ہم کچھ دوست مل بیٹھے محفل سجائے گپ شپ کر رہے تھے۔ کبھی کوئی موضوع زیرِ بحث آ جاتا کبھی کوئی۔ پھر اچانک ایک دوست نے ایسی بات سنائی جس نے مجھے سوچنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا۔ بات ہی کچھ ایسی ہے جو خلوص و محبت کی وہ مثال پیش کرتی ہے جس کا آج تک پاکستانی قوم نے صرف تاریخ اسلام میں پڑھا ہے لیکن خود عملی نمونہ نہیں بن پائے۔
دوست نے بات سنائی کہ ایک بار چین کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ ملک بحرانوں کا ایسا شکار ہوا کہ لوگ اشیاء خوردونوش کو ترسنے لگے یعنی قحط جیسی صورت پیدا ہو گئی۔ لیکن وہ لوگ جو قحط کا شکار تھے وہ ایک قوم تھی نہ کہ ہماری طرح صرف باتیں، بحث اور شور مچانے والے۔۔۔ ملک میں ہر طرف بھوک ہی بھوک تھی۔ لیکن اُس قوم نے مشکل وقت ایسے کاٹا جیسے اُن پر کوئی مصیبت آئی ہی نہیں تھی۔ اُس مشکل وقت میں جب بھی دو انسان ایک دوسرے کو ملتے تو سلام یا حال چال پوچھنے کی بجائے یہ پوچھتے کہ میں نے کھانا کھا لیا ہے کیا تم نے کھایا ہے؟ اگر نہیں کھایا تو میرے پاس ابھی بھی کچھ نوالے باقی ہیں آؤ تمہیں دیتا ہوں۔
یہ بات سن کر تو میں حیران رہ گیا کہ ایک ایک نوالہ سنبھال کر رکھا اور ایک دوسرے کا اتنا خیال رکھا۔ اور ساتھ ہی اپنے حالات سوچنے لگا کہ ایک ہم لوگ ہیں خود پیٹ بھر کر کھانا کھاتے ہیں لیکن ہمسائے کا حال معلوم کرنے کا وقت تک نہیں۔ بچ جانے والے کھانے کو کوڑے میں تو پھینک دیتے ہیں لیکن کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ اسی کھانے کو کوڑے کے ڈھیر سے کچھ لوگ دوبارہ اُٹھا کر کھا جائیں گے۔ ذہن میں یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ ایک نئی لہر آئی جو ان باتوں کو اسلام کے حوالے کر کے چلی گئی اور پھر یاد آیا کہ تاریخ اسلام میں تو چین سے زیادہ لازوال مثالیں موجود ہیں۔ سب سے مشہور واقعہ جو ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ کسی جنگ میں کچھ پیاسے مسلمان زخمی پڑے تھے۔ ایک نے آواز لگائی پانی،،،،، پانی پلانے والا پانی لایا، ابھی وہ زخمی پانی پینے ہی لگا تھا کہ دوسرے زخمی نے پانی کی آواز لگائی۔ پہلا زخمی بولا پہلے میرے دوسرے زخمی بھائی کو پانی دو مجھے بعد میں دینا۔ پانی پلانے والا پانی لے کر دوسرے زخمی کی طرف گیا۔ دوسرا زخمی پانی پینے ہی لگا کہ ایک تیسرے زخمی نے پانی کی آواز لگائی۔۔۔ دوسرا زخمی بولا پہلے میرے تیسرے زخمی بھائی کو پانی دو۔ جب پانی پلانے والا پانی لے کر تیسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ شہید ہو چکا تھا۔ پانی پلانے والا واپس دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو وہ بھی شہید ہو چکا تھا۔ پھر وہ پہلے کے پاس پہنچا تو وہ بھی شہید ہو چکا تھا۔ اور یوں ملتِ اسلامیہ کے پیاسے مجاہدوں نے اپنی جان پر دوسرے کو ترجیع دے کر تاریخ لکھ دی۔
لیکن آج میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ ہمارے ہی بزرگوں کے واقعے ہیں؟ جنہوں نے اپنے آرام و سکون اور زندگی پر دوسرے مسلمان بھائیوں کو فوقیت دی۔ اور ایک ہم ہیں جو اسلام کا نام تو بڑے جوش سے لیتے ہیں۔ نعرے لگانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ اسلامی واقعات بڑے شوق اور جذبے سے پڑھتے ہیں اور بڑے فخر سے دوسروں کو سناتے ہیں اور یوں ماضی کو پڑھ کر یا سن کر خوش ہوتے ہیں لیکن کبھی اُن واقعات سے نصیحت نہیں پکڑی۔ اسلامی تاریخ جو تھی سو تھی لیکن کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ “ہم کیا ہیں؟” ہمارا علم و عمل کیا ہے؟
