سنو تو سہی! کوہِ سوز کے دامن میں، دکھی دھاگے میں پروئی وادی کی پیچیدہ زمیں پر، آنسووں کے جھرنوں سے بنے، غم گیتی کے نوحہ کناں چشموں کے وسط میں، الجھن نگری کے فریبی جنگلوں کے درمیاں، اک حقیر و لاغر ہوں میں۔ ارد گرد دریائے آتش میں انا پرستی کے ایسے گرداب ہیں جن میں میری سانسیں ڈوب جاتی ہیں۔ میری روح بادِ صبا کے اک جھونکے کو ترستی ہے۔ فریبی جنگل میں جب خون خوار درندے دست و گریباں ہوتے ہیں تو میں پیروں تلے کچلا جاتا ہوں۔ موج مستی کرتے بدمست ہاتھی بھی مجھے روندتے ہیں۔ بادلوں کی گرج چمک تو میرے حصے آتی ہے مگر برسات تو فقط انا سے اکڑے دیوقامت پتھروں پر ہوتی ہے اور ان کی غلاظت بہہ کر مجھ پر گرتی ہے۔ وہ ایسے پاک صاف ہو جاتے ہیں جیسے گنگا نہائے۔ اور مجھ جیسا بے قصور ان کی غلاظت کا بھار اٹھانے پر مجبور ہے۔ الو کے پٹھے اور مُردار کا گوشت نوچنے والی گِدھوں کی اولادیں، جب اپنی پروازوں سے لوٹ کر اونچے برجوں پر براجمان ہوتی ہیں تو ان کا نزلہ بھی مجھ پر گرتا ہے۔ یوں میری رہی سہی عزت کے چیتھڑے اڑ جاتے ہیں۔ میری خودی کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ میری روح دھاڑیں مار کر روتی ہے۔ میں اس دھرتی کا اک عام انسان ہوں اور اس سب کے باوجود بھی، کیا میں زندہ ہوں؟
اگر جواب چاہتے ہو تو سنو! تیرے یہاں ہونے نہ ہونے پر تیرا کوئی اختیار نہیں۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہیں۔ کسی کو گِرتے جھرنوں کے پہلو میں جگہ ملتی ہے تو کسی کو تپتے صحراؤں میں۔ کسی کی قسمت اسے نخلستان لے جاتی ہے تو کسی کو جوہڑوں میں بسیرا کرنا ہوتا ہے اور تو یہاں آسمان سے باتیں کرتے مغروروں کے قدموں میں سسک رہا ہے۔ یہ سب تقدیر ہے جی تقدیر۔ بھلا آج تک کوئی تقدیر سے لڑ سکا ہے؟ نہ جی نہ۔ تیرے بس میں ہوتا تو یہاں ہرگز نہ ہوتا۔ بلکہ لہلہاتے درختوں کے دیس میں ہوتا یا پھر بلند و بالا سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرتے ہوئے اپنا وجود منواتا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بادوبہار تجھے تازگی دیتیں۔ تو بادلوں کے لمس محسوس کرتا۔ تیری آواز ہواؤں کے دوش پر نگری نگری سُر بکھیرتی۔ خیر یہ سب دیوانے کے خواب ہیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ تو یہاں ذلیل و رسوا ہو رہا ہے۔
کبھی کبھی مجھے خود سے گھن آتی ہے۔ کبھی کبھی حالات سے تنگ آ کر قدرت کے سامنے شکوہ گزار بن جاتا ہوں۔ آخر کیا کروں؟ یہاں تو رات کو میرے حصے کی چاندنی بھی آبِ خمار کے طور پر پی لی جاتی ہے۔ میں سسکتا اپنے اندر امیدِ سحر کا دیا جلائے صبح کی پہلی کرن کا انتظار کرتا ہوں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ صبح ہو رہی ہے مگر غموں کے پہاڑ مجھ جیسے لاغر کو صبح کی زیارت بھی نہیں کرنے دیتے۔ صبح سے شام، شام سے رات اور رات سے پھر صبح ہوتی ہے مگر میرے لئے تو اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔
بے شک تو یہاں مر رہا ہے، مگر ہمت نہ ہار۔ تقدیر و قسمت جو ہے سو ہے، مگر تو امید کے دیے کی حرارت کم نہ ہونے دینا، کیونکہ حرارت ہی زندگی ہے۔ جب تک سانسیں چلتی ہیں تب تک امیدِ سحر کے ساتھ جی۔ کہہ دے ان خونخوار درندوں سے کہ تو زندگی بھر ان طوفانوں سے، ان پہاڑوں سے، ان غموں سے، ان دکھوں سے، ان الجھنوں سے، ان مسائل سے، ان فریبوں سے اور ان انا پرستی کے گردابوں سے لڑے گا۔ ایک نہ ایک دن یہ سارے طوفان اور غموں کے پہاڑ نیست و نابود ہو جائیں گے۔ تو اپنی ہمت اور لگن سے اپنے پیر مضبوط کرے گا اور ان طوفانوں کا رخ موڑ کر رکھ دے گا۔ تو ہمت نہیں ہارے گا اور قدرت نے چاہا تو ایک نہ ایک دن تیری امید بھر آئے گی۔ تجھ میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ تو ہمت نہ چھوڑ اور آخری سانس تک لڑ۔ کہہ دے ان وحشی جانوروں سے کہ میں اک عام انسان ہوں۔ ابھی میں زندہ ہوں۔
ہاں میں سسک سسک کر جیتا ہوں۔
کیوں رولاتے ہیں بھائی جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی جان صرف آپ ہی نہیں بلکہ یہاں تو ہر سوچ سمجھ رکھنے والا سسک رہا ہے۔ بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
تگڑا رکھ سائیں ۔ میں نے بچپن میں سُنا تھا گرتے ہیں شاہسوار ہی میدانِ جنگ میں ۔ وہ طفل کیا کرے گا جو گھُٹنوں کے بَل چلے ۔
ہر آدمی کی ایک اپنی داستاں ہوتی ہے اور ہر ایک اپنے آپ کو دوسرے سے زیادہ مشکل میں محسوس کرتا ہے لیکن اللہ کو کیا منظور ہے یہ کوئی نہیں جانتا ۔ کبھی باری تعالٰی 30000 فٹ کی اؤنچائی سے گرنے والے کو بلاگزند بچا لیتا ہے اور کبھی بائیسائیکل سے گر کر آدمی مر جاتا ہے ۔ اللہ کی اللہ ہی جانے ۔ اگر سِسکنا ہی تقدیر ہوتی تو اللہ کیوں فرماتے ”سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ( اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)۔
اگر آپ نے مجھے 70 سال سے کچھ اُوپر عمر میں زندہ اور صحتمند دیکھا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نے یہ سفر بلا روک ٹوک طے کیا بلکہ میں ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی کشتی میں سوار تھا جو ہر دم منہ زور طوفانوں میں گھِری رہی ۔ بس اللہ نے توفیق دی اور میں چپو چلاتا رہا اور باقی سب کچھ اپنے پیدا کرنے والے پر چھوڑے رکھا ۔اللہ کی کرم نوازی رہی کہ میں اُن وقتوں مین بھی نا اُمید نہ ہوا جب مجھے دیکھنے والے میرے متعلق نا اُمید ہو گئے تھے
بس انکل جی آپ جیسے بزرگوں کی باتیں اور حوصلہ افزائی ہی امید بندھی رہتی ہے اور ہم چلتے رہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو مکمل صحت، لمبی عمر اور بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین
عمدہ تحریر۔ لگتا ہے بہت ہی خاص کیفیت میں لکھی گئی ہے یہ تحریر۔
بہت شکریہ عامر ملک بھائی۔ جی بالکل کچھ عرصہ پہلے یہ خاص کیفیت میں ہی لکھی تھی، بس اچانک خیال آیا کہ شیئر کر دینی چاہیئے۔
لاجواب ۔۔۔۔۔
سب کچھ ہی لکھ ڈالا۔۔۔۔
امید ہے اس ہفتے کے میگزین میں خاکوانی صاحب اس کو ضرور جگہ دیں گے۔۔؟؟ اگر وہ آپ سے متفق ہوئے کہ ” ابھی میں زندہ ہوں” ایکسلینٹ۔۔
پسند کرنے کا بہت شکریہ۔ باقی جی یہ تو خاکوانی صاحب کی مرضی جیسے وہ مناسب سمجھیں۔
بہترین کتھارسس ہے۔ ادبی لحاظ سے استعارات کی بھرمار ہے،
عربی شعر کا ترجمہ ہے۔
“نصیب مل کر رہتا ہے اگرچہ دو پہاڑوں تلے ہو۔
غیر نصیب نہیں ملتا چاہے دو ہونٹوں کے درمیاں ہو”
بس کچھ عرصہ پہلے یہ خاص کیفیت میں ہی لکھی تھی اور پھر اچانک خیال آیا کہ شیئر کر دینی چاہیئے تو کر دی۔ بلاگ پر تشریف لانے اور اپنے قیمتی تبصرے سے نوازنے کا بہت بہت شکریہ۔
بہت عمدہ تحریر ہے. یاس کو امید میں جس طرح آپ نے ڈھالا وہ کمال ہے. تشبیہہ استعارے بھی زبردست. آپ واقعی میں مبارکباد کے مستحق ہیں. جیتے رہئیے.
بٹ صاحب تحریر پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ یہ تو آپ جیسے دوستوں کی طرف سے حوصلہ افزائی اور راہنمائی کا نتیجہ ہے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ یونہی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے رہیں گے۔
مجھے اس تحریر نے کافی متاثر کیا۔ کیفیت کوئی ہو مگر اچھے لکھاری ہمیشہ اچھی تحریر ہی لکھا کرتے ہیں۔ سلامت رہیں۔
تحریر پسند اور حوصلہ افزائی کرنے کا بہت شکریہ۔
کسی کیفیت کا اظہار ہی اس بات کا اعلان ہے کہ “ابھی میں زندہ ہوں“
لیکن زندہ رہنا مرنے سے بھی بڑا مشکل کام ہے۔ہمیں ہر وقت خود کو یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم زندہ ہیں ۔
زندگی کی خواہش ہے
زندگی کو جانا ہے
زندگی تو ڈستی ہے
موت اِک بہانہ ہے
فنا کے سمندر میں
یوں ڈوب جانا ہے
زندگی تو رہتی ہے
زندگی کو پانا ہے
لکھتے رہیں اور زندہ رہیں حرف کی صورت ۔
بلاگ پر تشریف لانے اور اتنا زبردست تبصرہ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ واقعی انسان زندہ رہے نہ رہے مگر اس کے الفاظ بہت دیر تک زندہ رہتے ہیں۔
اپنی اندرونی کیفیات کا سچائی سے اظہار کرنا بڑٰ بہادری کا کام ھے ۔ جیتے رہیئے
بلال صاحب آپ نے اس مضمون ”ابھی میں زندہ ہوں“ کو بہت اچھے انداز میںپیش کیا ہے،
ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔ کیا شاندار لکھا ہے۔