مستری کو کوئی کام نہیں مل رہا تھا۔ ایک دن وہ پیاسا کسی گاؤں سے گزر رہا تھا کہ ایک گھر کے اندر اس کی نظر پڑی جہاں ایک عورت ”کھُرے“ میں بیٹھی برتن دھو رہی تھی (ہمارے اِدھر گاؤں میں پانی والے نلکے کے اردگرد اینٹوں یا سیمنٹ سے بنی پکی جگہ کو کھُرہ بولتے ہیں۔ کھرہ اس لئے بنایا جاتا ہے کہ پانی کے بہاؤ سے مٹی نہ بہے)۔ مستری پیاسا تھا تو اس نے عورت کو آواز دی کہ بہن پیاسا ہوں، پانی پینا ہے۔ عورت نے جواب دیا ” بھراوا صدقے جاواں، لنگ آ تے پانی پی (بھائی صدقے جاؤں، اندر آ جاؤ اور پانی پی لو)“۔ مستری گھر کے اندر چلا گیا اور پانی پی کر واپس جانے لگا تو کھُرے کی ایک ٹوٹی ہوئی اینٹ پر اس کی نظر پڑی۔ مستری بولا ”بہن میں مستری ہوں، تم نے مجھے پانی پلایا ہے اس لئے میں اس ٹوٹی اینٹ کو ٹھیک کر دیتا ہوں“۔ عورت بولی تیری مہربانی اگر تو یہ ٹھیک کر دے۔ مستری نے اینٹ تو ٹھیک کر دی مگر وہ کھُرے کی سطح سے تھوڑی اونچی رہ گئی۔ مستری بولا او ہو، بہن یہ تو اونچی لگ گئی ہے، اب اس کو اکھیڑ کر دوبارہ لگانے کی بجائے سارا کھُرہ ہی اونچا کر دیتا ہوں۔ ویسے بھی اب اونچے کھُرے کا رواج ہے۔ عورت نے کہا ٹھیک ہے کھُرہ اونچا کر دے۔ اِدھر عورت نے حامی بھری تو اُدھر مستری نے دوسرے گاؤں اپنے گھر پیغام بھجوا دیا کہ اب میں تین چار ماہ گھر نہیں آؤں گا کیونکہ مجھے کام مل گیا ہے۔ کھُرہ اونچا ہوا تو مستری بولا یہ کچھ زیادہ ہی اونچا ہو گیا ہے اب تو دیواریں اونچی کرنی پڑیں گی۔ دیواریں اونچی ہوئیں تو کمرے اونچے ہونے شروع ہو گئے۔ یوں ایک اینٹ ٹھیک کرتے کرتے مستری نے پورا گھر ”ٹھیک“ کر دیا اور ساتھ ساتھ اپنی جیب اچھی بھلی ٹھیک ٹھاک کر لی۔
ہمارے گھر کے ساتھ ہماری کچھ خالی زمین پڑی تھی۔ کئی دفعہ سوچا کہ اس کی چاردیواری بنا کر پھُل بوٹے (پھول اور پودے) لگائیں مگر ایسا نہ کر سکے۔ دو اڑھائی ماہ پہلے پروگرام بنا کہ چلو اس خالی زمین کی چاردیواری بنا دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ گھر میں جو کچھ چھوٹے چھوٹے تعمیراتی کام ہیں وہ بھی کروا دیتے ہیں۔ مستری کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ بتا ان سب کے لئے کتنا سیمنٹ اور اینٹیں وغیرہ چاہئے۔ اینٹوں کا یاد نہیں مگر مستری نے سیمنٹ بیس بوریاں بتایا اور کہا کہ اس کام کے لئے سات آٹھ دن لگیں گے۔ خیر سیمنٹ اور باقی سامان منگوایا اور کام شروع ہو گیا۔ سات آٹھ دن اور بیس بوریاں کب ختم ہوئیں کچھ یاد نہیں۔ آج سے تین دن پہلے حساب کیا تو پتہ چلا کہ اب تک 65 بوریاں سیمنٹ لگ چکا ہے۔ کام سے کام نکلتا گیا اور دو ماہ سے مستری کام کر رہے ہیں۔ 🙂 اس دوران موسم کی وجہ سے پانچ سات دن اور ہفتہ وار چھٹی کے علاوہ کام ہوتا رہا۔
سنا تھا کہ مستری کبھی سہی اندازہ نہیں بتاتے اور ایک کام سے دوسرا کام نکال لیتے ہیں کیونکہ اگر سہی بتا دیں تو پھر کوئی آسانی سے تعمیرات کی طرف نہ آئے۔ کہتے ہیں مستری جتنا اندازہ بتائے اس کا دوگنا کر لینا چاہئے۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ تو کئی گنا ہو گیا۔ اس تعمیراتی کام میں میں کئی دفعہ مستریوں اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کرتا۔ اگر کام نہ بھی کرتا تو پھر بھی سارا دن ان کے سر پر رہنا پڑتا کیونکہ ذرا اِدھر اُدھر ہو تو ان کے سگریٹ آدھا آدھا گھنٹا جلتے رہتے حالانکہ کام کے دوران آرام کا وقت بھی دیتا تھا۔ خیر مناسب رفتار سے کام کروانے کے لئے ان کے سر پر رہنا پڑتا جس کی وجہ سے اس تعمیراتی کام کے علاوہ میرے باقی سارے کاموں کا نظام درھم برھم ہو گیا۔ رات کو تھکا ٹوٹا بستر پر گرتا اور سکون کی نیند سو جاتا۔
ویسے اس دوران جسمانی تھکاوٹ تو ہوتی مگر سکون بہت ہوتا کیونکہ ذہنی تھکاوٹ ذرہ برابر بھی نہ ہوتی۔ اخبار نہ ٹی وی، نہ انٹرنیٹ۔ ”سکون ماحول تے لونے میٹھے چول (نمکین اور میٹھے چاول کھاؤ اور سکون سے رہو)“۔ نہ لانگ مارچ کی سوچ، نہ ایل او سی کی کشیدگی کا علم۔ بجلی آتی تو تعمیراتی کام کے لئے بڑے بڑے ڈرموں میں پانی بھر لیتے لہٰذا نہ بجلی آنے کی خوشی نہ بجلی جانے کی فکر۔ کام سے فارغ ہو کر کچھ وقت کے لئے دوستوں سے ملنے ”ڈیرے“ چلا جاتا تو ان سے تھوڑی بہت حالات کی آگاہی ہو جاتی۔ واپس آتا تو سکون سے سو جاتا۔ کبھی کبھار پانچ دس منٹ کے لئے موبائل پر انٹرنیٹ چلا کر خود کو تنگ کر لیتا۔ اردو بلاگرز کانفرنس کے متعلق حالات عجیب ہوئے تو تفصیل فراہم کرنے پہنچا اور پھر واپس اپنے کام پر۔
تین چار دن پہلے میں نے مستریوں کو 22 جنوری کی ”ڈیڈ لائن“ دے دی کہ اگر 22 جنوری تک کام ختم کر سکتے ہو تو کر لو ورنہ چھٹی کرو اور پھر 29 جنوری کو واپس کام پر آ جانا۔ اللہ کا شکر ہے کہ کام کافی حد تک ختم ہو گیا ہے۔ اب بس تھوڑی سی مٹی ہموار اور گیٹ کے آگے ”تھڑی (ریمپ)“ بنانی ہے۔ ویسے تھڑی اتنی بن چکی ہے کہ گاڑی آسانی سے اندر آ سکتی ہے بس اسے پکا کرنا باقی ہے۔ آج مستریوں کو چھٹی کروا دی ہے اور آج شام کو انہیں کہا کہ ”مستری جی خدا حافظ کیونکہ لاہور چلے ہم“۔
ارے کیا آپ کو نہیں پتہ کہ 26-27 جنوری کو لاہور میں اردو بلاگرز کانفرنس ہو رہی ہے اس لئے میں تو آج ہی لاہور پہنچ جاؤں گا اور کانفرنس تک لاہور میں ہی ڈیرے ڈال دوں گا۔ لاہور میں کافی عرصے سے کچھ اپنے کام ہیں، وہ کروں گا اور ساتھ ساتھ آخر دیکھوں تو سہی اردو بلاگ فورم والوں نے بلاگران کے لئے کیا کیا اور کیسے بندوبست کئے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تقریب راوی پل پر کروا رہے ہوں اور کھانا چوبرجی جا کھلائیں۔ اس لئے سوچا خود ایک نظر مار لوں اور اگر کہیں کوئی خرابی ہے تو فوراً بلاگران کو آگاہ کر دوں کہ نہ بھائی نہ، آپ مراعات سے ڈر رہے تھے یہ تو آپ کو۔۔۔
لیں جناب ہم آج لاہور پہنچ رہے ہیں۔ زندہ دلانِ لاہور تو شاید زندگی میں مصروف ہوں، کوئی ملے نہ ملے مگر م بلال م کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کو خوش آمدید کہے گا۔ جلدی جلدی تیاری کرو اور کانفرنس میں وقت پر پہنچ جانا۔ اگر کوئی ڈر، وہم یا پریشانی وغیرہ ہے تو ابھی سے بتا دو۔ بعد میں نہ کہنا کہ ”لے دس“ ہم تو ایسے ہی پریشان ہو رہے تھے جبکہ اُن تِلوں میں تو تیل ہی نہیں تھا۔ 😉 خیر ساری پریشانیاں چھوڑو، ”لاہور چلے ہم“ کا نعرہ مارو اور تیاری پکڑو۔
ہم جیسے بلاگرز جو کانفرنس میں شامل نہیں ہو پائیں گے ان کی حاضری بھی لگوا دیجئے گا۔
ویلکم ٹو لاہور بٹ آئی ایم ناٹ اویلیبل۔
اسی لئے لوگ کہتے ہیں کی مستری کو بُلانا آسان مگر گھر سے نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے
میں لاہور سے پہنچ جاواں گا :ڈ
یعنی اب اردو بلاگرز بھی دیواروں پر “چلو چلو لہور چلو” کی وال چاکنگ کروانا شروع کردیں۔۔۔۔ 🙂
ابھی ابھی آپ کو تقریر کرتے ہوئے لائیو دیکھا ہے لیکن رکاوٹیں اور ارتعاش بہت تھا۔ پھر بھی بے حد خوشی ہوئی ہے۔
بس اب حسب معمول آپ کی جانب سے تفصیلی رپورٹ کا انتظار ہے جو آپ یقیناً جلد ہی تحریر کریں گے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
بھائی کام ٹھیکے پر دینا تھا
میں شرکت نہی کر سکتا
بلال بھائی بہت خوب 😛
بہت افسوس ہورہا ہے اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا 🙁
بلال بھائی پلیز اس کانفرنس کی تمام کاروائی اپنےبلاگ پہ لازمی پوسٹ کیجئے گا۔ اور تمام حاضر بلاگران کو میرا سلام پہنچا دیجئے گا۔ ان شاء اللہ اگر زندگی نے وفا کی تو پھر کبھی کہیں ان سب سے ملاقات لازمی ہوگی۔
شکریہ