اپنے ان حالات کو سوچتے ہوئے مجھے فارسی کی ایک کہاوت یاد آگئی ہے “پدرم سلطان بود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تُراچہ، تراچہ، تراچہ” یہ کہاوت گیدڑوں کی بول چال کو ظاہر کرتے ہوئے انسان کی عقل کی کھڑکیاں کھولنے کے لئے کہی جاتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب گیدڑوں کا کوئی گروہ مل کر موج مستی کرتا ہے تو ایک گیدڑ زور سے آواز نکالتا ہوا ایک لمبی سر میں کہتا ہے “پدرم سلطاااااااان بووووووووود” دوسرے گیدڑ جواب میں کہتے ہیں “تراچہ، تراچہ، تراچہ”۔ یعنی پہلا گیدڑ کہتا ہے “میرا باپ بادشاہ تھااااااا”، دوسرے جواب میں کہتے ہیں “تم کیا ہو، تم کیا ہو، تم کیا ہو”۔۔۔ اسی بات کو حکیم الامت علامہ اقبال جواب شکوہ میں یوں فرماتے ہیں
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ہم بھی مختلف مکالموں، مباحثوں، تقریروں اور محافل میں کہتے ہیں کہ ہماری تاریخ بہت شاندار اور ہمارے بزرگوں کے کارنامے لازوال ہیں، ہمارے بزرگوں کی قربانیاں کبھی بھلائی نہیں جا سکیں گیں لیکن کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ “ہم کیا ہیں؟”
کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوراہ کی ہے کہ جو تاریخ ہم لکھ رہے ہیں وہ کتنی شاندار ہے یا شرم ناک ہے؟ کیا ہماری تاریخ بھی ہمارے بزرگوں کی طرح سنہری حروف سے لکھی جائے گی یا پھر بے گناہوں کے خون سے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارا کوئی کارنامہ ہے بھی کہ نہیں؟ کیا ہم نے قربانی دی ہے یا ظالموں میں شامل ہو کر غریب، مظلوم اور بے سہارا کی دنیاوی مال و دولت اور شہرت کے لئے صرف جان لی ہے؟
وقت لمحہ لمحہ گزر رہا ہے اور جسم سے سمتے ہوئے خون کے قطرے کی طرح کم ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ خون ختم ہو اور موت ہمیں آ پکڑے کچھ ایسا کر دیں کہ ہمارے بزرگوں کی طرح ہماری تاریخ شاندار، ہمارے کارنامے لازوال ہو جائیں مؤرخ جب بھی ہماری تاریخ لکھیں تو سنہری حروف سے لکھیں۔ آؤ کچھ ایسا کریں کہ ہم مر کر بھی زندہ و جاوید رہیں۔
اے میرے پاکستانی ساتھیو! آؤ مل کر اسلام کی اصل روح کو سمجھیں اور امن و سکون کا پیغام ملک ملک، شہر شہر، بستی بستی، گلی گلی اور گھر گھر پہنچائیں۔ ہم یہ ثابت کر دیں کہ وہ واقعات جن کو تاریخ نے سنہری حروف سے لکھا ہے وہ ہمارے ہی بزرگوں کے ہیں اور ہم ہی اُن کے والی وارث ہیں۔ آؤ قرآن و سنت کی دکھائی ہوئی راہ پر چلیں اور اپنی سوچ کو وسیع کر کے اپنی حقیقت کو پہچان جائیں۔ آؤ بے سہاروں کا سہارا بنیں، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹیں، بحرانوں کے اس طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور دوسروں کی مدد کریں، علم کو فروغ دیں اور جہالت کی تاریکی ختم کر دیں، جوانوں کے ہاتھ میں ہتھیار کی جگہ قلم دیں تاکہ وہ کسی ظالم کا ساتھ دینے کی بجائے اُس کے خلاف کلمہ حق بلند کریں، آؤ آج اپنے آپ کو سیدھی راہ پر چلانے کے لئے یہ سوچ ہی ڈالیں کہ آخر “ہم کیا ہیں؟”
بلکل ٹھیک کہا ہے آپ نے ۔۔۔۔متاثر کرنے والی تحریر ہے یہ۔۔۔کاش ہم سب بھی ایک ہو کر سچے دل سے اِسلام کی خدمت کرنے میں مصروف ہو جائیں۔آمین ۔
کچھ دن پہلے ہماری یونیوسٹی میں ایک پرفیسر آئے جنوں نے امرکہ سے پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ جب وہ یہاں آئے اور یہاں پچوں کو پڑھانا شروع کیا جب پچوں کو پڑھا کر واپس اپنے آفس گے تو ایک نائپ قاصد ان کے پاس گیا اور بولا سر آپ کے لے پانی لاؤں ، آپ کھانا کس وقت کھائے گے وغیرہ وغیرہ تو وہ بولے یہ کیسا نظام ہیں آپ یہاں کیا ہو۔ وہ بتانے لگا سر میں یہاں نائپ قاصد ہوں یانی نوکر
انھوں نے کہا بھائی امرکہ میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا کسی بھی آفس میں میں نے نائپ قاصد نہیںدیکھا ہے وہاں تو سب اپنا کام خود کرتے ہیں اور مجھے بھی جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑی تو میں خود لیے لوں گا آپ جاؤ
یہ بات سن کر میں نے سوچا کے ہمارے پیارے نبی (ص) بھی اپنا کام خود کرتے تھے اور ان کے بعد جب تک مسلمانوں نے حکومت کی وہ سب اپنا کام خود کرتے تھے اس لی ہی کامیاب تھے لیکن آج کل تو سینئر اپنے جونیئر کا ہو حال کرتے ہیں جو سنانے والا نہیںہے