۔ لیکن اس عجب نظام میں ایسا ہے نہیں۔ مزید غور کریں کہ ان دونوں جماعتوں سے بھی کم یعنی 6.9ملین ووٹ لے کر پیپلز پارٹی کو 32 نشستیں ملیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے تحریک انصاف سے ووٹ کم، مگر نشستیں زیادہ ہیں۔ پیپلزپارٹی کی نسبت پاکستانیوں کی زیادہ تعداد تحریک انصاف کو پسند کرتی ہے مگر نشستیں پیپلزپارٹی کی زیادہ ہیں۔
پارٹی | کل ووٹ | نشستیں |
پاکستان مسلم لیگ نون | 14.8 ملین | 126 |
پاکستان تحریک انصاف | 7.6 ملین | 28 |
پاکستان پیپلز پارٹی | 6.9 ملین | 32 |
مزید حیرانی تب ہوئی جب ایک پارٹی ”متحدہ دینی محاذ“ کو مختلف حلقوں سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ ووٹ ملے لیکن ان کا ایک بھی رکن قومی اسمبلی تک نہ پہنچ سکا یعنی ساڑھے تین لاکھ لوگوں کی رائے کو فراموش کر دیا گیا جبکہ قومی وطن پارٹی (شیرپاؤ) کو تقریباً سنتالیس ہزار ووٹ ملے اور ان کا ایک رکن قومی اسمبلی تک پہنچ گیا۔ واہ جی واہ کیا خوب نظام ہے کہ ساڑھے تین لاکھ لوگوں کا کوئی نمائندہ نہیں جبکہ سنتالیس ہزار کا نمائندہ ہے۔ جب بات پورے ملک کی ہے، جب نمائندگی پوری قوم کی ہے اور جب نتیجہ میں بننی ”قومی“ اسمبلی ہے تو پھر یوں حلقے بنا کر یعنی قوم کو چھوٹے چھوٹے غیرمتوازن گروہوں میں تقسیم کر کے الیکشن نہیں کروائے جاتے، کیونکہ اس طرح برابری کی سطح پر قوم کی رائے کا احترام نہیں ہوتا بلکہ وہی ہوتا ہے جس کا پہلے ذکر کیا ہے۔ جب بات پوری قوم کی ہو تو پھر متناسب نمائندگی ہوتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور نظام میں خرابی کہاں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لئے مثال کے طور پر فرض کریں کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی تین حلقے (نشستیں) ہیں۔ ہر حلقے میں کل تیس تیس ووٹ ہیں۔ ان حلقوں میں مسلم لیگ، تحریک انصاف اور پی پی مدِمقابل ہیں۔ الیکشن ہوتا ہے اور پہلے حلقے میں مسلم لیگ کو 12، تحریک انصاف کو 10 اور پی پی کو 8 ووٹ ملتے ہیں۔ یوں پہلے حلقے سے مسلم لیگ جیت گئی۔ دوسرے حلقے میں مسلم لیگ کو 2، تحریک انصاف کو 13 اور پی پی کو15 ووٹ ملتے ہیں۔ یوں دوسرے حلقے سے پی پی جیت گئی۔ تیسرے حلقے میں مسلم لیگ کو 11، تحریک انصاف کو 10 اور پی پی کو 9 ووٹ ملتے ہیں۔ یوں تیسرے حلقے سے مسلم لیگ جیت گئی۔ اب نتیجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ کی دو اور پی پی کی ایک نشست ہے جبکہ تحریک انصاف کی ایک بھی نشست نہیں۔ یہ معاملہ اتنا سیدھا بھی نہیں۔ ذرا پورے ملک کی عوام کی رائے تو دیکھیں، پھر پتہ چلے گا کہ عوام نے سب سے زیادہ کس کو پسند کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسلم لیگ کو کل 25، تحریک انصاف کو 33 اور پی پی کو 32 ووٹ ملے ہیں۔ عوام کی رائے کچھ اور کہہ رہی ہے جبکہ ملنے والی نشستیں کچھ اور۔
پارٹی | پہلے حلقے کے ووٹ | دوسرے حلقے کے ووٹ | تیسرے حلقے کے ووٹ | کل ووٹ | کل نشستیں |
مسلم لیگ | 12 | 2 | 11 | 25 | 2 |
تحریک انصاف | 10 | 13 | 10 | 33 | 0 |
پیپلز پارٹی | 8 | 15 | 9 | 32 | 1 |
