یہ کونسی سنسان جگہ ہے؟ نہ روشنی، نہ رونق؟ ہر چہرہ مرجھایا ہوا ہے؟ ہر کسی کو اپنی ہی پڑی ہے؟
یہ سوال میرے لئے پہلے اتنے عجیب نہ تھے کیونکہ میں انہیں میں رہا۔ روز دیکھتا روز سنتا۔ لیکن کل شائد کوئی ایسا خواب دیکھا تھا۔ جس نے مجھے یہ سوال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ حقیقی دنیا کچھ اور نظارہ پیش کرتی تھی جو کہ اب بھی ہے۔ لیکن خواب اتنا سہانا تھا کہ کیا بتاؤ۔ خواب میں ہوا کچھ یوں کہ جس طرف دیکھا چراغاں تھا۔ گھر، بازار، گلیوں، محلوں اور شہروں کو لوگوں نے سجا رکھا تھا۔ کئی ایسی جگہ بھی دیکھیں جہاں لوگوں کا گزر کم ہوتا تھا لیکن وہاں بھی لائٹوں کی بھر مار تھی اور ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔ روشنیوں کی وجہ سے کئی گھر ایک بلب جیسے چمک رہے تھے۔ گلیوں کی مکمل صفائی کی گئی تھی بلکہ کئی گلیوں میں بڑے خوبصورت ریشمی کلین بھی بچھائے گئے تھے۔ ہر چہرے پر رونق تھی۔ لوگ خوشی سے جھوم جھوم کر نعرے لگا رہے تھے۔ خوشی کا اظہار کرنے کے لئے کئی لوگوں نے اپنی سائیکل، موٹر سائیکل، گاڑی غرض جو جو جس کے پاس تھا اسے مختلف جھنڈیوں اور جھنڈوں سے سجایا ہوا تھا۔ ایک جشن کا سما تھا۔ ایک عجیب سی چہل پہل تھی۔ رونقیں ہی رونقیں تھیں۔
پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ دنیا اپنا اصل رنگ دیکھانے لگی۔ کل خواب میں جہاں رونقیں ہی رونقیں تھیں، آج وہاں پھر خواب سے پہلے جیسی حالت تھی۔ وہی سنسان گلیاں جہاں اندھیرے اپنے رنگ جمائے ہوئے تھے۔ وہی فقیر مانگ رہے تھے۔ وہی غریب لوگ روٹی کی تلاش میں در در بھٹک رہے تھے۔ وہی غریب کا بچہ کھیل کود اور سکول جانے کے دنوں میں مزدوری کر رہا تھا۔ بازاروں میں تاجر گاہکوں کو جھوٹ بول بول کر اور قسمیں کھا کھا کر اپنا مال فروحت کر رہے تھے۔ خواب میں جہاں ہر چہرہ پُر رونق تھا، حقیقت میں وہی چہرے اداسی کی داستانیں سنا رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر مجھے اپنا خواب بہت عجیب لگا اور میں اپنے خواب کے بارے میں تحقیق کرنے لگا تو سب سامنے آیا اور پتہ چلا کہ یہ میرا خواب نہیں تھا بلکہ کل 12 ربیع الاول کا دن تھا۔ جس دن ہر سال مسلمان بھائی پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی ولادت کی خوشی میں جشن مناتے ہیں۔ اپنے رب تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ملنے پر شکر ادا کرتے ہیں اور وہ سب کرتے ہیں جو میں نے دیکھا۔ یہ سب دیکھ کر، سن کر اور محسوس کر کے مجھے بڑی حیرانی ہوئی اور میں یہ سب لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ مسلمان یہ تو مانتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت ہیں، مگر یہ کیا بات ہوئی کہ اتنی بڑی نعمت کی خوشی صرف ایک دن؟ سال میں صرف ایک دن بھلائی کے کام کئے اور پھر بس (اللہ اللہ تے خیر سلا)۔ ایک دن اتنی روشنی کر دی کہ باقی سال وہی اندھیرے۔ ایک دن میں اتنا مال خرچ کر دیا جو کسی خاص کام نہ آیا اور باقی سال پھر وہی غربت۔ دوستو! یہ کیسی خوشی ہے؟ یہ کیسا جشن ہے؟
