پچھلے پانچ سال سے ”غلام عباس“ کا کچھ پتہ نہیں کیونکہ پانچ سال پہلے ایک سمندری جہاز روانہ ہوا تھا اور عباس اسی جہاز پر مختلف جزائر کے چرند پرند پر تحقیق کرنے نکلا تھا۔ عباس کو بچپن ہی سے اس بارے میں تحقیق کرنے کا بہت شوق تھا اور اسی شوق کی خاطر اس نے بہت سی ”بیٹل“ جمع کر رکھی تھیں۔ (اصل میں ڈارون کی تحقیقات)
”رب نواز“ باغ میں بیٹھا ہوا تھا تو اس نے ایک سیب زمین پر گرتے ہوئے دیکھا۔ وہیں سے اس کے ذہن میں خیال آیا کہ یہ سیب آخر زمین کی طرف ہی کیوں گرتا ہے، آسمان کی طرف کیوں نہیں جاتا؟ بس اس چیز کی کھوج لگانے لگا اور پھر اس نے کشش ثقل دریافت کر دی اور مزید بتایا کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔ اسی طرح تین ”نواز کے قانون“ بتا کر سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ (اصل میں نیوٹن)
آج ”محمد بشیر“ نے الیکٹرونکس کی ایک بہت اہم چیز ایجاد کر دی۔ محمد بشیر کی تحقیقات کو سراہتے ہوئے آج سے الیکٹرونکس میں استعمال ہونے والی مزاحمت کی اکائی ”بشیر“ رکھ دی ہے۔ دراصل محمد بشیر نے ”بشیر کا قانون“ پیش کیا ہے جس کے مطابق ”مزاحمت ضرب برق، وولٹ کے مساوی ہو تی ہے۔ یعنی و=ب م (اصل میں اوہم کا قانون V=IR)
”مختار احمد“ دس سال ایک مساوات پر تحقیق کرتا رہا اور آخر کار اس نے ایک عظیم مساوات اور چند قانون پیش کر دیئے۔ آج کی سائنس تحقیق کے باوجود مختارکی سوچ تک نہیں پہنچ سکی۔ جب مختار مرا تھا تو اس کا دماغ محفوظ کر لیا گیا تھا۔ مختار کا کام تو بہت بڑی بات ہے۔ سائنسدان تو اس کے دماغ پر غور کر رہے ہیں کہ آخر اس نے اتنا سوچ کیسے لیا۔ (اصل میں آئن سٹائن)
جیسا اوپر لکھا ہے، کاش ایسا ہی ہوتا تو کتنا مزہ آتا۔ لوگ کچھ یوں باتیں کرتے ”اگر اتنے نواز (نیوٹن)طاقت کسی چیز پر لگائی جائے تو یہ ہو گا“، ”اتنے بشیر(اوہم) کی مزاحمت کرنٹ کو اتنا روکتی ہے“۔ عباس کا نظریہ ارتقاء زیربحث ہوتا اور مختار کا دماغ لوگوں کو دیکھانے کے لئے عجائب گھر میں رکھ دیا جاتا۔ اگر یہی سب ہوتا تو امریکہ و یورپ کی ویب سائیٹ ہمارے پاس ہوسٹ ہوتیں۔ کوئی عبدالقدوس نامی شخص کسی بہت بڑے ڈیٹا سنٹر کا مالک ہوتا۔ مسٹر بین اور چارلی، ڈفر اور جعفر کی کتابوں سے مزاح سیکھ رہے ہوتے۔ نیو یارک ٹائم نوائے وقت کی خبر کاپی کر رہا ہوتا۔ محمد سعد کے سافٹ ویئر ہاؤس میں نئے آپریٹنگ سسٹم کی تیاری پر کام ہو رہا ہوتا۔ خورشید خان دنیا کے سب سے بڑے آن لائن شاپنگ سنٹر کا مالک ہوتا۔عدنان شاہد دنیا کی سب سے طاقت ور فوج کا جنرل ہوتا۔افتخار اجمل بھوپال نامی شخص اقوام متحدہ کا جنرل سیکرٹری ہوتا۔ہیری پوٹر کی جگہ تانیہ رحمان کی کہانیاں پڑھی جا رہی ہوتیں۔ کسی عثمان کا نام کارل مارکس کے ساتھ لکھا جاتا۔مونا لیزا کی جگہ عمیر ملک کی بنائی ہوئی پینٹنگ لگی ہوتی۔کوئی محمد بلال خان نامی نوجوان کتاب چہرے (فیس بک) کا مالک ہوتا۔ محمد صابر کا سب سے اچھا کمپیوٹر اینٹی وائرس ”صابٹران“ ہوتا۔ یاسر عمران مرزا ٹیلی کام کمپنی کا مالک ہوتا جو دنیا کے پچاس ممالک میں موجود ہوتی۔ شاید محمد وارث کو ادب کی خدمات پر نوبل انعام مل چکا ہوتا۔ فہد نامی شخص بین الاقوامی کرکٹ کا چیئرمین ہوتا۔ محمد اسد دنیا کا سب سے بڑا صحافی ہوتا۔ کوئی یاسر خوامخواہ جاپانی نہ ہوتا بلکہ جاپان والے خود عزت و احترم کے ساتھ یاسر کو جاپان لے جاتے تاکہ کچھ سیکھ سکیں۔ خاور کھوکھر کسی تھینک ٹینک سے کم نہ ہوتا۔ اس کے علاوہ جس جس کو مرنے کا شوق ہے وہ ایپل کے مالک اور کمپیوٹر کی زبان ”سی“ بنانے والے کی جگہ پر اپنا نام لکھ لے۔
ویسے یہ سب تب ہوتا اگر شروع میں بیان کردہ معلومات درست ہوتیں۔ مگر یہ ایک دیوانے کا خواب ہے اور حقیقت اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ آج ایسا نہیں۔ چلو شہد کی مکھیوں کے چھتے(بلاگستان) کو چھیڑتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ 🙂 آپ غور کرو تو ہمارا آج کچھ یوں ہے جس میں عبدالقدوس ڈیٹا سنٹر کے مالک کی بجائے ریٹرھی پر پانچ پانچ سو میں ڈومینوں کی سیل لگا رہا ہے۔ ڈفر اور جعفر اعلیٰ معیار کا لکھنے کے باوجود اپنی تحاریر خود پڑھ کر ہی ہنستے ہیں۔ محمد سعد ونڈوز (کھڑکیاں) جیسا آپریٹنگ سسٹم بنانے کی بجائے خود سارا دن کھڑکیاں گنتا رہتا ہے۔ خورشید خان شاپنگ سنٹر کی تلاش میں خود وطن سے دور ہے۔ عدنان شاہد جنرل کی بجائے سپاٹا ہے۔ افتخار اجمل بھوپال اپنے بلاگ کے جنرل سیکرٹری تک نہ بن پائے۔ تانیہ رحمان کی کہانی خود ان کے بچے نہیں پڑھتے۔ عثمان تو بس ایک دیوانے کے خواب سا ہے۔ عمیر ملک کی پیٹنگ اپنے بلاگ پر بھی پسِ پشت پڑیں ہیں۔ محمد بلال خان کو تبصروں کا غم کھائے جا رہا ہے۔ محمد صابر کمپیوٹر اینٹی وائرس کی بجائے بیکڑیا مارنے والی دوائی فروحت کر رہا ہے۔ یاسر عمران مرزا ٹیلی کام کمپنی تو دور خالی ٹیلی فون کا مالک بھی مشکل سے بنا۔ محمد وارث پتہ نہیں کیا کیا لکھ رہے ہیں کہ سر سے گزر جاتا ہے۔ فہد اپنی ٹیم کا چیئرمین نہیں بن پایا بین الاقوامی کرکٹ تو بہت دور کی بات ہے۔ محمد اسد دنیا کا سب سے بڑا صحافی نہیں بلکہ صحافی کی صرف ”ص“ ہے۔ جاپانی لینے تو نہیں آئے بس خود ہی یاسر خومخواہ میں جاپانی بن گیا۔ خاور کھوکھر تھینک ٹینک کی بجائے بس ٹینک ہی ٹینک ہے۔ ایک م بلال م ہے جب بھی بولے گا کچھ الٹا اور بونگی ہی مارے گا، اس کی تحریر خود اس کے اپنے نہیں پڑھتے اور یہ بلاگر بنا بیٹھا ہے۔ ویسے بھی مجھے یہ بلاگر کم اور بسوں میں ”ریوڑیاں“ بیچنے والا زیادہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ایپل کے مالک اور سی کے موجد بننے والوں سے گذارش ہے کہ آپ مرو یا نہ مرو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے ایپل یا کمپیوٹر کی سی زبان کے موجد بننے کی کوشش مت کرنا۔
ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے کیا ہم نے اس بارے میں کبھی سوچا؟ میرے خیال میں تو ہمارے ساتھ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم نے کبھی یہ سوچنے کی کوشش تک نہیں کی کہ آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے، حل تو بہت دور کی بات ہے۔
یارو! آج اپنی نامکمل تحاریر پر نظر مار رہا تھا تاکہ کسی کو توڑ موڑ کر کوئی شرلی چھوڑو اور پھر یہ تحریر ہاتھ لگی اور کچھ اضافہ کر کے شائع کر رہا ہوں۔ شروع کی باتیں شمسی توانائی (سولر انرجی) پر غلام عباس سے باتیں کرتے ہوئے تب ہوئیں جب بات مزاح کی طرف آئی۔ میں نے کہا اگر ”اوہم“ کا قانون کوئی مسلمان بناتا تو پھر کیا ہوتا۔ بس پھر عباس کی حس مزاح پھڑکی اور محمد بشیر کے ہاتھوں پتہ نہیں کیا کیا ایجاد کروا دیا۔ بلکہ خیالوں میں ہی جناب پندرہ بشیر(پندرہ اوہم) کی مزاحمت(Resistance) لینے بازار پہنچ چکے تھے اور دوکاندار سے کہہ رہے تھے کہ بھائی پندرہ بشیر کی مزاحمت دے دو۔
ویسے مذاق ہی سہی لیکن یہ بات سوچنے والی ہے کہ آخر ہمارے لوگ اتنی محنت کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوتے، جبکہ دوسری طرف والے چھوٹے سے کام سے ہی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں اور اس مذاق کے علاوہ بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ شروع میں کی گئی باتیں آخر کیوں نہ ہو سکیں، جبکہ ہمارے آباؤاجداد نے تو بہت کارنامے کیے تھے۔ قرآن پڑھو تو وہ جگہ جگہ غوروفکر کی دعوت دیتا ہے مگر ہم نے کئی سو سال سے کوئی ایجاد نہیں کی بلکہ جدید سائنس میں ہمارا حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ حالات و واقعات اور خاص طور پر وقت چیخ و پکار کر رہا ہے کہ
اے مسلم! اپنے علم حقیقی کے عملی نمونے سے کچھ کر دکھا، مدت سے تاریخ تیری داستاں لکھنے کو بے چین ہے۔
کچھ تو سوچ، اے آج کے مسلماں! سارا قصور حالات کے سر تھوپ کر مایوسی کی نیند سونے کی بجائے اٹھ اور ہمت سے کچھ کر دکھا۔
یہ ایک دیوانے کی تحریر کم اور ویلے کی ذہنی اختراح زیادہ لگ رہی ہے 😆 ویسے رگڑا خوب لگایا ہے 😳
جب بجلی بیس بیس گھنٹے جائے گی تو تب دیوانے، ویلے ہوں گے تو پھر دماغ کس طرف پھسل جائے کچھ کہہ نہیں سکتے۔ بہر حال میرا خیال تھا کہ میں نے ضرورت سے زیادہ آپ لوگوں کی تعریف کر دی ہے لیکن اب سکون ہے کہ یہاں لوگوں کو تعریف راس نہیں آتی۔ 🙂
ویسے جہاں پر آپ کا ذکر ہے ان دونوں پہروں کو دھیان سے پڑھو۔ لب لباب یہ کہ اگر ترقی ہوئی ہوتی تو یہ لوگ یہاں ہوتے مگر کیونکہ ترقی نہیں ہوئی اور انہیں محنتی لوگوں کو آج کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔
ویسے بٹ صاحب میں نے صرف ان لوگوں کے نام لئے ہیں جن کے متعلق میرا خیال تھا کہ وہ اس مزاح کی نوعیت کو سمجھیں گے اور جس کو جتنا قریب پایا اسی کو دوستی کے ناطے اتنا مذاق کیا ہے۔ باقی آپ سے کوئی معذرت شاذرت نہیں۔ 🙂
