مئی 16, 2013 - ایم بلال ایم
15 تبصر ے

گھوسٹ ویلیج – سن الیکشن کمیشن

اللہ کے نام سے ابتدا، جو مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ وہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

یہ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کوئی ”ہیر“ سنانے نہیں جا رہا، بلکہ کروڑوں روپے کھا کر ووٹر فہرست تیار کرنے اور شفاف الیکشن کا نعرہ لگانے والوں کو ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ کہانی تو بہت پہلے سے چل رہی ہے مگر آپ کو وہاں سے سناتا ہوں جہاں پر راولپنڈی سے زید کا فون ہمارے حلقے (NA-104) کے ایک امیدوار کو آتا ہے۔ زید کہتا ہے کہ ہم گجرات شہر (NA-105) کے رہنے والے تھے لیکن کافی عرصے سے راولپنڈی منتقل ہو چکے ہیں۔ میں نے 8300 پر میسیج کر کے اپنا ووٹ چیک کیا ہے۔ راولپنڈی تو دور ہمارے آبائی شہر گجرات میں بھی ہمارا ووٹ نہیں بلکہ یہ آپ کے حلقے (NA-104) میں جا بنا ہے۔ ہمارا پولنگ اسٹیشن کوئی ”سُن“ نامی علاقہ ہے، جس کا اسٹیشن نمبر 196 ہے۔ میں الیکشن کمیشن کے دفتر بھی گیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ میں پاکستان کا شہری ہوں اور ووٹ دینا چاہتا ہوں۔ مجھے بتاؤ کہ یہ پولنگ اسٹیشن کہاں ہے مگر انہیں خود نہیں مل سکا تھا تو اب میں نے آپ سے رابطہ کیا ہے۔ ہمارے امیدوار نے زید کو جواب دیا کہ اس طرح کے کاموں کو بلال بھائی دیکھ رہے ہیں، وہ خود آپ سے رابطہ کرتے ہیں۔ آخر میں نے زید سے رابطہ کیا۔ سُن نامی اس گاؤں کی تلاش میں کبھی فہرستیں دیکھتا تو کبھی نقشے، اور تو اور گوگل ارتھ کی مدد بھی لی۔ آخر کار ایک پرانے نقشے میں دریا کے کنارے ایک چھوٹا سا نشان مل گیا جس پر سُن لکھا تھا۔ فوراً زید کو بتایا کہ میں نے آپ کا پولنگ اسٹیشن ”دریافت“ کر لیا ہے۔ وہ بہت خوش ہوا۔

دیگر کام کاج کے ساتھ ساتھ یہ سب کرتے ہوئے رات کے دس بج گئے اور اگلے دن الیکشن تھا۔ اچانک خیال آیا کہ ایک دفعہ سُن کے اردگرد کے علاقے سے اس گاؤں کی معلومات لے لینی چاہئے۔ جب چند لوگوں کو فون کیا تو پتہ چلا کہ اس نام کا کوئی گاؤں ہے ہی نہیں۔ اسی دوران ایک پرانے بابے سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ اس نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا مگر کافی عرصہ پہلے وہ سیلاب کی نذر ہو گیا تھا۔ میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ یاخدا! جس نام کا گاؤں اب سرے سے موجود ہی نہیں پھر وہاں پر 507 ووٹ کہاں سے آ گئے؟ یہ جو لسٹ میں لکھا ہے کہ پولنگ اسٹیشن گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول سُن میں بنے گا، اگر گاؤں نہیں تو سکول کہاں سے آ گیا؟ انہیں باتوں کے جواب کے لئے اس پولنگ اسٹیشن کے پٹواری سے رابطہ کیا۔ پٹواری صاحب کا کہنا تھا کہ میں خود ریٹرننگ آفیسر کے دفتر میں بیٹھا ہوا ہوں اور اس سُن پولنگ اسٹیشن کے لئے نہ تو ابھی عملہ ملا ہے اور نہ ہی دیگر سامان۔ جیسے ہی کچھ بنتا ہے تو آپ کو بتاتا ہوں۔ رات کے بارہ بجے دوبارہ پٹواری سے رابطہ ہوا، تو اس نے کہا کہ اس اسٹیشن کی پولنگ فی الحال ملتوی کر دی گئی ہے۔

دوسری طرف جب زید کو اس بات کی خبر پہنچی تو وہ غصے میں آ گیا اور کہنے لگا کہ یہ کہاں کا انصاف ہے، اول تو غلط جگہ ووٹ کا اندراج کرتے ہیں اور پھر بھی ایک پاکستانی وہاں پہنچ کر ووٹ دینا چاہتا ہے تو پولنگ ملتوی۔ بقول زید: اس نے گجرات کے ڈی پی او کو فون کر کے ساری کہانی سنائی۔ ڈی پی او نے سختی کی اور صبح کے قریب پولنگ کا عملہ اور دیگر سامان جاری کر دیا گیا۔ زید کو پولنگ اسٹیشن کے پریذائیڈنگ آفیسر کا نام اور نمبر تک دیا گیا تاکہ اسے فون کر کے پولنگ کا مقام جان سکے۔ زید خوشی خوشی اپنے خاندان یعنی اپنی بیوی، ماں اور بیٹے کو لے کر ووٹ دینے نکلا۔ تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گجرات کے قریب پہنچ کر پریذائیڈنگ آفیسر سے دوبارہ رابطہ کیا اور پوچھا کہ کدھر آؤں؟ آفیسر نے کہا کہ گجرات سے 50کلومیٹر دور ہیڈ مرالہ کے راستے دریا کو عبور کرو اور فلاں فلاں جگہ پر آ جاؤ۔ زید نے مجھے فون کر کے ہنسی خوشی بتایا کہ جی آخر ہم ووٹ دینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ساتھ ہی ”خان زندہ باد“ کا نعرہ لگایا۔ زید کی بات سے مجھے تجسس ہوا، کیونکہ ہمارا حلقہ تو دریا کی اِس طرف تک ہے اور دریا کے اُس پار تو دوسرا حلقہ اور ضلع ہے۔ میں نے زید کو کہا کہ ٹھہر جاؤ، ذرا مجھے تحقیق کر لینے دو۔ میں نے چند لوگوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اب سُن کا رقبہ چونکہ دریا کے اُس پار نکل آیا ہے، لہٰذا پولنگ اسٹیشن بھی اُس پار ہی کہیں روڈ پر کیمپ لگا کر بنے گا۔ جب مختلف افسران نے اس بات کی تصدیق کی تو میرا شک دور ہو گیا۔

زید نے بتایا کہ جب دریا کے پار پہنچا اور پریذائیڈنگ آفیسر سے رابطہ کیا کہ کیمپ کدھر لگایا ہے۔ آفیسر نے کہا کہ فلاں طرف آؤ۔ زید جب وہاں پہنچا تو ادھر کچھ نہیں تھا۔ دوبارہ پوچھا تو آفیسر نے کہا کہ او ہو تم غلط طرف چلے گئے بیس کلومیٹر واپس آؤ۔ جب زید واپس آیا تو پھر بھی کچھ نہ ملا تو آفیسر نے کہا کہ او ہو تم اب غلطی سے دائیں مڑ گئے تھے، تھوڑا پیچھے جاؤ اور بائیں مڑو۔ ایسے کرتے کرتے زید کافی خجل خراب ہوا لیکن ہمت نہ ہاری۔ اب جو بات ہے وہ ذرا قابل غور ہے۔ آخر پریذائیڈنگ آفیسر نے کہا کہ تمہیں ووٹ دینے کا بڑا چاؤ چڑھا ہے۔ آؤ بیلے (دریا کے کنارے وسیع و عریض ویران علاقہ) میں تمہارا ووٹ بڑی اچھی طرح کاسٹ کرواتا ہوں۔ یہ سن کر زید کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے فوراً مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے اسے کہا کہ کسی محفوظ مقام پر ٹھہرو۔ ابھی سکیورٹی پہنچ جائے گی کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس کا بڑا اچھا انتظام کیا ہوا ہے۔ زید نے کہا کہ بلال بھائی کونسا الیکشن کمیشن اور کونسی سکیورٹی؟ بھائی میرا خاندان ساتھ ہے اور میں کسی قسم کا کوئی رسک نہیں لے سکتا۔ میرا موبائل نمبر اور تو اور گاڑی کا نمبر تک ان لوگوں کو پتہ چل چکا ہے لہٰذا میں فوراً سے پہلے اس علاقے کو چھوڑ رہا ہوں۔ اب جو کرنا ہو گا وہ الیکشن کے بعد کریں گے۔ میں نے مختلف افسران سے رابطے کیے اور انہوں نے کہا کہ زید کو کہو کہ بس دو منٹ ٹھہرے، ہم اس دھاندلی کو بے نقاب کرتے ہیں۔ زید ڈر چکا تھا اور کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا، اس لئے اس نے رکنے سے انکار کر دیا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ زید نے اچھا کیا جو رُکا نہیں۔ بہرحال ہم نے اس چیز کی اطلاع فافن (FAFEN) سے لے کر الیکشن کمیشن اور دیگر تمام متعلقہ اداروں تک پہنچا دی، لیکن۔۔۔

خیر زید ووٹ دیئے بغیر اپنے گھر راولپنڈی واپس چلا گیا اور ہمارا سارا دن الیکشن کمیشن کی دیگر خرابیاں دیکھتے، ان پر بحث کرتے، ان کو رکواتے اور دیگر بھاگ دوڑ میں نکل گیا۔ الیکشن اختتام ہوا تو میں اس سُن گاؤں کی کھوج میں نکلا۔ اس گاؤں کی کوئی آبادی نہیں اور نہ ہی یہ وجود رکھتا ہے۔ جب گاؤں ہی نہیں تو پھر وہ سکول جہاں پولنگ اسٹیشن بننا تھا وہ کہاں سے آ گیا؟ اس گاؤں کی ووٹر لسٹ میں لوگوں کے جو پتے درج ہیں وہ سب کے سب گجرات شہر اور اس کے گردونواح کے ہیں جبکہ سُن گاؤں کا ایک بھی پتہ نہیں۔ ویسے بھی پتہ تو تب ہی ہو گا جب کوئی گاؤں ہو گا۔ جب گاؤں ہی نہیں تو پتہ کہاں سے آئے۔ میری تحقیق کے مطابق سُن نامی اس گاؤں کی ووٹر لسٹ میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنا آبائی علاقہ (گجرات شہر) چھوڑ کر کہیں جا چکے ہیں۔ ایسے لوگوں کی معلومات جمع کر کے انہیں ایسے دیہاتوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے، جو سیلاب کی زد میں آ کر اپنا وجود کھو چکے ہیں۔ مزے کی بات ہے یہ کہانی آج کی نہیں بلکہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ کب کی شروع ہوئی ہے اور ایک بڑی سازش کے تحت اس طرح کے ”گھوسٹ ویلیج“ بنائے گئے ہیں۔ آپ نے گھوسٹ سکول کا ذکر تو سنا ہو گا اب میری چھوٹی سی تحقیق کے بعد گھوسٹ ویلیج کے مزے بھی لوٹیں۔ پتہ نہیں ایسے کتنے گاؤں ہیں جن کے ووٹ کہیں بھی بیٹھ کر کاسٹ کر کے نتائج بدلے جا سکتے ہیں۔ عوام سوچتے ہیں کہ دھاندلی کے بس روائتی طریقے ہی ہیں مگر میں حیران ہوں کہ یہاں پورے کے پورے ”گھوسٹ ویلیج“ بن چکے ہیں۔ جہاں گھوسٹ ویلیج بن سکتے ہیں وہاں پر گھوسٹ ووٹ بنانا کوئی مشکل نہیں۔ چار لاکھ ووٹوں کے حلقے میں دس بیس ہزار گھوسٹ ووٹ بنا بھی دیئے جائیں تو کس کو کیا پتہ چلنا ہے۔ پاکستان کے اتنے اہم ضلع میں ایسے کارنامے سرانجام دیئے جا رہے ہیں تو ذرا سوچیں! دوردراز کے دیہاتی علاقوں میں کیا کیا گل کھلائے جا رہے ہوں گے۔

میرا الیکشن کمیشن سے سوال ہے کہ جب لوگوں کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ گجرات شہر (NA-105) کا ہے تو پھر گھوسٹ ویلیج جو کہ NA-104 میں بنایا گیا ہے، ان لوگوں کو اس کھاتے میں کس خوشی میں ڈالا گیا؟ ہم مان لیتے ہیں کہ غلطی سے ہوا ہے لیکن حضور پورے علاقے کے ایسے گھرانے جو دوسرے شہروں یا ملکوں میں جا چکے ہیں خاص انہیں ہی چن چن کر ایسی غلطی کیوں کی گئی؟ اگر آپ نے پرانی فہرستیں ہی دوبارہ سیدھی کی ہیں تو پھر وہ نئی کمپیوٹرائزڈ فہرستیں کہاں گئیں جن کو تیار کرنے کے لئے غریب عوام کے کروڑوں روپے ہضم کیے تاکہ الیکشن شفاف ہوں؟

پہلے موبائل سے ایس ایم ایس کے ذریعے ووٹ اور پولنگ اسٹیشن معلوم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا اور میرا خیال ہے کہ وہ لوگ جن کو گھوسٹ ویلیج کے کھاتے میں ڈالا گیا تھا، جب وہ اپنے آبائی علاقوں میں ووٹ کاسٹ کرنے آتے اور فہرست میں اپنا نام نہ دیکھ کر چپ ہو جاتے ہوں گے کہ اس دفعہ ووٹ نہیں بنا چلو اگلی دفعہ سہی۔ کسی کی جانے بلا کہ انہیں گھوسٹ ویلیج میں ڈال دیا گیا ہے۔ اگر کسی نے اپنا ووٹ بنوایا بھی تو گھوسٹ ویلیج کے ساتھ ساتھ اصل ووٹ بھی بنا دیا گیا ہو گا۔ اب جب نظام کمپیوٹرائزڈ کر کے دوہرے ووٹ ختم کیے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے اصل پتے کے ووٹ کو کیوں ختم کیا اور گھوسٹ ویلیج والا کیوں برقرار رکھا؟ جب کوئی گاؤں ہے ہی نہیں تو پھر انتخابی فہرستوں کی تصدیق کرنے والوں نے کہاں سے تصدیق کی؟ ادھر سکول بھی نہیں تو پھر الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول سُن کو پولنگ اسٹیشن بنایا؟ آخر یہ اور اس جیسے دیگر گھوسٹ ویلیج کس کے لئے، کب سے اور کیوں تیار کیے گئے ہیں؟ جناب والا! سوال تو بہت پیدا ہوتے ہیں، فی الحال الیکشن کمیشن صرف ان کے جواب عنایت فرما دے تو کافی ہو گا کیونکہ باقی شفاف الیکشن کی گولی کھا کر سونے والے الیکشن کمیشن کو جلد ہی الیکشن 2013ء کی مزید خرابیاں گنواؤں گا۔

یوں تو تحریر میں ثبوت کے طور پر سُن گاؤں کی پوری تفصیل لکھی ہے۔ ایک دفعہ پھر لکھ دیتا ہوں۔ یہ گھوسٹ ویلیج NA-104 میں ہے۔ الیکشن 2013ء میں اس کا پولنگ اسٹیشن نمبر 196 اور شماریاتی بلاک کوڈ 171121003 ہے۔ اس میں کل 507 ووٹ ہیں، جن میں سے 283 مردوں کے اور 224 عورتوں کے ہیں۔ ووٹ کاسٹ کرنے کے خواہش مند ایک پاکستانی کی وجہ سے اس چھوٹے سے گھوسٹ ویلیج کی حقیقت سامنے آئی ہے۔ پتہ نہیں مزید ایسے کتنے گاؤں ہیں جن کے ووٹ اندر کھاتے کاسٹ کر کے نتائج تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ سوچنے والی بات ہے کہ ایسی فہرستوں کے پیچھے وہ کونسا ہاتھ ہے جو ہر الیکشن پر اپنا کردار ادا کر جاتا ہو گا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 15 تبصرے برائے تحریر ”گھوسٹ ویلیج – سن الیکشن کمیشن

  1. بلال بھائی یہ کہانی اس بار چلی ہے۔ اس بار نیا کام شناختی کارڈ لے کر لوگوں سے پانچ پانچ سو ہزاز ہزار میں ووٹ ڈالے گئے اور جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے گاؤں کے حلقے میں جہاں کسی نے 60 ہزار سے زیادہ ووٹ کبھی نہیں لیے ایک 90 ہزار ایک 50 ہزار اور ایک 40 ہزار لے گیا۔
    اور یہ فیک پولنگ والی کہانی بھی بالکل درست ہے ۔ باقی جہاں تک بات ہے الیکشن کمیشن کی تو سب ملے ہیں جس کا جہاں زور لگا اس نے وہاں میلہ لوٹا۔
    اب ہفتہ ہونے کا ہے ابھی تک چند جگہوں کا رزلٹ نہیں آیا۔ لاہور میں جھنگ میں ڈی جی خان میں پنڈی میں کتنی دیر لگنی ہے بلا لیں میڈیا کو ، وکیلوں کو دونوں پارٹیوں کو اور ووٹ گن لیں دو گھنٹے میں معاملہ صاف۔
    لیکن معاملہ صاف کرنا چاہتے ہوں نہ تب ہی۔
    جیسے کراچی میں سارے چیخ رہے ہیں دھاندلی ہو گئی ایک الیکشن کمیشن کو ہی پتہ نہین چل پارہا
    برداشت کریں جی دعا کریں اگلی سلیکشن میں آپ کے پسند کے امیدوار کا نام آ جائے :mrgreen:

  2. کراچی والے کا طرز گفتگو پنجاب میں: تمہیں ووٹ دینے کا بڑا چاؤ چڑھا ہے۔ آؤ بیلے (دریا کے کنارے وسیع و عریض ویران علاقہ) میں تمہارا ووٹ بڑی اچھی طرح کاسٹ کرواتا ہوں۔
    بلال بھائی، اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو، اپنے خیال رکھیئے گا۔ ۔

  3. اسی قسم کی لیکن بالکل مخالف صورتحال 2010 کے سیلاب کے دوران بھی ہوئی تھے۔ پاکستانی فوج پاکستان سروے کے نقشہ جات کی معلومات لے کر مختلف دور دراز علاقوں میں پہنچی جہاں پر آبادی کے نام و نشان کی امید نہیں تھی تو وہاں چھوٹے چھوٹے گاؤں موجود پائے اور کافی ساری جگہوں پر جہاں آبادی کی موجودگی کی امید لے کر گئے تو وہاں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ کچھ اس اور کچھ اور وجوہات کی بنا پر پھر گوگل سے بھی نقشہ جات حاصل کئے گئے تھے۔

    تو اصل مقصد کہنے کا یہ ہے کہ نظام اتنا زیادہ حد تک خراب ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے میں کئی سال گزر جانے ہیں لیکن وہ بھی تب جب ٹھیک کرنے کا آغاز ہو جائےتو۔۔ یہاں تو عوام ذہنی طور پر اتنی محدود ہو گئی ہے کہ ماسوائے روزمرہ اشیاء کے علاوہ کسی بارے سوچتی نہیں ہے۔۔ اللہ ہدایت دے۔

  4. پنجاب میں جن دوستوں و رشتے داروں سے سوال کیا کہ کیا دھاندلی ہوئی تو اکثریت نے اس کے نہ ہونے کا دعوی کیا!!

    مگر چند ایک کہہ رہے ہیں کہ جی ہوا! اور اپ نے ایک الگ کہانی سنائی!

  5. السلام و علیکم ، جناب بلال صاحب !
    آپ نے اس بلاگ میں جو اپنا پولنگ اسٹیشن نمبر (196) لکھا ہے یہ غلط ہے۔ آپ کے شماریاتی بلاک کوڈ 171121003 کے مطابق آپ کا ووٹ حلقہ قومی اسمبلی 104 گجرات-1 کے پولنگ اسٹیشن نمبر 206، بمقام: گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول سُن میں رجسٹر ہے۔ یہ پولنگ اسٹیشن کمبائنڈ ہے یعنی مرد اور عورت ووٹرز کے لیے !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!

    1. وعلیکم السلام!
      محترم میرے پاس جو الیکشن کمیشن کی فہرستیں ہیں اور خاص طور پر نتائج کی فہرست میں بھی اس پولنگ اسٹیشن کا نمبر 196 ہی ہے۔ ویسے جس پولنگ اسٹیشن کی فہرست سے آپ چیک کر رہے ہیں وہ بھی میرے پاس ہے اور اس میں 206 ہی ہے۔ یہ 206 والی فہرست غلط ہے۔ آپس کی بات ہے کہ شروع میں ہم اسی فہرست کے مطابق چل رہے تھے جبکہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو غلط ہے۔

  6. اسے کہتے ہیں تحقیقی بلاگنگ
    نتیجہ کچھ نکلے یا ناں
    آپ کی یہ تحریر نظام کی ایک ایسی کجی کا واضع ثبوت ہے
    جس کجی کا کسی بھی لکھنے والے نے اج تک ذکر نہیں کیا ہے۔
    اگر کسی زندہ معاشرے میں اس قسم کی تحریر منظر عام پر اجاتی تو ایک ترتھلی مچ جانی تھی۔
    لیکن
    مردہ معاشرے مردوں جیسا ہی ری ایکشن لیا کرتے ہیں ۔

    1. ایسی خرابی پر جب پولنگ سے پہلے ہی اتنا شور مچا دیا جائے اور ہر طرف شکایات بھیج دی جائیں تو پھر نتیجہ نہیں آتا۔ اب وہ لوگ اتنے بچے بھی نہیں۔ 🙂 خیر نتیجہ یہ ہے کہ اس پولنگ پر صرف ایک ووٹ کاسٹ ہوا اور وہ بھی آزاد امیدوار خاتون کو ملا ہے۔ 😀

  7. السلام علیکم ۔ پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاو پردہ جو اٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا اللہ میری توبہ اللہ میری توبہ
    بڑا ہی مشکل کام ہے ووٹ کی امانت کو امانت دار تک پہنجانا بے چارے الیکشن کمشن والے اکیلے کیا کر سکتے تھے۔ جیسا تیسا الیکشن کروا دیا اور جمہوری حکومت قائم ہوگئی ہے اب یہ دعا کرو کہ اللہ اس حکومت سے وہ کام لے جس کا انتظار یہ قوم گزشتہ 65 برس سے کر رہی ہے ۔ مگر ایک بات میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے کہا کرتاہو کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ہوتی ہے اور بحیثیت ایک مسلمان میرا یمان ہے اور ہر مسلمان کو اس پر یقین رکھا چاہیئے کہ ” اعمالکم عمالکم” تمہارے اپنے اعمال تمہارے حاکم ہوتے ہیں۔ اے اللہ ہم سب کے حال پر اپنا خصوصی کرم فرما دے ہمارے اعمال تو اس قابل نہیں ہیں تو ہی راہنمائی فرما اور ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے آمین۔

  8. بلال بھائی نے بڑی ہمت کی کہ اتنے بڑے فراڈ کو بے نقاب کیا دراصل تیسری دنیا کے معاملات میں مداخلت کرنا امریکہ اور یورپی یونین کی پرانی عادت ہے اور وہ ایسا ان ملکوں کے کرپٹ اور بے ضمیر سیاست دانوں کو استعمال کرتے ہوئے کرتے ہیں کیوں کہ ان ترقی یافتہ ملکوں کے پاس بہت پیسہ ہے کیوں کہ انہیں یہودی بینکوں کی سپورٹ حاصل ہے اور دوسری جانب ان غریب ملکوں کے بے ضمیر سیاست دانوں کے ضمیر بہت سستے ہیں بس پسِ پردہ راز یہی ہے

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *