بسم اللہ الرحمن الرحیم
گجرات ویسے تو کوئی بہت بڑا شہر نہیں لیکن سیاست کے حوالے سے ہمیشہ اخبار کی سرخیوں میں نمایا جگہ حاصل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ گجرات میں بہت بڑی فین انڈسٹری ہے اور نشان حیدر حاصل کرنے والوں میں سے تین کا تعلق بھی ضلع گجرات سے ہے۔ ضلع گجرات کا زیادہ رقبہ زرعی ہے اور یہاں کے دیہاتی لوگ کھیتی باڑی کے علاوہ مال مویشی بھی پالتے ہیں۔ مال مویشی عام طور پر آبادی سے دور ویرانے میں جسے مقامی لوگ ”ڈیرہ“ کہتے ہیں وہاں رکھتے ہیں اور رات کو حفاظت کے لئے کم از کم ایک بندہ ان کے پاس ضرور ہوتا ہے اور عام طور پر حفاظتی اقدام کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بندے کو اپنے پاس اسلحہ رکھنا مجبوری ہے۔ یہ تو تھا گجرات کا بالکل تھوڑا سا تعارف، اب میں اصل بات کی طرف چلتا ہوں۔
خبروں کے مطابق پچھلے دنوں گجرات میں تقریباً پندرہ ہزار (15000) ”جعلی اسلحہ لائسنس“ پکڑے گئے ہیں۔ پاکستان میں آج کل جیسی خبریں گردش میں ہیں اور اوپر سے وکی لیکس نےتو اخبار میں کوئی جگہ چھوڑی نہیں کہ جہاں کوئی اور خبر آ سکے وہاں ایک شہر کی یہ خبر عام سی بن جاتی ہے۔ ویسے بھی اعلیٰ عہدیداران کے لئے یہ خبر عام ہی ہے لیکن ان پندرہ ہزار لوگوں کے لئے یہ خبر بہت اہمیت رکھتی ہے جن کے اسلحہ لائسنس ”جعلی“ نکلے ہیں۔
ہوا کچھ یوں کہ گجرات اسلحہ برانچ کے عملے نے اسلحہ لائسنس کے ریکارڈ والے اصل رجسٹر کے علاوہ ایک علیحدہ متوازی رجسٹر بنا رکھا تھا۔ جب کوئی اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کے لئے اسلحہ برانچ جاتا تو عملہ فیس لے کر اسلحہ لائسنس کا اجرا کر دیتا اور اندراج اصل رجسٹر کی بجائے متوازی رجسٹر میں کرتا۔ جس سے ریکارڈ سرکار کی نظر میں نہ جاتا اور لائسنس کی فیس قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے عملہ خود ہضم کرتا رہا۔ فیس جمع نہ ہونے سے پنجاب حکومت کوتقریباً بارہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جب کوئی لائسنس کے اصلی ہونے کی تصدیق کے لئے اسلحہ برانچ سے رابطہ کرتا تو وہی عملہ لائسنس کے اصلی ہونے کی بھی تصدیق کر دیتا۔ اس سکینڈل کےپکڑے جانے پر پنجاب حکومت نے انکوائری بیٹھا دی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ متوازی ریکارڈ والے 15000لائسنس ”جعلی“ ہیں اور صوبائی حکومت انہیں منسوخ کر دے گی۔ اس سکینڈل کی اخباروں میں جو سرخیاں لگیں ان میں کہا گیا ہے کہ گجرات میں ”جعلی“ اسلحہ لائسنس پکڑے گئے ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ لائسنس جعلی کیسے ہوے؟ لائسنس جاری ہوئے تو حکومتی ادارے سے ڈی سی او کی مہر و دستخط کے ساتھ سرکاری ملازمین کے ہاتھوں جاری ہوئے، پیسے کھائے تو سرکاری ملازمین نے کھائے۔ اب ایک عام شہری کو کیا پتہ اور پتہ چل بھی نہیں سکتا کہ اندر کھاتے سرکاری ملازمین کیا گل کھلا رہے ہیں۔ عام شہری تو اپنے جان و مال کی حفاظت کے لئے اسلحہ کا لائسنس بنوانے سرکاری دفتر جاتا ہے، فیس ادا کرتا ہے اور لائسنس حاصل کرتا ہے۔ بعد میں حکومت اعلان کرتی ہے کہ ہم آپ کے لائسنس منسوخ کرتے ہیں کیونکہ ہم نے جو بندے لائسنس بنانے کے لئے رکھے ہوئے تھے وہ دھوکے باز نکلے اور پیسے کھا گئے ہیں۔ کوئی ان پندرہ ہزار لوگوں کو بتائے کہ ان کا اس میں کیا قصور ہے؟
اب عام شہری کہاں جائے؟ جس نے لائسنس کی تقریبا سات سے آٹھ ہزار روپے فیس ادا کی تھی، پھر ڈاکخانہ میں انداراج کروایا تھا اور پھر اس لئے اسلحہ خریدا کہ اس کے پاس لائسنس موجود ہے۔ اب فی بندے کے پاس جو واحد اسلحہ ہو گا وہ کم از کم دس ہزار روپے کا تو ہو گا۔ کئی تو اب تک دو دفعہ لائسنس کو ڈاکخانہ سے رینیو(Renew) کروا چکے ہوں گے جس کی فیس ایک ہزار روپے ہے۔ یوں ایک بندے نے تقریباً بیس ہزار خرچہ کیا ہے اور ٹوٹل تقریباً تیس کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اب حکومت اگر متوازی ریکارڈ والے لائسنس منسوخ کرتی ہے تو پھر ان لائسنس پر جاری ہونے والا اسلحہ بھی ضبط کرے گی۔ اچھا اسلحہ تو افسران پی جائیں گے اور سرکاری مال خانے کچرا ہی پہنچے گا۔ اس سب کو چھوڑ کر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں عوام کا پیسہ کون دے گا؟
ویسے اس کی بہتر صورت تو یہی ہے کہ حکومت اپنے دھوکہ باز ملازمین سے پیسا نکلوائے، متوازی رجسٹر سے اصل رجسٹر پر ریکارڈ منتقل کرے اور عام شہری کو تنگ نہ کرے کیونکہ یہ لائسنس جعلی نہیں بلکہ سرکاری ملازمین سرکار سے فراڈ کر گئے ہیں۔ اس میں ان پندرہ ہزار لوگوں کا کوئی قصور نہیں جنہوں نے اسلحہ برانچ سے لائسنس حاصل کیے تھے بلکہ ان افسران کا قصور ہے جن کے دفتر میں اتنا بڑا فراڈ ہو رہا تھا اور وہ ٹھنڈی مشینوں کے آگے بیٹھے آرام فرما رہے تھے۔ ویسے یہ فراڈ آج کل میں نہیں ہوا بلکہ پچھلے دو سال سے جاری تھا اور حکومت کو اب جا کر پتہ چلا ہے یا پھر حکومت تماشہ دیکھ رہی تھی اور اگر لائسنس منسوخ کرتی ہے تو پندرہ ہزار شہریوں کو تماشہ بنا دے گی۔
خبروں کا حوالہ
دنیا نیوز، ثناء ، شانِ گجرات (لوکل)1، شانِ گجرات (لوکل)2
درست لکھا آپ نے۔
حکومت عوام کو تنگ کرنے یا ان کے لائسنس منسوخ کرنے کی بجائے ۔۔۔ اُن سرکاری اہلکاروں اور اعلیٰ افسران کو پکڑے۔ جو اس جعلسازی میںلوث تھے۔
کیا عوام ہر لمحے پستی رہے گی؟
اسلام وعلیکم بھای صاحب کیا حال ہے میرا پہلے والا ویب لاگ ہک ہو گیا ہے اور اب نیا ویب لاگ یہ ہے آہند اس کو دیکھ لینا اور اپنے دوستوں کو ارسال کرنا
http://daaljan.wordpress.com/ دالبندین آنلاین
ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ سرکاری ملازمین میں کرپشن اپنی حدوں کو چھونے لگی ہے۔ اب وقت آ ہی گیا ہے کہ اس کے سد باب کے لیے عوام کچھ کریں۔
ہو سکتا ہے کہ اُوپر سے حکم ايسے ہی آئے جيسے آپ کہہ رہے ہيں ليکن اس پر عمل کرنے والے پھر وہی گندے انڈے ہيں ۔ جب تک عوام فيصلہ نہيں کر ليتے کہ آج کے بعد کوئی غلط کام نہيں ہونے دينا تب تک کچھ نہيں ہو پائے گا ۔ اس وقت اللہ نے موقع ديا ہے کہ اعلٰی عدالتيں درست سمت ميں جا رہی ہيں ۔ يہ وقت بھی ہاتھ سے نکل گيا تو پھر ہاتھ ہی ملتے رہيں گے
ہمارے یہاں تو “الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے” والا حساب ہے۔
کرے سرکاری اہلکار بھرے عوام۔کہاں ہیں پنجاپ کے نام نہاد “خادم اعلی” :sleep:
چلو شکر ہے انہیں نیند سے جاگنا تو نصیب ہوا
ہمارے ایک جاننے والے عموما کہتے ہیں کہ پاکستان کا قانون یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی قانون نہیں۔