ہاہاہا غصہ کس کافر نے کیا ہے
یار دبئی ایکسپو 2020 میرے ہاتھوں کروا دیتے تو کیا جاتا آپ کا 👿
اصل مسئلہ ہے “تعلیم کی کمی” ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسڈ بیٹری اَوہم کے والد دادا کی پیدائش سے بھی قبل دنیا میں موجود تھی ؟
آپ کو تو ماضی قریب کا بھی کچھ علم نہیں ۔ بندے کے کبھی جنرل سیکرٹری بننے کی خواہس اسلئے نہیں کی کہ بغیر خواہش اپنے ادارے جس میں 200 سے زائد انجنیئر تھے کی انجنیئرز ایسوسی ایشن کا صدر بنا دیا گیا ۔ پھر پورے پاکستان کی فیڈریشن آف انجنیئرز کا نائب صدر بنا دیا گیا ۔ سرکارِ پاکستان کو جوش آیا تو ایک دوست ملک کا ایڈوائزر بنا کر بھیج دیا ۔ یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب آپ یا تو اس دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے یا پھر ابھی بوتل میں دودھ پیتے تھے
میں جو کچھ لکھتا ہوں وہ اُن جوانوں کیلئے ہے جو سائنس کی ترقی میں غرق ہو چکے ہیں (سائنس کی ترقی کو فرنگیوں کا پروپیگنڈہ سمجھا جائے)
نہں میرے بڑے بھائی اتنا غصہ نہیں کرتے ، کچھ چیزیں انسان کو مزاق کے طور پر لے کر پڑھنی چاہیئں۔خیر میں یہ بات کہنے کے قابل تو نہیں ہوں کیونکہ میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں ۔
محترم میرا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں تھا۔ تحریر میں مذاق کے طور پر جو چند ساتھی بلاگروں کا نام لیا ہے تو صرف انہیں کا لیا ہے جن کے متعلق مجھے اعتماد تھا کہ وہ اس مذاق کو سمجھیں گے اور غصہ نہیں کریں گے۔
خیر اگر آپ کو یہ مذاق اچھا نہیں لگا تو میں صدقے دل سے معذرت چاہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ درگزر فرمائیں گے۔
باقی میں آپ کا بلاگ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں اس لئے جب میں دنیا میں نہیں آیا تھا یا جب بوتل سے دودھ پیتا تھا تب کی، آپ کے بارے میںباتیں، آپ کے بلاگ پر پڑھ چکا ہوں۔
یہ تحریر تو بس مزاح کے لئے لکھی ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ آپ بزرگ بندے ہیں اور جوانی میں بڑے بڑے عہدوں پر رہ چکے ہیں۔۔۔
حقیقت تو یہی ہے ، لیکن سمجھتے تو ہم سب یہی ہیں جو اوپر پہلے حصے میں بیان ہے 😆 خوش فہمی میں رہنا چاہیئے جیسے میں ہمیشہ ( ت ۔ ب ۔ ص ۔ ر۔ و ۔ ں ) کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہوں
ریاضی، سائنس، معاشرتی علوم، مطالعہ پاکستان، دینیات، اسلامیات، فنون لطیفہ، تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، طبیعات، کیمیا، شماریات، اُردو، انگریزی، عربی، پنجابی، سندھی اور اب چائنیز بھی چودہ چودہ سال تک مسلسل پڑھیںگے تو یہی ہو گا۔
پڑھ کہاں رہے ہیں صابر بھائی، رٹ رہے ہیں اور رٹتے ہی رہیں گے!
