تھوڑی دیر چلاس میں رکنے کے بعد ہم مزید سفر کے لئے چل پڑے۔ عباس کافی تماشے کر چکا تھا اور اب آرام کر رہا تھا۔ میں لکھ رہا تھا تو سب نے مذاق شروع کر دیا کہ ”وڈا آیا تارڑ“ وہ کیا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ صاحب سفر ناموں کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہیں اور میرے یار مجھے انہیں کے نام سے چھیڑنے لگے۔ میں نے کہا میں مانتا ہوں کہ میں تارڑ نہیں مگر یاد رکھو میرے ننیال ”تارڑ“ ہی ہیں۔ چلو اب بکواس بند کرو اور مجھے یہ بتاؤ کہ اس سفرنامے کا عنوان کیا رکھا جائے؟ گاڑی کا ماحول یک دم ادبی سا ہو گیا۔ میری طرح کے ایک دو اور بھی تھے جن کو لفظ ”ادب“ کے ہجے تک نہیں آتے تھے مگر سفرنامے کے عنوانات کی بارشیں کرنے لگے۔ اس سفر نامے کے ایسے ایسے نام رکھے کہ یہاں بیان نہیں کر سکتا۔ خیر جب سب اپنے مشورے دے چکے تو آرام کرتے ہوئے عباس نے آنکھیں کھولیں اور آہستہ سے بولا ”پربت کی گود میں“ رکھ لو۔ یہ مجھے پسند آیا اور اس میں تھوڑی سی تبدیلی کر کے ”پربت کے دامن میں“ رکھ لیا۔
ہمارا سفر جاری تھا اور جہاں بھی کہیں دور کوئی برفانی چوٹی نظر آتی تو سبھی نقشے،جی پی ایس (GPS) اور قطب نما (Compass) دیکھنے لگتے کیونکہ نانگا پربت کو دیکھنے کے لئے سبھی بے چین تھے۔ ایک جگہ ”تتاپانی“ آئی۔ ویسے ”تتا“ پنجابی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے جس کا مطلب ”گرم“ ہے۔ یوں اس جگہ کے نام کا اردو ترجمہ ”گرم پانی“ بنتا ہے۔ تتا پانی کے پہاڑوں میں گندھک ہونے کی وجہ سے چشموں کے پانیوں میں گندھک شامل ہو جاتی ہے اور یوں پانی گرم ہو جاتا ہے۔ ان پہاڑوں میں گندھگ کی تصدیق اس علاقے کی ہوا میں موجود بو کر رہی تھی اور پانی گرم کی تصدیق سلیم نے کر دی۔ باقی آیا پانی گندھک ملنے کی وجہ سے ہی گرم ہو رہا ہے اس کی تصدیق تو کوئی ماہر ہی کرسکتا ہے۔ میں نے پانی گرم ہونے کی وجہ اپنے اندازے سے لکھی ہے۔
تتا پانی کے بعد ہم تقریباً دو بجے ”جنت“ کی چوکھٹ پر پہنچ گئے۔ یہ رائے کوٹ پُل ہے ، جہاں پر سڑک سے دائیں طرف شنگریلہ ہوٹل ہے۔ جی یہ ”انہیں“ مشہور شنگریلہ والوں کی ایک شاخ ہے۔ رائے کوٹ پُل سطح سمندر سے تقریباً 1160میٹر بلند ہے۔ ہم گاڑی سے اتر چکے تھے۔ مجھے کچھ سلیم نے پہلے ہی بتا رکھا تھا اور کچھ میں وہاں پر لگا ہوا بورڈ دیکھ چکا تھا جو اشارہ کر رہا تھا کہ فیری میڈو (Fairy Meadow) دائیں طرف اوپر پہاڑوں کے پیچھے ہے۔ گو کہ میں نے فیری میڈو نہیں دیکھا، مگر جو تصویروں میں دیکھ چکا ہوں اور جو اس کے متعلق پڑھا اور سنا ہے اس سے تو یہ دنیا میں ایک چھوٹی سی جنت معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے فیری میڈو نہیں جانا تھا مگر سلیم صرف معلومات کے لئے شکوراحمد جیپ والے سے فیری میڈو کے رستے کے متعلق پوچھ رہا تھا اور شکور احمد بتا رہا تھا کہ چھ ہزار روپے لیں گے اور تاتو سے تھوڑا آگے اتاریں گے اور اس کے بعد آپ کو فیری میڈو تک دو تین گھنٹے کی ٹریکنگ کرنی ہو گی۔
