ان سے ملئے! یہ ہیں چند ”نمونے“۔ صرف یہی نہیں، ان کے علاوہ دو چار اور بھی ہیں جوکہ تصویر بننے کے وقت غیر حاضر تھے۔
ایک انٹرویو میں مجھ سے سوال ہوا ”کیا آپ ایک اچھے دوست ہیں؟“
میرا جواب تھا ”یہ تو پتہ نہیں، لیکن میرے دوست بہت اچھے ہیں۔“
بس جی! بعض دفعہ جواب دینے میں انسان سے غلطی ہو جاتی ہے اور منظرباز بھی ایسی ہی غلطی کر گیا۔ اگر تصویر میں نظر آنے والے اور چند دیگر دوستوں کی بات کروں تو یہ بہت……آہو۔۔۔ اب اصل بات کہہ کر ان سے پھینٹی تو نہیں کھانی۔ ویسے بھی یہ پیٹتے کم گھسیٹتے زیادہ ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ اگر کوئی سیروتفریح کا منصوبہ بنائے تو انکار کرتے ہیں نہ اقرار۔ اکثر اوقات ایسے گھسیٹتے ہیں کہ موقع گزر جاتا ہے اور منصوبہ ناکام۔ اسی وجہ سے کئی دفعہ انہیں بتائے بغیر اکیلا ہی چل دیتا ہوں۔ تاکہ یہ گھسیٹیں نہ منصوبہ خراب ہو۔ ویسے کبھی کبھی تنہا سفر بھی کرنا چاہیئے، تنہائی بڑی اچھی ساتھی ہوتی ہے۔ خیر ایک طرف نمونے ایسا کرتے ہیں تو دوسری طرف خود گھومنے پر آئیں تو جو نہ جانا چاہے، اسے بھی گھسیٹ گھساٹ کر لے جاتے ہیں۔ اوپر سے ظالم سکون سے سونے بھی نہیں دیتے۔ اب ایسا ہے کہ دریائے چناب کنارے جانے کے لئے میرا گھر ان کے رستے میں پڑتا ہے اور جب ادھر کے ارادے ہوں تو فون کرتے ہیں اور اگر میں موصول نہ کروں تو سمجھ جاتے ہیں کہ سویا ہو گا۔ بس پھر ظالم آتے ہیں اور زبردستی اٹھاتے ہیں۔ میں دل میں گالیاں دیتے اور آنکھیں ملتا ملتا دروازے پر جاتا ہوں۔ سلام نہ دعا، مکمل ہوش میں بھی آنے نہیں دیتے اور فوراً بولتے ہیں ”چلو شاباش! جلدی جلدی منہ دھو کر آؤ۔“ عموماً میں کہتا ہوں ”مجھے تھوڑا وقت لگے گا۔ آپ چلو، میں بھی پیچھے پیچھے پہنچتا ہوں“۔ دل ہوتا ہے کہ یہ جائیں تو دوبارہ سو جاؤں۔ بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔ لیکن ظالم سماج کی اپنی ہی منطق ہے اور گھسیٹنا تو جیسے ان پر فرض ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے ایسے دوست آخر بنائے ہی کیوں؟ تو اس کا جواب وہی ہے کہ بس جی انسان سے غلطی ہو ہی جاتی ہے۔
بہرحال مذاق ایک طرف، درحقیقت میرے دوست واقعی بہت اچھے ہیں۔ آسانیوں میں تو سبھی دوست ہوتے ہیں لیکن ”نمونے“ مشکلوں میں بھی میرے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ میری تلخ باتوں، کمیوں اور کوتاہیوں کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کی فون کالز موصول نہ کروں تو غصہ نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک طرف جدید سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی کوشش میں ہوتا تو دوسری طرف اپنے تئیں کچھ حدود کا بھی قائل ہوں۔ ورنہ یہ جدید ٹیکنالوجی تو جان سولی پر لٹکائے ہے، موبائل فون نامی تلوار تو ہر وقت سر پر لٹکے اور دوگھڑی کی زندگی بھی عذاب بنائے۔ میں بے جا فون کالز سے دور بھاگتا ہوں۔ اسی لئے اکثر اوقات موبائل خاموش پڑا رہتا ہے۔ فون کالز موصول نہ کرنے پر تو میرے کئی رشتہ دار تک ناراض ہو جاتے ہیں۔ لیکن دوست حالات سمجھتے ہیں، ڈانٹ تو لیتے ہیں مگر ناراض نہیں ہوتے۔ آخر ”نمونے“ جو ہوئے۔ ہرگز نہیں کہتا کہ میں درست ہوں۔ مانتا ہوں کہ جو میری حرکتیں ہیں ایسا اگر ایک دو بار ہو تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے، لیکن جب اکثر ایسا ہونے لگے تو لوگ تنگ آ جاتے ہیں اور یہی کہتے ہیں ”چھوڑو! دفع کرو۔ یہ تو اس کا آئے روز کا تماشا ہے“۔ مگر یہ میرے دوستوں کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ ایسا نہیں سوچتے اور آج تک مجھے برداشت کر رہے ہیں۔ اے میرے ظالم دوستو! تم جیو ہزاروں برس۔ میری کئی بہاریں تمہاری وجہ سے ہیں۔ بس مجھے برداشت کرتے رہنا، کیونکہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ میں سدھر جاؤں گا تو آپ کو غلط لگتا ہے۔ آخر میں بھی آپ کے جیسا ہی نمونہ ہوں۔
اب ایسا بھی نہیں کہ میں کوئی تیس مار خاں، باقیوں سے اعلیٰ یا منفرد ہوں، جس کی وجہ سے سارے مجھے برداشت کرتے ہیں۔ حالانکہ سارے خود ایک سے بڑھ کر ایک ”نمونے“ ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کوئی تاجر ہے تو کوئی فیکٹری کا مالک، کوئی سرکاری افسر ہے تو کوئی پروفیسر اور کوئی میرے جیسا بھی ہے کہ جس کی جیب میں بعض اوقات دس روپے بھی نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ۔ سیانے کہتے ہیں ”اونٹوں والوں سے یاری لگاؤ تو دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں“۔ یعنی جیسے دوست بناؤ خود بھی ویسا ہونا پڑتا ہے۔ جبکہ ہمارے معاملے میں ایسا کچھ نہیں۔ ہم نے اونٹوں والوں سے یاری تو لگائی، مگر دروازے اپنے قد کے مطابق ہی رکھے۔ اب یہ یاروں کا کمال ہے کہ وہ ”یار نگری“ کے دروازے سے باہر ہی اونٹ باندھ کر نگری میں داخل ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے برابری کی سطح پر ملتے ہیں۔۔۔ ویسے کہیں نمونوں کی زیادہ تعریف تو نہیں ہو گئی؟ او ہو۔۔۔ اگر ایسا ہے تو پھر سنیں یہ سارے بہت……آہو۔۔۔ میں بولا تو بات دور تلک جائے گی۔ اب رہنے ہی دیں، میرا منہ نہ کھلوائیں۔ اور یہ جو انہیں ہزاروں برس جینے کی دعا دی تھی، وہ قبول ہو چکی ہے کیونکہ سنا ہے ”مگر مچھوں“ کی عمر بہت لمبی ہوتی ہے۔
بہرحال ابھی سب کا فرداً فرداً تعارف نہیں کراؤں گا۔ دراصل اگر یوں تعارف کرانے بیٹھوں تو کئی صفحات کالے کرنے پڑیں گے۔ کیونکہ یہ سارے اپنے آپ میں الگ الگ ہی دنیا بلکہ کائنات ہیں۔ ابھی تو بس اجتماعی صورتحال بیان کرنا مقصود ہے۔ ویسے سب کے نظریات ملتے ہیں نہ سوچ، نہ کام کاج۔ مگر پھر بھی سارے اچھے دوست ہیں۔ نمونے جو ہوئے۔ دراصل سارے یہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ ہم انسان ہیں اور خطاؤں کے پتلے ہیں۔ کوئی بھی سوفیصد درست نہیں ہوتا، اس لئے ایک دوسرے کی خطاؤں پر درگزر کرنا چاہیئے۔ ہماری دوستی کی کامیابی اس میں ہے کہ ہم مخالف نظریات کو صرف برداشت ہی نہیں بلکہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا رنگ رنگ کی ہے، یہاں کوئی بھی نظریہ پایا جانا کچھ انوکھا نہیں اور نظریاتی اختلاف پر دوریاں ہرگز نہیں ہونی چاہئیں۔ ہمارے دوستوں کی اس بات سے اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو مسئلہ نہیں۔ نمونوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔
ہم سب یار دوست تقریباً روزانہ شام کو مل بیٹھتے ہیں۔ شغل میلہ لگاتے ہیں۔ مذہبی، سیاسی، سائنسی، ادبی، کاروباری اور دنیا کے ہرہر موضوع پر گپ شپ اور بعض دفعہ تو بحثیں کرتے اور خوب جم کر کرتے ہیں۔ گوکہ ہمارے درمیان بھی ایسے نمونے ہیں، جو بحث کرتے ہوئے یہی سوچتے ہیں کہ دوسرا جائے تو جائے کہاں۔ لیکن اکثریت ایسی ہے کہ جب کسی کے دلائل کمزور پڑنے لگتے ہیں تو اسے زچ کرنے کی بجائے اکثر اوقات سہارا دیا جاتا ہے۔ یوں ماحول متوازن سا ہو جاتا ہے۔ اس سب کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپس میں کوئی لڑائی نہیں ہوتی۔ خطاؤں کے پتلے ہیں تو یہ خطا بھی کبھی کبھار ہو جاتی ہے۔ لیکن اِدھر لڑائی اُدھر صلح صفائی۔ ویسے نظریاتی بحث وغیرہ پر لڑائی ہرگز نہیں ہوتی اور سیاسی پر تو بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ سبھی بیک وقت ”نونیئے، انصافیئے اور تحریکیئے“ وغیرہ ہیں۔ سمجھنے والے سمجھ جائیں اور باقی برداشت کریں۔ ویسے ہم دوستوں میں ایسا کوئی بھی نہیں کہ جس کا ”بھٹو“ ابھی تک زندہ ہو۔ ہوتا بھی تو ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ اب ان باتوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ اب یہی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے انسان اور پھر کچھ اور۔ کیونکہ ”رب دِلاں وچ رہندا“۔
خیر۔۔۔ میں تو ٹھہرا فری لانسر، اس لئے ہر روز کام اور ہر روز ہی چھٹی ہوتی ہے، لیکن جب سب کو چھٹی ہوتی ہے تو ہم کہیں گھومنے نکلتے ہیں۔ اکثر چناب کناروں پر پائے جاتے ہیں یا پھر کسی بھی علاقے کی طرف، فطرت کی کھوج میں نکل جاتے ہیں۔ یہ تصویر بھی ایسے ہی گھومتے پھرتے دریائے چناب کے کنارے بنائی تھی۔ تصویر دیکھ کر یہ نہ سمجھیئے گا کہ ہم کوئی زبردست قسم کے ”بائیکرشائیکر“ ہیں۔ درحقیقت یہ تو جیسی راہیں ویسی سواری والا معاملہ ہے۔
ہر کسی کی زندگی میں دکھ، تکالیف اور مشکلات ہوتی ہیں۔ اور نہیں تو غمِ روزگار جیسی بلا منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے۔ بس جی! رب کا خصوصی فضل ہے جو اس نفسانفسی کے عالم میں بھی ہماری موجیں لگی ہوئی ہیں اور غم چھپائے بیٹھے ہیں۔ ہو سکے تو دعا کیجیئے گا کہ یہ یاریاں تادیر سلامت رہیں۔ ورنہ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ وقت بدلتا ہے، ترجیحات بدلتی ہیں اور لوگ بدلتے ہیں۔ کوئی جیتا ہے، کوئی مرتا ہے۔ اک ”چلوچلی“ کا میلہ ہے۔ سدا وقت ایک سا نہیں رہتا۔ میاں محمد بخشؒ عارفِ کھڑی فرماتے ہیں کہ
سدا نہ باغیں بلبل بولے، سدا نہ باغ بہاراں
سدا نہ ماپے، حسن جوانی، سدا نہ صحبت یاراں
yar is yar
thanks