😆 😆 آج کل بلاگ پڑھنے کو بھی نہیں مان رہا تھا۔
پڑھتا بھی ہوں تو لکھنے کو دل نہیں کرتا۔
آپ کا لکھا پڑھ کر “دندیاں” نکلیں مزا آیا۔
بھائی مسئلہ کو میں تو سمجھ گیا ہوں کہ ہم لوگ “سپیشلی خوار ” کیوں ہیں۔
بیستی کے ڈر سے دل کھول کر لکھا نہیں جاتا۔
اب سوچ رہا ہوں۔۔ذرا “ننگا ” ہو کر لکھنا شروع کردوں۔۔
شاید آنی والی نسلوں کیلئے کچھ بہتری کے امکانات کا سبب بن جائیں۔
نیت تو اچھی ہی ہوتی ہے لکھتے وقت ۔۔کیا کروں دل بڑا کالا ہے۔
خوامخواہ ہونے کا درد کسی سے شئیر تو کرنا ہی ہے توبلاگستان کے دشمنوں کے ساتھ ہی کیوں نہیں ؟
اعلٰی یاسر بھائی بہت زبردست!!!!! 😆 😆 😆 😆
جناب من!
بندہ پرور اس خاکسار کو عثمان جیسی عظیم ہستی سے ملانے پر آپ کا انتہائی مشکور ہے۔ 😛
یار درست جملہ یہ تھا :
کسی کارل مارکس کا نام عثمان کے ساتھ لکھا جاتا۔ 😉
اور ہاں ، وہ اوپر ایک کارل مارکس کا تبصرہ بھی اپروو کر دینا۔ 😀
بلال بھائی، جو لکھا خوب لکھا، کافی حقیقت آشناء تحریر ہے پر کچھ دوستوں کو تھوڑا سا غصہ آ گیا ہے۔
لیکن کیا ہو سکتا ہے آپ نے دھویا بھی تو خوب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🙄 🙄 🙄 🙄
بہت عمدہ اور فکر انگیز
کیا بات ہے بلال بھائی یہ تو ٹھیک ٹھاک آپ نے بونگی ماری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہاں بونگی کے ساتھ ساتھ آپ نے سبق بھی بہت اچھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاباش ۔۔۔۔
قسم سے دل کر رہا ہے ہاتھ چوم لوں جنہوں نے یہ لکھا
وپڈا کے چند اچھے کاموں میں سے ایک کہ آپ سے یہ لکھوایا 💡
ہمممم شروع میں تو ایسا لگا شاہد کچھ تبدیلی آنے والی ہے۔ لیکن ایک بات ہے ہم آئے دن نئی سے نئی خبر سنتے ہیں کہ فلاں نے یہ کارنامہ کر دیا ، فلاں نے وہ کارنامہ کر دیا لیکن اس کے بعد وہ بندہ ایسا غائب ہوتا ہے کہ بس ابھی پچھلے سال ہی ایک بندے کے بارے میں پڑھا اور دیکھا تھا کہ اس نے گیس پر چلنے والا پنکھا بنایا ہے۔ ہونا تو چاہے تھا ابھی تک ہزاروں کی تعداد میں ایسے پنکھے آ چکے ہوتے لیکن میرا نہیں خیال اس پر کوئی کام بھی ہوا ہے
میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی مائنڈ کرنے والی بات ہے سچ تو یہی ہے کہ اگر پاکستان ترقی یافتہ ملک ہوتا تو جو تحریر کا پہلا حصہ ہے سب کچھ ایسا ہی ہوتا۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے
ونڈوز جیسا آپریٹنگ سسٹم بنانے سے کھڑکیاں گننا ہی بہتر ہے۔ 😛
بہرحال، آپ نے میرے شوق کا غلط اندازہ لگایا۔ آپریٹنگ سسٹم بنانے جیسے چھوٹے موٹے کام میں نہیں کیا کرتا۔ 😆
ہاں بھئی خوامخواہی بھتیجے آپ تو نسوار سے ہوائی جہاز اڑانے کا سسٹم تیار کرنے کے چکر میں ہو 😆 😆 😆
اور جناب فلسفی و دانشور لوگوںکی فہرست تو آپ بھول ہی گئے ۔۔۔ عظیم فلسفی و دانشور انکل ٹام کا نام دنیا میں مشہور ہو گا
ویسے آن دا سئیریس نوٹ کسی پی ایچ ڈی کرنے والے نے بتایا کہ اکثر مسلمانوں کے تھیسیز کو سائیڈ پر کر دیا جاتا ہے اور ان سے پہلے کسی سے تھیسیز لکھوا کر چھپوا دیا جاتا ہے ۔۔۔ ایک کتاب ہے قرآن سائنس اور تہذیب و تمدن اس میں فہرست ہے چیزوںکو جنکو مسلمانوں نے پہلے ایجاد کیا اور اب وہ کسی کافر کے نام سے منسوب ہیں ۔۔۔
تحریر پڑھی مزا آیا ۔ٹھہرے ہوئے پانی میں کسی نے تو کنکر پھینکا۔جہاںتک بات ہے ترقی اور ایجادات کی تو عرض ہے کہ اگر کوئی کچھ کر سکتا ہے تو اُس کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی ۔اگر کسی کو یاد ہو تو سیالکوٹ (میرا خیال ہے کہ وہ سیال کوٹ کے تھے)کے ایک سراج الدین نامی شخص نے کششِ ثقل سے چلنے والی کار بنائی تھی ۔وہ ایک بار ہی میڈیا پر آیا اس کے بعد اس کا ذکر نہیں سنا ۔ایک نوجوان جس نے واٹر پمپ سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔وہ کئی برس پہلے دلدار پرویز بھٹی صاحب مرحوم کے پروگرام پنجند میں آیا تھا ۔اس کا بھی کوئی نام و نشان کہیں نظر نہیں آتا۔ایسی لاتعداد مثالیں ہیں ۔ایسے ٹیلینٹڈ لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ہمارے وطن میں بھی عظیم لوگ ہیں ۔آپ ارفعہ کریم کی مثال ہی دیکھ لیں ۔وہ جب تک بیماری کے ہاتھوں اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگئی ہمارے حکمرانوںکی آنکھیں نہیں کھلیں ۔اب پارک اس کے نام کرنے کا فائدہ؟
پڑھ کر ہنسی تو آئی لیکن پھر شرمندگی سے کھسیانی سی ہو گئی!