اس دوران میرا دل کیا کہ پروگرام بدلتے ہیں، راما، تری شنگ، روپل بیس کیمپ اور دیوسائی کو بعد میں دیکھتے ہیں پہلے اس جنت کا نظارہ تو کریں۔ میں نے یہ بات دبے الفاظ میں سلیم سے بھی کہی کہ ہم جنت کی چوکھٹ پر کھڑے ہیں اور جنت کا نظارہ نہ کریں، تو یہ سراسر اپنی روح کے ساتھ ظلم ہے۔ سلیم نے وہی روائیتی فقرہ بولا کہ ”چلو واپسی پر دیکھ لیں گے“۔ سلیم مجھ سے بڑا ہے اور ہم سب اسے بھائی سلیم کہہ کر بلاتے ہیں مگر اس وقت دل کر رہا تھا کہ تمام ادب و احترام بھول کر اسے خوب سناؤ۔
سب اپنی اپنی موج میں مست تھے لیکن میں جنگلات کی چیک پوسٹ کے سامنے کھڑا، جنوب کی جانب ندیدوں کی طرح منہ اٹھائے، حسرت بھری نگاہوں سے چٹیل پہاڑوں کے اوپر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ان خوفناک، سوکھے، سڑے اور اجڑے پہاڑوں کے اس پار بلندوبالا مقام پر ایک جنت ہے، جسے لوگ پریوں کا دیس کہتے ہیں، جس کا ایک نظارہ کسی حسین و جمیل دوشیزہ کی طرح پہلی نظر میں ہی قتل کر دیتا ہے۔ اس دوشیزہ کے سر پر قاتل پہاڑ تاج بنے پھیلا ہوا ہے۔ مجھے اس وقت رائے کوٹ سے عجب سی کوفت ہونے لگی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنت کی چوکھٹ پر مگر ایک دوزخ میں کھڑا ہوں، دل کر رہا تھا کہ اُڑ کر اس جنت میں پہنچ جاؤں۔ سوچا کہ ایک وہ وقت بھی تو ہو گا جب لوگ اس شاہراہ سے گذرتے ہوئے چین تک جاتے ہوں گے اور کسی کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ ان ازلوں سے جلے پہاڑوں سے پرے پریاں بستی ہیں، پھر کسی نے پریوں کے دیس کو دریافت کر کے کئی انسانوں کو اس کا عاشق بنا دیا۔
میرے ان خوابوں کو سلیم نے اس وقت چکنا چور کیا جب گائیڈ بنتے ہوئے بتا رہا تھا کہ یہ جو شنگریلہ ہوٹل ہے اس کے ساتھ ہی دریائے سندھ کی اسی طرف ایک رستہ استور کو جاتا تھا جو اب لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ساتھ ہی اپنے معرکے کی داستان سنانے لگا کہ ایک دفعہ میں جب موٹر سائیکل پر آیا تھا تو اسی رستے سے استور گیا تھا۔ میں نے کہا ”وڈا توں ٹورسٹ“ چل گاڑی میں بیٹھ اور چلیں۔ سلیم نے کہا کہ یار فکر نہ کر اگلے سال آئیں گے تو صرف اسی جنت کو دیکھیں گے اور سکون سے چار پانچ دن رہنے کے بعد یہیں سے واپس چلے جائیں گے۔ خیر میں نے حسرت بھری نگاہوں سے فیری میڈو کے رستے کی طرف دیکھا، دل ہی دل میں الوداع کہا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
