اس عنوان کا جواب صرف اتنا ہے کہ اپنی زبان، اپنی زبان اور بس اپنی ہی زبان میں ترقی کی۔
خدا کے بندو زیادہ نہیں بس تھوڑے سے تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرو۔ دیکھو یورپ کے اس تاریک دور کو جب انگریزی میں جدید مواد تھا ہی نہیں۔ تب کچھ بندوں نے اپنی ضرورت کے مواد کو فارسی، عربی اور دیگر زبانوں سے اپنی زبان میں منتقل کیا۔ عام عوام کو سیکھایا اور شعور دیا۔ عوام خوشحال ہونا شروع ہو گئی۔ آج وہ وقت ہے کہ کسی بھی زبان میں کوئی تحقیق آتی ہے وہ اسے فورا اپنی زبان میں منتقل کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پوری عوام کو نئی زبان سیکھانے سے بہتر ہے کہ چند لوگ مترجم بن جائیں اور اپنی عوام کو اسی کی زبان میں مواد فراہم کریں تاکہ جتنی محنت نئی زبان سیکھنے پر کرنی ہے اتنی کسی اور کام میں کر کے مزید ترقی کی جائے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ اور دور تھا جبکہ آج کچھ اور حالات ہیں۔ آج دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ لوگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں واقعی وہ دور اور تھا اور یہ دور اور ہے، تب حالات اور تھے اور آج اور ہیں۔ تب مواد کم تھا تو انسان ترجمہ کر لیتے تھے۔ واہ کیا خوب منطق ہے۔ یہ منطق دیتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آج مواد زیادہ ہے تو اس کے لئے آج ہمارے پاس وسائل بھی تو زیادہ ہیں۔ اب تو وہ وقت آ چکا ہے جب کمپیوٹر کے سامنے کتاب رکھو وہ خود ہی تراجم کرے گا۔ ہارڈ کاپی کو سافٹ کاپی میں منتقل کرے گا اور نا جانے کیا کیا خودبخود کر دے گا۔ اگر اردو جدید ٹیکنالوجی میں اس مقام پر نہیں پہنچی جہاں دیگر زبانیں ہیں تو اس میں اردو کا کوئی قصور نہیں، یہ ہماری ہی نالائقی ہے۔ مزید یہ کہ گلوبل ویلیج کا راگ الاپنے والے جن کو انگریزی کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ جنہوں نے کنویں سے باہر دیکھا ہی نہیں کہ ساری ترقی یافتہ دنیا اپنی اپنی زبانوں کو اپنائے ہوئے مزید ترقی کر رہی ہے۔ اگر انگریزی کے بغیر ترقی ممکن نہیں تھی تو پھر انہوں نے کیسے ترقی کر لی؟ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے تو پھر گوگل اور اس جیسی کئی ایک کمپنیاں انگریزی کے علاوہ دیگر زبانوں میں کیوں موجود ہیں۔ وہ ”صرف“ اس گلوبل ویلیج کی زبان کو ہی کیوں نہیں اپناتیں؟ دیگر زبانوں میں اپنی ویب سائیٹیں اور دیگر مواد کیوں فراہم کرتیں ہیں؟ اس کا جواب صرف اتنا ہے کہ وہ کمپنیاں جانتی ہیں کہ ترقی یافتہ لوگ صرف اپنی زبان میں ترقی کرکے یہاں پہنچے ہیں اور وہ کبھی اپنی زبان نہیں چھوڑیں گے۔ ویسے بھی گلوبل ویلیج کی زبان انگریزی والی بات سرے سے ہی غلط ہے۔ بے شک دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے لیکن اس گلوبل ویلیج کی کوئی ایک زبان نہیں بلکہ اتنی ہی زبانیں ہیں جتنی زبانوں والے لوگ اس میں شامل ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا ساری ترقی یافتہ دنیا اپنی کاغذی کاروائی اپنی زبان میں کرتی ہے۔ دیارِغیر جانے والے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ ویزا کے جو کاغذات باہر سے آتے ہیں وہ اس ملک کی اپنی زبان میں ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ باہر جانے والے کو اپنی اسناد اور دیگر کاغذات بھی اس ملک کی ہی زبان میں منتقل کروانے ہوتے ہیں۔ اگر انگریزی اتنی ہی اہم ہے تو وہ ملک پاگل ہیں جو آپ سے آپ کے کاغذات اپنی زبان میں مانگتے ہیں؟ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے کام اپنی زبان میں کرتی ہیں اور صرف نہایت ہی مجبوری میں دوسری کسی زبان کا سہارا لیتی ہیں، کیونکہ سمجھدار قومیں دو کشتیوں کی سوار نہیں بنتیں بلکہ ایک کشتی میں بیٹھتی ہیں اور منزل کی جانب رواں دواں رہتی ہیں۔
اگلا حصہ :- ہمارے ذہنی غلاموں کا جنجال پورہ
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قوموں نے ترقی کس زبان میں کی؟“