بلندی کے اثرات ہو چکے ہوں۔ سر میں ایسا درد ہو کہ ابھی پھٹا کہ ابھی۔ مگر جب راستے میں کشمیر کا اک خوبصورت گاؤں ”جبڑی“ آئے اور بندہ اپنے آپ پر شدید جبر کر کے بھی فوٹو اور ویڈیو گرافی سے باز نہ آئے تو کھلی جگہ پر بھی پرندو (ڈرون کیمرہ) کریش کر دیتا ہے۔ پھر خراب طبیعت کے باوجود پرندو کو ریسکیو کرنے کے لئے دوڑ لگائے تو حالت کچھ ایسی ہو جاتی ہے۔ شکل کچھ یوں بن جاتی ہے۔
یہ بات شاید آپ کی نظر سے بھی گزری ہو۔ گو کہ بات شغل میلے کی ہے، مگر کئی نام نہاد ”وڈے ٹریولرز اور ٹریکرز“ وغیرہ کی جانب سے بڑا ظالم طنز ہے۔ اور وہ یہ کہ ”مری جانے پر ہی بلندی کی وجہ سے جن کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے، وہ لوگ بھی خود کو ٹریولر اور پہاڑوں کا عاشق کہتے ہیں“۔۔۔ تہاڈے وڈے ٹریولرز دی ایسی دی تیسی۔۔۔ چلیں آئیں آج بلندی کے اثرات(آلٹیچیوڈ سِکنیس) پر کچھ بات کرتے ہیں اور بات یہ ہے کہ کئی پہاڑی علاقوں میں ایک اصطلاح ”ہائیٹ ہونا یا ہائیٹ لگنا“ استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً فلاں کو ہائیٹ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بلندی کے اثرات کی وجہ سے فلاں کی طبیعت خراب ہو چکی ہے۔ اور مری تو کیا مجھے تو مارگلہ پہنچنے تک ہی ہائیٹ ہو جاتی ہے۔ جاؤ! اسی فیر وی ٹریولر جے۔ بلکہ ہم جیسے لوگ زیادہ بڑے ٹریولر ہیں، کیونکہ ہم طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھی باز نہیں آتے اور اگلی دفعہ پھر چل دیتے ہیں۔ لہٰذا خود کو ہلکا مت لیں۔ طبیعت کی خرابی کو لے کر چھوٹے چھوٹے ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔
چلو جانو! تھوڑی سی تکنیکی بات بھی کر لیتے ہیں۔ اس میں ہم سب کا فائدہ ہی ہے۔ دراصل سطح سمندر سے جیسے جیسے بلندی پر جاتے ہیں تو ہوا کا دباؤ کم ہوتا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے آکسیجن بھی کم ہو جاتی ہے۔ سطح سمندر پر ہوا میں 20.9٪ آکسیجن ہوتی ہے۔ جبکہ 4173میٹر بلندی (بابوسر ٹاپ) پر پہنچنے تک تقریباً 12.4٪، خنجراب پاس(4700میٹر) پر تقریباً 11.5٪ اور کے ٹو کی چوٹی(8611میٹر) پر 7.1٪ آکسیجن رہ جاتی ہے۔ بلندی پر گاڑی اور موٹرسائیکل وغیرہ کے انجن کی طاقت کم ہونے کی وجہ بھی آکسیجن کی کمی ہے۔ کیونکہ ایندھن کو بہتر انداز میں جلنے کے لئے جتنی آکسیجن درکار ہوتی ہے، اتنی نہیں مل پاتی۔ اور پھر اس کے حل کے لئے ٹربو وغیرہ لگانا یا ہوا کے دباؤ کے مطابق ”ایئر فیول مکسچر“ کی سیٹنگ کرنی پڑتی ہے۔ اب ہوائی جہاز کا نہ پوچھ لینا۔ کیونکہ اس میں اول تو اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے اور دوسرا بڑے جہازوں میں ٹربائن انجن ہوتا ہے اور میں اس کا مکینک نہیں۔ بلکہ میں تو پِسٹن انجن کا مکینک بھی نہیں۔
