سرکاری عہدے پر فائز چوہدری صاحب جب دفتر سے گھر پہنچے تو ان کے بیٹے نے کہا ”ابو جان! مجھے تھوڑی زمین چاہیئے“۔ باپ نے جواب دیا کہ بیٹا زمین تو ہے ہی تمہاری۔ تھوڑی تو کیا، تم ساری کے مالک ہو۔ بیٹے نے کہا ”نہیں ابو جان، یہ بات نہیں بلکہ مجھے کھیتی باڑی کے لئے تھوڑی سی زمین چاہیئے“۔ بچے کو کھیتی باڑی کی الف بے تک نہیں معلوم تھی اور اوپر سے پڑھنے لکھنے والے لاڈلے بچے کی ایسی بات پر باپ حیران ہوا۔ مسکرا کر بچے کو دیکھا اور بولا ”بیٹا خیریت تو ہے؟“ بیٹے نے جواب دیا کہ بس میرا دل کر رہا ہے کہ میں تھوڑی بہت کھیتی باڑی سیکھوں۔ باپ نے کہا ”بیٹا یہ بہت سخت کام ہے۔ تم چھوٹے ہو، نہیں کر سکو گے۔“ بچے نے اپنے ہم عمر کئی لڑکوں کی مثال دے کر کہا کہ جب وہ سب کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ باپ نے لاکھ سمجھایا کہ ان کے اور تمہارے رہن سہن میں بہت فرق ہے۔ تم نے کبھی کسّی اور درانتی کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ بہرحال بچے کے بہت زیادہ اصرار پر باپ مان گیا۔ زمینوں پر کام کرنے والے ملازم کو بلایا اور کہا کہ فلاں تھوڑی سی زمین جو خالی پڑی ہے، ادھر کچھ کاشت نہ کرنا، کیونکہ اب وہاں چھوٹے چوہدری صاحب کھیتی باڑی کریں گے۔ ملازم حیرانی اور تجسس سے دونوں کی طرف دیکھتا ہوا ”جی ٹھیک جناب“ کہہ کر چلا گیا۔
بچہ رات کافی دیر تک اپنے دادا کے پاس بیٹھا کسانوں کی باتیں اور کہانیاں سنتا اور کاشت کاری کی معلومات لیتا بلکہ اپنے تائیں گُر سیکھتا رہا۔ جب بھی اسے کوئی نئی بات کا پتہ چلتا تو فوراً دادا سے پوچھتا کہ کیا آپ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ پھر دادا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ بیٹا جو زمین تمہیں ”ملی“ ہے وہ سوکھی پڑی ہے۔ سب سے پہلے اس کو پانی لگانا ہو گا تاکہ وَتر (نم) ہو اور بیج بویا جا سکے۔ بچے نے کہا ٹھیک ہے میں کل کسی وقت زمین کو پانی لگاتا۔۔۔ اس پر دادا نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا کہ بیٹا جی! کسی وقت نہیں بلکہ پو پھوٹنے (صبح صادق) سے پہلے کسّی تمہارے کندھے پر ہونی چاہیئے۔ یہ کسان کا سب سے پہلا اصول ہے کہ وہ صبح کاذب سے پہلے اٹھ کر اپنے کام میں لگ جاتا ہے۔ باپ اور دادا کو ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا کہ بچے کو بس عارضی شوق چڑھا ہے اور کھیتی باڑی کی سختی دیکھ کر ایک دو دن میں اتر جائے گا۔مگر ہوا یوں کہ پو پھوٹنے سے پہلے بچہ واقعی زمینوں پر پہنچ چکا تھا۔
جدید نظام کی مشین ہونے کی وجہ سے اس نے محض ایک بٹن سے ٹیوب ویل تو چلا لیا مگر اس کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوا یعنی کھال اور کیاروں کی دیکھ بھال۔ ٹیوب ویل سے زمین تک پانی پہنچانے کے لئے پہلے بھی اور اب بھی کئی علاقوں میں مٹی کے بند باندھ کر جو نالی بنائی جاتی ہے، اسے ”کھال“ کہتے ہیں۔ مزید زمین میں بند باندھ کر اسے ”کیاروں“ (کیاریوں) کی صورت میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تاکہ آسانی سے اور کم پانی سے زمین سیراب کی جا سکے۔ کھال اور کیاروں کے بند چھوٹے اور مٹی کے ہونے کی وجہ سے پانی کے بہاؤ اور دباؤ سے کئی دفعہ ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے مسلسل ان کی نگرانی کرنی ہوتی ہے تاکہ اگر کہیں سے بند ٹوٹے تو ادھر فوراً مٹی ڈال کر پانی کو ضائع ہونے سے روکا جائے۔ خیر ٹیوب ویل چلانے کے بعد شروع میں تو سب اچھا رہا مگر پھر اچانک ایک جگہ سے بند ٹوٹ گیا۔ لڑکا دوڑا دوڑا ادھر پہنچا بڑی مشکل سے بند دوبارہ ٹھیک کیا۔ ابھی اس نے وہ ٹھیک ہی کیا تھا کہ ایک اور جگہ سے بند ٹوٹ گیا۔ وہ ادھر پہنچا اور ٹھیک کرنے لگا۔ ناتجربہ کاری اور تیزی سے مٹی کھودنے کا فن نہ آنے کی وجہ سے اس سے پانی قابو نہیں ہو رہا تھا۔ اوپر سے بند کمزور بنتے اور جلد ہی ٹوٹ جاتے۔ چونکہ حالات قابو نہیں ہو رہے تھے اس لئے اسے کسانوں کی روایت کے برخلاف کئی دفعہ ٹیوب ویل بند کرنا پڑا، تاکہ پانی کا بہاؤ رکے اور وہ بند ٹھیک کر سکے۔ اس ”دوڑا دوڑی“ کے عالم میں جب وہ گیلی زمین پر پاؤں رکھنے کے بعد اٹھاتا تو جوتے کی وجہ سے کیچڑ اس کے سر تک پہنچتا۔ بھاگ دوڑ میں اسے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ جوتا اتار ہی لے، جیسا کہ عام طور پر کسان کرتے ہیں۔
چاروں طرف روشنی پھیلنے لگی اور صبح ہو گئی۔ زمین سے تھوڑی دور راستے پر لوگوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی۔ اکثر لوگ سر سے پاؤں تک کیچڑ میں لت پت لڑکے کو دیکھ کر رک جاتے۔ بہتوں کو یقین ہی نہ آتا کہ فلاں کا لڑکا اور کھیتی باڑی؟؟؟ کئی لوگ لڑکے کے پاس جا کر یقین دہانی کرتے اور پوچھتے کہ خیریت تو ہے کہ تم اور یہ کام؟ لڑکا مسکراتا اور فقط کہتا کہ بس چاچا شوقیہ فنکاری ہو رہی ہے۔ اُدھر جب لڑکے کے گھر میں پتہ چلا کہ وہ واقعی زمین کو پانی لگانے پہنچا ہوا ہے تو ماں کو فکر ہوئی کہ بھوکا ہی چلا گیا۔ یوں کسانوں کی روایت کے مطابق اس کا ناشتہ زمین پر پہنچا۔ جیسے جیسے جون کا سورج چڑھتا گیا ویسے ویسے کڑکتی دھوپ کی تپش لڑکے کو جھلسانے لگی اور اسے باپ کی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کے ذہن میں خیال آنے لگا کہ یہ میں نے کیا مصیبت گلے ڈال لی۔ مگر پھر اس نے حوصلہ کیا اور ارادہ کیا کہ جب باقی دنیا کر سکتی ہے تو میں بھی کر کے دیکھاؤں گا۔ خیر اس نے اللہ اللہ کر کے شام تک زمین سیراب کر ہی دی۔ ٹیوب ویل پر ہی نہایا اور گھر پہنچا۔ تھکاوٹ کا یہ عالم تھا کہ چارپائی پر بیٹھا اور ادھر ہی ”ڈھیر“ ہو گیا، ساری رات گہری نیند سویا بلکہ بے ہوش پڑا رہا۔ غالباً اس کی عقل ٹھکانے آ چکی تھی۔ ایک دو دن تک کئی لوگ اسے نہایت حیرانی سے دیکھتے کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ کئی کہتے کہ پڑھے لکھے باپ کا بیٹا ہے اور خود بھی پڑھتا ہے مگر یہ کھیتی باڑی جیسے کام کی طرف کہاں چل پڑا۔
دو چار دن بعد زمین خشک ہوئی اور مناسب وتر آنے پر ٹریکٹر کی مدد سے ہل چلایا گیا۔ لڑکے کے باپ نے کہا کہ تمہیں بیج بکھیرنے کا فن نہیں آتا اس لئے ملازم بکھیر دیتا ہے۔ مگر لڑکے پر سب کچھ خود کرنے اور سیکھنے کا بھوت سوار تھا، یوں جیسے تیسے اور الٹا سیدھا باجرے کا بیج اس نے خود بکھیرا۔ روزانہ زمین کو دیکھنے جاتا کہ پودے نکل رہے ہیں یا نہیں۔ پھر ایک دن قدرت کو معمولی بیجوں سے پودے تخلیق کرتے اس نے خود دیکھا۔ جس دن اس نے زمین کا سینہ چیر کر سر نکالتے پودے دیکھے تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اچھلتا کودتا گھر پہنچا اور اپنی ماں کو بتایا کہ جو بیج میں نے بویا تھا اس سے فصل اگ رہی ہے۔ واقعی انسان اپنے لگائے پودے کو پروان چڑھتا دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ بہرحال پودے تھوڑے بڑے ہوئے تو لڑکے نے کھاد بکھیری اور ساتھ ہی فصل کو پانی دیا۔ پانی لگانے کے بعد تھکاوٹ تو پہلے جیسی ہی ہوئی مگر اب کی بار اُگتی فصل دیکھ دیکھ کر اسے خوشی ہوتی۔ فصل کو ایک دو دفعہ مزید پانی لگایا گیا اور آخر باجرے کے پودے قدآور ہو گئے۔ جب ہوا سے پودے جھومتے تو لڑکا بھی ان کے ساتھ خوشی سے جھومتا۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر فصل کو دیکھا کرتا۔ اسے یقین ہی نہ آتا تھا کہ جو چھوٹے چھوٹے بیج اس نے بوئے تھے، ان سے اتنے قد آور پودے بن گئے ہیں۔ اس کو اس سارے کام میں اتنا مزہ آیا کہ اس نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کئی دفعہ خود اپنے ہاتھوں سے فصل کاشت کی۔ ہر دفعہ بیج سے پودے کی تخلیق اسے خوش کرتی۔ وہ خدا کی قدرت پر حیران ہوتا کہ کیسے مٹی سے رزق پیدا ہوتا ہے۔ مٹی کے ساتھ مٹی بن کر رزق کی تلاش اسے بہت سکون دیتی تھی۔
پھر وہ دن آ گیا جب اس کی باجرے کی فصل پک کر تیار ہو گئی۔ لڑکے نے اپنے دوستوں کی مدد سے کٹائی کی۔ دانوں کو بھوسے سے علیحدہ کیا اور باجرہ ریڑھے پر لاد کر منڈی بھجوا دیا۔ خود باپ کے ساتھ منڈی پہنچا۔ جب آڑھتی نے پیسے لڑکے کے باپ کی طرف بڑھائے تو انہوں نے لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے دو۔ لڑکے کو عجیب سی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسی خوشی کہ جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ کیونکہ وہ پیسے تب کے پندرہ سالہ پاکستانی لڑکے اور آج کے ایک سافٹ ویئر اور ویب ڈویلپر، ایک اردو بلاگر یعنی راقم الحروف (ایم بلال ایم) کی پہلی کمائی تھی۔
😯 واہ 😛
لو جی مجھے تو عنوان پڑھتے ساتھ ہی شک ہوگیا تھا کہ آخر میںاپنا بندہ ہی نکلنا ہے 😀
بہت اعلیٰ
بلال صاحب! یہی وجہ ہے کہ اس مقام پر ہیں۔ کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کیا جاسکتا ہے۔بہت خوب!
نامی کوئی بغیر مشقت نھیں ہوا
سو بار عقیق کٹا تب نگیں ہوا
لا جواب بلال صاحب
بہت اعلیٰ
بہت خوب جی ، مطلب پچپن سے ہی تخلیق کار ہیں ، ماشاء اللہ
واہ جی واہ ماشاءاللہ
مجھے پہلے ہی معلوم تھا ایسے کام کوئی اردو بلاگر ٹائپ بندہ ہی کر سکتا ہے۔
ماشاءاللہ بھائی بہت خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیر بلال صاحب،
اسلام وعلیکم
کیا بات ہے آپ کی میں تو آپ کے فن کی جتنی بھی داد دوں کم ہے،کیونکہ آپ جیسے لوگوں سے یہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے اور علم کی دنیا میں نئی نئی معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میں آپ کے اس مضمون کی جتنی بھی تعریف کروں کم ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
واسلام۔
اسی لئے کہتے ہیں ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات ۔ اور ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
آپ نے مجھے اپنا بچپن یاد کرادیا۔ میں 9 سال کا تھا جب میں نے بغیر کسی کی مدد یا پوچھے کے چاول پکائے تھے باسمتی پرانے جو بالکل صحیح پکے ۔ میں اپنی والدہ کو پکاتے دیکھتا رہتا تھا ۔ میں 12 سال کا تھا کہ میں نے کمرہ بند کر کے گھر کا ریڈیو چالو کیا جسے کچھ روز قبل ریڈیو مکینک نے ناقابلِ مرمت قرار دیا تھا ۔ میں 13 سال کا تھا کہ والد صاحب کا بائیسائیکل پرزہ پرزہ کر کے اوورہال کیا اور جوڑ دیا ۔ میں 16 سال کا تھا تو ایک کرسٹل ریڈیو بنایا جس پر صرف ایک سٹیشن سُنا جاتا تھا ۔
واہ چوہدری صاحب
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
دو سال صحافت کی وادی پرخار میں گزارنے کے بعد دل تو یہی کرتا ہے کہ گاوں جا کرکھیتی باڑی کی جائے۔ صورتحال وہی ہے جب گلیڈی ایٹر فلم میں رومن بادشاہ نے جنگ جیتنے کے بعد سپہ سالار سے پوچھا کہ مانگو کیا مانگتے ہو۔ سپہ سالار نے جواب دیا مجھے گھر بھجوا دیا جائے۔ بادشاہ نے قدرے حیرت سے پوچھا گھر جا کر کیا کرو گے؟؟ سپہ سالار کا جواب تھا کھیتی باڑی۔
کھیتی باڑی سے تخلیق کے عمل کا سرا پھوٹتا ہے۔ آج بھی دنیا کی تاریخ کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ جب انسان نے کھیتی باڑی سیکھی تو دربدر گھومنا چھوڑ کا شہر بسانا شروع کر دئیے۔ اور پھر معاملہ چل نکلتا ہے۔
سبحان اللہ، ما شا اللہ ، الحمد للہ ۔۔۔ میں اسے ایک دلچسپ کہانی کی طرح پڑھتا جا رہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ نہ جانے آخر میں اس ضدی بچے کی اس ضد کا کیا نتیجہ نکلا ہو گا کہ اچانک جب اس کہانی کی آخر میں پہنچا تو کرنٹ سا لگا اور انتہائی مسرت بھی ہوئی کہ آخر وہ ضدی اور دھن کا پکا بچہ اپنا بلال ہی نکلا شاباش بیٹا شاباش اللہ تمھیں دن دگنی رات چوگنی ترقیاں نصیب فرمائے اور اللہ کرے اسی طرح آگے بڑھتے رہو ۔ میرے بڑے بیٹے کا نام بھی بلال ہے اور وہ بھی اپنی ہر ضد منوا کے رہتا ہے سرکار ی ملازمت کے ساتھ ساتھ سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر کا کام بھی کرتا ہے اللہ کرے وہ بھی آپ کی طرح مثبت کاموں میں اپنی ضدیں پوری کرتا رہے اور اللہ سے دعا ہے کہ دنیا کے سارے بلالوں کو حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کی طرح ایمان اور عمل والی زندگی میں بھی پکا ٹھکا فرما دے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
آمین
Nice bhai
خوب لگن کی سُنائی
تو گویا اب اس بات کی امید رکھی جائے کہ زمینداروں کے لئے اردو سافٹ وئیر آئیں گے ؟
بہر حال انسان کی اور مٹی کی محبت عجب ماجرا ہے ۔ ۔ ۔ کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
بھائی بلاگ کا مضمون ہی بتا رہا تھا کی آخر میں آپ ہی نکلیں گے
بہر حال تحریر بہت عمدہ ہے ماشاء اللہ اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کی اگر انسان یہ سوچ لے کی مجھے کرنا ہی ہے تو پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت اسے نہیں روک سکتی ساری مخلوق مل کر اس کا ساتھ دیتی ہے۔ آکر میں دعا گو ہیں کہ اللہ ہمارے بھائی کو دن دونی رات چو گنی ترقیات سے نوازے۔ آمین ثم آمین
بلال بھائی، کمال ہی کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا خوبصورت آپ بیتی ہے۔ ایک ایک لمحہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ بہت خوبصورت تحریر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش آپ کو کوئی ایوارڈ دے سکتا 🙁 لیکن بس ڈھیر ساری دعائیں آپ کے لیئے۔ واقعی ہی جو مزہ اپنے ہاتھوں لگائے پودے کے پھل دار ہونے کا آتا ہے اس بات کو اور اس تحریر کو وہی درست محسوس کر کے پڑھ سکتا ہے اور پڑھ کے محسوس کر سکتا ہے جس کا ذاتی تجربہ ہو۔
ماشاء اللہ بہت اعلٰی او ر خوبصورت تحریر:::::::::::::::: ہمیشہ کی طرح۔
ویسے تو بلال بھائی آپ بہت ساری خوبیوں کے مالک ہیں، لیکن کہانی لکھنے، اور سسپنس کے بھی عادی ہیں۔ ماشاء اللہ ۔ بہت خوب لکھا، وطن کی مٹی، اور پھر زمیندار گھرانے سے تعلق، سونے پر سہاگہ۔ انسان کا مٹی سے جتنا رشتہ مضبوظ ہوتا ہے۔ وہ محبت کے رس کا زیادہ محسوس کرتا ہے ۔ اور آپکی تحریروں میں وہ مٹھاس موجود ہے، جس سے آپکے اخلاص اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔
پہلی کمائی ایک خوبصورت تحریر، ماشاٰ اللہ ، اللہ پاک آپکو اپنی حقیقی تعمتوں اور خوبیوں سے نوازے۔
۔{ہمیشہ رب کی مہربانیاں رہیں }۔
شروع میں تو یہ ایک عمومی فرضی کہانی ہی لگی تھی مگر یہ تو حقیقت نکلی۔ بہت خوب۔انداز تحریر نہایت عمدہ اور پر اثر ہے۔ اللہ آپ کے قلم اور تحریر میں اور توانائی عطا کرے آمین
بھت ھی زبردست جناب، مزا ھی ا گیا۔
خوبصورت تحریر!
گلاب کے پھول قلموں سے لگا کر اور چیسٹ ٹری بیبی سے بڑا درخت دیکھنے میںمجھے بھی بہت خوشی محسوس ہوئی تھی۔ زمین سے ہی ہم آئے ہیںاور اسی میں ہم واپس چلے جائیںگے، زمین سے باہر صرف افسانے اور خواب ہیں ابھی تک۔ اگلی صدیوں میںشائد یہ بات بدل جائے۔
جی بلال بھائی اس سے ایک بات تو طے ہے کے انسان محنت سے ہر چیز حاصل کر سکتا ہے۔ اور میں نے اس بات کو ہزاروں دفع آزمایا ہوا ہے۔ میں نے کئی دفع اپنی محنت سے ناممکن کو ممکن بنایا ہے۔ اور جب آپ محنت سے کوئی چیز حاصل کر لیتے ہو تو یقینآ بحت خوشی ہوتی ہے۔
جی اپ کو سیلیوٹ ھے۔
میں خود 15 سال کا تھا جب پی ٹی سی ایل میں ملازم ہو گیا 16 سال کی عمر میں صرف 4 گھنٹے سونا اور چالیس کلو میٹر سائیکل روزانہ کا معمول بن گیا جون کے روزے رکھے اور دوپہر کو کم از کم 8 کیلو میٹر سائیکل چلا کر دفتر پہنچتا رہا۔ پھر میں نے ایف ایس کر لی اس کے بعد بی اے میتھمیٹیکس اے بی میں پھر بی بی اے نمایاں پوزیشنز میں اس دوران ائی سی ایم کا ایک سمیسٹر بھی پڑا۔ایم اے پولٹیکل سائنس میں اپئر ہوا لیکن مکمل نہیں کیا کہ ایم بی اے میں داخلہ ہو گیا تھا اسی دن بیٹے کو سکول داخل کروایا جس ایم بی اے میں داخلہ ہوا۔ میں اپنا ایم بی اے مکمل نہیں کر سکا لیکن جس دن بیٹے کا سوفٹ ویئر انجنیئرنگ میں داخلہ ہوا میں قبل از وقت ریٹائر ہو چکا تھا لہزا اس کے کہنے پر کمپوٹر سائینس میں آ گیا اور ورچوئل یونیورسٹی سے ویب ڈویلپمنٹ کے شارٹ کورسز کئے اور تمام عرصہ بیٹے کا اسسٹنٹ بنا رہا ۔ اب وہ سرگودھا یونیورسٹی سے گولڈ میڈیلسٹ ھے اس کے پاس دو نیشنل پوزیشنز ہیں ۔ ہم نے مل کر ایک سوفٹ ویئر ہاؤس بنایا ہے جسے لاہور کی ایک یونیورسٹی نے انکوبیٹر کے لئے منتخب کر لیا ھے۔ اب میں اپنا ایم بی اے مکمل کرنے کا بھی سوچ رہا ہوں۔ تو میرے سے زیادہ اپ کی محنت کا قدر دان کون ہو گا اپ کے والدین یقینا۔ تو اپ کی عظمت کو سلام۔
بہت عمدہ بلاگ ہے۔ سبق آموز ، دلچسپ اور ٹودی پوائنٹ ۔ ویل ڈن بلال۔ اللہ آپ کی تحریر میںبرکت ڈالے اور مزید پزیرائی بخشے ۔ آمین۔
بہت بہترین!
اسی بحر کی موجوں کے اضطراب کی دعا اقبال مانگتے رہے،
جسے آج کا نوجوان عیش و آرام اور سہل پسندی کی طرف مائل ہیں۔
میری دعا ہے کہ پاکستان کا ہر نوجوان اسی جذبہ کے ساتھ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھے۔ منزل اسکی تلاش میں خود چلی آیئگی۔
Very Impressive and very thought provoking well versed and well written…. Good Job Bilal Keep going, I downloaded this programme and was reading its details and how to use it and saw first earnings, Mashallah its really a good post and reminded me and many peoples their struggles they
made for reaching their goals, its in fact a very good post…. God Bless you always
اسلام و علیکم
بہترین جناب مجھے تو یہ ایک انٹرسٹنگ اسٹوری لگی تھی .ایک ضدی بچے کی ضد کا نتیجہ جاننے کے بعد بے حد خوشی ہو ئی .
آللہ تعالٰی آپکو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کرے…….
آمین
لاجواب 🙄
App ke ye azam o hoslay sey bhurpoor threer perh ker bohat aucha luga Allah app ko zin ko zindagi mey you hi kamiyabiyoon sey nawazey . Ameen
بہت خوب 😆
ہم جیسے نکموں کے لئے ایک نایاب تحریر ہے ۔ ۔ جب بھی پڑھتا ہوں ۔ ۔ اک نیا ولولہ /حوصلہ پیدا ہوتاہے ۔ ۔
اللہ آپ کو سدا خوش رکھے ۔ ًآمین ۔ ۔
ماشاءاللہ مزا آگیا۔
واہ بلال بھائی بہت خوب!آپ کی تحریر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا آپ کا انداز بہت ہی سادھا اور حقیت سے قریب تر ہے لکھتے رھیے الّلہ آپ صحت تندرستی اور درازی عمر عطا کرے آمین
بہت اچھی، دل چسپ اور متاثر کن تحریر ہے۔
اللہ کرے آپ اسی طرح کامیابیاں سمیٹتے رہیں
سادہ انداز میں لکھی گئ اس کہانی نے کافی متاثر کیا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔۔
السلام علیکم بلال بھائی!
اللہ پاک آپ کو مزید کامیابیاں عطا فرمائیں، آپ دن دگئی اور رات چوگنی ترقی کی منازل طے کریں۔ آمین۔
ماشاءاللہ! بہت خوب لکھا ہے اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلی کمائی بہت اہم ہوتی ہے۔ ہے نا!
ماشاءاللہ کیا بات ہے بلال بھائی آپ کی۔
مجھے یقین ہے کہ ایک دن آ ئیے گا جب کسان گھر بیٹھے سوفٹویئر کے زریعے کیھتی باری کر رہے ہوں گے۔اور اس سوفٹویئر کے بانی بلال بھائی ہوں گے