جب تک ہم یہ نہیں جان لیتے کہ علم ڈگری کا نہیں کچھ نیا پتہ چل جانے کا نام ہے۔ تب تک بشیر مزدور ہو سکتا ہے، کلرک ہو سکتا ہے، سکول ماسٹر یا پروفیسر ہو سکتا ہے یا ذیادہ سے ذیادہ کسی کارخانے یا بڑے کاروبار کا مالک تو ہو سکتا ہے لیکن کسی سائنسی پیمائش کی اکائی کبھی نہیں ہو سکتا کھبی نہیں۔
مزے دار ہے 😆
پس ثابت ہوا کہ آپ میںمزاح لکھنے کی زبردست صلاحیت ہے
ایسی شگفتہ تحریریں لکھتے رہا کریں۔
بلال بھیا مزہ آگیا 🙂 جعفر بھیا کی بات دُرست ہے کہ ثابت ہوا آپ میں مزاح لکھنے کی اچھی صلاحیت ہے۔۔۔
ہمیشہ کی طرح انتہائی مزے دار تحریر ہے۔
ویسے بلال بھائی میں تو اب تک اسی غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ میری آن لائن شاپنگ ویب سائٹ دنیا کی سب سے بڑی آن لائن شاپنگ سنٹر ہے۔
ڈفر اور جعفر سے بھی بڑھ کر مزیدار تحریر، پڑھ کر مزا آ گیا۔ کہانی کی سنجیدگی کی طرف دھیان دینے کی بجائے میںتو اس بات پر اٹک گیا کہ آپ فارغ وقت میں واقعی ریوڑیاںتو نہیںبیچتے۔
اس منفرد تحریر کیلئے شکریہ قبول کیجیئے
😆 😆 😆
بلال بھائی مزہ آگیا یار آپ کی تحریر پڑھ کے
آپ کی تحریر میں مزاح کا عنصر تو تھا ہی، لیکن ہمیں جو ہلا گئے ہیں۔ اس کا جواب نہیں۔
مجھے آپ کا ان موضوعات پر لکھنا پسند ہے۔ شکر ہے کوئی تو ہم پر انگلی اٹھاتا ہے۔ آل از ویل آل از ویل تو سب کہتے ہیں۔
اسلام علیکم
بہت خوبصورت اور معیاری تحریر ہے
اللہ کی سلامتی ہو آپ پہ وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ
ڈاکٹر بی ۔اے خرم
بورے والا
بہترین تحریر جناب عالی۔
میرا خیال ہے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں مغربی اقوام کا انفراسٹرکچر زیادہ مضبوط ہے۔ ان کی یونیورسٹیاں، ریسرچ سنٹرز اور حکومتیں زیادہ اچھی پالیسیاں بناتی ہیں، وہ لوگ تعلیم اور علم کو ایک مقام دیتے ہیں۔ اور ہمارے سٹوڈنٹ اساتذہ کی پھینٹی لگا رہے ہوتے ہیں۔
بھت خوب تھرئر۔
آپ کی تحریر کو مزاح کے طور پر ہی پڑھا جائے تو قاری مزہ لے پائے گا۔ اگر اس نے اسے تنقید کے زمرے میںلے لیا تو پھر آپ کی خیر نہیں۔
جو آپ نے لکھا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ سست لوگ ہیںجو محنت سے جی چراتے ہیں۔ پرچیوں کیساتھ امتحان دیتے ہیں، جعلی ڈگریوں کسیاتھ ممبر اسمبلی بنتے ہیں، دھوکے سے اپنوں کو لوٹتے ہیں یعنی ہر کوئی شارٹ کٹ مارنے پر لگا ہوا ہے۔ تبدیلی محنت سے ہی آئے گی مگر ایک دو کی محنت سے نہیں بلکہ پوری قوم کی محنت سے۔ پوری قوم کی محنت صرف اور صرف اچھی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ اچھی حکومت اچھے عوام ہی چن سکتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ پہلے مرغی آئی یا انڈہ یعنی پہلے عوام کیسے اچھے ہوں یا حکومت کیسے اچھی ہو؟
بہت خوب !
جناب بلال صاحب مزہ آگیا پڑھ کر۔ ہاں اور جن حضرات کو آپ کی تحریر پڑھکر غصہ آیا ۔ ۔ ان پر مجھے ہنسی آرہی ہے کہ اتنے اچھے مزاح کو نہیں سمجھ سکے ۔ ۔ بہر حال لکھتے رہا کریں ۔ ۔ اچھا لکھتے ہیںآپ بہت ۔ ۔