وقت آن پہنچا ہے۔ ”خداؤں“ کا بازار سج چکا ہے۔ لوگ بولیاں لگا رہے ہیں۔ سڑکوں پر بڑی چہل پہل ہے۔ ایک ”خدا“ کا سورج شمال سے طلوع ہو رہا ہے تو دوسرے کا جنوب سے۔ کچھ ”خدا“ آپس میں اتحاد کر کے باقی ”خداؤں“ کو مات دینا چاہتے ہیں۔ ”خداؤں“ کی اس جنگ میں مارے ہمیشہ عام انسان جاتے ہیں۔ کوئی فیصلہ کرے نہ کرے مگر میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں ”خدا“ کو ووٹ نہیں دوں گا۔ بہرحال ووٹ تو میں ضرور دوں گا اور ان شاء اللہ ان ”خداؤں“ کے خلاف دوں گا۔
میں نے دیکھا ہے کہ ”خداؤں“ کے بازار میں میلہ لگا ہوا ہے۔ کوئی چھوٹا ”خدا“ ہے اور کوئی بڑا اور کوئی بہت بڑا۔ ”خداؤں“ نے دکانیں اور ریڑیاں سجا رکھی ہیں۔ جس کی جتنی اوقات ہے، وہ اپنی اوقات سے بڑھ کر دکان سجانے کے چکر میں ہے۔ آج کل ان ”خداؤں“ میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھر چکی ہے بلکہ بھیکاری سے بھی زیادہ عاجز ہو چکے ہیں۔ نعرے لگ رہے ہیں کہ ”خدا“ کی قیمت فقط اک ووٹ۔ میں ان ”خداؤں“ سے تنگ آ چکا ہوں۔ اس بازار میں کہیں کوئی انسان نظر ہی نہیں آتا۔ اگر کوئی نظر آ بھی جائے تو وہ بھی اپنے ”خدا“ کو بڑا ثابت کرنے کی بحث میں پڑا ہے۔ میرا سوال تو یہ ہے کہ یہ بازار تو انسانوں کا ہے، کیا یہاں کوئی انسان بھی ہے؟
مختلف دکانوں کے تھڑوں پر مختلف ”خدا“ موجود ہیں۔ ٹاک شوز سے لے کر اخبارات تک ہر کوئی اپنے لیڈر کو خدا ثابت کرنے پر لگا ہے۔ آپ کسی سے پوچھ لو کہ کیا تمہارے لیڈر نے کبھی کوئی غلطی یا گناہ کیا ہے؟ تو جواب یہی ملے گا کہ نہیں نہیں ہمارے لیڈر نے کبھی کوئی غلطی یا گناہ نہیں کیا۔ آپ پوچھ لو کہ فلاں فلاں کام تو اس نے غلط کیا تھا مگر مجال ہے کوئی تسلیم کرے، الٹا آپ کو کہیں گے کہ آپ کو سمجھ نہیں یا آپ کسی دوسرے ”خدا“ سے ملے ہوئے ہو۔
اپنے لیڈر کے اچھے برے کام غرض ہر قسم کے کاموں کی حمایت جاری ہے۔ ہر کوئی ایک طرف اپنے لیڈر کو مختارِ کل بنا رہا ہے اور دوسری طرف اپنے لیڈر کو معصوم یعنی خطاؤں سے پاک سمجھ رہا ہے۔ دوستو! میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ”خطاؤں سے پاک مختار کل“ صرف اور صرف خدا ہوتا ہے جبکہ انسان تو غلطیاں اور خطائیں وغیرہ بھی کرتا ہے، کئی معاملات میں انسان کمزور واقع ہوا ہے، مگر یہاں تو ہر لیڈر پاک صاف ہے اور کسی نے کبھی کوئی خطا نہیں کی۔
کیا کوئی اپنے لیڈر کی ایک چھوٹی سی غلطی بتا سکتا ہے؟ کیا کوئی لیڈر اپنی غلطی یا جرم تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت رکھتا ہے؟ اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہارے لیڈر نے کبھی کوئی غلطی نہیں کی اور تم نے اپنی سوچوں کا مختار کل اپنے لیڈر کو بنا رکھا ہے تو پھر میں یہی کہوں گا کہ تم اپنے لیڈر کو خدا بنا رہے ہو، اگر انسان ہی سمجھتے ہوئے مقابلے بازی کی وجہ سے اپنے لیڈر کی غلطیوں پر پردے ڈال رہے ہو تو پھر اخلاقی جرم کر رہے ہو، اگر اپنے لیڈر کو غلطی سے پاک سمجھ رہے ہو تو پھر میں یہی کہوں گا کہ تم اپنے لیڈر کو پیغمبروں کی صف میں کھڑا کر رہے ہو۔
دوستو! میں ووٹ دینا چاہتا ہوں، میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، میں ان ”خداؤں“ کو ووٹ نہیں دے سکتا۔ مجھے بتاؤ کہ یہاں کوئی لیڈر عام انسانوں میں سے بھی ہے یا سارے ”خدا“ ہی ہیں۔ کیا کسی پارٹی کے پاس انسان امیدوار ہے؟ کوئی تو مجھے بتائے کہ اس الیکشن کے دنگل میں کوئی انسان بھی ہے یا یہ دنگل صرف اور صرف خداؤں کا بازار ہی ہے؟
بلال بھائی آپ نے تو ٹھیک ٹھاک بھڑاس نکال دی بیچارے فرشتوں پر۔۔۔ خیال کریں کوئی جیا لا آپ پر فتوٰی نہ جاری کر دے۔
ہمیشہ کی طرح بہترین تحریر۔۔۔
نواز دیوبندی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے ۔۔ میں تو اسے علماء سوء کے لیے زیادہ بہتر سمجھتا ہوں ۔۔ لیکن لیڈروں پر بھی فٹ ہوتا ہے۔
آ رہے ہیں پھر فرشتے شہر میں
لگ گئے ہیں پوسٹر دیوار پر
بہت عجیب وقت اگیا ہے
آپ کتے ، بلے، شیر ، خنزیر کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں 😛
ایک تلخ حقیقت! 🙁
ووٹ تو آج تک نہ دیا لیکن ان “خداؤں” کو تو دینا بھی نہیں چاہتا۔ کبھی کوئی “انسان” ملا تو دے دوں گا، مگر سوچتا ہوں، اس انسان کا انتظار کیوں کروں؟
میں خود ہی کیوں نہ اس کام کا بیڑہ اٹھا لوں؟
ویسے بلال بھائی! آپ نے “خدا” کا لفظ جو استعمال کیا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ اسے برا سمجھیں گے (گو کہ آپ کا مطمع نظر کچھ اور ہے)۔
ووٹ دینا شرک ہے، ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ ہم ’’ اللہ‘‘ کے بنائے ہوئے قانون سے خوش نہیں ہیں اور اپنی مرضی کا قانون بنانا چاہتے ہیں!!!!!!!!!
بلال بھائی لوڈشیڈنگ پر بھی کچھ لکھیں
خداؤں کا لفظ ہی چیخ چیخ کر شرک کا اعلان کر رہا ہے ، ہم توحید پرست ہیں چاہے جانیں یا نہ جانیں مانیں یا نہ مانیں اس لیے اپنے اندر جھانک لیں اور ایک کے ہو جائیں سب کام سنور جائیں گے – بہت شکریہ بر وقت رہنمائی کا –
خدا کا لفظ آپ نے برمحل استعمال کیا ہے۔ عوام پوجا کے شوقین ہیں۔ انھیں کوئی چاہیے جس کے یہ تھلے لگ جائیں۔ سو وہ قریب قریب ہر ایک کو اپنے مزاج کے مطابق مل گیا ہے۔ لوگ خوش ہیں۔ آپ کے ووٹ دینے نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
اگر دوستوں کو بارِ خاطر نہ ہو تو میں اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ کم از کم ان دنوں اچھے خاصے متشرع لوگوں کی زبان سے اللہ رسول اور قرآن ایمان وغیرہ اور متعلقہ الفاظ اتنے نہیں نکلتے جتنے قصائد اور ہجویں ان کے محبوب و مردود رہنماؤں کے علی الترتیب خارج ہوتے ہیں۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے رہنماؤں کو جتوا کر رہیں گے۔ یہ سودا منٹو کے “نیا قانون” والے کوچبان کے جنون سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ، گھبرائیں کیا!
😆