ہونا تو یہ چاہیئے کہ جب بھی توفیق ہو اسی وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے آؤ کچھ ایسا کرتے ہیں جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر سارا سال بلکہ ہر لمحہ ادا کریں۔ آؤ حضورﷺ کی ولادت کی خوشی سارا سال منائیں، جس سے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا میں رونقیں ہی رونقیں ہوں۔ ایک دن میں بہت زیادہ بلب لگانے اور بجلی پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ ایک بلب گلی میں لگا دیا جائے جو سارا سال کام کرے اور راہگیروں کا بھلا ہو۔ بہت زیادہ جھنڈوں پر کپڑا لگانے سے بہتر ہے کہ کسی غریب کو لباس سلوا دیں تاکہ وہ گرمی و سردی سے محفوظ رہ سکے۔ایک دن میں بہت زیادہ پٹرول لگانے سے بہتر ہے کہ کسی غریب طالب علم کا سکول آنے جانے کا بندوبست کر دیں۔ ایک دن میں لوگوں کو پکڑ پکڑ کر دودھ پلانے سے بہتر ہے کہ غریب کے معصوم بچے کے لئے پورے سال کے دودھ کا بندوبست کر دیں۔ ایک دن میں بہت زیادہ محنت کر کے گلی صاف کرنے سے بہتر ہے کہ روز مرہ کے کوڑے کرکٹ کا مناسب انتظام کریں۔ ایک دن گلیوں میں قالین بچھانے سے بہتر ہے کہ درس گاہ میں طالب علموں کے بیٹھنے کا انتظام کر دیں۔ ایک دن ہی بہت زیادہ کام کرنے سے بہتر ہے کہ روز کا کام روز کریں۔ ایک دن مسجد کو سجانے بہتر ہے کہ پورا سال باقائدگی سے نماز پڑھیں۔ ایک دن حضرت محمدﷺ کی ولادت کی خوشی منانے سے بہتر ہے کہ ہر وقت ولادت کی خوشی مناتے ہوئے ان کی تعلیمات پر عمل کریں اور ہر لمحہ خدا کا شکر ادا کریں۔ جب ہم مندرجہ بالا اور دیگر اپنی ذمہ داری کے کام کریں گے اور اس سے کسی انسان کا بھلا ہو گا تو سوچو! اس انسان پر اسلامی تعلیمات کا کیا اثر پڑے گا۔ جب نبی ﷺ کی ولادت کی خوشی کی وجہ سے ایک غریب کی زندگی آسان ہو گی تو سوچو! وہ نبی ﷺ سے کیسی محبت کرے گا؟
میرے مسلمان بھائیوں ذرا غور کرو، اسلامی تعلیمات کو سمجھو اور جو اسلام کہتا ہے وہ کرو۔ ویسے کیسی عجیب بات ہے کہ ہم مسلمانوں نے کرنا کچھ اور تھا مگر کر کچھ اور رہے ہیں۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اسلامی تعلیمات اپناؤ اور باقی دنیا کے لئے روشنی کی کرن بنو تاکہ ہر دن 12 ربیع الاول کا دن ہو اور ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں۔
نوٹ:- یہ ضروری نہیں کہ آپ میرے نظریات سے اتفاق کریں مگر یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ بحث برائے بحث کریں۔ ہو سکے تو بحث برائے تعمیر کریں تاکہ مجھے بھی علم مل سکے۔
گانا بجانا ، ناچ ، بے پردگی ، اسراف ، فضول خرچی ، پیٹ ٹھونس کر کھانا ، ، ھم کیسے مسلمان ھیں ؟ کیا ھمارے نبی نے ان باتوں سے منع نہیں کیا تھا ؟
اے میرے بھائیو کتاب اللہ سے رہنمائی حاصل کرو اور شیطان کے راسطے پر مت چلو کہ وہ تمہارا ازلی دشمن ھے
سید محمد حنیف شاہ صاحب تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔ یقینا ہمیں کتاب اللہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے اور شیطان کے راسطے پر نہیں چلنا چاہئے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو سیدھے راستے پر چلائے۔۔۔آمین
بہت خوب! اللہ تعالی آپ کو اور ہم سب کو عید میلاد کی حقیقی خوشی کا ادراک عطا فرمائے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
سیف صاحب یہاں تشریف لانے اور تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو عید میلاد کی حقیقی خوشی عطاء کرے اور ہمیں سیدھے راستے پر چلائے۔۔۔آمین
السلام علیکم ۔
بلال بھائی بہت اچھا لکھا آپ نے
سعود تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔
اللہ تعالٰی آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین
اللہ تعالئ ھمیں ایسا کرنے کی توفیق دے۔سب سے پھلے مجھے۔۔
اللہ تعالی ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےسچی عقیدت اور ان کی اتباع کامل نصیب فرمائے
