جب سے باقاعدہ فوٹوگرافی شروع کی ہے، ان ساڑھے چار پانچ سال میں میری بنائی قدرتی مناظر کی کئی تصاویر اپنے اپنے لحاظ سے سراہی گئیں اور آپ لوگوں کی بے پناہ محبتوں نے انہیں پذیرائی بخشی۔ یوں تو ان محبتوں کی فہرست لمبی ہے مگر چند مثالیں دینا چاہوں گا۔ جیسا کہ جگلوٹ (گلگت بلتستان) کے قریب تین عظیم پہاڑی سلسلوں کے ملاپ (جنکشن) کی تصویر، جس میں پہاڑوں اور دریاؤں کے نشاندہی کی تھی۔ اس تصویر کو مختلف گروپس میں جو پذیرائی ملی سو ملی، جنہوں نے چوری کی سو کی، جبکہ صرف میری پروفائل سے ہی تقریباً ساڑھے پانچ سو لوگوں نے شیئر کی۔ ایسے ہی ایگل نیسٹ ہنزہ سے شام کے وقت مشرقی منظر اور وہیں سے کریم آباد اور راکاپوشی وغیرہ کا رات میں نظارہ، فیری میڈوز سے چاندنی میں نہاتا نانگاپربت، کوئٹہ کا نظارۂ شب اور”سلیپنگ بیوٹی“، ٹلہ جوگیاں کی شام اور رات میں خیمہ کی تصویر، منگلا جھیل پر اترتی شام، ہمالین آئی بیکس ماں بیٹا، دیوسائی میں بھورا ریچھ اور گوگل میپس پر کرتارپور دبار صاحب کی تصویر۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ سچ یہی ہے کہ ان ساری اور دیگر تصویروں کو آپ نے میری اوقات سے زیادہ پذیرائی بخشی۔ اور اس دوران ہرن مینار شیخوپورہ کی روشنیوں اور آتش بازی والی تصویر کو ایسا سراہا کہ وہ میری فوٹوگرافی کے اگلے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ گئی۔۔۔ ان محبتوں کے لئے ہمیشہ سے آپ کا مشکور رہا ہوں اور ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہ تو ہو گئیں ماضی کی کچھ باتیں، جبکہ حال ہی میں یعنی وبا کے دنوں میں اپنے گھر کی چھت سے شمال کی اور نظر آنے والے پیرپنجال سلسلہ کے برف پوش پہاڑوں کی تصویر بنائی۔ یہ پہاڑ کشمیر میں ہیں اور میرے گھر سے 103 کلومیٹر دور ہیں۔ خیر یہ نظارہ کب کب اور کہاں کہاں سے نظر آتا ہے، اس پر کون کون سے مایہ ناز فوٹوگرافر ”تصویر آزمائی“ کر چکے ہیں اور اس نظارے کے تکنیکی پہلو کسی دوسری تحریر میں ذکر کروں گا۔ فی الحال کہنا یہ ہے: چونکہ یہ ایک منفرد نظارہ ہے تو میرا خیال تھا کہ اس کی تصویر لوگوں کو کافی پسند آئے گی۔ لیکن ایسا بھی کوئی گمان نہیں تھا کہ یہ ”بہہ جا بہہ جا“ کر دے گی۔ 🙂 لہٰذا جیسے دیگر تصویریں پوسٹ کرتا ہوں، ایسے ہی اپنی فیس بک پروفائل اور سیاحت و فوٹوگرافی سے متعلقہ چند گروپس میں پوسٹ کی۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ”کام چھتیس“ ہے۔ قصہ مختصر کہ سوشل میڈیا پر تصویر چل سو چل اور ایسی وائرل ہوئی کہ میں خود حیران رہ گیا۔
شروع میں جب بیسیوں کمنٹس، سینکڑوں شیئرز اور ہزاروں لائیکس آئے تو ظاہر ہے کہ میرا خوش ہونا بنتا تھا۔ اور پھر اگلے دن تصویر چوری ہونے کی اطلاعات آنے لگیں۔ بتاتا چلوں کہ کوئی تحریر یا تصویر وغیرہ اس کے لکھاری یا فوٹوگرافر کے حوالے کے ساتھ شیئر کرنا چوری نہیں ہوتی، بلکہ اصل بندے کا نام مٹا دینا یا ہٹا کر اپنا یا کسی دوسرے کا نام لکھ دینا چوری کے زمرے میں آتا ہے۔ بہرحال سچ پوچھیں تو کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کو لے کر میں زیادہ نہیں سوچتا۔ شاید ماضی میں ہماری تحاریر کی پے در پے چوری نے ہمیں اس بارے میں مطمئن کر دیا ہوا ہے کہ ”اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“۔ عام تحاریر تو ایک طرف رہیں، یہاں تو اگلوں نے ”کاپی رائٹ کی خلاف ورزی اور اس کے سدِباب“ والی تحریر کے ساتھ بھی کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کر دی تھی۔ 🙂 خیر پیر پنجال کی تصویر کو لے کر روزنامہ پاکستان جیسے بڑے اخبار نے بھی اپنی چوری والی روایت برقرار رکھی۔ وہ کیا ہے کہ ماضی میں یہ تین ہزار الفاظ سے زائد کا میرا لکھا مضمون ”انٹرنیٹ کا بادشاہ گوگل“ چوری کر کے کسی دوسرے کے نام سے اپنے اخبار میں چھاپ چکے ہیں۔ اب بھی ایسی چول ماری کہ اجازت لینا تو ایک طرف، الٹا غلط معلومات کے ساتھ تصویر چھاپ دی۔ اس پر انہیں بتایا بھی، لیکن ہمارے ہاں کب کوئی اپنی غلطی مانتا اور معذرت کرتا ہے۔ یوں ان کے بھی کان پر جوں تک نہ رینگی۔ گویا اپنے شعبے سے مخلص پن اور ایمانداری گئی تیل لینے۔ خیر نو من تیل آنے سے پہلے ہی کسی خواجے اور اس کے گواہ ڈاکٹر اور ایسے ہی کئیوں کی رادھا ناچنے لگی۔ ان حضرات نے تصویر اٹھائی اور کچھ ایسی ڈسکرپشن کے ساتھ ٹویٹر پر ٹھوک دی کہ فضا صاف ہونے کی وجہ سے کئی ”سالوں“ بعد سیالکوٹ سے کشمیر کے پہاڑ نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ کر لو گل۔۔۔ صرف یہی نہیں بلکہ مختلف علاقوں سے رادھائیں نچاچنے لگیں اور ہر کوئی حسبِ توفیق اپنے اپنے علاقے کا نام ٹھوک کر تصویر چوری کرتا رہا۔ جب سیالکوٹ، ناروال، بجوات، ڈنگہ، گلیانہ، کھاریاں اور ناجانے کتنے علاقوں میں رادھائیں ناچ رہیں تھیں تو ایسے میں ایک وہ پوسٹ نظر سے گزری جس نے کمال ہی کر دیا، ملاحظہ فرمائیے “دوسری جنگِ عظیم کے بعد اب کہیں جا کر کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے فضا اتنی صاف ہوئی ہے کہ انڈیا سے کشمیر کا یہ نظارہ دیکھنے کو ملا“۔ ہن آرام جے۔۔۔ اس طرح بات ہمسایہ ملک سے نکلی تو عالمی میڈیا تک پہنچ گئی۔ ان کمبختوں نے بھی گوگل کرنے کی زحمت نہ کی اور دے مار ساڑھے چار۔ یوں تصویر بنانے والا اور جس علاقے سے بنی تھی، وہ سب بہت پیچھے رہ گئے اور تصویر آگے نکل گئی۔ یہ تو اُس غریب کے جیسا ہوا کہ جو فوٹو گیلری کے باہر بھوک سے مر رہا تھا، مگر گیلری میں لگی اس کی تصویر داد سمیٹ رہی تھی۔۔۔ ویسے فنکار بیچارہ تو چوری پر یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتا ہے کہ چلو کسی بہانے سہی مگر ہماری تخلیق کو پذیرائی تو ملی۔ کچھ ایسے ہی مجھے بھی تصویر چوری ہونے کا اتنا دکھ نہ ہوا، مگر غلط معلومات کے ساتھ شیئر اور میرے علاقے کا نام حذف کرنے کا ہوا۔ دوست احباب یا جو لوگ جانتے تھے کہ یہ تصویر میں نے جلالپورجٹاں ضلع گجرات کے ایک نواحی گاؤں میں اپنے گھر کی چھت سے بنائی ہے، وہ مختلف فورمز پر درستی کی دُہائی دیتے رہے مگر یہاں کون سننے والا ہے۔۔۔ ویسے اس سارے معاملے میں مجھے سب سے زیادہ ہنسی اس بندے پر آئی کہ جس نے مجھے ہی کٹہرے میں لا کھڑا کیا اور بولا کہ یہ تصویر تمہاری نہیں بلکہ فلاں صاحب کی ہے۔
بہرحال ایسے اور تصویر چور اور غلط معلومات پھیلانے والے جائیں بھاڑ میں۔ وہ کیا ہے کہ ایک طرف چور لوگ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں، تو دوسری طرف آپ جیسے ڈھیروں ڈھیر مہربان ہیں۔ جس کھلے دل سے آپ لوگ حوصلہ افزائی کرتے ہو وہ میرا سیروں خون بڑھا دیتا ہے۔ ایسے ہی خون بڑھاتے رہو اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے رہو کہ میں پھولنے کی بجائے اپنی اوقات میں رہو۔۔۔ خیر آپ احباب نے پیر پنجال والی اس تصویر کو جو پذیرائی بخشی ہے، وہ کمال ہے۔ پیغامات اور کمنٹس میں دادوتحسین اور دعائیہ کلمات کا لمبا چوڑا سلسلہ۔ ”ایتھے رکھ ملنگی، سواد آ گیا بادشاہو“۔۔۔ ویسے جہاں کئی اخبارات نے چولیں ماریں وہیں پر ایسے اخبارات بھی تھے کہ جنہوں نے خود رابطہ کر کے اجازت چاہی اور نہ صرف تصویر چھاپی بلکہ اس ناچیز فوٹوگرافر کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ان میں سرِفہرست میرے ضلع کا روزنامہ جذبہ اور روزنامہ نوٹ ہیں۔۔۔ ان کے علاوہ بہت سارے دوستوں نے تصویر شیئر یا پوسٹ وغیرہ کی اور ساتھ ایسے خوبصورت، محبت بھرے اور حوصلہ افزا الفاظ لکھے کہ منظرباز تو خوشی سے الٹی چھلانگیں لگانے لگا 😉 خیر ایسی محبتوں کی کہانیاں ابھی لکھنے لگا تو تحریر مزید لمبی ہو جائے گی۔ ویسے بھی جتنی تصویر وائرل ہوئی ہے، اُس نے بڑی بڑی کہانیاں مجھے دیں ہیں۔ وقتاً فوقتاً وہ لکھتا رہوں گا۔ ابھی اجازت دیں۔ خوش رہیں، آباد رہیں۔ اور ہاں! یہ تصویر اُسی وائرل ہونے والی تصویر کا ”فل ورژن“ ہے اور یہ تصویر ہماری سوشل میڈیائی دوستی کے نام۔۔۔ آپ کی محبتوں کے نام۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں