پہاڑوں پر شام اُتر رہی تھی مگر ہم پہاڑ چڑھ رہے تھے۔ اُس دن کی آخری چڑھائی ختم ہونے کو تھی اور میں دن بھر کی تھکاوٹ سے بے حال ہوا پڑا تھا۔ ایک جگہ سانس لینے رُکا۔ نظر اٹھائی تو سورج کی آخری کرنیں نانگاپربت کا بوسہ لے رہی تھیں۔ اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اچانک ایک سوال کوندا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنے میں دوست کی آواز آئی، چلو چلو، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ یوں دوبارہ چل دیا۔ فیری میڈوز پہنچتے پہنچتے شام ہو چکی تھی اور بہت ٹھنڈ تھی۔ آخر ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ ہوا۔ جب تک کھانا تیار ہوتا، تب تک سبھی بستروں میں گھس گئے۔ میں نے بھی تھوڑی دیر آرام کیا، مگر پھر بے چینی سی ہونے لگی اور کمرے سے باہر شدید ٹھنڈ میں چل دیا۔ چاندنی میں نہاتا محبوب پہاڑ مدہوش کیے دیتا تھا۔۔۔ اور پھر یکایک واپس کمرے کی طرف لپکا۔ کیمرہ تو اٹھایا ہی مگر ساتھ دوستوں کو بھی اٹھا لایا اور پھر۔۔۔ فلاں لائیٹ بینچ کی طرف کرو، ٹارچ کی روشنی درخت پر فلاں زاویے سے مارو۔ کیمرہ اپرچر f/3.5، شٹر 30سیکنڈ، آئی ایس او 800۔۔۔ کڑی چم۔۔۔ ابھی اس لفظ کی وضاحت کی غالباً ضرورت نہیں کہ یہ ”کَڑی چم“ ہے نہ کہ ”کُڑی چُم“۔۔۔ خیر جب فوٹوگرافی کا مرحلہ مکمل ہوا تو دوست احباب واپس بستروں میں گھس گئے اور میں بینچ پر بیٹھ کر حسین پربت کو دیکھنے لگا۔ ٹھنڈ تو تھی مگر فیری میڈوز کی وہ ایک سحر انگیز چاندنی رات تھی۔ نانگاپربت سے چشمۂ حیات جاری تھا اور منظرباز غوطہ زن تھا۔ اچانک شام والا سوال دوبارہ سامنے آیا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنا کشٹ کیوں کر رہا ہوں؟ آخر میں نے تصویر بھی کیونکر بنائی؟ اگلے ہی لمحے کچھ لہریں دماغ تک پہنچیں، قدرت نے جوابات عنایت کر دیئے۔ لبِ لباب یہ کہ میں وہاں اپنے لئے، اپنے سکون و خوشی کے لئے تھا۔ اور اس کشٹ میں بھی تسکین تھی۔۔۔ نعرے جتنے مرضی لگاؤں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اپنے لئے ہی سفر کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے اپنا رانجھا راضی کرنا ہے۔
پوچھا گیا کہ آپ سیر و سیاحت کس لئے کرتے ہیں؟
جواب: ”اپنے لئے۔ اپنی کھوج کی تسکین کے لئے۔“
کیوں تصویریں بناتے اور تحریریں لکھتے ہیں؟
”سطحی طور پر کئی نعرے ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی طور پر وہی کہ اپنے لئے“۔
تو پھر سوشل میڈیا پر کیوں شیئر کرتے ہیں؟
”انہی سطحی نعروں کے لئے۔ اپنی کمینی سی خوشی کے لئے۔“
تو کیا آپ کے مقاصد میں سیاحت کی ترویج شامل نہیں؟
آپ بھی کمال کرتے ہو پانڈے جی۔ کیوں ساری ریاضت ضائع کرانے کے دم پہ ہو۔ وہ کیا ہے کہ سیاحت کی ترویج کے لئے سیروسیاحت کرنا میری نظر میں ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اور یہ ترقی و ترویج کے نعرے تو ایویں راہ چلتے کی ہیروگیری ہوتی ہے۔ اور اپنا تو ایسا کوئی نعرہ سرے سے ہے بھی نہیں۔ بلکہ دو ٹوک کہے دیتا ہوں کہ سیاحت کی ترقی وغیرہ کے لئے سیروسیاحت شروع کی تھی نہ آج اس واسطے سفر کرتا ہوں۔ کل بھی اپنا رانجھا راضی کرنا مقصود تھا اور آج بھی۔ اس سب کے بعد اگر میری وساطت سے سیاحت یا کسی دوسرے شعبے کی ترویج یا خدمت کا کوئی سبب بن پڑے یا میری حرکتوں سے کوئی خیر جنم لے لے تو بہت اچھے۔ ورنہ میرے ایسے کوئی ”خطرناک ارادے“ نہیں۔ یقین کرو ٹھیکیدار ہوں نہ کوئی ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ یارو! مجھے مدہوش ہی رہنے دو، میں یونہی مزے میں ہوں۔۔۔
سیاحت ہو یا کوئی دوسرا شعبہ، جب انسان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ فلاں کام کیوں کر رہا ہے تو تب وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے کام کے جواز تلاشتا ہے۔ اور ہمارے ہاں جواز میں عظیم مقاصد کے نعرے ایجاد کرنے کا رواج ہے۔ دراصل اس قسم کے نعروں کو لے کر لوگ آسانی سے ہمنوا بنتے اور واہ واہ کرتے ہوئے سنگھاسن پر بیٹھاتے ہیں۔
سمجھا نہیں۔۔۔
دیکھو بھئی! تھوڑے کو بہتا جانو اور سمجھ جاؤ۔ ورنہ اگر فطرت کے اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے سمجھنے سمجھانے چلے تو گہرائی میں ایسی ڈبکیاں لگیں گی کہ آپ کا سانس نکلے گا نہ کوئی مجھے سانس آنے دے گا۔ اوپر سے آج کل ہم سوشل میڈیا پر ایسے ثقیل موضوعات سے پرہیز ہی کرتے ہیں۔ اس لئے سرِعام گہرائی میں ڈبکیاں لگانے کی بجائے سطح آب پر تیرتے ہیں، موجیں مارتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہ سبھی ہر کام اپنے لئے، اپنی خوشی کے لئے کرتے ہیں۔ بس ساتھ میں نعروں کا تڑکا لگا کر، مصالحہ چھڑک کر ہنڈیا کو لذیذ بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر عموماً نوکری پیسوں کے لئے (اپنے لئے) ہوتی ہے۔ مگر بعض شعبوں کے لوگ ساتھ میں خدمت کا تڑکا اور جذبوں کا مصالحے چھڑک کر عظیم بننے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام پر احسان جتاتے نہیں تھکتے۔ یہی حال سیاست و سیاحت کا ہے۔ ”اگلی گل آپوں سمجھ“۔۔۔
رہی ہماری سیاحت کی بات تو بھئی! ہمارے ایسے کوئی نعرے نہیں کہ ”ہم سیاحت کی ترویج کر رہے ہیں“ یا ”ہماری وجہ سے سیاحت پرموٹ ہو رہی ہے“۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ اول مقصد تو اپنا رانجھا راضی کرنا ہی ہے۔ اور رانجھا راضی کرتے کرتے اگر کسی دوسرے کا بھلا ہو جائے تو بہت اچھے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ وہ اور لوگ ہیں، جو کہتے ہیں ”ہمیں لائیکس کی پرواہ نہیں“۔ بندہ پوچھے کہ اگر لوگوں کے تاثرات کی پرواہ نہیں تو پھر ہنڈیا کو اتنا سجا دھجا کر سوشل میڈیا پر لوگوں کے سامنے کیا آم لینے واسطے دھرتے ہو۔۔۔ خیر احبابِ گرامی و گرامیو! بغیر کسی لگی لپٹی کے اقرار کرتا ہوں کہ کم از کم مجھے آپ کے پیارے پیارے تاثرات کی پرواہ ہے۔ اگر آپ کے سامنے اپنا کام رکھتا ہوں تو سیدھی سی بات ہے کہ آپ کے لائیک اور کمنٹ وغیرہ یعنی آپ کی رائے اور آپ کی طرف سے تعریف و تنقید چاہتا ہوں۔ جب کوئی میرے کام کا ذکر اچھے الفاظ میں یا میرے فن کی تعریف کرتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اور یہی خوشی اور حوصلہ افزائی فی الحال میرے فن کی خوراک ہے۔ اس طرح بھی میرا رانجھا راضی ہوتا ہے۔ ویسے صرف تعریف ہی نہیں بلکہ بہتر انداز میں تنقید بھی میرا سرمایا ہے۔۔۔
رہے نام اللہ کا، تمام تعریفیں اسی کے لئے ہیں۔۔۔
شکریہ، بہت اچھا مقالہ ہے
بہت بہت نوازش۔۔۔
جزاک اللہ۔
ہمیشہ خوش رہیں، آباد رہیں۔
good zabardast tehreer