جہاں تک میرا خیال ہے وہ یہ کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی قلبی ہوتی ہے اس میںان اسراف اور خرافات کو شامل کرنا غالبا اسلام کی تعلیم نہیںہوسکتا ۔کیونکہ تاریخمیں اس بات کا ذکر کہیںنہیںملتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں یا آپ کے بعد خلفاراشدین کے عہد میں اس کو اس طرز پر ’’منایا ‘‘ گیا ہو ۔بلکہ اسلام کی اصل تعلیم یعنی اتباع نبوی پر زیادہ زور دیا جاتا تھا آج ہم نے اتباع کو خیر باد کہہ کر ان باتوں سے دل بہلانا شروع کردیا ہے ۔اللہ ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اتباع نصیب فرمائے
بلال بھائی مضمون بڑا عمدہ لگا , انداز بیان بڑا لا جواب تھا , اللہ تعالى ہم سب مسلمانوں کو نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کرنےکی توفیق عطا فرمائے آمین, اللہ کا ارشاد ہے(قل ان کنتم تحبون اللہ فالتبعونی یحببکم اللہ ) اے نبی آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے سچی محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرےگا, آج مسلمانوں نے غیروں کی روش کو اختیار کرکے اسلام کی سچی تعلیمات کو بھلا دیا سچ فرمایا نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے : لتتبعن سنن من کان قبلکم شبرا بشبر, کہ تم ضرور بہ ضرور اپنوں سے پہلوں کی پییروی کروگے …. یقینا آج مسلمانوں نے نصارى کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نبی کی برتھ ڈے منانی شروع کر دی جو حقیقت میں نہ صرف غیروں کی اتباع ہے بلکہ ان کی مشابہت بھی ہے(من تشبہ بقوم فہو منہم) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہے,اللہ ہمیں قرآن وسنت کو صحیح طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائےآمین.
علی محمد صاحب ! میلاد النبی منانے میں اگر عیسائیوں سے مشا بھت کی وجہ سے مسلمانوں کو آپ عیسا ئی کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں تو اپنے ایمان کی فکر بھی کریں کیو نکہ یہ کمپیو ٹر بھی انھوں نے بنایا اور استعمال کیا ـ اور آپ اس کو استعمال کر کے عیسائیوں کی مشا بھت سے اپنی دلیل کی زد میں آ گے ہیں ـ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجہ عطا قرماےء امین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔۔۔۔۔۔ “ھر دن 12 ربیع الاول ہو” لاجواب تحریر تھی۔
دعا ہے کہ اللہ پاک اچھا مسلمان بننے کی توفیق دے ۔ اٰمین
Bohat Acha Blog he bilal bhai.
بہت اچھا لکھا بھائی آپ نے ۔ آپ کی تحریریں پڑھکر میںآپ کا فین ہوتا جارہا ہوں۔ ۔ آپ کے خیالات اور انکو بیان کرنے کا انداز بہت پسند آیا۔ دراصل ہم مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں کے خوشی کے حقیقی معنی کیا ہیں۔ بس دوسری قوموں کی تقلید کو ہی اصل دین سمجھ بیٹھے ہیں۔ خوشی کے اظہار کے لئے آپ نے جو جو طریقے تجویز کئے ہیں وہ بہت اچھے لگے ۔۔ اللہ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے ۔ ۔ آمین ۔۔
آج کل دین بھی تجار ت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ لوگ وہ نیک کام زوروشور سے کرتے ہیں جن میںنمود و نمائش اور دنیاوی منافع زیادہ ہوتا ہے۔ دین جوں جوں پرانا ہوتا جاتا ہے لوگوں کی عبادت میں کمی آتی جاتی ہے ۔ عیسائی مذہب میںآج کل گرجے اتوار کو بھی نہیںبھرتے۔ یہ لوگ صرف کرسمس منا کر اپنی عبادت سے فارغ ہو جاتے ہیں۔