حیرانی والی کوئی بات نہیں جی۔ ہمارا نظام ہی اتنا عجیب ہے کہ جسے عوام نے سب سے کم پسند کیا وہ اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں لے گیا اور جسے سب سے زیادہ پسند کیا اسے ایک بھی نشست نہ ملی۔ یہ صرف مثال دی ہے تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ کیسے ساڑھے تین لاکھ لوگوں کا ایک بھی نمائندہ اسمبلی میں نہیں پہنچتا اور دوسری طرف سنتالیس ہزار کا نمائندہ پہنچ جاتا ہے۔ ایک دفعہ پھر کہوں گا کہ جب بات پوری قوم کی ہو تو متناسب نمائندگی بھی ہونی چاہئے، نہ کہ کھوکھلا اور فرسودا نظام جسے ہمارے ہاں جمہوریت کا نام دے دیا گیا ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نظام کو جمہوریت نہیں بلکہ کچھ اور ہی کہیں گے۔ مختلف چھوٹے بڑے حلقے بنا کر انتخابات کرانے کے نظام کی صرف یہی ایک خرابی نہیں کہ عوام کی متناسب نمائندگی نہیں ہوتی اور کم ووٹ لینے والا زیادہ نشستیں حاصل کر جاتا ہے بلکہ اس نظام میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی رائے کو ضائع کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک امیدوار 20 ووٹ لیتا ہے اور دوسرا امیدوار 21 لے کر جیت جاتا ہے۔ یوں ہارنے والے امیدوار کے 20 ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں یعنی 20 لوگوں کی رائے کا ذرہ برابر بھی مول نہیں۔ اسی بنا پر زمینی حقائق یوں بن چکے ہیں کہ لوگ، خاص طور پر دیہاتی لوگوں کی اکثریت نئے امیدواروں کو ووٹ اسی لئے نہیں دیتے کہ اس نے کونسا جیتنا ہے، اس لئے اسے ووٹ دے کر ووٹ ضائع نہ کیا جائے۔ پاکستان الیکشن 2013ء میں یہ بات میں نے بہت زیادہ لوگوں سے سنی ہے کہ فلاں بندہ تو بہت اچھا ہے اور ووٹ کا حقدار بھی ہے مگر وہ ”سردار صاحب“ سے جیت نہیں سکتا اس لئے اسے ووٹ دے کر ضائع نہ کریں۔
میری سوچ (جو کہ غلط بھی ہو سکتی ہے) کے مطابق جب بات قوم کی نمائندگی کی ہو تو متناسب نمائندگی ہونی چاہئے یعنی جو جتنے فیصد عوام کا ووٹ حاصل کرے اسے قومی اسمبلی میں اتنے فیصد نشستیں ملیں۔ یوں ایک ایک ووٹ کا مول پڑے گا، ووٹ ضائع نہیں ہوں گے۔ اس کی تفصیل یوں سمجھیں۔ فرض کریں قومی اسمبلی کی کل 50 نشستیں ہیں۔ اب فی نشست 2فیصد ووٹ بنتے ہیں۔ لہٰذا پورے ملک سے جو بھی 2فیصد ووٹ لے گا اسے ایک نشست مل جائے گی۔فرض کریں کہ ایک پارٹی 40 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہے تو اسے 20 نشستیں مل جائیں گی۔
اس متناسب نمائندگی والے نظام کے ذریعے کئی مسائل سے جان چھوٹ جائے گی۔ جیسے کوئی جیئے یا مرے، پارٹی چھوڑے نہ چھوڑے، یہ سب پارٹی کے ذمہ ہو گا اور یوں ضمنی انتخابات وغیرہ کا جھنجٹ ختم ہو جائے گا اور قوم کا جو پیسا ضمنی انتخابات پر برباد ہوتا ہے اس کی بچت ہو گی۔ یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں، ایک یہ کہ پارٹی کن کو اور کیسے منتخب کر کے اسمبلی میں بیٹھائے گی اور دوسرا یہ کہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے کدھر جائیں گے؟ ان دونوں سوالوں پر پھر کبھی تفصیل سے بات کریں گے فی الحال یہی کہوں گا کہ پارٹی اسمبلی کے لئے اپنے ارکان منتخب کرنے کے لئے باقاعدہ ”انٹرا پارٹی الیکشن“ کروائے اور اس کی نگرانی بھی الیکشن کمیشن کرے۔ ویسے پارٹیاں بھی کسی کی جاگیر نہیں ہونی چاہئیں یعنی ایسا نہ ہو کہ باپ کے بعد بیٹا سربراہ بن بیٹھے یا سربراہ سیاہ و سفید کا مالک ہو وغیرہ وغیرہ۔ مزید آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لینے والے سوال پر عرض ہے کہ خدا کے بندو! کوئی ایک طریقہ اپناؤ۔ پارٹی سسٹم رکھو یا انفرادی۔ ویسے اگر کمپیوٹرائزڈ قسم کا الیکشن ہو تو پھر آزاد امیدوار بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ نہیں تو آزاد امیدواروں کی صورت میں بیلٹ پیپر پوری ایک کتاب بن کر رہ جائے گا۔
ہمارے ہاں کچھ لوگ ایک خاص انداز میں بھی سوچتے ہیں۔ اس انداز کی وضاحت ایک مثال سے کرتا ہوں۔ فرض کریں مسلم لیگ کو 12، تحریک انصاف کو 10 اور پی پی کو 8 ووٹ ملے۔ یوں مسلم لیگ جیت گئی۔ لیکن دیکھا جائے تو مسلم لیگ کو 12 لوگوں نے پسند کیا ہے جبکہ 18 لوگوں نے مسلم لیگ کو ناپسند کرتے ہوئے دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پسند کرنے والے تھوڑے اور ناپسند کرنے والے زیادہ ہوں اور تب بھی وہ پارٹی جیت جائے؟ یہ ایک انوکھا اندازِسوچ تو ہے لیکن ادھورہ ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے جیت کا پیمانہ کیا رکھنا ہے؟ آیا یہ دیکھنا ہے کہ ”زیادہ پسند“ کس کو کیا گیا یا ”کم ناپسند“ کس کو کیا گیا؟ دوسری بات یہ ہے کہ چاہے کوئی بھی پیمانہ رکھو، بات ایک ہی ہے۔ چلیں اسی مثال کی جدول کی مدد سے پسند اور ناپسند کی تفصیل دیکھتے ہیں۔
پارٹی | پسند | نا پسند یعنی مخالف |
مسلم لیگ | 12 | 18 |
تحریک انصاف | 10 | 20 |
پیپلز پارٹی | 8 | 22 |
اب ہم کوئی بھی پیمانہ رکھیں تو تب بھی مسلم لیگ ہی جیتے گی۔ پسند والا پیمانہ رکھیں تو دوسری پارٹیوں کی نسبت مسلم لیگ کو زیادہ لوگ پسند کرتے ہیں۔ اگر ناپسند والا پیمانہ رکھیں تو سب سے کم مخالفت بھی مسلم لیگ کی ہے جبکہ دوسری پارٹیوں کی مخالفت تو مسلم لیگ سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ دوسری پارٹیاں متحد ہو جاتی ہیں اور ان کا ووٹ بنک مل جاتا ہے تو تب ظاہر ہے کہ کسی بھی پیمانے سے پھر وہ متحد پارٹی ہی جیتے گی۔ بہرحال کچھ لوگوں کا یہ اندازِسوچ انوکھا تو ہے مگر ادھورہ ہے اور جب ہم اسے مکمل کرتے ہیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ کان اِدھر سے پکڑو یا اُدھر سے، بات ایک ہی ہے۔ البتہ یہ پسند اور ناپسند والی کنفیوژن صرف تب ہی پیدا ہوتی ہے جب دو سے زیادہ پارٹیاں ہوں۔ اگر پارٹیاں (فریق) صرف دو ہی ہوں تو تب یہ کنفوژن بھی پیدا نہیں ہوتی۔
جس قدر چاہیں حساب کتاب کر لیں اور جیسی چاہیں بہتری کروا لیں ، جمہوریت بذات خود ایک بہت بڑا نقص ہے اس میں ہر قسم کی تبدیلیاں اس کے بنیادی نقص کو دور نہیں کر سکتیں جیسا کہ میں نے پہلے تحریک انصاف کی الیکشن میں ناکامی پر عرض کیا تھا کہ
” بادبانی کشتی پر ملاح ، موچی اور راج مستری کی رائے برابر ہو تو ایسے نظام کے تحت تبدیلی کچھ ایسی ہی قسم کی آ سکتی ہے اور آئندہ بھی آنے کی امید ہے”
بات آپ کی ٹھیک ہے، اور اس ”رائے برابر“ والی بات نے مجھے بہت زیادہ تحقیق اور مغز ماری کرنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاج کے لئے چند ایک باتیں ذہن میں ہیں، ان شاء اللہ جلد ہی لکھوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ جمہوریت میں بھی کئی ایک خامیاں ہیں۔
😀 مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصہ قبل میں نے کسی مذہبی بلاگ یا فیس بک پیج لکھا ہوا پر پڑھا تھا کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق صاحب علم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہوسکتے لیکن جمہوری نظام حکومت کے انتخاب کے دوران ایک چرسی ، نشئی ، اور جاہل کے ووٹ کی اہمیت ایک پڑھے لکھئے ، سمجھدار شخص کے برابر ہوتی ہے ۔ یوں اگر کسی ملک میں اگر جاہل ، غلط اور گھٹیا لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوجائے تو پڑھئے لکھئے افراد کا منتخب نمائندہ اقلیت میں ہونے کے باعث اقتدار حاصل نہیں کرسکے گا ۔ جیسا کہ تحریک انصاف کے ساتھ ہوا ۔
اور اگر دیکھا جائے تو کیا ڈاکٹرز ، ٹیچرز ، پولیس ڈپارٹمنٹ کے لوگوں وغیرہ ، جن سے عوام کے براہ راست مفادات وابستہ ہیں اور جن سے ہمارا پالا ایک ایم این ائے اور ایم پی ائے سے ذیادہ پڑتا ہے ، کیا ان انتخاب عوام براہ راست ووٹوں سے کرتی ہے ۔ایسا نہیں کیونکہ اگر عوام کے ووٹوں سے ڈاکٹزز اور ٹیچرزکا انتخاب شروع کردیا تو عوام نے ڈاکٹزز اور ٹیچرز کی ڈگریوں ، تجربے ، اور میرٹ کا حساب نہیں لگا نا ، عوام ایک ایم بی بی ایس کے مقابلے میں میٹرک پاس کو بھی ذیادہ ووٹ دئے کر سینئیر ڈاکٹر بنا دئے گئی ، اگر وہ میٹرک پاس اس الیکشن مہم کے دوران لوگوں کو مفت دوایوں ، اور ایکسرئے ؤغیرہ جیسی سہولیات فراہم کرنے کا کہہ دئے ۔
اسی طرح ہمارئے سیاسی اداکاروں کے وہ جھوٹے وعدئے جو عوام کو الیکشن مہم کے دوران “قیمئے والئے نان” یا پھر “پیسی اور ایک سموسے” کھلا کر کیے جاتے ہیں ، عوام اس فن کاری میں سے اصل فنکار اور اس کی قابلیت کا اندازہ نہیں لگا سکتی ۔
آپ جس متناسب نمائندگی کے نظام کی بات کررہے ہیں اسے D’Hondt method کہا جاتا اور یہ ووٹنگ سسٹم جاپان، ترکی، اسرائیل، برازیل اور ارجنٹائن سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں رائج ہے۔ اس نظام میں بھی کئی خرابیاں ہیں جن میں سے چند ایک کا زکر آپ کرچکے ہیں، میری ذاتی رائے میں متناسب نمائندگی D’Hondt method اسلامی تصور جمہوریت سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔
پاکستان میں ووٹنگ کا جو نظام رائج ہے اسے (FPTP (first-past-the-post یا plurality voting system کہا جاتا ہے۔ درحقیقت ووٹنگ کا یہ نظام برطانوی پارلیمانی جمہوریت سے لیا گیا ہے اور ان ممالک کی اکثریت جو کبھی برطانوی نو آبادی رہی ہیں وہاں یہی ووٹنگ سسٹم رائج ہے۔ لیکن میں آپکی رائے سے سو فیصد متفق ہوں کہ ووٹنگ کے اس نظام بھی بے شمار کمزوریاں ہیں۔