بہرحال ہم جس علاقے(جتنی بلندی) پر رہتے ہیں، ہمارے جسم اس ہوا کے دباؤ کے مطابق خود کو ڈھال چکے ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم اس سے زیادہ بلندی پر قدرت کے اصولوں کے مطابق نہ جائیں یعنی تیزی سے بلندی پر (کم آکسیجن میں) جائیں تو طبیعت ناساز ہونے کے قوی امکان ہوتے ہیں۔ اور اگر بلندی کی وجہ سے طبیعت خراب ہو چکی ہو اور اسے نظرانداز کیا جائے تو بات موت تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ کئی لوگ اپنی کم علمی اور اپنی تندرستی کے جنون کی وجہ سے زندگی گنوا بھی چکے ہیں۔ لہٰذا بلندی پر جانے کے کچھ اصول ہیں اور انہیں کے مطابق چل کر جسم کو بلندی یعنی کم آکسیجن کے موافق(ایکلاماٹائز) کرنا ہوتا ہے۔ سب سے پہلا اور آخری اصول یہ ہے کہ آہستہ آہستہ بلندی پر جایا جائے۔ جس کا طریقہ نیشنل ہیلتھ سروس آف برطانیہ کے مطابق یہ ہے کہ 2500میٹر کی بلندی پر جا کر ایک دو دن آرام کیا جائے اور پھر روزانہ کی 300 سے 500میٹر بلندی ہی پکڑی جائے۔ اور ہر 600 سے 900میٹر بلندی یا تین چار دن کے بعد ایک دن آرام کیا جائے۔ اس سارے عمل کے دوران زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے۔ ہلکی پھلکی مگر کیلریز سے بھرپور خوراک لی جائے۔ یوں آپ کا جسم ماحول سے موافق ہوتا جائے گا اور طبیعت پر بلندی کا اثر ہونے کا امکان نہایت کم ہو جائے گا۔۔۔
یہ تو تھیں اصولوں کی باتیں، مگر ہمارے ہاں الٹ ہی ہوتا ہے۔ اِدھر گھر سے چلتے ہیں اور اُدھر ٹھاہ کر کے خنجراب پاس (تقریباً 4700میٹر) کو جا ”وجتے“ ہیں۔ اور جسے بھی پوچھو کہ طبیعت خراب تو نہیں ہوئی؟ ہر کسی کا ایک ہی جواب کہ نہ جی نہ، حالانکہ پیناڈول پر پیناڈول پھانکتے ہیں اور کہتے یہی ہیں کہ ہم بڑے فِٹ ہیں۔ دُر فٹے منہ۔۔۔ کیونکہ بلندی کے اثرات کا فٹ فاٹ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک صحت مند بندے کو بھی ہائیٹ ہونے کے اتنے ہی امکان ہیں کہ جتنے ایک کمزور کو۔ یہ بھی لازمی نہیں کہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تو آئندہ بھی کبھی نہیں ہو گی۔ یہ کسی بھی وقت کسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ ایکلاماٹائز ہوئے بغیر بلندی پر جانے والوں کی اکثریت کو مختلف شکلوں میں ہائیٹ ہوئی ہوتی ہے۔ مثلاً کسی کا سر درد ہوتا ہے تو کسی کو متلی آتی ہے۔ کوئی چڑچڑے پن کا شکار ہوتا ہے تو کوئی سخت سردی کے باوجود بھی گرمی محسوس کرتا ہے۔ کسی کا سانس پھولنے لگتا ہے تو کسی کی نکسیر پھوٹ پڑتی ہے۔ ان ابتدائی علامتوں اور خرابیوں کو اگر نظر انداز کیا جائے تو یہ بگڑ کر سریبرل اڈیما یعنی دماغ میں سوزش یا پھر پلمونری اڈیما یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے جیسی بیماری کی صورت اختیار کر کے موت تک لے جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بابوسر یا خنجراب جیسے دروں کو ”ڈائریکٹ وجنے“ والے چونکہ عموماً زیادہ دیر بلندی پر نہیں ٹھہرتے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی بھاگے بھاگے واپس نیچے اتر جاتے ہیں، تو ایسی صورت میں اگر تھوڑی بہت طبیعت ناساز ہو بھی تو وہ بحال ہو جاتی ہے۔ البتہ اگر بلندی پر زیادہ دیر ٹھہرنا ہو تو پھر باقاعدہ ایکلاماٹائز ہو کر جانا چاہیئے۔ کیونکہ آپ سیاحت سے لطف اندوز ہونے جاتے ہیں، کوئی بیماری کاٹنے نہیں۔
ہر دفعہ سوچتا ہوں کہ اب کی بار ”پراپر ایکلاماٹائز“ ہو کر بلندی پر جانا ہے اور قدرتی مناظر سے بھرپور لطف اٹھانا ہے۔ مگر زیادہ تر ایسا نہیں کر پاتا۔ وجہ وہی کہ دوست احباب کی چھٹیاں اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ان کے پاس ایکلاماٹائز ہونے کا وقت ہی نہیں ہوتا اور ٹھاہ کر کے کبھی دیوسائی، کبھی کرومبر، کبھی چٹا کٹھا تو کبھی بابون ٹاپ کو جا وجتے ہیں۔ خود ان کے ساتھ تو جو ہوتا ہے، سو ہوتا ہے مگر اکثر میرے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔ ویسے اگر ٹھاہ کر کے وجنا ہی ہو تو اس کا بھی ایک طریقہ دوائی کی صورت موجود ہے۔ بلندی پر جانے سے ایک دو دن پہلے اسیٹازولامائیڈ (Acetazolamide) شروع کر لی جائے تو یہ بلندی کے اثرات سے بچاؤ میں کافی مدد دیتی ہے۔ البتہ یہ دوائی اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے ہی استعمال کریں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میدانی علاقوں کے روایتی ”رٹالسٹ“ ڈاکٹروں کی اکثریت کو خود بھی اس دوائی کا اس واسطے استعمال کا علم نہیں۔ باقی دوائی اپنے رسک پر استعمال کرنا۔ کمپنی کسی بھی الٹ پلٹ کی ذمہ دار نہ ہو گی۔ گویا جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا۔
2012ء میں جب اپنے ایک سفرنامے میں ذکر کیا کہ پہاڑی علاقے میں جائیں تو پیاز خوب کھائیں۔ اس پر امریکہ سے ڈاکٹر لبنیٰ مرزا صاحبہ نے بتایا تھا کہ پیاز میں دراصل کئی ”اینٹی آکسیڈنٹس“ ہوتے ہیں، جن سے خون پتلا اور اس کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے۔ جو کہ بلندی کے اثرات سے بچاؤ میں مدد دیتا ہے۔ البتہ اب اسیٹازولامائیڈ کی صورت اس سے بھی بہتر چیز موجود ہے۔۔۔ ڈاکٹر صاحبہ کے بتانے پر ہی پہلی دفعہ مجھے اس دوائی کا علم ہوا تھا۔ بہرحال یہاں بتاتا چلوں کہ آہستہ آہستہ بلندی پکڑنا یا دوائی کی صورت ہائیٹ ہونے سے بچاؤ کی پرہیز تو ہے مگر فی الحال کوئی علاج نہیں، سوائے یہ کہ اگر ہائیٹ ہو جائے تو جہاں ہیں، وہیں رک جائیں۔ یعنی مزید بلندی پر نہ جائیں اور وہیں خوب آرام کریں۔ جو علامات ظاہر ہوں، انہیں کے مطابق ادوایات لیں، تاکہ کچھ افاقہ ہو سکے۔ مثلاً سر درد ہو تو پیناڈول وغیرہ اور متلی آئے تو پرومیتھازائن(Promethazine) وغیرہ۔ اگر کچھ دیر تک طبیعت نہ سنبھلے تو فوری طور پر بلندی کم کریں۔ اور اگر سنبھل بھی جائے تو پھر بھی 24 سے 48 گھنٹے وہیں آرام کریں۔ اس کے بعد ہی مزید بلندی پر جائیں۔۔۔
سب کو صحت کی بہترین حالت میں خوبصورت و دلکش بلندیاں نصیب ہوں۔ خوش رہیں، آباد رہیں اور عید مبارک۔۔۔ ویسے عید کی چھٹیوں میں آپ خیر سے کس پہاڑی علاقے کو ”وج“ رہے ہیں؟ اجی! ہم تو سکون سے گھر بیٹھیں گے اور آپ کے ٹریفک جام میں پھنسنے کی خبریں سن کر شکر ادا کریں گے کہ ہم ان دنوں سیاحت کو نہیں نکلے۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں