پہلے تو میں ساتھ ساتھ لکھ رہا تھا مگر سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے لکھنا بند کر دیا تھا اور اب دوبارہ لکھنا شروع کیا ہے۔ جب ہم شنکیاری سے نکلے تو آگے ویرانے میں سڑک کے کنارے اخروٹوں کے دو تین بڑے بڑے ڈھیر لگے ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی بندہ بھی نہیں تھا۔ اخروٹوں کو دیکھ کر عبدالرؤف نے شور مچا دیا کہ وہ دیکھو ”اخروٹ کا فری کیمپ“ لگا ہوا ہے۔ واقعی وہ فری کیمپ ہی تھا مگر ہماری شرافت یا بزدلی کہ ہم نے فری کیمپ سے ذرہ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ 🙂
سفر کی وجہ سے سارے سست پڑ رہے تھے، پھر دو بجے کے قریب بٹگرام سے تھوڑا پہلے ایک جگہ پھگوڑہ آئی۔ ہم ادھر رکے اور ظہر کی نماز ادا کی۔ ویسے اس دن سلیم کی وجہ سے یا پھر سفر کی تھکاوٹ کم کرنے کے لئے ہم سب نماز پڑھ رہے تھے۔ پھگوڑہ میں ہی عبدالستار نے پہلی ”سٹرنگ“ پی۔ پھر تو سارے ٹور پر جیسے اسے ایک کام مل گیا ہو۔ جہاں بھی سٹرنگ نظر آئی تو اس نے نہ چھوڑی۔ پتہ نہیں اس نے ٹی وی کی مشہوری میں دیکھا ہے اس وجہ سے یا واقعی سٹرنگ نے اس کی تھکاوٹ دور کی تھی۔ بہرحال جو بھی تھا، عبدالستار سٹرنگ کا عاشق ہو چکا تھا۔ پھگوڑہ میں ہی ہم سب نے سرِعام سڑک کنارےاس سفر کا پہلا جام چڑھایا۔ گو کہ یہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا مگر پھر بھی گلے سے گھونٹ گزرتا محسوس ہوتا اور معدے تک پہنچتے ہی ایسا سکون دیتا کہ ہوش خطا ہو جاتے۔ چشمے کے ٹھنڈے جام نے تو جیسے صدیوں کی تھکاوٹ دور کر دی ہو۔ ادھر ہی ڈرائیوروں سمیت سب نے بسکٹ اور چائے کا ایک ایک کپ چڑھایا مگر میں نے دو کپ۔ وہ کیا ہے کہ ہوٹلوں کے چھوٹے سے ایک کپ سے میرا کچھ نہیں بنتا اس لئے کم از کم دو کپ میرے لئے فرض ہو جاتے ہیں۔
پھگوڑہ کے بعد بٹگرام آیا اور اس کے بعد ”تھاکوٹ“ سے تھوڑا پہلے بائیں طرف نیچے کھائی میں دھان کے خوبصورت سرسبز کھیت نظر آئے۔ ہم نے گاڑی رکوا لی اور تصویریں بنانے لگ پڑے۔ ادھر ہی سڑک پر کچھ کام بھی ہو رہا تھا۔ لینڈ سلائیڈنگ کو روکنے کے لئے دیوار تعمیر کر رہے تھے۔ دیوار کی بنیادیں گہرائی میں رکھنے کے لئے پہلے کھودائی کی جا رہی تھی۔ اس سارے کام کاج کے لئے وہاں پر کافی بڑے بڑے اوزار موجود تھے۔ اوزار ہوں اور غلام عباس ان پر غور نہ کرے، یہ نہیں ہو سکتا، لہٰذا بابا غلام عباس اوزاروں کی تفصیلات کی کھوج لگانے لگا اور وہاں پر موجود مزدوروں سے گپ شپ کرنے لگا۔ خیر ”بابے“ کو دھکے مار کر گاڑی میں بیٹھایا۔
اِدھر تھاکوٹ آیا، اُدھر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے سندھ نے ہمارا استقبال کیا۔ ہمارے دائیں طرف بلندوبالا سرسبز پہاڑ فضاؤں کے نغمے سن رہے تھے تو بائیں طرف سڑک سے تھوڑا ہی نیچے دریائے سندھ کا مٹیالہ پانی پتھروں سے ٹکرا کر نئی سے نئی دھنیں ہمیں سنانے لگا۔ تھاکوٹ میں جیسے دریائے سندھ نے ہمارا ساتھ نبھانے کی قسم کھا لی ہو کیونکہ اس کے بعد ہم شاہراہ قراقرم پر جدھر بھی گئے یہ ہمارے ساتھ رہا۔ کبھی دائیں پہلو میں ہوتا تو کبھی بائیں طرف سے اپنی دھنیں گنگناتا آ جاتا۔ مجھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ جدید قسم کے سٹیریو سسٹم سے آراستہ ہے۔ جبھی تو ایک لمحے میں دائیں تو دوسرے میں بائیں ہو جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے نظارے میں ایسا محو ہوا کہ کب پولیس نے اندراج کیا اور کب پولیس والوں نے مجھے خوبصورت پُل کی تصویر بنانے سے منع کیا کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
تھاکوٹ میں دریائے سندھ کی سطح سمندر سے بلندی تقریباً 520 میٹر ہے۔ تھاکوٹ میں ہی دریائے سندھ پر شاہراہ قراقرم کے لئے ایک خوبصورت پل تعمیر ہوا تھا۔ شاہراہ قراقرم پر یہ ایک اہم پُل ہے۔ پہلے اس پُل کا کیا نام تھا یہ تو نہیں معلوم مگر وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کے دور میں 17 اگست 2004ء کو اس پُل کا نام ”یویی“ (Youyi) رکھ دیا گیا۔ یویی چینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ”دوستی“۔ یوں اس کا مکمل نام کچھ یوں بنا ”دوستی کا پُل“ (Friendship Bridge)۔ یویی پل پر کئی ایک سرحدیں ختم اور شروع ہوتی ہیں، جیسے فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن (FWO) کی حد بھی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔
میں نے یویی پُل کی تصویر بنانا چاہی اور احتیاط کے طور پر پولیس والے سے پوچھ لیا۔ پولیس والے نے پل کی دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے وہاں تک تصویر نہیں بنا سکتے۔ خیر میں اپنا سا منہ لے کر واپس گاڑی میں بیٹھ گیا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کی تو کئی تصویریں مل گئیں اور ابھی جو تصویر لگائی ہے یہ بھی انٹرنیٹ سے ہی ملی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا بوسیدہ نظام کس سہارے پر ابھی تک کھڑا ہے۔ جس ملک کے سیکیورٹی ادارے ایک پُل کی تصویر بنانے نہیں دیتے کیا انہیں معلوم ہے کہ ٹیکنالوجی اتنی جدید ہو چکی ہے کہ چوری چوری اس طرح کے پُلوں کی تصاویر بنانا کوئی مشکل کام نہیں اوپر سے گوگل ارتھ جیسے سافٹ ویئر تو مکمل طول بلد، عرض بلد، سطح سمندر سے بلندی اور مزید اتنا کچھ بتا دیتے ہیں کہ انیسویں صدی کی طرح کسی تصویر یا سکیچ کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اور ایک ہمارے سیکیورٹی ادارے ہیں جو ایک پُل کی تصویر بنانے سے منع کرتے پھر رہے ہیں۔ صدقے جاؤ ان کی سیکیورٹی پر۔۔۔
ہمارا سفر جاری رہا۔ پولیس چیک پوسٹ پر اندراج کروانے کے بعد یویی پُل کے ذریعے دریائے سندھ عبور کیا۔ اب شاہراہ قراقرم دریائے سندھ کی دوسری طرف ہو گئی ہے یعنی اب ہمارے دائیں جانب دریائے سندھ ہے اور بائیں جانب پہاڑ۔ تھاکوٹ سے تھوڑا آگے گئے تو سڑک کے کنارے ایک بڑا سا سنگ میل تھا، جس پر دیگر تفصیلی معلومات کے ساتھ ساتھ ایک جگہ لکھا تھا ”نذرانہ عقیات:- پاکستان اور چین کے ان نوجوانوں کی خدمت میں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے اس شاہراہ کی تعمیر کو ممکن بنایا۔“
اس کے بعد ایک دو چھوٹے چھوٹے دیہات آئے پھر ایک شہر بشام آیا۔ یہاں سے ہم نے دوبارہ گاڑی میں ڈیزل بھروایا اور ٹینکی فل کروائی۔ یہاں سے ہمیں ڈیزل دو روپے فی لیٹر مہنگا ملا۔ بشام میں ہی شاہراہ قراقرم سے بائیں جانب ایک سڑک مینگورہ سوات کو بھی جاتی ہے۔ کیونکہ ہم نے گلگت کی طرف جانا تھا اس لئے شاہراہ قراقرم پر ہی سفر کرنا تھا۔ بشام بازار میں زیادہ تر دکانیں بند پڑیں تھیں، اس پر سلیم نے بتایا کہ بشام کا بازار عام شہروں سے الٹ ہے اور یہ دن کی بجائے رات کو کھلتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بشام کے بازاروں میں زیادہ تر مال سمگلنگ کا ہے اور بہت سستا ملتا ہے، مگر ہمیں ڈیزل تو مہنگا ملا تھا۔ شاید اس کی وجہ پاکستان سٹیٹ آئل (پی ایس او) کا پٹرول پمپ ہو یا پھر سمگلنگ کا اور سستا مال بس باتیں ہی ہوں۔ دن کے وقت کئی بند دکانوں کے باہر ہزار ہزار واٹ کے روشنی والے راڈ جل رہے تھے، اور شاید ہی کسی دکان پر بجلی کا میٹر تھا۔
خیر بشام میں دریائے سندھ کا اپنا ایک الگ نظارہ ہے۔ سڑک تھوڑی بلندی پر ہے اور نیچے کھائی میں دریا بڑی عجیب چال چل رہا ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر سب کچھ بھول کر چپ چاپ دریا کنارے بیٹھ جاؤ اور دریا پر غور کرو تو ایسا لگے گا جیسے آپ کسی ماڈلنگ شو میں بیٹھے ہوئے ہیں اور دریائے سندھ ریمپ پر کیٹ واک کر رہا ہے۔ اگر اس سفر میں اتفاق رائے نہ ہوتی اور صرف میری مرضی چلتی تو میں بشام میں رات گزارنے کا حکم صادر کرتا یا کم از کم ڈھلتے سورج کی نگرانی میں کچھ وقت دریائے سندھ کے پانی سے گپ شپ کرتا۔ میں ٹھہرا اس معاملے میں جذباتی، مگر باقی دوست دریا سے اس کے پانی کی بانڈنگ کے متعلق یا مذاق بھی تو کر سکتے تھے۔
قدرتی حسن انسان کو تازہ دم کر دیتا ہے۔ نیا آپریٹنگ سسٹم انسٹال کرتا ہے۔ مزاج کو لطیف بنا دیتا ہے۔ سوچ کا دائرہ وسیع کرتا ہے اور ایک چھوٹے سے قطرے میں سمندر بہا دیتا ہے۔ خیر ہمارا سفر جاری رہا اور ہم اللہ کے فضل سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے۔ سفر کرتے ہوئے تقریبا بارہ تیرہ گھنٹے ہو چکے تھے۔ پہاڑی علاقے میں سفر کرتے ہوئے بھی کافی وقت بیت چکا تھا مگر ابھی تک گرمی والے جن نے ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اسی لئے ہم نے رات ٹھہرنے کے لئے داسو سے آگے ثمر نالہ کے متعلق پلان بنا رکھا تھا کیونکہ وہاں پر موسم کافی خوشگوار ہوتا ہے، مگر ابھی بھی ثمر نالہ تین چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ تھکاوٹ کے اس عالم میں سب نے جی پی ایس سسٹم چلا رکھے تھے اور ہر کوئی بقایا سفر اور وقت کے متعلق پشین گوئیاں کر رہا تھا۔
اگلا حصہ:- پانی دودھیا، مٹیالہ اور ثمر نالہ – پربت کے دامن میں
youyi لفظ کا صحیح تلفظ ” یَو اِی ” ہے۔
مجھے چینی زبان نہیں آتی۔ پُل پر اور ساتھ میں جو سرکاری تختی لگی تھی اس پر ”یویی“ ہی لکھا تھا تو میں نے بھی یویی ہی لکھ دیا۔
خوب فروگذاشت ہے۔
تصاویر بہت کم ہیں۔ گھنٹوں میں مسافت کے علاوہ اگر اہم مقامات کے بین فاصلہ بھی لکھ دیتے زیادہ مناسب ہوتا۔
شکریہ جناب۔
دراصل سفر کے دوران کچھ تھکاوٹ کچھ ویسے ہی تصاویر بہت کم بنائی تھیں۔ مگر منزل پر پہنچ کر تو تباہی ہی مچا دی تھی۔ خیر جلد ہی آپ کو بہت ساری تصاویر دیکھنے کو ملیں گیں۔ مزید اس سفر نامہ کے آخر پر ایک مکمل گائیڈ شائع کروں گا جس میں مختلف شہروں کے درمیان فاصلے اور دیگر بہت کچھ ہو گا۔
سفر کے اخراجات کے بارے میں بھی ضرور بتائیے گا۔
السلام علیکم
وعلیکم السلام
bhot khub aap zila tor gar ka bhi sfar krey to acha hoga bhai
wo bhi bhot khub sorat alaqa hai
اجی میرا بس چلے تو پاکستان کے علاقے ہی دیکھتا رہوں، مگر مجبوری۔۔۔
ویسے طور یا تور گڑھ کی کچھ تفصیلات تو بتائیں؟
اسلام علیکم
آپ کا سفر نامہ جلدی جلدی میں پڑھا تفصیل سے پڑہنے کے لیئے خصوصی وقت نکالوں گا کیوں کہ میں اس میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا تعلق بھی انہیں علاقوں سے ہے اور اسکے علاوہ تقریبا ڈیڑھ سال گلگت میں سرکاری ملازم بھی رہ چکا ہوں ۔ بہر حال آپ کا سفر نامہ انتہائی دلچسپ ہے۔ اور اس پر جتنا تبصرہ کیا جائےکم ہے اور جی نہیں بھرے گا۔
سید مجاہد حسین شاہ گیلانی حال کوئٹہ
وعلیکم السلام
سفر نامہ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ امید کرتا ہوں کہ تفصیلی پڑھنے کے بعد اپنی قیمتی رائے سے ضرور نوازیں گے۔