وہ جو آپ ایک بٹن دباتے ہیں اور دنیا عش عش کر اٹھتی ہے۔ وہ جو آج زندگی کا ایک اہم جز بن چکی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس فوٹوگرافی کے پیچھے انسان نے کتنی لمبی ریاضت کی ہے؟ ویسے انسان تو ہزاروں سال سے پانی اور آئینے وغیرہ میں عکس دیکھ کر سوچتا تھا کہ کسی طرح یہ عکس آئینے میں ہی جامد ہو جائے، مستقل ہو جائے۔۔۔ انسان کی خواہش، ضرورت اور تجسس نے اسے سوچنے پر مجبور کیا۔ پھر کسی نے کیمرہ بنایا تو کسی نے تصویر پرنٹ کر کے وقت کو روک دیا۔ نظارے کو امر کر دیا۔ گویا فوٹوگرافی کر دیکھائی۔
فوٹوگرافی کیا ہے؟
پیٹنگ بھی ایک تصویر ہے اور آئینے میں بھی اک تصویر ہی نظر آتی ہے۔ مگر ”فوٹو“ ان سے مختلف چیز ہے، جو کہ ”فوٹوگرافی“ سے وجود میں آتی ہے۔ اور یہ ”فوٹوگرافی“ ہے کیا؟ الجواب:- کسی منظر سے آتی روشنی کے ذریعے اس منظر کا ”مستقل عکس“ بنانے کو فوٹوگرافی کہتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے: فوٹوگرافی یعنی فوٹو سے گرافی۔ اور لفظ ”فوٹو“ کا ماخذ یونانی زبان کا لفظ ”فوتوس“ ہے۔ جس کا معنی ”روشنی“ ہوتا ہے۔ گرافی یعنی لکھائی، تحریر، مصوری یا ڈرائینگ وغیرہ۔ یوں فوٹوگرافی کا مطلب بنتا ہے ”روشنی سے ڈرائینگ“۔ ویسے ہے ناں زبردست نام۔ وہ کیا ہے کہ اپنی اصل میں فوٹوگرافی بھی تو سارا کھیل روشنی کا ہی ہے۔
آج فوٹوگرافی بہت بڑا اور تیزی سے پھیلتا مشغلہ ہے۔ تقریباً ہر بندے کی جیب میں کیمرہ ہے۔ یہ کیمرے اور فوٹوگرافی آج اربوں ڈالر کی انڈسٹری بن چکی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جو بات آج یہاں پہنچی ہوئی ہے، یہ شروع کہاں سے ہوئی تھی اور کن کن مراحل سے گزری؟
کیمرہ آبس-کورا
بات تو ہزاروں سال پہلے ہی آبس-کورا (Obscura) کیمرے سے شروع ہو چکی تھی۔ اور آبس-کورا ہی آج کے جدید کیمروں کی پروٹوٹائپ تھا۔ یہ ”پِن ہول کیمرہ“ ہوتا تھا۔ کہہ لیں کہ اک تاریک کمرے یا ڈبے میں چھوٹا سا سوراخ کر کے باہر کے نظارے کا عکس دیوار یا پردے پر دیکھا جاتا تھا۔ آپ بھی آسانی سے یہ تجربہ کر سکتے ہیں۔ ویسے اس میں بس ”لائیو ویو“ ہی ہوتا ہے، یعنی کیمرے کے سامنے سے منظر ختم ہوا تو عکس بھی ختم۔
آبس-کورا کیمرے کا ذکر قبل مسیح کی ایک آدھ چینی تحریر کے ساتھ ساتھ ارسطو کے ہاں بھی ملتا ہے۔ پھر اس پر اصل تحقیق دسویں صدی عیسوی کے عظیم سائنسدان ابن الہیشم نے کی۔ ویسے ابن الہیثم نے روشنی کے متعلق جہاں دیگر بڑی دریافتیں کیں، وہیں پر بارہ تیرہ سو سال سے چلے آ رہے افلاطون اور دوسرے ماہرین کے اس خیال کو بھی غلط ثابت کر دیا کہ روشنی آنکھ سے نکل کر چیزوں پر پڑتی ہے تو وہ ہمیں نظر آتی ہیں۔ بلکہ ابن الہیشم نے بتایا کہ جب روشنی کسی چیز سے ٹکراتی ہے تو کچھ کرنیں منعکس ہو کر اِدھر اُدھر پھیل جاتی ہیں۔ ان میں سے چند کرنیں جب آنکھ میں داخل ہوتی ہیں تو ہمیں وہ چیز نظر آتی ہے۔
فوٹوگرافی کی ابتداء
قبل مسیح سے شروع ہونے والا آبس-کورا کیمرہ عکس تو بناتا تھا مگر اس عکس کو محفوظ (پرنٹ) کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا۔ بے شک یہ تصور پرانا تھا کہ روشنی مختلف مادوں کی شکل یا رنگ تبدیل کر دیتی ہے۔ دھوپ سے انسانی جلد اور دیگر چیزوں کا رنگ بدلتا تو انسان ہزاروں سال سے دیکھتا اور اس حوالے سے مختلف تجربے کرتا آ رہا تھا۔ لیکن اس تکنیک کو لے کر کسی نے تصویر بنانے کا خیال پیش نہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے اٹھارہویں صدی میں ایک نوجوان انگریز موجد ”تھامس ویگ ووڈ“ نے یہ خیال پیش کیا۔ وہ ایک فنکار بندہ تھا اور آرٹ سے کافی دلچسپی رکھتا تھا۔ ویگ ووڈ نے مشاہدہ کیا کہ جس طرح روشنی ہماری آنکھ میں داخل ہو کر دماغ میں تصویر بناتی ہے اور وہ محفوظ بھی رہتی ہے، اسی طرح کیمرہ آبسکورا میں جہاں عکس دیکھا جاتا ہے، وہاں اگر روشنی کے حوالے سے کوئی حساس مواد رکھیں تو روشنی اس مواد کا رنگ یا شکل تبدیل کر کے مستقل عکس بنا دے گی۔ یوں روشنی سے ڈرائینگ بنانے کا خیال پیش کرنے اور مختلف کیمیکلز لگی پلیٹس پر تجربات کر کے ہلکے پھلکے نتائج حاصل کرنے کی وجہ سے ہی اکثر ماہرین تھامس ویگ ووڈ کو دنیا کا پہلا فوٹوگرافر مانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ویگ ووڈ کو پیدائشی طور پر صحت کے کچھ مسائل تھے اور 1805ء میں فقط 34 سال کی عمر میں ہی انتقال کر گیا۔
جیسے آج کے دور میں فوٹوگرافی کے لئے اچھے سے اچھا کیمرہ سینسر بنانے کی دوڑ لگی ہے، ویسے ہی فوٹوگرافی کے شروع کے دنوں میں کوشش تھی کہ کوئی ایسا کیمیکل مل جائے کہ جو کسی پلیٹ پر لگا کر کیمرہ آبسکورا میں رکھیں اور پھر اس کیمیکل لگی پلیٹ پر روشنی عکس کی صورت پڑے تو کم سے کم وقت میں بہتر سے بہتر عکس اس پلیٹ پر چھپ جائے۔۔۔
معلوم تاریخ میں کیمرے سے بنی پہلی تصویر جو ہمیں ملتی ہے وہ 1826-27ء میں فرانسیسی موجد ”جوزف نیسفور نیپس“ نے بنائی تھی۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ نیپس نے تقریباً آٹھ گھنٹے تک کیمیکل لگی پلیٹ پر روشنی پڑنے دی، یعنی آٹھ گھنٹے کا ایکسپوژر دیا، جبکہ اب ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ایکسپوژر آٹھ گھنٹے کی بجائے کئی دن کا تھا۔ جس تکنیک سے نیپس نے تصویر بنائی اسے ”ہیلیوگرافی“ کہا جاتا۔
