ثمر نالہ سے ہم صبح تقریباً نو بجے مزید سفر کے لئے نکل پڑے۔ یہ 30 جون 2012ء کا دن تھا۔ ہماری بائیں جانب دریائے سندھ تھا۔ اب پہاڑوں سے سبزہ غائب ہو چکا تھا، سوکھے اور ہیبت ناک پہاڑ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ دریا کنارے کسی کسی جگہ پر ریت موجود تھی جو یہ بتا رہی تھی کہ پچھلے سال دریا کا پانی یہاں تک پہنچا تھا اور یہ ریت دریا کی باقیات میں سے ہے۔ کئی جگہ پر تھوڑی ریت تھی تو کئی جگہوں پر زیادہ اور ایک ایسی جگہ آئی جسے دیکھتے ہوئے سلیم نے کہا وہ دیکھو ”بریتے کا سمندر“۔ ہمارے ادھر گجرات میں دریائے چناب میں جہاں پر درمیان میں ریت ہو اور اس کی اطراف میں پانی ہو تو اس ریت کو لوگ ”بریتا“ بولتے ہیں۔ سلیم نے یہی لفظ دریائے سندھ کے کناروں پر موجود ریت کے لئے استعمال کیا۔
دونوں طرف پہاڑ، ایک پہاڑ کے ساتھ دریائے سندھ اور دوسرے کے ساتھ سڑک، سڑک اور دریائے سندھ کے درمیان جب ریت آتی تو ایک جگہ پر ہی کئی ایک علاقے جمع ہو جاتے۔ عظیم شاہراہ، چھوٹا سا ریگستان، دریا اور پہاڑ۔ آخر ہم اس منظر کے ہاتھوں مجبور ہو ہی گئے۔ یوں ہم نے پہاڑوں کے دامن میں، دریا کنارے بریتے کے سمندر میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ جب گرم ریت سے گزر کر دریا کے کنارے پہنچے تو ٹھنڈے پانی نے بہت لطف دیا۔ جلال والے ہیبت ناک پہاڑوں کی موجودگی میں دریا کنارے ریت کے ساتھ پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھر نہایت خوبصورت اور معصوم لگ رہے تھے۔ ان میں سے کئی تو فروزہ و یاقوت کی مانند معلوم ہوتے تھے بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے یہ نظام شمسی میں تیرتے ہوئے سیارے ہیں۔ مجھے پتھروں کی خوبصورتی پر ترس اور ان کی مظلومیت پر غصہ آنے لگا۔ اتنے خوبصورت پتھر تھے، مگر دریا کے رحم و کرم پر کبھی کہیں آباد ہوتے تو کبھی دریا انہیں بہاتا ہوا کسی اور نگر لے جاتا۔ جہاں دریا انہیں چھوڑتا یہ وہیں پر ڈیرے جما لیتے اور پھر دریا کے رحم و کرم کے انتظار میں رہتے۔ اگر یہ بھی پہاڑوں کے دیگر پتھروں کی طرح متحد ہو جاتے تو ایسی چٹان بنتے کہ دریا اپنا رستہ بدلنے پر مجبور ہو جاتا۔ ہم میں سے کوئی پتھروں کی خوبصورتی دیکھنے لگا تو کوئی ریت پر موجود لہروں میں ڈوب کر دریا کا نظارہ کرنے لگا۔
ہم مزید سفر کے لئے چل پڑے۔ آگے ایک جگہ شتیال اور پھر دیا میر بھاشا ڈیم کا علاقہ دیکھا، جہاں پر کام اتنے ”زور و شور“ سے ہو رہا تھا کہ وہاں نہ تو ڈیم کا کوئی نام و نشان تھا اور نہ ہی بندہ نہ بندے کی ذات تھی۔ بس ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا۔ بورڈ پڑھا تو دوست ادھر ادھر نظریں دوڑانے لگے کہ آخر کوئی چھوٹی موٹی کمپنی نما چیز ہی نظر آ جائے مگر جب کچھ نظر نہ آیا تو ایک دوست بولا، آنکھیں بند کر کے دیکھو گے تو نظر آئے گا کہ ڈیم مکمل بن چکا ہے، مشینیں تیار ہیں بس ان سے پولی تھین اتارنی ہے، سرخ فیتہ کٹنا ہے اور پھر بجلی ہی بجلی۔۔۔ تھوڑا آگے گئے تو ویرانے میں ایک بندہ پولیس یونیفارم میں کھڑا تھا اور اس نے ہمیں روکا۔ گاڑی آہستہ کی ہی تھی کہ بندہ بولا کیا آپ کے پاس نسوار ہے؟ معذرت کی اور چلتے بنے۔ یہ دور تک پھیلا ویرانہ اور بیچارے کے پاس نسوار نہیں تو کیسے جیئے گا؟ 🙂
خیر ہر تھوڑے وقفے کے بعد کچھ نیا ہی دیکھنے کو ملتا۔ سوکھے پہاڑوں کے دامن میں ایک وسیع و عریض وادی آ گئی۔ پہاڑ دور ہٹ گئے اور شاہراہ قراقرم دور تک نظر آنے لگی۔ سیدھی سڑک دیکھ کر ڈرائیور نے بھی کچھ رفتار بڑھائی۔ بچارہ بڑی دیر سے پہاڑوں کی بھول بھولیوں میں آہستہ آہستہ گاڑی چلا رہا تھا۔ اگر آپ نے ہندی فلم ”تھری ایڈیئٹس“ دیکھی ہو تو اس کے آخر پر جہاں وہ لداخ پہنچتے ہیں تو وہاں پر جو نظارہ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح کا نظارہ ہم دیکھ رہے تھے۔ باہر کے نظارے بھی ویسے ہی تھے اور گاڑی کے اندر کا ماحول بھی کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا، بس فرق یہ تھا کہ ہمارے ساتھ کرینہ کپور نہیں تھی۔ 🙂
یہاں پر زیادہ تر پہاڑ تھے تو سوکھے اور چٹیل مگر کئی جگہوں پر چھوٹے چھوٹے سرسبز علاقے آتے۔ جو ریگستان میں نخلستان جیسے معلوم ہوتے۔ ایک نخلستان جو کے دریا کے اس پار تھا۔ میں نے وہاں جانے کی خواہش ظاہر کی مگر ”اتفاق رائے“ نے میری خواہش کی بینڈ بجا دی۔ سلیم نے کہا چل یار پریشان نہ ہو ”واپسی“ پر دیکھ لیں گے۔ ہم دوستوں نے جس چیز کو نہ دیکھنا ہو اس کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ چل یار ”واپسی“ پر دیکھ لیں گے، اور پچھلے کئی سالوں سے ہر دفعہ واپسی پر ٹیکسلا عجائب گھر جو دیکھ رہے ہیں۔ 🙂
اس دن ہم تازہ دم تھے تو یار دوست عجب عجب تماشے کرتے۔ یوں تو ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو الٹے نام سے نہیں بلاتا مگر پتہ نہیں عبدالرؤف کو کیا ہوا کہ یک دم زور سے چیخا ”او عباسیاااااا“۔ جواب میں عباس نے بھی کیا خوب کہی ”روفیاااا، ی ی ی ی ی۔۔۔۔دے آ، کی تکلیف ای؟
اتنا سنا ہی تھا کہ میں نے سوچا پتہ نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے جو اتنی اونچی اور عجب گفت و شنید کر رہے ہیں۔ لگا کہ بس ابھی ہی گاڑی رکے گی اور ہم انہیں چھڑا رہے ہوں گے۔ مگر جب ان کے چہروں کی دیکھا تو اندازہ ہو گیا کہ ایسا کچھ نہیں۔
او عباسیاا اے مینوں چھیڑ دے نیں۔ (یہ مجھے چھیڑ رہے ہیں)
روفیااا کھا خسماں نوں۔ آپ ای بھگت۔ میں پٹھا لٹک کے آرام پیا کرنا واں (بھاڑ میں جاؤ اور خود ہی بھگتو، میں الٹا لٹک کر آرام کر رہا ہوں۔)
