پچھلے دنوں اردو بلاگستان میں ٹیگ و ٹیگ کھیلا جا رہا تھا۔ شروع میں مجھے کسی نے ٹیگ نہیں کیا تھا مگر کھیل کے آخری لمحات پر شعیب صفدر صاحب اور محمد یاسر علی صاحب نے ٹیگ کیا۔ مجھے ضرور جواب دینا چاہئے تھا مگر میری نالائقی کہ جواب نہ دے سکا، مگر شعیب صفدر صاحب کے ہی ایک سوالنامہ پر تفصیلی بات کرتے ہوئے کوشش کر رہا ہوں کہ ٹیگ والے کھیل کا کفارہ ادا کر سکوں۔ گو کہ یہ مختلف باتیں ہیں لیکن اپنی طرف سے اسے کفارہ ہی تصور کر رہا ہوں۔
اکثر سننے میں آیا ہے کہ اردو بلاگوں پر ٹریفک بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے خیال میں یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کی وجہ کیا ہے؟ شاید یہی وجہ معلوم کرنے یا اندازہ لگانے کے لئے کچھ دن پہلے شعیب صفدر صاحب نے فیس بک پر ایک سوالنامہ شروع کیا۔ میں نے اس سوالنامہ میں تین جواب منتخب کئے۔ اس سوالنامہ پر تفصیلی بات کرنے سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ کسی بلاگ کے قارئین کتنی اقسام کے ہوتے ہیں۔ میں عام طور پر قارئین کو دو اقسام میں تقسیم کرتا ہوں۔
دوست/مستقل قارئین
اجنبی/غیر مستقل قارئین
گو کہ ان دو قسموں کو میں مزید کئی اقسام میں تقسیم کرتا ہوں لیکن یہاں صرف سرسری جائزہ لیتے ہیں۔
کسی بلاگ کے دوست یا مستقل قارئین ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہر نئی تحریر کو مکمل پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن اس پر نظر ضرور رکھتے ہیں یا پھر کم از کم ان کو یہ علم ضرور ہوتا ہے کہ بلاگ پر کیا چل رہا ہے۔ ایسے قارئین زیادہ تر بلاگ ایگریگیٹر اور فیڈ ریڈر وغیرہ کے ذریعے بلاگ تک پہنچتے ہیں یا پھر ان قارئین میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائیٹ پر بلاگر کے دوست ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں کسی بھی بلاگ کے دوست یا مستقل قارئین کی تعداد، بلاگ کے دیگر قارئین کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہونی چاہئے لیکن اردو بلاگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں صرف یہی ”نمک“ ہی دستیاب ہے۔
قارئین کی دوسری قسم ہے اجنبی یا غیر مستقل۔ ایسے قارئین کی زیادہ تعداد سرچ انجن وغیرہ سے تلاش کرتے ہوئے بلاگ تک پہنچتی ہے۔ ایسے قارئین کو بلاگ کی شکل و صورت سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بلاگر کی شہرت سے کوئی لگاؤ رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنی درکار معلومات کا حصول ہوتا ہے۔ بلاگ پر موجود معلومات ہی اصل سرمایہ ہے کیونکہ جب زیادہ اور معیاری معلومات بلاگ پر ہو گی تو پھر ہی لوگ سرچ انجن سے بلاگ پر پہنچ کر رکیں گے اور اسی نسبت سے ”مستقل قارئین“ کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا یعنی جب کسی کو بلاگ کی معلومات اچھی لگے گی تو وہ اسے بک مارک وغیرہ کرے گا یا کسی دوسرے ذریعہ سے بلاگ کا مستقل قاری بن جائے گا۔
خیر اب آتے ہیں اردو بلاگوں کی ٹریفک کی طرف۔
اردو بلاگوں کے قارئین میں سب سے پہلے تو خود اردو ”بلاگران“ ہی ہیں اور فی الحال یہی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد دوسری بڑی تعداد مختلف اردو فورمز کے ممبران کی ہے۔اس کے بعد اردو بلاگران کا اپنا حلقہ احباب اور پھر چند ایک ایسے فیس بکی لوگ ہیں جن تک غلطی سے کسی اردو بلاگ کا لنک پہنچ جاتا ہے۔ ان سب کے بعد نہایت ہی کم تعداد سرچ انجن سے آتی ہے۔