نیسفور نیپس نے 1833ء میں اپنی وفات سے پہلے تصویر سازی سے متعلق اپنے نوٹس ”لوئس ڈیگویرے“ کے لئے چھوڑے، جو کہ خود بھی اس پر کام کر رہا تھا۔ پھر ڈیگویرے نے اس کام کو مزید بڑھایا۔ کچھ ایسا مواد استعمال کیا کہ جس پر گھنٹوں کی بجائے منٹوں میں ہی روشنی اپنا کام کر دکھائے۔ گویا ایکسپوژر ٹائم گھنٹوں سے منٹوں پر لے آیا۔ ایکسپوژر ٹائم کم ہونے سے حرکت کرتی چیزوں کی فوٹوگرافی بھی ممکن ہو سکی۔ یوں 1838ء میں ڈیگویرے نے ہی دنیا کی وہ پہلی تصویر بنائی کہ جس میں انسان بھی تھے۔ 1839ء میں ڈیگویرے نے اپنا کام اور تصویر سازی کا طریقہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس کے طریقہ کار (تکنیک) کو ”ڈیگویریو ٹائپ“ کا نام دیا گیا۔۔۔ ڈیگویریو ٹائپ کے عام ہونے پر ایک امریکی فوٹوگرافر رابرٹ کارنیلیس نے 1839ء میں ہی اسی تکنیک سے اپنی تصویر بنائی۔ اور اس تصویر کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی پہلی سیلفی(سیلف پورٹریٹ) تھی۔ یہاں مزے کی بات بتاتا چلوں کہ جب کبھی رات میں لانگ ایکسپوژر کے ذریعے دوستوں کی تصویر بناتے ہوئے انہیں دو چار سیکنڈ بلکل ساکت رہنے کا کہوں تو اکثر دوستوں سے نہیں رہا جاتا۔ جبکہ پونے دو سو سال پہلے جب کارنیلیس نے دنیا کی پہلی سیلفی بنائی تھی تو وہ چند سیکنڈ نہیں بلکہ دس سے پندرہ منٹ بے حس و حرکت بیٹھا رہا تھا۔ کیونکہ تب تصویر کے لئے کم از کم اتنا ہی ایکسپوژر ٹائم لگتا تھا۔
چونکہ مختصر لکھنے کی کوشش میں ہوں، اس لئے چند اہم سنگِ میل کا ہی ذکر کروں گا۔ ورنہ صرف مندرجہ بالا لوگ ہی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً دیگر بہت سارے ماہرین نے بھی کئی کام کر کے فوٹوگرافی کو پروان چڑھایا۔ مثلاً 1832-33ء میں فرانسیسی نژاد برازیلی ”ہرکیولس فلورنس“ نے بھی فوٹوگرافی کا اپنا ایک طریقہ بنایا تھا۔ مگر وہ اپنے کام کو ٹھیک طرح شائع نہ کر سکا۔ چند لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ ”فوٹوگرافی“ بھی اسی نے بنایا تھا اور روشنی کے ذریعے تصویر سازی کے لئے فوٹوگرافی کی اصطلاح سب سے پہلے اسی نے اپنے ذاتی نوٹس میں استعمال کی تھی۔ جبکہ اکثریت کا خیال ہے کہ لفظ فوٹوگرافی کا موجد انگریز سائنسدان ”ولیم ہنری فاکس ٹالبوٹ“ تھا۔ ویسے لفظ کے علاوہ بھی دیکھا جائے تو ٹالبوٹ نے فوٹوگرافی کے لئے بہت اہم کارنامہ انجام دیا تھا۔
ڈیگویرے کے دور میں ہی متوازی طور پر ٹالبوٹ بھی کام کر رہا تھا اور کہتے ہیں کہ ڈیگویرے سے پہلے 1835ء میں اس نے ایک تکنیک ”ٹالبوٹوٹائپ“ ایجاد کر لی تھی۔ مگر وہ اپنے کام کو بہتر سے بہتر کرنے میں لگا رہا۔ اور جب 1839ء میں ڈیگویرے نے اپنا کام شائع کیا تو اس کی خبر سنتے ہی ٹالبوٹ نے بھی شائع کر دیا۔ ٹالبوٹوٹائپ تکنیک میں اتنا حساس مواد استعمال کیا گیا کہ ایکسپوژر ٹائم منٹوں سے سیکنڈوں بلکہ سیکنڈ کے بھی چھوٹے حصوں تک آ گیا۔
یہ ساری ٹائپس عکس کے لئے مختلف کیمیکلز استعمال کرنے کی ہی تھیں۔ جبکہ بنیادی طریقہ واردات تقریباً ایک سا ہی تھا کہ روشنی کے ایکسپوژر سے پلیٹ پر لگے کیمیکل کچھ یوں تبدیل ہوں کہ عکس کا نیگیٹو چھپ جائے اور پھر اس نیگیٹو سے پازیٹو بنا لیا جائے۔۔۔ 1839ء میں ہی جان ہرشل نے پہلا گلاس نیگیٹو بنایا، جبکہ 1841ء میں جنیز پوہر نے گلاس پر تصویر بنانے کا ایک بہتر طریقہ ایجاد کر دیا۔ اور پھر مختلف طریقوں سے فوٹوگرافی ہوتی رہی، نئے سے نئے کیمیکل والی پلیٹس اور پرنٹنگ کے لئے خاص محلول بنتے رہے۔ نئے سے نئے فوٹوگرافر پیدا ہوتے اور تجربے کرتے رہے۔ حتی کہ 1884ء میں ”جارج ایسٹ مین“ نے فوٹوگرافک فلم بنا دی۔ یوں فوٹوگرافی کے لئے زہریلے کیمیکل لگی پلیٹس کے ڈبے لیے پھرنے کی ضرورت نہ رہی۔ اور پھر 1888ء میں ایسٹ مین کوڈک کمپنی نے فوٹوگرافک فلم والا کیمرہ بنا کر یہ نعرہ لگایا کہ ”آپ صرف بٹن دبائیں، باقی سب ہم کرتے ہیں“۔ یوں ہر کسی کے لئے فوٹوگرافی آسان ہو گئی اور جب 1901ء میں پہلا ”کوڈک براؤنی“ کیمرہ مارکیٹ میں آیا تو فوٹوگرافی عام شہری کی دسترس میں بھی آ گئی۔
رنگین فوٹوگرافی
شروع میں فوٹوگرافی بلیک اینڈ وائٹ ہی تھی لیکن آغاز کے ساتھ ہی رنگین فوٹوگرافی کے لیے بھی کوششیں شروع ہو گئیں۔ اس کا ایک عملی مظاہرہ 1848ء میں ایڈمنڈ بیکریل نے کیا۔ اس کا ایکسپوژر ٹائم بھی گھنٹوں پر محیط تھا اور نتیجے میں بننے والی تصویر اتنی حساس تھی کہ مدھم روشنی کی بجائے اگر عام ماحول میں لائی جاتی تو اس کے رنگ اڑ جاتے۔ 1855ء میں سکاٹ لینڈ کے ماہرِ طبیعات(فزکس) جیمز میکس ویل نے رنگین تصویر بنانے کا ایک طریقہ تجویز کیا کہ سرخ، سبز اور نیلے فلٹرز کے ذریعے ہر رنگ کی علیحدہ علیحدہ یعنی تین مختلف تصویریں بنائی جائیں اور پھر اسی طرح کے فلٹرز والے تین پروجیکٹر کے استعمال سے رنگین تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ اس طریقہ سے 1861ء میں تھامس سوٹن نے رنگین تصویر بنائی۔ آج جو سب سے پرانی دستیاب ”رنگین تصویر“ ہے، وہ بھی سوٹن نے ہی بنائی تھی۔ اس کے بعد تین رنگوں کے اشتراک سے ہی رنگین تصویریں پرنٹ ہوئیں اور آج بھی ہم رنگوں کے معاملے میں بنیادی طور پر انہیں تین رنگوں یعنی سرخ، سبز اور نیلے (RGB) سے ہی کھیلتے ہیں۔ بہرحال مختلف لوگ رنگین فوٹوگرافی پر تحقیق کرتے اور تصویریں بناتے رہے، مگر جب ایسٹ مین کوڈک نے 1935ء میں 16mm کوڈا کروم فلم اور 1936ء میں 35mm سلائیڈز متعارف کرائیں تو رنگین فوٹوگرافی کے اک نئے دور کا آغاز ہوا۔
ڈیجیٹل فوٹوگرافی
جہاں پہلے فلم پر عکس اتارا جاتا تھا، وہاں فلم کی جگہ ”امیج سینسر“ لگا کر ڈیجیٹل فوٹوگرافی پر کام شروع ہوا۔ ویسے ڈیجیٹل فوٹوگرافی کا آغاز تو 1950ء کی دہائی میں ہی ہو گیا تھا۔ فرسٹ جنریشن الیکٹرونک کمپیوٹر کی ایجاد کے ساتھ ہی اس میں تصویر محفوظ کرنے کی کوشش ہونے لگی۔ البتہ باقاعدہ ڈیجیٹل فوٹوگرافی کا آغاز تب ہوا جب 1969ء میں پہلا ”سیمی کنڈکٹر امیج سینسر“ ایجاد ہوا، جو کہ چارج کپلڈ ڈیوائس(CCD) تھا اور اسے بیل لیبارٹریز میں کام کرتے ولارڈ بوائل اور جارج ای اسمتھ نے ایجاد کیا تھا۔
دوسری طرف ساٹھ کی دہائی میں ہی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے یوجین ایف لالی نے تحقیق شروع کی کہ کیسے موزیک فوٹوسینسر سے ڈیجیٹل تصویر بنائی جائے، تاکہ سیاروں اور ستاروں کی ڈیجیٹل فوٹوگرافی ہو سکے۔ 1972ء میں ایم آئی ٹی کے تھامس میک کارڈ اور کال ٹیک کے جیمز ویسٹ فال نے مل کر ٹیلی سکوپ کے ساتھ کام کرنے والا ڈیجیٹل کیمرہ بنایا۔ اسی دوران سیٹلائٹ کے لئے مختلف قسم کے ڈیجیٹل کیمرے تیار کر کے خلا میں بھیجے گئے۔ انہیں میں سے ایک سیٹلائٹ نے چھ سال میں زمین کی تین لاکھ تصویریں بنا کر بھیجیں۔ 1976ء میں ”مارس وائکنگ لینڈر“ نے مریخ کی سطح سے ڈیجیٹل تصویریں بنائیں۔
فوٹوگرافی ڈیجیٹل ہوئی تو اسے میموری میں محفوظ کرنے کا فارمیٹ اور خاص طور پر سائز ایک بڑا مسئلہ تھا۔ تبھی ”امیج کمپریشن“ کا تصور سامنے آیا اور 1972ء میں ہندوستانی نژاد امریکی ناصر احمد نے کمپریشن کی ایک خاص تکنیک پیش کی۔ بعد میں اسی تکنیک پر 1992ء میں JPEG فارمیٹ بنا۔ بہرحال سی سی ڈی سینسر کو استعمال کرتے ہوئے مختلف کیمرے بنتے اور فوٹوگرافی ہوتی رہی۔ جیسے ”کرومیکو سائکلپس“ 1975ء میں بنا۔ اسی سال ایسٹ مین کوڈک نے بھی سی سی ڈی سینسر والا کیمرہ بنایا۔ ستر کی دہائی میں ہی فیوجی فلم نے بھی ڈیجیٹل فوٹوگرافی پر کام کیا۔ تب تک ڈیجیٹل کیمروں کا استعمال ملٹری اور سائنس، خاص طور پر خلائی تحقیق کے لئے ہی کیا جاتا تھا۔ اور پھر عوام کے سامنے پہلا ڈیجیٹل کیمرہ 1981ء میں سونی نے پیش کیا۔ جو کہ 280K پکسلز تھا۔ کینن نے 1986ء میں اپنا پہلا ڈیجیٹل کیمرہ امریکہ میں فروخت کرنا شروع کیا۔ اگلے چند سال میں دیگر کئی کمپنیوں نے بھی ڈیجیٹل فوٹوگرافی میں قدم رکھا۔ لیکن ان کی فوٹوگرافی تو ڈیجیٹل تھی مگر کیمروں میں کئی کام اینالاگ تھے۔ 1988-89ء میں فیوجی فلم نے پہلا مکمل ڈیجیٹل کیمرہ بنا کر فروخت کے لئے پیش کر دیا۔
سمارٹ فون فوٹوگرافی
ڈیجیٹل فوٹوگرافی اور کیمروں کا دور شروع ہوا تو چاپانی کمپنی ”کیوسیرا“ نے 1999ء میں پہلا کیمرہ فون متعارف کرایا۔ اسے موبائل ویڈیو فون کہا جاتا تھا اور اس میں 20 تصویریں محفوظ ہو سکتی تھیں۔ اس کے بعد نئی صدی شروع ہوئی تو جون 2000ء میں سیم سنگ کمپنی اپنا کیمرہ فون مارکیٹ میں لے آئی۔ پھر پہلے کیمرہ فون اور پھر سمارٹ فون میں کیمروں کی ایسی دوڑ لگی کہ جو آج بھی اپنے عروج پر ہے۔
ہزاروں سال پہلے آبس-کورا کیمرہ سے شروع ہونے والا معاملہ آج بہت جدید ہو کر تقریباً ہر ایک کی جیپ میں ہے اور اب فوٹوگرافی زندگی کا ایک اہم جز بن چکی ہے۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں