پنجاب کا میدانی علاقہ جلالپورجٹاں(گجرات)… اور یہاں پر دریائے چناب کے کنارے… کناروں سے دور لائن آف کنٹرول… اور اس سے پرے مقبوضہ جموں کشمیر… جہاں ہمالیہ کا ذیلی سلسلہ پیر پنجال اور اس کے برف پوش پہاڑ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو یہ تصویر کیسی لگے گی۔ مگر ان برف پوش پہاڑوں سے تقریباً 103کلومیٹر کی دوری سے یہ تصویر بنائی ہے۔ اتنی دوری سے اور وہ بھی رات میں ایسی تصویر بنانا میرے لئے ایک خواب سا تھا۔ بلکہ جس سے بھی ذکر کرتا تو اس کی نظر میں یہ دیوانے کا خواب ہوتا۔ لیکن چاہے دیوانے کا ہی سہی مگر خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ خیر اس ایک تصویر کے لئے کئی سال کام کیا، انتظار کیا۔ جب بھی آسمان صاف ہونے کا امکان ہوتا تو گجرات تا راجوڑی اور سری نگر کے درمیانی علاقوں کے موسم کی جانچ پڑتال کرنے بیٹھ جاتا۔ حدِ نظر کا جائزہ لیتا، ہوا کی سمت اور نمی کا تناسب دیکھتا۔ ”ویدر ریڈار“ پر بادلوں کی حرکت نوٹ کرتا اور اکثر اوقات بس ہاتھ مَلتے ہی رہ جاتا۔ کئی دفعہ چاندنی راتوں میں چناب کناروں پر جا کر شمال کی طرف دیکھتا اور سوچتا کہ ناجانے کب میرا خواب پورا ہو گا۔ کب موسم اس قدر صاف ہو کہ چاندنی میں نہاتے ہمالیہ کی تصویر اتنی دوری سے بنا سکوں۔ خیر ماہ و سال گزرتے گئے۔ کبھی موسم صاف ہوتا تو چاندنی رات نہ ہوتی اور جب چاندنی ہوتی تو موسم صاف نہ ہونے کی وجہ سے یہ برف پوش پہاڑ نظر نہ آتے۔۔۔ اور پھر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ ایک رات آسمان صاف تھا تو میں کیمرہ لئے چناب کنارے جا کھڑا ہوا۔ پھر سورج سے روشنی چاند پر پہنچی، چاند سے ہمالیہ پر منعکس ہوئی اور ہمالیہ سے ٹکرا کر کچھ شعاعیں آخرکار مجھ تک پہنچ ہی گئیں اور عدسوں کے پیچیدہ نظام(کیمرہ لینز) میں سے گزرتی ہوئیں کیمرے کے سینسر سے جا ٹکرائیں۔ یوں اک خواب نے حقیقت کا روپ دھارا اور نتیجہ میں یہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔
اس مہربان کی مہربانی کہ جس نے سب کچھ اور روشنی کو پیدا فرمایا۔ مجھ جیسے کو فوٹوگرافی کی الف ب سیکھنے کی توفیق دی۔ سالہا سال انتظار کا حوصلہ دیا اور پھر مطلوبہ وقت پر مناسب جگہ پہنچا کر کیمرہ لگوایا۔ کیمرے کی سیٹنگز کرنے کو عقل دی کہ زوم کر، اپرچر کھول اور لانگ ایکسپوژر سے تصویر بنا۔ اور سب سے بڑھ کر مالک کا یہ کرم رہا کہ جہاں کھڑا تصویر بنا رہا تھا، اُن جھاڑیوں میں خطرناک کیڑوں (سانپ اور بچھو وغیرہ) سے محفوظ رکھا۔ خیر جب تصویر بنانے لگا تو عین اسی وقت چناب کے دوسرے بند سے دو تین موٹرسائیکل گزرے۔ ان کی روشنیوں سے بند پر لکیر (لائیٹ ٹریل) بنی۔ پانی پر زبردست عکس ابھرے۔ واہ جی واہ! قسمت نے کیا خوب ساتھ دیا اور تصویر میں پسِ منظر کے ساتھ ساتھ پیش منظر بھی اچھا آ گیا۔ بتاتا چلوں کہ بند سے پرے تیز روشنیاں ہمارے دیہاتوں کی ہیں۔ جبکہ جو قطار میں ہیں، وہ دیکھنے میں تو نزدیک لگ رہی ہیں مگر وہ بتیاں یہاں سے 36کلومیٹر دور لائن آف کنٹرول پر لگی ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی سب سے بلند برف پوش چوٹی کا نام ڈھکیار(Dhakīār) ہے اور یہ سطح سمندر سے 4623میٹر بلند ہے۔
اچھی کاوش ہے ۔
اسلام علیکم جناب بلال صاحب
اکثر آپ کی خوبصورت تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں جو نہایت ہی قابل تحسین ہوتی ہیں۔
آپ کی چاندنی رات میں بنائی ہوئی ہمالیہ کی تصویر واقعی قابل داد ہے اور کسی عالمی مقابلہ میں رکھنے کے لائق ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی آپ کے ہنر میں اور بھی اضافہ فرمائیں۔ آمین۔ مزید دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالٰی آپ کو حاسد جنگلی جانوروں سے بھی محفوظ رکھیں۔
خیر اندیش
میاں عبدالسلام شانی
انٹرنیشنل کوآرڈینیٹر
کلچرل ایکسچینج و سٹڈی ٹؤر پروگرامز
ویانا یونیورسٹی آسٹریا
Email: m.s.shany@gmail.com
ANY HOW GOOD EFFORT MUCH APPRICIATABLE