اب ووٹنگ کا ایک تیسرا نظام بھی ہے جسے Runoff یا Two-round systemکہا جاتا ہے، میرے خیال سے ہمیں چند تبدیلوں کے ساتھ اس ہی ووٹنگ نظام کو اپنا لینا چاہئے۔ ووٹنگ کا یہ نظام مصر، افغانستان، فرانس اور انڈونیشیا میں رائج ہے۔ اس نظام میں اگر پہلے مرحلے میں کوئی امیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کرسکے تو زائد ووٹ حاصل کرنے والے دو سرفہرست امیدواروں کے درمیان انتخابات کا دوسرے مرحلہ ہوتا ہے۔
اتنی زبردست معلومات کا خلاصہ پیش کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مجھے امید ہے کہ کاشف نصیر یونہی چلتا رہا تو بہت جلد چوتھا اور سب سے پائیدار طریقہ بھی جلد دریافت ہو گا۔
جاپان وغیرہ میںمتناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے لیکن وہاںبھی پچھلے دنوںحلقہ بندیوں کو عدالت نے غیر آئینی قرار دیا تھا۔ آبادی کے کم زیادہ ہونے کا کوئی مسئلہ تھا۔
باقی خلافت کے مامے تو ایک خلیفہ (داڑھی لازمی ترجیحاً مولوی) کے بغیر نہیں ٹلیں گے۔ موچی، نائی، چونکہ انسان نہیں ہوتے۔ اور مولوی انسانوں کی اعلی ترین قسم ہیں، جنہیں دین سے کر دنیا کے ہر معاملے بشمول حکومت و سیاست تک میں لُچ تلنے کا کائناتی حق حاصل ہے اس لیے وہ جمہوریت کو کیوں مانیں جہاں حکومت کے لیے ایک بندے کی داڑھی، متھا رگڑنے سے زیادہ اس کا سماجی شعور اور قیادت کی صلاحیت زیادہ اہم تصور کی جاتی ہے۔
جمہوریت مردہ باد خلاف زندہ باد۔ 😈
دوست خلافت سے اس درجہ بغض کی وجہ ؟ برطانوی سسٹم کا تو آپ زکر وحی کی طرحکر رہے ہو ۔
خلافت کے سسٹم میں خلافت کا ہیڈ یا خلیفہ پوری قوم میں سے اعلی ترین اور معزز ترین آدمی ہوتا ہے اور یہ کوئی قصے کہانیوںکی بات نہیں ایران میں یہ ہی خلافت سسٹم رائج ہے اور سلیکشن کا طریقہ وہ ہی ہے جو حضتت عمر رضی اللہ عنہ نے رائج کیا تھا ۔
اپنی مٹی پے چلنے کا طریقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
اور آپ کیا خوب کہا تھا اقبال رحمہ اللہ نے کہ :
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسل ھاشمی
محترم ۔ رائج الوقت جمہوریت تو یہی ہے جس کی خامیاں اپ نے گنوائیں ہیں ۔ جمہوریت پر بات بعد میں ۔ پہلے اپنے ہاں جمہوریت کی حالت کا تذکرہ اہم ہے ۔ یہاں حکمرانوں ۔ سرکاری ملازمین اور عوام کی اکثریت اگر بد دیانت نہیں تو کوتاہ اندیشی کے ساتھ خودغرض ہے ۔ اسلئے یہاں کوئی نظام بھی ہو چل نہیں سکتا ۔ جمہوریت کی پیدائش کی تاریخ ہی بتا دیتی ہے کہ یہ مخصوص وسیلوں والے گروہ کو عوام کا حاکم بنانے کیلئے سچائی کا توڑ کے طور پر معرضِ وجود میں لائی گئی تھی جس کی مخالفت کی پاداش میں عظیم مفکّر سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑا تھا ۔ میرا یقین ہے کہ انسان کا بنایا کوئی نظام کامل نہیں ہو سکتا اگر اللہ سے راہنمائی حاصل نہ کی گئی ہو
بسم تعالیٰ
ایک مسلمان کا اس بات پر یقین ہونا چاہیے کی اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے. اگر وہ اس کو تسلیم نہیں کرتا تو اسے ایمان کی تجدید کرنی چاہیے. اللہ تعالیٰ نےانسان کو پیدا کر کے اندھیرے میں نہیں چھوڑ دیا بلکہ زندگی کے تمام معاملات چلانے کا طریقہ بھی بتا دیا . اب اگر آپ اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق مختلف تجربے کرنے پر بضد ہیں تو کر کے دیکھ لیں کہیں بھی سکون نہیں ہے.
قومی اسیمبلی کی سیٹوں کی تعداد پاکستان کے اضلاع کے برابر ہونی چاہیے.
صوبائی سیٹوں کی تعداد صوبے میں موجود تحصیلوں کے برابر ہونی چاہے اور آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چاہیے.
ہرپارٹی ہر ضلعے سے ایک نام قومی سیٹ کے لیے اور ہر تحصیل سے ایک نام صوبائ سیٹ کے لیے نامزدگی فارم کے ساتھ جمع کرانے کا پابند ہوگا.
اب جس پارٹی کو جتنی نشستیں ملیگی وہ انکو اسطریقے سے تقسیم کرے کہ جسطرح اس پارٹی نے نامزدگی فارم میں نام درج کرائے ہیں . مثلا کسی پارٹی کو پانچ سیٹس ملے تو وہ پہلے پانچ کو تقسیم کریگا.
مین نے جو کچھ پہلے لکھا وہ آپ کے بتائے ہوئے طریقئہ جھموریت سے اتفاق کرکے اس میں آگے کے مراحل کے لیے لکھا ہے .
سیٹوں کی تقسیم میں تھوڑی ترمیم کرنا چاہتا ہوں
جس پارٹی کو جس ضلع یا تحصیل سے جتنے زیادہ وؤٹ ملے اس علاقے سے جسکا نام دیا گیا ہے وہ کامیاب ہوگا اسی طرح اسکے بعد جس علاقے سے اسی پارٹی کو زیادہ وؤٹ ملے اسی طرح آخر تک
میرے خیال میںصدارتی نظام ہونا چاہیے ۔عوام براہِ راست ووٹ کے ذریعہ صدر منتخب کریں ۔ وہی چیف ایگزیکٹو اور سپریم کمانڈر ہو ۔اور وہ اپنی ٹیم لے کر آئے جو متعلقہ شعبوں میں تجربہ کا ر ہو ۔اور پارلیمنٹ کا کام سڑکیں نالیاں اور سولنگ لگانا نہیں قوانین بنانا ہو ۔پارلیمنٹ میں پڑھے لکھے تجربہ کا ر لوگ ہونے چاہیے ۔ اس سسٹم کی خرابی کے سب سے بڑے ذمہ دار ہم عوام خود ہیں ۔ کرپٹ ہر لحاظسے اخلاقی طور پر بھی اور معاشی طور پر بھی ۔ ہم سب کی سوچ صرف ذاتی مفاد تک ہوتی ہے بہت کم لوگ ہیں جو اجتماعی یا ملکی مفاد کیلیے کا م کرتے ہیں ۔ اگر آپ اپنے ارد گرد لوگوں کا جائزہ لیں تو اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو یہ سوچتے اور بولتے ہیں کہ رزق حلال سے گزارہ ہی نہیں ہوتا گزارہ کرنے کیلیے اوپر کی کمائی ہونا ضروری ہے ۔اگر نیا پاکستان بنانا ہے یا پاکستان بدلنا ہے تو ایک ایک فرد کو حصہ ڈالنا ہوگا ۔ہمیں جاگنا ہوگا ۔
اس حساب سے پوری سیریز کرائی جانی چاہئیے پھر الیکشن کی
کوارٹر فائنل فر سیمی فائنل پھر کوئی پارٹئ جیتے
میں اگر میرا الف سے سخت اختلاف ہے اور ب سے میرا اختلاف نسبتا کم ہے جبکہ پ میرے نظریات کے بہت قریب مگر پ نسبتا ایک کمزور پارٹی ہے اور میں ووٹ ب کو دے دیتا ہوں یہ سوچ کر کہ وہ الف کو ہرا دے گی ۔مگر الف جیت جاتا ہے ۔ تو اس صورت میں آپ یہ تو نہیں نہ کہ پائیں گے کہ میرا ووٹ پ کے بھی خلاف تھا۔
ہمارے ہاں پارلیمانی نظام رائج ہے اور جس کا باپ برطانیہ ہے ۔ جن ممالک نے اس نظام کو مُکمل طور پر رائج کیا سیاسی کلچر کو پروان چڑہایا پارٹیوں کو شخصیات کے سحر سے نکال کر ادارہ بنایا وہاں پر عمومی طور پر ٹو پارٹی سسٹم خود بخود ڈویلپ ہو گیا۔ ہمارے ہاں بھی ایسا مُمکن ہے مگر میں سیاسی پارٹیوں کے کھوکھلےپن اور نالائقی کو اس کا ذمہ دار کہوں گا ۔ ہم پارلیمانی سسٹم کو بھی اُس کی اصل حالت میں اختیار نہیں کئے ہوئے ہیں۔ دُنیا کے کس مہذب مُلک میں سیاسی نمائندوں کو ڈویلپ منٹ فنڈز ملتے ہیں؟؟؟ ڈویلپ منٹ فنڈز کی نچلی سطح پر تقسیم اور لوکل باڈیز کا سسٹم مُتعارف کروانے سے ہی ہماری فکری بڑہوتری مُمکن ہے۔ہمارے نظام کی خامیوں میںسیاسی پارٹیوں کی طفلانہ اور خود غرضانہ سوچ ہے اختیارات اپنے پاس رکھنے کی روش پورے معاشرے کی سیاسی نمو کو روکے ہوئے ہے۔
میں کاشف کی بات سمجھ نہیںپایا کہ مُتناسب نمائندگی کا سسٹم اسلام سے مُتصادم ہے اس بارے میں میں آپ سے راہنمائی کی درخواست کرتا ہوں۔ جہاں تک صدارتی سسٹم کی بات ہے تو بقول ڈاکٹر اسرار احمد یہ سسٹم اسلام کے زیادہ قریب ہے۔ میرے خیال میں سسٹم صدارتی ہو یا پارلیمانی اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنا ضروری ہے ۔ اور ایک درخواست جمہوریت پر تنقید کرنے والوں سے کہ ڈرائیور اگر گاڑی چلانا نہ جانتا ہو یا دانستہ طور پر غلطی کرے تو برانڈ نیو مرسڈیز بھی درخت سے ہی ٹکرائے گی۔
اس حساب سے پوری سیریز کرائی جانی چاہئیے پھر الیکشن کی
کوارٹر فائنل فر سیمی فائنل پھر کوئی پارٹئ جیتے
السلام علیکم
خالد محمود بھائی سے متفق ہوں
یہاں ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ میرے خیا ل میں اور میری رائے ، ، ،
میرے بھائیو! جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں انفرادی زندگی میں یہ چوائس (بحیثیت مسلمان) نہیں دی کہ اپنی مرضی سے زندگی گزاریں تو کیا اجتماعی زندگی میں ہم اپنی مرضی کا نظام حکومت بنانے میں آزاد ہیں؟؟؟؟ یا تو ہم سمجھ بیٹھے ہیں اسلام اب نہیں چل سکتا جدید دور ہے اب کچھ اور سوچو۔۔۔ یا ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام نے سرے سے کوئی نظام حکومت دیا ہی نہیں۔۔۔ یا پھر یہ کہ ہمیں سب پتہ ہے مگر طبعیت ادھر نہیں آتی والی بات ہے کیوں آزمائشیں تو اسی رستے پر ہیں۔ جمہوریت کے تمام طریقہ کار فیل ہیں ۔ کیوں یہ اسلام سے متصادم نظام ہے۔نہ صرف طریقہ کار بلکہ جن اقدار پر یہ نظام قائم ہوتا ہے وہی غیر فطری اور غیر اسلامی ہیں۔
پس اے نبی ﷺ ، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے ۔ پھر اگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ ہی کرلیا ہے ،اور یہ حقیقت ہے کہ اِن لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں۔(49)
(اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟ (50) المائدۃ
کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولﷺ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اُسے اپنے معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺکی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔(36) الاحزاب
بھائیو کیا اقبال کا جمہوریت کو کُلی رد کرنا بھی ہمیں کچھ نہیں سمجھاتا؟؟؟