میری نظر میں اردو بلاگوں کی ٹریفک /وزیٹر/قارئین کم ہونے کی بڑی تین وجوہات ہیں اور یہی تین میں نے شعیب صفدر صاحب کے سوالنامہ میں منتخب کی تھیں بلکہ میری نظر میں جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ سوالنامہ میں موجود ہی نہیں تھی اور پھر میں نے شامل کی۔
تین بڑی وجوہات یہ ہیں۔
1: سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش نہ کرنا۔
2: اردو بلاگوں پر کم مواد۔
3: اردو بلاگران کا اردو بلاگنگ کی دنیا سے باہر نہ دیکھنا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں انٹرنیٹ صارفین کی بہت کم تعداد اس بات کا علم رکھتی ہے کہ کمپیوٹر پر انگریزی کی طرح براہ راست اردو بھی لکھی جا سکتی ہے۔ بلکہ کئی لوگ تو ابھی بھی اسے ”راکٹ سائنس“ سمجھتے ہیں، گو کہ راکٹ سائنس بھی اب کوئی راکٹ سائنس نہیں رہی (بقول غلام عباس)۔ اور تو اور پچھلے دنوں فیس بک کے ایک گروپ پاکستانی پروبلاگرز میں ایک صاحب اردو لکھنے والوں کو مخاطب کر کے فرمانے لگے کہ آپ لوگ دھونس جمانے کے لئے اردو لکھتے ہو۔ ان کا خیال تھا چونکہ اردو لکھنا مشکل ہے اس لئے یہ لوگ اردو لکھ کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم بڑی چیز ہیں جبکہ ان صاحب کو اصل علم ہی نہیں تھا۔ خیر یہی علم نہ ہونے کی وجہ سے اکثریت گوگل اور دیگر سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش نہیں کرتی۔ مزید جن کو اردو لکھنے کا علم ہے ان کی بھی بہت کم تعداد خاص اردو میں تلاش کرتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ لوگ اردو پڑھنا نہیں چاہتے تو میری نظر میں یہ غلط ہے کیونکہ گوگل کے اعدادوشمار دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کی بہت بڑی تعداد اردو مواد پڑھنے کو ترجیح دیتی ہے لیکن وہ غلط انداز میں تلاش کرنے کی وجہ سے اصل اردو مواد تک نہیں پہنچ پاتی۔ اب جیسے لوگ مواد تو اردو میں چاہتے ہیں لیکن تلاش انگریزی میں کرتے ہیں اور کسی بھی کیوری کے ساتھ in Urdu جیسے الفاظ کا اضافہ کر دیتے ہیں یا پھر رومن اردو میں تلاش کرتے ہیں۔ پاکستان سے ایک مہینے میں گوگل پر تلاش ہونے والے چند کی ورڈز(Key Words) کو ایک گوشوارے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اس پر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے اور اردو بلاگوں کو سرچ انجن سے ٹریفک کیوں نہیں مل رہی۔
خاص اردو لفظ | گوگل پر تلاش کیا گیا | متبادل انگریزی لفظ | گوگل پر تلاش کیا گیا |
اردو | 14,800 | urdu | 6,120,000 |
خبریں | 590 | urdu news | 368,000 |
کتابیں | 720 | urdu books | 165,000 |
شاعری | 3,600 | urdu poetry | 301,000 |
ویب سائیٹ | 28 | urdu website | 22,200 |
بلاگ | 480 | urdu blog | 4,400 |
کرکٹ | 390 | cricket in urdu | 3,600 |
پاکستان | 12,100 | pakistan in urdu | 90,500 |
تاریخ پاکستان | 170 | history of pakistan in urdu | 2,900 |
کمپیوٹر | 590 | computer in urdu | 18,100 |
یاد رہے یہ چند الفاظ پاکستان سے ایک مہینے میں تقریباً جتنی مرتبہ تلاش کئے گئے وہ مثال کے طور پر پیش کئے ہیں۔ اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے اب آپ خود اندازہ کر لیں کہ خاص اردو الفاظ کے ساتھ تلاش اگر زمین پر ہے تو اس کے متبادل انگریزی الفاظ کے ساتھ تلاش آسمان پر ہے۔ خاص اردو میں تلاش کئے گئے الفاظ والی ٹریفک ہی اردو ویب سائیٹوں اور بلاگوں کو ملے گی جبکہ دوسرے لوگ جو چاہتے تو اردو مواد ہیں لیکن ان کی غلط تلاش کی وجہ سے وہ ادھر ادھر بھٹک جاتے ہیں اور بہتر اردو مواد تک نہیں پہنچ پاتے۔ یوں لوگوں کو مواد نہیں ملتا اور اردو بلاگوں کو ٹریفک نہیں ملتی۔ موجودہ صورت حال میں اگر اردو بلاگوں کی ٹریفک دیکھی جائے اور اردو مواد پڑھنے کے خواہش مند افراد کی تعداد دیکھی جائے تو اس میں بہت فرق ہے۔ اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ لوگ خاص اردو میں تلاش نہیں کرتے کیونکہ انہیں اردو لکھنی نہیں آتی یا اس کا علم ہی نہیں۔
کسی بھی ویب سائیٹ کی ٹریفک کا اصل دارومدار سرچ انجن پر ہی ہوتا ہے اور اردو بلاگوں کو یہی اصل ٹریفک نہ ہونے کے برابر مل رہی ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اردو بلاگوں پر ٹریفک بڑھے تو لوگوں کو صرف اردو فانٹ ہی نہیں بلکہ ساتھ ساتھ اردو لکھنے کی ترغیب بھی دیں۔ سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش کرنے کا کہیں اور اس کے متعلق تفصیلی فوائد سمجھائیں۔
ہو سکتا ہے آپ یہاں اس لئے آئے ہوں کہ چلو سرچ انجن کے ذریعے ٹریفک بڑھانے کی جدید تکنیک سیکھتے ہیں، لیکن یہاں ایسا کچھ نہ پا کر یقیناً آپ کو مایوسی ہوئی ہو گی، جس کے لئے میں معذرت چاہتا ہوں۔ باقی آپ خود غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اس وقت اردو بلاگران کی یہ پریشانی نہیں کہ سرچ انجن میں ایک دوسرے سے زیادہ نمایا جگہ کیسے حاصل کی جائے بلکہ پریشانی تو یہ ہے کہ تمام اردو بلاگران پہلے سے سرچ انجن میں نمایا جگہوں پر بیٹھے ہیں لیکن کوئی تلاش کرنے والا ہی نہیں۔ کبھی خاص اردو الفاظ میں تلاش کر کے دیکھئے گا تو پتہ چل جائے گا کہ اردو بلاگران کتنی نمایا جگہ پر ہیں لیکن۔۔۔
ارے! ایک دفعہ لوگوں کو اردو میں تلاش تو کرنے دو پھر اگر زندگی نے وفا کی تو سرچ انجن میں نمایا جگہ حاصل کرنے پر بھی اپنے محدود علم کے مطابق لکھ دیں گے، بلکہ تب ہم خود آپ سے ضد لگا کر نئی سے نئی تکنیک استعمال کریں گے اور جگہ جگہ یہ کہتے پھریں گے کہ دیکھو ہمارا ”رینک“ کتنا بلند ہے۔ 🙂 فی الحال ہمیں ”رینک“ وغیرہ سے کوئی لینا دینا نہیں اور جس سے لینا دینا ہے اس کی کافی وضاحت کر دی ہے۔
اس تحریر کا اگلا حصہ ”اردو بلاگوں کے تھوڑے قارئین کی وجوہات“ ملاحظہ فرمائیں۔
بہت اچھا آرٹیکل پیش کیا ہے آپ نے۔ میرے ذاتی تجربہ کے مطابق اردو بلاگ کے لیے سب سے سود مند ٹریفک سرچ انجن کی ہے، کیونکہ وہ مخصوص کی ورڈ کی تلاش میںآپکے بلاگ تک پہنچتے ہیں اور پھر دل لگا کر پورا آرٹیکل پڑھتے ہیں اور ساتھ ساتھ دیگر آرٹیکلز پر بھی نظر مارتے ہیں، جبکہ فیس بک ، فورمز یا ایگریگیٹرسے آنے والے دوست آرٹیکل کی سرخی اور پہلا پیراگراف پڑھتے ہیں اور اسکے بعد اپنی مرضی کا مواد نہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر آپکی ویب سائیٹ سے کوچ کر جاتے ہیں ۔ یہی حال ریگیولر وزٹرز کا ہے۔ ایس ای او کے حوالے سے یہ بہت خطرناک صورتحال ہے۔ 😕
یہ تو آپ نے مسائل گنوائے ہیں۔ حل تو میں آپ کی ایک گذشتہ تحریر پر بتایا تھا۔
بلاگ پر یکایک اور انے وا ٹریفک گھسانے کا ایک آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسکیمت پلگ ان ہٹا دیں۔ فیر دیکھیں !
ہٹا دیں اور پھر بوگس اور روبوٹس کے وزٹس ہی ملیں گے
اوپر آلا تبصرہ ایک مخول تھا۔ 🙄
ویسے ٹریفک تو ٹریفک ہے نا! 😆
بہت عمدہ تحریر ہے۔ آپ کی بات سی کافی حد تک اکتفا کرتا ہوں۔ شاید بلاگران کا اتنا قصور نہیں ہے۔ قصور ہے تو ہم لوگوں کا، ہم لوگ اردو کو چھوڑ کے انگریزی زبان کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں۔ ہم اردو کو بالکل ترجیح نہیں دیتے۔
سویڈن میں بولنا ، لکھنا، نوٹس بورڈذ اور تمام سرکاری، نیم سرکاری اور نجی ویب سائیٹس سویڈش زبان میں ہیں تو آپ اندازہ لگا لیں کہ صرف دس ملین لوگوں کی زبان کا انٹرنیٹ پر کتنا مواد ہوگا؟ بے تحاشہ۔ جبکہ دوسری طرف بیس کڑوڑ لوگوں کی زبان کا بہت ہی کم مواد انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
زبان کی بول چال، لکھنا، اہمیت اور فوقیت دوسرے میڈیمز کے علاوہ انٹرنیٹ پر بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دن میں کئی دفعہ یہ پوچھا جاتا ہے کہ بھائی اردو کیسے اتنی جلدی لکھتے ہو ۔ اب انہیں کیا جواب دیا جائے کہ اردو لکھنا اور رومن اردو میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے چند ہی تبدیلیاں ہیں لیکن لوگوں کی سمجھ میں یہ بات ہی نہیں آتی ، اور پھر جب اردو لکھ لیں تو ایسے پوچھتے ہیں جیسے میدان جنگ میں اکیلے ہی پوارا میدان خالی کردیا ہو 🙄
ہمیشہ کی طرح بہت اچھا لکھا ہے بلال بھائی
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ضرور ہے لیکن آفس وغیرہ میں ہر جگہ انگریزی ہی استعمال ہورہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے کمپوٹر کی فیلڈ میں کام کرنے والے بھی اردو ٹائپنگ سیکھنے میں دلچسپی نہیں لیتے اور ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب گورنمنٹ سرکاری دفاتر میں اردو کو کیوں نہیں رائج کر رہی پہلے تو چلو ٹائپ رائٹر ہوتے تھے اردو ٹائپ کرنا مسئلہ تھا اب یہ مسئلہ نہیں رہا جس دن سرکاری سطح پہ اردو زبان کو رائج کر دیا گیا اس دن سے لوگ اردو ٹائپنگ سیکھنے اور کرنے کو بھی ترجیع دیں گئے پھر اردو بلاگران میں بھی رینک بڑھانے کی ڈور شروع ہوگئی۔
بلال ہمیشہ کی طرح بہترین لکھا ہے۔
مسلئہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اردو میڈیم ہونے پراحساس کمتری کا شکار ہیں۔ پچھلے دنوں ایک کالج کے استاذ سے فیس بک پر بات چیت ہورہی تھی تو وہ انگریزی اور رومن اردو میں بات کررہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کبھی اردو میں لکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ عادت ہے ۔ میں نےعرض کیا جناب اردو میں لکھنا انگریزی اور رومن میں لکھنے سے کہیں آسان ہے لیکن وہ پھر بھی ٹال گئے۔