گاڑی رائے کوٹ پُل پر چڑھی تو پُل پر لگے ہوئے شیرنما جانوروں نے منہ ایسے کھول رکھا تھا جیسے وہ ہمیں خوش آمدید کہہ رہے ہوں۔ اب ہم نے رائے کوٹ پُل کے ذریعے دریائے سندھ کو عبور کیا اور یوں دریا ہماری دائیں جانب ہو گیا۔ میں نے موبائل نکالا، جی پی ایس آن کرتے ہوئے گوگل میپ دیکھنا شروع کیا۔ جب حساب لگایا تو پتہ چلا کہ اب ہم استور، تری شنگ اور روپل بیس کیمپ تک نانگاپربت کا طواف کرتے ہوئے پہنچیں گے۔ نانگا پربت ہماری دائیں جانب تھی اور ہم اس کے گرد لمبا چکر لگاتے ہوئے دوسری طرف پہنچیں گے۔ شاہراہ قراقرم بلند ہونا شروع ہو گئی اور دریا نیچے کھائی میں جانے لگا۔ زرد رنگت کے سوکھے پہاڑوں میں سفر کر رہے تھے۔ یہیں پر صحیح معنوں میں اندازہ ہوا کہ یہ دیو قامت، وحشی اور خطرناک سنگلاخ پہاڑ تو جیسے ہماری جان لینے کے درپے تھے۔ ویسے مجھے یہ وحشی سے زیادہ ”حبشی پہاڑ“ لگ رہے تھے۔ میرے اللہ نے حضرت انسان کو حکمت اور حوصلے سے نواز رکھا ہے۔ کیسے عجیب لوگ تھے جنہوں نے ان دیوقامت پہاڑوں کا سینہ چاک کرتے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے دوستی کی عظیم مثال ”شاہراہ قراقرم“ تعمیر کر دی۔
آج کل شاہراہ قراقرم کا یہ حصہ ٹوٹا ہوا بلکہ یوں کہیں کہ دوبارہ بن رہا ہے اس لئے گاڑی آہستہ چل رہی تھی اور گرمی بھی بہت لگ رہی تھی۔ گاڑی نے ایک موڑ کاٹا اور سامنے دیکھا کہ بچے سڑک کنارے تازہ خوبانیاں پلیٹوں میں ڈالے کھڑے ہیں۔ ہم نے گاڑی روکی، فی پلیٹ بیس روپے کی مل رہی تھی، ہم پلیٹ پکڑتے اور خوبانیاں کہاں جاتیں کچھ پتہ نہ چلتا، ہم کھانے میں مصروف تھے اور سلیم بیچارہ حساب کر کر کے ہر بچے کو پیسے دے رہا تھا۔ اجی ہمارا خزانچی، لیڈر، گائیڈ اور نہ جانے کیا کیا تھا ہمارا یہ شہزادہ سلیم۔ خیر خوبانیاں کھاتے ہوئے ہم میں سے کوئی کہتا یہ زیادہ میٹھی ہے تو کوئی کہتا یہ چیک کر، یہ زیادہ میٹھی ہے۔ بہرحال خوبانیاں مزے کی تھیں۔
تھوڑا آگے نکلے تو، یہ زبردست کارپٹ روڈ، ڈرائیور نے زور کا سوٹا مارا اور سیدھی کارپٹ روڈ پر ایسے گاڑی بھگائی کہ بلندی کی وجہ سے ایسا لگا جیسے ہم جہاز میں ہیں یا پھر جہاز گاڑی چلا رہا ہے۔ 🙂 میرے پاس جی پی ایس چل رہا تھا تو اس نے شور مچایا کہ ڈرائیور کو کہو جہاز نہ بن اور دائیں طرف مڑ جا۔ مگر اتنے میں ڈرائیور تھوڑا آگے نکل چکا تھا، میں نے شور مچایا کہ اوئے پائلٹ صاحب دائیں طرف مڑنا تھا مگر آپ آگے نکل آئیں ہیں۔ ہم ابھی دو تین سو میٹر ہی آگے آئے تھے کہ ڈرائیور نے گاڑی روکی اور واپس موڑی۔ یہ مقام تھلیچی کہلاتا ہے۔ یہاں سے ہم شاہراہ قراقرم کو خیرباد کہتے ہوئے دائیں طرف استور روڈ پر مڑ گئے اور پھر دریائے سندھ کو عبور کرتے ہی خیر باد کہا۔ اب دریائے استور کے کنارے سنگلاخ پہاڑوں کی تنگ اور خوفناک کھائی میں سفر کرنے لگے۔ کئی جگہوں پر کھائی اتنی تنگ ہوتی اور ایسا محسوس ہوتا کہ دونوں اطراف کے پہاڑ آپس میں جڑ جائیں گے۔
رستے میں ایک چھوٹا سا چشمہ آیا، ہمیں گرمی لگ رہی تھی مگر چشمے کے ٹھنڈے پانی نے بہت سکون دیا۔ میٹھا میٹھا جام چڑھایا، باقی تو مست ملنگ بنے ہوئے تھے مگر میں نے تھوڑی بہت موج مستی کی، جیسے عبدالرؤف ویرانے میں بیٹھا تو میں کیمرہ لے کر پہنچ گیا، بیچارہ کام مکمل کیے بغیر دوڑ پڑا۔ اس کے علاوہ گلاس میں پانی بھر کر ادھر ادھر چھینٹے اڑاتا۔ یہاں سے چلے تو ایک جنگلات کی چیک پوسٹ آئی، اس کے بعد ڈویاں سے گزرتے ہوئے ہرچو تک پہنچے۔ گاڑی کھڑی کی اور چائے پینے کے لئے ایک چھپر ہوٹل پر رکے۔ یہیں پر چائے پیتے ہوئے ایک مقامی بزرگ سے گپ شپ ہوئی اور ان کی مقامی زبان ”شینا“ کے نام کا بھی اسی بزرگ سے پتہ چلا۔ میرے پوچھنے پر بابا جی نے بتایا کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو ہم خریدوفروخت کے لئے چلاس یا گلگت جانے کی بجائے کشمیر کے کیل سیکٹر جایا کرتے تھے۔ میں نے نقشے پر کیل سیکٹر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ لوگ کتنے مشکل راستوں سے جاتے تھے اور ان کی زندگی کتنی مشکل تھی، بلکہ ان سادے لوگوں کی زندگی تو ابھی بھی بہت مشکل ہے۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر زیادہ تر ”شین“ اور ”یشکن“ ذات کے لوگ آباد ہیں۔ ہمیں دیر ہو رہی تھی وگرنہ میں شین اور یشکن کی مزید تفصیل ضرور معلوم کرتا۔ چائے کا بل ادا کرتے ہوئے پتہ چلا کہ چائے تو صرف دس روپے کی تھی۔ حیرانگی اس لئے ہوئی کہ رستے میں پینتیس چالیس روپے تک کی چائے بھی ملی تھی۔ چائے پینے اور بابا جی کو سلام کہنے کے بعد مزید سفر شروع ہوا اور ہم جلد ہی شام کے تقریباً چھ بجے استور شہر پہنچ گئے۔
اگلا حصہ:- استور اور راما کا تاریک و رنگین سفر – پربت کے دامن میں
بلال بھائی ہم کو بھی یہ علاقے دیکھنے کا بہت شوق ہے آپ کے سفر کی داستان پڑھ کے تو اس میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا ہے .
بہت خوب، پھر تو اس معاملے میں ہم ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔ ویسے کبھی فرصت اور بہتر حالات میسر ہوں تو ان علاقوں کو دیکھئے گا۔ بہت سکون دیتے ہیں۔ بندے کا آپریٹنگ سسٹم ایک دفعہ ریفریش کر دیتے ہیں۔
زبردست 🙂 🙂
شکریہ جناب۔
بہت خوب بھائی
مزید کا انتظار رہے گا
شکریہ جناب۔ کوشش کرتا ہوں کہ آپ کے انتظار کو زیادہ لمبا نہ ہونے دوں۔ باقی جو رب کی مرضی۔
واقعی سفر نامہ پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ ہم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں
ہم آپ کے ساتھ ہیں یا نہیں مگر آپ اس سفر میں ہمارے ساتھ ساتھ تھے اور آپ کو بہت یاد کیا تھا۔
اسے کہتے ہیں میرے گاؤں کی کہانی، بلال بھائی کی زبانی۔
خیر سے ہم بھی یشکُن کہلاتے ہیں۔
بہتر جناب۔
میں سوچ رہا تھا کہ شین اور یشکن کے بارے میں مزید معلومات کے لئے اس علاقے کے کسی بندے سے فون پر رابطہ کروں، مگر آپ کی وجہ سے سہولت ہو گئی، چلیں کسی وقت آپ سے تفصیلی بات چیت کرتے ہیں۔
بلال صاحب آپ نے بہت خوبصورت انداز سے اپنا سفر نامہ بیان کیا ہے
سفرنامہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