ویسے اس وقت عباس عجیب حرکتیں کر رہا تھا۔ پوری سیٹ پر لیٹ کر ٹانگیں گاڑی کی چھت سے لگا کر، پیروں کو کچھ اس طرح حرکت دے رہا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا جیسے گاڑی کی چھت کے ساتھ چپک کر چل رہا ہے۔ ویسے ان دونوں (عباس اور عبدالرؤف) نے پورے ٹور پر کافی تماشے کئے۔ اگر یہ تماشے نہ کرتے تو اشفاق (شاقی) جو اس سفر پر ہمارے ساتھ نہیں تھا اس کو ہم اور بھی زیادہ یاد کرتے۔
سفر جاری رہا اور تقریباً دن بارہ بجے کے قریب ہم ”چلاس“ پہنچے۔ سلیم نے کہا جب میں آٹھ نو سال پہلے ادھر آیا تھا تو چلاس سے آگے ٹیلی فون کی سہولت مشکل سے ہی ملتی تھی۔ بے شک اب کی بار چلاس میں موبائل کے سگنل آ رہے ہیں، مگر پھر بھی احتیاطً تمام لوگ اپنے اپنے گھر فون کر کے بتا دیں کہ آج کے بعد ہو سکتا ہے چار پانچ دن تک رابطہ نہ ہو۔ سب کی طرح میں نے بھی چند ضروری فون کیے، مگر دوسروں سے الٹ میں یہ دعا کر رہا تھا کہ آگے وادیوں میں موبائل کے سگنل نہ ہی آتے ہوں تو اچھا ہے۔ جب سے سفر شروع ہوا ہے تب سے میں اپنے بھائی کو ایس ایم ایس کر کے کچھ ایسے اطلاع دیتا تھا ”یار ہم فلاں جگہ پہنچے ہیں اور یہاں بھی سنگل۔۔۔۔۔ آ رہے ہیں“۔ جواب میں بھائی کہتا کہ ”فکر نہ کریں، جلد ہی یہ سگنل جان چھوڑ جائیں گے“۔ ایک تو میں گرمی کے جن سے بھاگ کر سکون سے سیروتفریح سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا اور دوسرا میرا خیال ہے کہ جہاں یہ جدید ٹیکنالوجی پہنچتی ہے وہاں کی وادیوں کا حسن برباد ہو جاتا ہے، جیسا کہ ناران کاغان کے ساتھ ہوا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم ناران سے جھیل سیف الملوک تک بہت مشکل سے پہنچے اور پھر وہاں پر کیمپنگ کی۔ صبح اٹھے تو ہمارے اور جھیل کے درمیان کوئی نہیں تھا۔ مگر اب سنا ہے کہ جھیل سیف الملوک پر ہوٹل بن گئے ہیں، سڑک بن رہی ہے اور جلد ہی کاریں جھیل کنارے ہوں گیں۔ افسوس صد افسوس۔ ایک دفعہ آواز دوست والے شاکر عزیز نے اردو محفل پر ذکر کیا تھا کہ مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ”سیف الملوک اب پاکباز نہیں رہی طوائف بن گئی ہے۔ لوگوں نے اس کے ارد گرد دکانیں سجا رکھی ہیں۔ اس کا پانی بھی گدلا ہوتا جارہا ہے اور اس میں پہاڑوں کا عکس نہیں کوکا کولا اور پیپسی کے خالی ڈبے تیرتے ہیں۔“ میرے خیال میں تارڑ صاحب ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کی نظر میں ایسا نہ ہو مگر مجھے تو جھیل میں چلتی ہوئی کشتیاں گدھوں کی مانند لگتی ہیں جو جھیل کی خوبصورتی کو نوچ نوچ کر کھا رہی ہیں۔
خیر اب کی بار ہم شاہراہ قراقرم پر سفر کرتے ہوئے چلاس پہنچ چکے تھے۔ گاڑی رکی، کچھ کھانے پینے کو لیا، سب نے فون کیے اور سلیم نے مقامی لوگوں سے چلاس سے بابوسر ٹاپ کے رستے کے بارے میں معلومات حاصل کی، وہ کیا ہے کہ ہم چاہتے ہیں واپسی پر چلاس سے بابوسرٹاپ کے رستے وادی ناران کاغان میں اتر کر واپس جایا جائے۔
ویسے پچھلے تھوڑے عرصہ میں تو چلاس کے حوالے سے کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہیں جیسے سنی شیعہ فسادات، مگر ان سے پہلے بھی لوگوں نے چلاس کے بارے میں کوئی اچھے تاثرات پیش نہیں کیے تھے۔ اس لئے سلیم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اگر مجبوری ہو تو چلاس میں رک جاؤ ورنہ یہاں نہ رکنا ہی بہتر ہے۔ اس لئے ہم بس چند منٹ ہی یہاں رکے اور چلتے بنے۔
اگلا حصہ:- تتا پانی اور جنت کی چوکھٹ رائے کوٹ – پربت کے دامن میں
جہاں ان تصویروں میں حسن ہے وہاں کچھ کچھ ہیبت بھی محسوس ہورہی ہے
کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا کچھ تھا ؟
آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ کئی جگہوں پر تو یہ عجب عجب رنگت کے چٹیل پہاڑ بہت ہیبت ناک ہو جاتے تھے۔
موبائل تو اب”سوست” تک کام کرتا ہے جو شمال میں پاکستان کا آخری گاؤں ہے اور جہاں امیگریشن آفس ہے۔
بہتر۔ ویسے تو یہ اچھی بات ہے اور اس سے وہاں کے لوگوں کے لئے کافی آسانی ہوئی ہے، بس مجھے سیروتفریح کرتے ہوئے اس سے تھوڑی الجھن ہوتی ہے۔ اس لئے اب کی بار میں نے اسے بند ہی کر دیا۔
واہ ماشاء اللہ بہت خوبصورت علاقہ جات ہیں۔ تصاویر میںہی اتنے پیارے لگ رہے ہیں تو رئیل میں کیسے ہونگے۔
بلال بھائی مزید کا انتظاررہے گا
پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ ویسے ایک بات یاد رکھئے گا کہ تصاویر میں ایک خاص منظر ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں تمام اطراف نظر آتی ہیں تو اس سے علاقے کی کچھ ایسے پہلو واضح ہوتے ہیں جن سے خوبصورتی تھوڑی متاثر ہوتی ہے۔ بہرحال خوبصورتی انسان کے اپنے اندر ہوتی ہے اور یہ علاقے سونے پر سہاگہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
بہت خوبصورت مقامات ہیں۔ واقعی اللہ نے ہمیں اتنی پیاری نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اس رب کریم کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے
وعلیکم السلام
واقعی ہمارا پاکستان بہت خوبصورت ہے۔ بس اگر یہاں کا نظام بھی خوبصورت ہو جائے تو پھر اس کی برابری کا ملک دنیا میں کوئی کوئی ہی ہو گا۔
دلچسبی جوں جوں بڑھ رہی ہے قسط چھوٹی ہوتی جا رہی ہے کیا یہ آپ کی سوچی سمجھی سازش ہے۔میاں مان کہ ہم ویلے ہیں پر ویلوں کو بھی سو کام ہوتے ہیں مہربانی فرما کر قسط تھوڑی لمبی کریں اور پینڈا کھچ کے رکھیں
حضرت قسط تو پہلے سے تھوڑی لمبی ہے بس آپ کی دلچسپی زیادہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی محسوس ہو رہی ہے۔ بہرحال میں کوشش کرتا ہوں کہ ایک تو قسط لمبی کروں اور دوسرا جلدی جلدی شائع کروں۔