آخری بات یہ ایک بہت بڑا راز ہے۔ انٹرنیٹ پر اردو کو عام کرنے سے لاکھوں پاکستانیوں کو گوگل کی صورت میں سونے کی کانیں مل سکتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر سوچیئے جس دن ہر پاکستانی گوگل پر خاص اردو میں سرچ کرنے لگا تو ہر مقامی کمپنی خاص اردو میں گوگل ایڈسین اشتہار دیں گی جس سے ہر معیاری اردو ویب سائٹ اور بلاگ کے پاس ایک نہ رکنے والی آمدن شروع ہونے کا بہت بڑا موقع ہوگا۔
یار تلاش غلط طریقے سے کرنے والی وجہ میں نے آپ سے پہلے ہی سوالنامے میں شامل کر دی تھی۔
is tarah search karnay walay loag
😆
لگتا ہے آپ بھی میری طرح رومن اردو کی شکل دیکھ کر بھاگ نکلتے ہیں۔ تبھی آپ کو نظر نہیں آیا۔ 😆
جی اس جواب پر نظر پڑی تھی مگر میرا یہ خیال تھا کہ یہ صرف رومن اردو میں تلاش کی طرف اشارہ کر رہا ہے جبکہ اردو کے لئے انگریزی میں تلاش کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ اس لئے ”سرچ انجن میں خاص اردو میں تلاش نہ کرنا“ بھی شامل کر دیا۔
بہت ہی عمدہ تجزیہ کیا ہے آپ نے۔ میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے میرے بلاگ کے بائیس ہزار آٹھ سو وزٹ میں سے بائیس ہزار تو میرے خؤد کے ہی ہوں گے۔
اگر ہم لیبل رومن اردو میں دیںتو کیا سرچ کرنے والا ہمارے بلاگ تک پہنچ سکے گا؟
گوگل اور دیگر سرچ انجن اب جوان اور سمجھدار ہو چکے ہیں اس لئے صرف لیبل دینے سے فرق نہیں پڑنے والا۔
لو دسو، میں سمجھا کوئی جناتی قسم کا ٹونہ بیان کیا جائے تو، کو لوجی یہ کرو اور وہ کرو، چالیس گرام ریت کی جڑیں، بیس گرام مچھلی کے پاوے، پندرہ گرام دل کی سیاہی کے ساتھ ملاکر ہفتے میں تین دن پھانکیں اور دوہفتے بعد بندہ مار رزلٹ لو، مگر یہ تو لمبے اتنظار کا ہی چکر ہے، وہ تو ہم پہلے بھی کررہے ہیں،
جناب آپ نے یہ تو لکھا ہی نہیںکہ جب تک مواد معیاری نہیںہو گا، بلاگ پر ٹریفک نہیں بڑھ سکتی۔ اگر کوئی بھولے بھٹکے آ بھی جائے تو آئندہ آنے سے تو بہ ہی کر لیگا
بہت اچھا تبصرہ کیا ہے آپ نے۔
میں بلاگنگ کی دنیا میں قدم رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ جیسا میں نے پڑھا اور سنا کے بلاگنگ میں کاپی پیسٹ نہیں چلتا بلکہ خود سے لکھنا پڑتا ہے یہ کام اردو میں آسان ہے لیکن انگلش میں پہاڑ ہے۔ لیکن اردو بلاگز کی ٹریفک بہت کم ہے یہ ایک مسئلہ ہے لیکن اگر ہم سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں قومی زبان کو اہمیت دینی ہو گی۔ ہمیں ایسے طریقے تلاش کرنے ہونگے جن سے ہم اپنے بلاگز اپنے لوگوں تک پہنچا سکے۔