یہی حال اب مسلمانوں کا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ پانچ وقت کی نماز کو چھوڑ کر جمعہ پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔ اس کے بعد جمعہ کی اہمیت بھی ختم ہو جائے گی اور صرف عیدین رہ جائیں گی۔ نبی پاک صلعم کی سالگرہ بھی نمائشی نیکیوں میں سے ایک ہے۔ ہمارے خیال میںسنیوں نے شیعوں کے محرم کے جلوسوں کے توڑ کیلیے بارہ ربیع الاول کے جلوس نکالنے شروع کیے ہیں۔
جب لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ مناتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ بدعت ہے اور عیسائیوں کی نقل ہے تو پھر نبی پاک صلعم کی سالگرہ کیسے جائز ہوئی۔
ہمارا بارہ ربیع الاول سے اختلاف صرف اتنا ہے کہ لوگ بہت زیادہ فضول خرچی کرتے ہیں۔ اگر یہی رقم کسی جائز مقصد کیلیے استعمال کی جائے تو بہت ساری خلق خدا کا بھلا ہو جائے۔
کیا کسی کو معلوم ہے کہ اور کون کونسے مسلم ممالک میںبارہ ربیع الاول کو جلو س نکالے جاتے ہیں۔
تحریر اچھی ہے ایک مسلمان کے لیے ہرروز عید میلاد کا دن ہے کیونکہ وہ مبارک ساعت ہرروز آتی ہے جب ہمارے پیارے مدینے والے آقا اس دنیا میں تشریف لائے تھے اسی طرح وہ مبارک دن ہر ہفتے آتا ہے جب میرے اور آپ سب کے آقا اس دن میں تشریف لائے لیکن وہ خاص مبارک ساعت اور خاص مبارک دن اور خاص مبارک مہینہ سال میں ایک بار آتا ہے تو اس لیئے باالخصوص منایا جاتا ہے
اگر ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنالیں تو سارے مسائل ہی حل ہوجایئں جن مسائل کی بات کی گئی ہے ان کا تعلق شہری علم سے ہے اگر تمام شہری کوشش کریں تو روشنی کے مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں اگر تمام مسلمان اپنے پڑوسی کے ان حقوق کا خیال رکھیں تو کتنے ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں دنیا میں شہری حقوق کے حوالے سے تعلیم میرے آقا نے دی ہے یعنی اپنے پڑوسی کے حقوق اور راستے کے حقوق آج بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ حج کے پیسے یتیموں کو دے دیئے جائیں اور کیا ضرورت ہے حج اور عمرے کی لیکن ان کی رائے درست نہیں ہوتی اسی طرح غرباء کو عید میلاد سے جوڑنا مناسب نہیں ان کا ویسے بھی خیال رکھنا چاہیئے باقی آپ کی سوچ تعمیری ہے
٭٭پھل موسم دا گل ویلے دی٭٭
آپکا تبصرہ بہت ہی زبردست ہے ـ اللہ تعالی آپکو جزآء خیر دیں ـ
ہم اپنی ولادت پر پارٹی کریں ـ اور میلاد 12 کو ربیع الاول پر نہیں کیسی منطق ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ایسے تو آپ کہ سکتے ہو کہ صرف 10 ،11،12 ذی الحج کو اتنی قربانیاں نہ کرو کیونکہ تب تو سب لوگ کرتے ہیں گوشت وافر ہوتا ہے لہذا ان ایام کے علاوہ کر دو کہ پورا سال غریب لوگ بھی گوشت کھا ٰئیں ـ آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ لوگ 12 ربیع الاول کے علاوہ بھی میلاد کی محافل کرتے ہیں ـ
بلال ایسی تحریریں نہ لکھو ،گستاخ رسول وہابی کا ٹاپا لگ سکتا ہے۔ 😉
آپکی تحریر سےواضح پتا چلتا آپ مخصوص و محدود ذہن والے آدمی ہیں
مبشربلکل ٹھیک کہا یہاں پر دلاٰئل دینا ممکن نہیں ہے ورنہ قائل کر دیتا یہ تو اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتے ہیں اردو ادب کا ٹھیکے دار اگر آپ غور کریں تو انکی تحریروں میں تنقید کا عنصر زیادہ ہے
میرا سوال ہے ؟پھر14اگست کی تقریبات بھی ختم کی جائیں اگر میلادشریف سے اتنی تکلیف ہے اس پے بھی تو بہت خرچ کیا جاتا ہے