ویران کھنڈر اور پرانی عمارتیں دیکھنا مجھے پسند ہیں۔ مٹ چکی تہذیبوں کے آثار کی سیاحت کا شوق رکھتا ہوں۔ موئن جو دڑو مجھے کھینچتا ہے۔ مگر پتہ نہیں کیوں، کبھی ہڑپہ نے اس حد متاثر نہ کیا کہ اسے دیکھنے چل دوں۔ لیکن پھر مسافرانِ شوق ہری یوپیہ کے انجذاب کو نکلے تو میں بھی ”ہُڑی پا ہُڑی پا“ کرتا ہڑپہ چل دیا۔۔۔ کیوں؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو برادر ذیشان رشید کی محبت اور یہ انہیں کا پروگرام تھا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جن دوست احباب کے ساتھ پہلے سفر نہیں ہوا، چلیں ان کے ساتھ سفر کر کے کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ سفر انسان کو بہت کچھ سیکھاتا ہے۔ تیسری اور اہم وجہ خود ہڑپہ تھی۔ اُدھر جا کر ہڑپہ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ اے مٹ چکی تہذیب کے وارث! بتا کہ ہم سے ایسی بے رخی کیوں؟ ہمیں کیوں نہیں بلاتا؟ کئی دفعہ تیرے پاس سے گزرے مگر تم نے رکنے کا نہ کہا، آخر کیوں؟
٭٭٭
دوپہر کے وقت گجرات سے چلے اور گوجرانوالہ میں حسن عسکری صاحب کے دفتر پہنچے۔ حسن صاحب سے یہ پہلی ملاقات اور باقاعدہ تعارف تھا۔ مگر ایسی مہمان نواز اور زندہ دل شخصیت کہ محسوس ہی نہ ہونے دیا کہ ہم پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔ بلکہ یوں لگا جیسے برسوں کی دوستی ہو۔ خیر جب سب لوگ حسن صاحب کے دفتر جمع ہو چکے تو پھر وہاں سے ایک کوسٹر، اٹھارہ مسافرانِ شوق اور پانچ کلو مونگ پھلی نے ہڑپہ کی اور سفر شروع کیا۔ اس مونگ پھلی نے ہمارا آخری دم تک ساتھ دیا۔ بلکہ گھر واپس پہنچ کر بھی جیبوں سے برآمد ہوئی۔ بڑی ہی بابرکت مونگ پھلی تھی اور حیرانی بھی اسی بات کی ہے کہ اتنی مزیدار ہونے کے باوجود بابرکت ثابت ہوئی۔ خیر براستہ جی ٹی روڈ اور پھر کالاشاہ کاکو سے موٹروے پر دو تین چار کرتے ہوئے چیچہ وطنی اور وہاں سے آرکیالوجسٹ عبدالغفار صاحب کے گاؤں چل دیئے۔ کیونکہ وہیں پر رات قیام و طعام کا بندوبست تھا۔ راستے میں اک ٹھٹھرتی مگر خمار آلود شام اتری اور مجھے تمہاری یاد آئی۔۔۔ منزل تک پہنچتے پہنچتے رات ہو چکی تھی اور پہنچتے ہی تھوڑا تازہ دم ہوئے تو الاؤ روشن کر دیا گیا۔ میرے سوہنے پنجاب کی اک دھند آلود رات ہو، چاندنی اور دھند مل کر ہر سو رومانویت بکھیر دیں، الاؤ جلے، ہلکی ہلکی موسیقی کے سُر سماعتوں سے ٹکرائیں اور آگ تاپتے، ڈرائی فروٹ کھاتے، چائے اور گپ شپ کا دور چلے، اس کا سواد تم کیا جانو چُنی بابو۔۔۔ شالا وسدا رہوے پنجاب، سدا آباد رہن میرے دیہات۔۔۔
آگ تاپتے مسافرانِ شوق نے اپنا اپنا تعارف کرایا اور اپنی سیاحتی سرگرمیوں کا بتایا۔ وہاں کوئی مس عروج جیسا”کنکورڈین“ یعنی کنکورڈیا/کے ٹو بیس کیمپ کا ٹریک کر چکا تھا تو کوئی ذیشان رشید برادر جیسا کہ جو بلند پہاڑوں پر کمندیں ڈالتے ہیں۔ کوئی عباس مرزا جیسا ہر فن مولا سائنسدان تو کوئی رضوان بخاری جیسا فوٹوگرافر۔ سونے پر سہاگہ کہ ماہرِ قانون حسن عسکری اور ابوذر صاحب جیسی گہری شخصیات بھی موجود تھیں۔ عدنان، نعمان کی طاقت دو یعنی دو عدد نعمان، فخر اور طیب جیسے پیارے لوگ بھی بیٹھے تھے۔ ایک پیارا مگر شرارتی بچہ حافظ حسن بھی تھا۔ ایک طرف ڈاکٹر محمد کاشف علی جیسا ماہر تاریخ دان تو دوسری طرف آرکیالوجسٹ عبدالغفار صاحب۔ اور ان سب کے درمیان بیچارہ منظرباز۔ جس کا کوئی تعارف ہے نہ تعلیم۔ آ جا کر کھاتے میں کچھ اردو کے لئے کیا گیا کام، دو چار پھوٹواں اور ہلکی پھلکی سیاحت۔ ایسے میں ہم بھلا کیا تعارف کراتے۔ اس لئے صاف کہہ دیا ”بھئی! ہمارا تعارف یہ ہے کہ ہمارا کوئی تعارف نہیں“۔
رات گئے تک محفل چلتی رہی۔ آگ جلتی رہی۔ دھند بڑھتی رہی۔ سحر چھاتا رہا۔ پنجاب کا رومان سر چڑھ کر بولنے کی کوشش کرتا رہا، مگر مجال ہے جو کسی نے پریوں کا ذکر کیا ہو سوائے منظرباز کے۔ آرکیالوجی والوں نے زمین کی پرتیں تک کھنگال دیں۔ تاریخ دانوں نے سکندرِ اعظم کے گھوڑوں کے کھُر تک گنوا دیئے۔ لیکن فنونِ لطیفہ پر کسی زبان کو جنبش نہ ہوئی۔ وہ تو شکر ہے کہ مرشدی حسن عسکری نے ہلکی ہلکی موسیقی چلا رکھی تھی۔ ورنہ منظرباز کا دماغ یقیناً خشک ہو جاتا۔ بہرحال میں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور سب کو پریوں کی طرف لانے کے لئے ابھی جن بھوت تک ہی پہنچا تھا کہ محفل برخاست ہو گئی اور سب سونے چل دیئے۔ کر لو گل۔۔۔
اُدھر مؤذن نے کہا ”نیند سے نماز بہتر ہے“، اِدھر ذیشان برادر کے الارم نے بھی کچھ ایسی ہی صدا لگائی۔ صبح سویرے اٹھے، جلدی جلدی تیاری ہوئی۔ سرسوں کے لذیذ ساگ اور پراٹھوں کا ناشتہ کر کے مسافرانِ شوق ہڑپہ میوزیم پہنچے۔ راستے سے محمد زاہد صاحب اور پھر ہڑپہ پہنچ کر بوریوالہ کے ٹریکر اور سیاح ڈاکٹر شاہد اقبال اور خالد حسین صاحب بھی مسافرانِ شوق کے ہمراہ ہوئے۔ ہڑپہ میوزیم میں عبدالغفار صاحب کی نگرانی میں کوئی مہریں اور ٹھپے دیکھ رہا تھا تو کوئی برتن اور گگوگھوڑے وغیرہ۔ مگر ہم نے اول تو اس بات پر غور کیا کہ عکس سازی ہزاروں سال سے کسی نہ کسی شکل میں چلی آ رہی ہے۔ دوسرا ہم نے انسانی ڈھانچے پر غور کیا اور ابھی عبرت پکڑنے ہی والا تھا کہ ”ڈانسنگ گرل“ کے مجسمے نے ساری عبرت کو رقص و سرور کی محفل میں بدل دیا۔ اور پھر وہ جم کر ناچی۔۔۔ خیرمیوزیم کے بعد آثارِ قدیمہ دیکھنے چل دیئے۔ سوچا کہ شاید یہیں کوئی پری مل جائے۔ مگر نہ جی نہ۔۔۔ ستم ظریقی دیکھیں کہ کسی نے گائیڈ کو کہہ دیا کہ کوئی الٹی بات نہ کرنا، کیونکہ مسافرانِ شوق میں سبھی پڑھے لکھے، تاریخ دان اور آرکیالوجسٹ ہیں۔ ہن آرام جے؟ یوں گائیڈ صاحب نے بھی جم کر خشک باتیں کیں۔ اگر اس روز پنجاب کی رومانوی دھند نہ ہوتی تو دماغ کا دہی بن جانا تھا۔۔۔
بہرحال مذاق اپنی جگہ مگر سچ یہی ہے کہ ذیشان بھائی نے ایک سے بڑھ کر ایک ماہر اکٹھا کر رکھا تھا اور ان کی راہنمائی میں دھند آلود ہڑپہ دیکھنے کا سواد ہی وکھرا تھا۔ آثارِ قدیمہ دیکھتے ہوئے گائیڈ مزمل چیمہ، آرکیالوجسٹ عبدالغفار اور ڈاکٹر کاشف علی صاحب کی باتوں نے اک سماء باندھ دیا۔ خاک ہو چکے شہر کے اونچے نیچے ٹیلوں، ویرانوں اور ویرانے کی علامت پیلو کے درختوں سے گزرتے گزرتے منظرباز وقت کا سفر کر گیا۔ وادی سندھ کی تہذیب نے انگڑائی لی، ہڑپائی تہذیب جوان ہوئی اور ہڑپہ واپس ہری یوپیہ ہوا۔ انسانی ہڈیوں کے سفید سفوف سے واپس ہڈیاں بنیں۔ ان پر گوشت چڑھا۔ ان میں روحیں واپس لوٹیں۔ سارے کردار زندہ و جاوید نظر آنے لگے۔ ڈانسنگ گرل کا ناچ شروع ہوا۔ گلیاں بازار سج گئے۔ گھروں کی رونقیں بحال ہوئیں۔ امیرِ شہر کی مہر اس کے ہاتھ میں پہنچی۔ کاریگر کام کرنے لگے۔ فصلِ شہر کے اُس پار دریائے راوی بہنے لگا اور وقت ہوا 2600قبل مسیح۔
خواتین و حضرات! میں اس وقت قبل مسیح میں موجود ہوں۔ یہ دھند میں ڈوبی اک دوپہر ہے اور ہڑپائی لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ وہ دیکھیں اک بچہ روئے جا رہا ہے اور ماں اسے سینے سے لگائے چپ کرا رہی ہے۔ ابھی ابھی امیرِ شہر نے ایک خط پر مہرثبت کی اور اسے موئن جو دڑو پہنچانے کا حکم دیا۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ بنیادی معاملات ویسے ہی ہیں کہ جیسے ساڑھے چار ہزار سال بعد یعنی 2019ء میں ہونے والے ہیں۔ ہم وقت کا سفر کر کے قبل مسیح کے اُس آباد شہر میں گھوم رہے ہیں کہ جہاں نکاسی کا بہترین نظام موجود ہے۔ امیروں کا محلہ الگ اور غریبوں کی بستی الگ۔ اشرفیہ کے محلے میں دیکھیئے کہ امیر زادیوں نے کیسے سونے چاندی کے زیورات پہن رکھے ہیں۔ مگر ان کی ادائیں۔۔۔ خیر چھڈو جی! چلو آگے دیکھتے ہیں۔ پھر میں اُس علاقے میں پہنچا کہ جہاں لوہار لوہا کوٹ رہا تھا۔ کمہار برتن بنا رہا تھا۔ یہ محنت کش دل کو بہت بھائے۔ مگر مسافرِ شوق کہیں ٹھہرا نہیں کرتے۔ لہٰذا وہاں سے چل دیا اور غربا کی بستی پہنچا۔ جہاں الہڑ مٹیاروں نے مٹی کے کنگن پہن رکھے تھے۔ ذات پات اور امیری غریبی کی تقسیم وہاں بھی موجود تھی۔ خیر فصلِ شہر کے ساتھ ساتھ چلتا بازار میں پہنچا۔ تجارتی و معاشی سرگرمیوں میں کافی تیزی تھی۔ کچھ بھاؤ تاؤ اور اتار چڑھاؤ دیکھے اور پھر وہاں سے ویرانوں کی اور بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے اک باغ میں پہنچا۔ جو دھند کی لپیٹ میں تھا۔ مگر اس رومانوی ماحول میں، دھندلکوں کے اُس پار کوئی نغمہ سرا تھا اور مدہوش کیے دیتا تھا۔ منظرباز دیوانہ وار آواز کا تعاقب کرنے لگا۔ اتنے میں ایک سنگھا(یونی کارن) ہرنوں کے ڈار نے قلانچیں بھریں اور بادل نما دھند میں اچانک کچھ ظاہر ہونے لگا۔ اس کے قریب سے قریب تر ہوتا گیا۔ مجھے اس کی خوشبو آنے لگی اور وہ ہر چیز سے بے نیاز بس پیلو چُنے(توڑے) اور یہی گائے ”آ رل یار چنڑوں پیلوں پکیاں نی“ (پیلو پک گئی ہیں، آ میرے محبوب مل کر چنتے ہیں)۔ اور پھر ساڑھے چار ہزار سال قبل کے اُس پار دھندلکوں میں بھی میں نے تمہیں ہی دیکھا۔۔۔
اتوار کی صبح اس رپورتاژ کو پڑھ کر باغ باغ ہوگیی۔اب تک تاریخ کی کتابوں میں پڑھا تھا۔آج لگا کہ ہم بھی آپ کے شریک سیاحت ہیں۔اللہ زندہ دلان پنجاب کو سلامت رکھے۔