کیا آپ نے کبھی محنتی انسان کو اپنی لگن میں کام کرتے اور حاسد کو جلتے دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی کوئلے کو جلتے وقت چٹختے اور دھکتے دیکھا ہے؟ کیا کبھی اس کی حالت پر غور کیا ہے؟ کیا کبھی محسوس کیا ہے کہ کوئلہ کیا کہہ رہا ہوتا ہے؟ جب کوئلے کی ”بیک ٹریکنک“ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ کوئلے اور ہیرے کی پیدائش ایک ہی جگہ ہوتی ہے۔ یہ دونوں ایک ہی پہاڑ (دنیا) میں پائے جاتے ہیں۔ پہاڑ میں دبے ہیرے اور کوئلے میں کوئی فرق نہیں ہوتا جب تک ان پر روشنی نہ پڑے۔ دونوں ایک ہی جگہ اندھیر نگری میں رہتے ہیں۔ کان کنی ہوتی ہے۔ دونوں باہر نکلتے ہیں۔ روشنی پڑتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کون ہیرا ہے اور کون کوئلہ۔ ہیرا روشنی منعکس کر کے طرح طرح کے رنگ بکھیرتا ہے، دنیا کو پیارا لگتا ہے اور دنیا اسے سجا کر رکھتی ہے لیکن کوئلہ صرف جلنے کے واسطے ہوتا ہے۔ جب کوئلہ جل رہا ہوتا ہے تو دھکتا، شور کرتا اور چلاتا ہے کہ میں اور ہیرا ایک جیسے ہیں۔ ایک ہی جگہ پلے بڑے ہیں۔ ہم دونوں کی بنیاد ایک ہے، تو پھر کیوں تم اسے سجا کر رکھ رہے ہو اور مجھے یہاں بھٹی میں ذلیل کر رہے ہو؟ دراصل کوئلہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی اور ہیرے کی بنیاد تو ایک ہے لیکن ہیرا حالات کی مار کھا کر پروان چڑھا جبکہ کوئلے نے اپنا آپ نہ بدلا اور کوئلے کا کوئلہ ہی رہا۔ دنیا کا یہی دستور ہے کہ ہیرا سر کا تاج بنتا ہے اور کوئلہ بھٹی میں جلتا ہے۔
ٹرکوں پر لکھے اکثر جملے بڑے معنی خیر ہوتے ہیں، جیسے مشہور جملہ ہے ”جلنے والے کا منہ کالا“۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بددعا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس جملے میں جلنے والے کی پہچان بتائی جا رہی ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا ہوتا ہے۔ ہم آئے دن یہ جملہ پڑھتے ہیں مگر ہم اس کی گہرائی کو محسوس نہیں کرتے۔ اگر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جملہ تو بڑا گہرا فلسفہ بیان کر رہا ہے۔
دنیا میں محنتی لوگ ہیرے اور حسد کرنے والے کوئلے کی مانند ہی تو ہیں۔ محنتی لوگ ہیرے کی طرح روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ چپ چاپ اپنی لگن میں کام کرتے ہیں۔ جب تک دنیا ہیرے اور کوئلے کا بغور جائزہ نہیں لیتی، تب تک دونوں کو ایک جیسا سمجھتی رہتی ہے۔ مگر جب حقیقت دنیا کے سامنے آتی ہے تو محنتی کے کام سے دنیا عش عش کر اٹھتی ہے جبکہ حاسد کوئلے کی طرح صرف جلتا ہی رہتا ہے۔ اپنی کئی تہوں کو اتار کر دھول اڑاتے ہوئے ہیرا بننے کی کوشش کرتا ہے۔ خود کو ہیرا ثابت کرنے کے لئے لاکھ باتیں کرتا ہے۔ چیختا ہے، چلاتا ہے، دنیا کو بتاتا ہے کہ میں بھی کسی سے کم نہیں۔ میری اور ہیرے کی بنیاد ایک ہے۔ جب کچھ نہیں بن پڑتا تو اپنی دھول ہیرے پر بھی ڈالتا ہے۔ اِدھر حاسد یہ حرکت کرتا ہے تو اُدھر دنیا ہیرے کو فوراً صاف کر کے سجا دیتی ہے کیونکہ دنیا ہیرے اور کوئلے کو اچھی طرح پہچانتی ہے۔ مشہور محاورہ ہے کہ ”کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا“۔ بالکل ایسے ہی حاسد اپنے کرتوتوں سے اپنے ہمنواؤں کا منہ بھی کالا کر دیتا ہے۔ حاسد کوئلے کی طرح کان سے نکل کر یعنی منظرعام پر آنے سے لے کر جل کر خاک بننے تک بڑی دھول اڑاتا ہے۔ جو ہاتھ لگاتا ہے اس کے ہاتھ کالے کر دیتا ہے۔ جس جگہ رکھا جاتا ہے وہ جگہ کالی کر دیتا ہے۔ سفر کرتے ہوئے فضا میں اپنی سیاہی بکھیرتا ہے۔ بھٹی پر پہنچاتا ہے۔ اپنی آخری کوشش بھی کرتا ہے۔ جلتے ہوئے چٹختا اور دھکتا ہے۔ جل جل کر راکھ تو ہو جاتا ہے لیکن ہیرا نہیں بن پاتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی کاروباری اس کوئلے(حاسد) کو پکڑ لے اور کان والے ماحول کی طرح کا مصنوعی ماحول دے کر اسے مصنوعی ہیرا بنا دے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ مصنوعی اور اصلی ہیرے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مصنوعی ہیرے سے عام عوام کو تو دھوکہ دیا جاتا سکتا ہے مگر جوہری پہلی نظر میں حقیقت پہچان جاتا ہے۔
کوئلے اور انسان میں ایک فرق ہوتا ہے۔ کوئلے کے پاس ہیرا بننے کے لئے صرف کان میں رہنے تک کا وقت ہوتا ہے جبکہ حاسد کے پاس وقت ہی وقت ہے کہ وہ حسد چھوڑ کر محنتی انسان بن جائے، نہیں تو ساری زندگی جل جل کر ماحول کو گندا کرتا رہے گا اور ایک دن راکھ تو بن جائے گا مگر ہیرا کبھی نہیں بن پائے گا۔ محنتی لوگ اس دنیا کا حسن ہیں۔ وہ ہیرے ہیں ہیرے۔۔۔ جس چیز کو لوہا بھی کاٹ نہیں سکتا اسے ایک چھوٹا سا ہیرا اپنے قدموں تلے روند کر کاٹ دیتا ہے۔ بے شک دنیا ہیروں کو اپنے تاج میں سجا کر اپنی ہی شان بڑھاتی ہے مگر یاد رہے ہیرے دنیا کے سر پر ہی تو بیٹھے ہوتے ہیں اور ہر جگہ عزت حاصل کرتے ہیں۔ جب ہیرا ٹوٹتا ہے تو تاج کی شان و شوکت بھی ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ بادشاہوں کے دربار سے لے کر آج کے جدید دور تک ہیرے (محنتی لوگ) اپنا آپ منواتے آئے ہیں۔ کوئلے کا کوئلہ رہ کر جلنے سے بہتر ہے کہ محنت کر کے ہیرا بنا جائے۔
آپ اتنی فکر نہ کیا کریں، ان شڑل قسم کے لوگوں پر اتنے الفاظ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں تھی، ہیرا ہیرا ہی ہوتا ہے، اور محنت میں حسد ہے کو بھی یاد رکھیں، پہلے عظمت ہوا کرتی تھی، لوگ فخر کرتے تھے، کہ جی یہ بلال ہمارے جاننے والے ہیں، مگر آجکل حسد زیادہ ہے، مگر آپ اس سب سے اوپر ٹپ کر نکل لو، اپنا کام کرتے رہو، اللہ کا وعدہ ہے سورہ رحمن میں احسان کا بدلہ صرف احسان ہے، اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے، بس اس کے بعد مذید کچھ کہنا سننا بے کار ہے، رب نے جو کہہ دیا۔
لے دس۔۔۔ کہاں ہیرے اور کہاں میں۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ ویسے راجہ جی اس تحریر کی وجہ ایسی ویسی کوئی بات نہیں۔ وہ کیا ہے کہ بس فلسفہ جھاڑنے کا موڈ آیا تو اس موضوع پر جھاڑ دیا۔ آپس کی بات ہے کل ہی کسی نے محنت اور حسد کے بارے میں سوال کیا تو میں نے کہا چلو میں اس پر تھوڑی تفصیلی تحریر لکھ دیتا ہوں۔ آپ بھی پڑھ لینا، دوسرے بھی پڑھ لیں گے اور لگے ہاتھوں میں فلسفہ بھی جھاڑ لوں گا۔ 😀
ماشاء اللہ ، زبر دست
شکریہ جناب
ہیرے اور کوئلے کی اصل ایک ہی ہوتی ہے۔ دونوں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں فرق یہ ہے کہ ہیرے کو جلانے کے لیے زیادہ حرارت اور آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ 😆
اجی ہم نے بھی تو یہی کہا ہے کہ ہیرے اور کوئلے کی اصل ایک ہی ہوتی ہے۔ رہی بات دونوں کے جل کر راکھ ہونے والی تو جناب دنیا کی ہر چیز فنا ہو سکتی ہے۔ لگتا ہے آپ ان اصطلاعات کو سمجھ نہیں سکے۔ دراصل دنیا کے دستور کے مطابق ہیرے اور کوئلے کے استعمال کی بات ہو رہی ہے کہ دونوں اک ہی جہاں کے باسی ہیں مگر ایک چمکتا ہے اور دوسرا جلتا ہے۔
بہت زبردست تحریر کیا ہےمحنتی اور حاسد کے بارے میں مثال دے کر ۔۔بہت خوب
آپ کا یہ مضمون پڑھنے کے بعد میرے دماغ میں ایک اور بات آئی ہے وہ یہ کہ ہیرے کو پہچانا اس کا استمعال بھی صحیح کرنابھی شرط ہے نہیں تو ہیرے کو منہ بھی لگا لے تو موت واقعہ ہوجاتی ہے۔ اور کوئلہ لاکھ برا سہی مگر اس کو استمعال کرنے والا اگر چاہے تو وہ گندہ دانتوں کو صاف کردے اور خود جل کر دوسروں کے کام آجائے۔ہیرا ہو یا کوئلہ اس کےمالک کو اس کی عادت کے موافق ٹھیک استمعال کرنے آنا چاہیے
سب سے پہلے تو تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔
ارے آپ نے کہاں سے سن لیا کہ ہیرے کو منہ لگایا جائے تو موت واقعہ ہو جاتی ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہوتا اور یہ سب من گھڑت کہانیاں ہیں کہ ہیرا زہر ہوتا ہے۔ رہی بات کوئلے کی تو یہ وہ کوئلہ نہیں جو لکڑی سے تیار ہوتا ہے اور لوگ دانت بھی صاف کر لیتے ہیں جبکہ یہ وہ کوئلہ ہے جسے عام طور پر معدنی کوئلہ کہا جاتا ہے۔ یہ پتھر کی طرح ہوتا ہے اور میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی دانت صاف کرتا ہو۔
خیر، جیسے ایک انسان میں حسد کے علاوہ کئی اچھی عادات بھی ہو سکتی ہیں ایسے ہی کوئلے میں جلنے کے علاوہ کئی ایک خوبیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ یہاں تو انسان کی ایک بری عادت یعنی حسد کو کوئلے کی جلنے کی فطرت سے تشبیہ دی ہے۔
اللہ خیر کرے ۔ فلسفے نے آپ پر کچھ زیادہ اثر نہیں دکھانا شروع کر دیا
😆
کیا کریں انکل جی، آج کل دماغ عجب عجب وادیاں گھومنے نکل جاتا ہے۔ کافی اوٹ پٹانگ لکھتا رہتا ہوں لیکن شائع کم ہی کرتا ہوں۔
اُوٹ پٹانگ ہی میں تو مزا ہوتا ہے
ہائیں ! ہائیں ! ہائیں ! یہ کس کیفیت کا فلسفہ ہے ؟ یہ تو سراسر جذبات پر مبنی ہے ! جبکہ فلسفے کا تعلق تو دانش سے ہے جو دانش مندی سے قضیہ کا حل نکالتا ہے ۔۔۔یہ اور بات ہے کہ فلسفی حل کیلئے جب آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے چلتا ہے تو کنویں میں گر جاتا ہے ۔۔۔ قضیہ کوئی بھی ہو اُسکے کئی حل موجود ہوتے ہیں، یقین کریں آپ کے قضیہ کے بھی کئی حل موجود ہیں ۔۔ اگر میں جھوٹ بولوں تو کوا مجھے کاٹ کھائے یا پھر جو چور کی سزا وہ میری سزا ۔۔۔(لیکن یہ بات بھی یاد رہے سعودی عرب والی سزا نہیں پاکستان والی سزا چلے گی )۔۔۔ اُستاد محترم آپ خود غور کریں اور کوئی ایسا حل نکالیں جس میں جذبادیت سے زیادہ عقل کو دخل ہو اور پھر ہنستے مسکراتے اس قضیہ سے متعلق اپنے ذہن سے سارا بوجھ اُتار پھینکیں ۔۔۔ آپ نے اجمل بھائی سے کہا ہے کہ آپ کافی اونٹ پٹانگ لکھتے ہیں مگر شائع کم کرتے ۔۔۔کیوں بھئی کیا خیا ل ہے ؟؟ کیا آپ مجھ سےبھی زیادہ اونٹ پٹانگ لکھتے ہیں ،جو شائع کرنے سے ڈرتے ہیں ۔۔۔ثبوت کیلئے میری اسی تحریر کو ہی دیکھ لیں کیا یہ کم اونٹ پٹانگ ہے ؟؟ اب اجازت دیں آپ کا بُہت شُکریہ ۔۔احسان مند (ایم۔ ڈی)۔
اجی یہ جھاڑنے والی قسم کا فلسفہ ہے۔ 😀 ویسے ہمارا فلسفے سے بہت دور کا تعلق ہے اس لئے یہ حل نکالنا ہمارے بس میں نہیں۔ رہی بات شیئر نہ کرنے والی تو بات یہ ہے کہ جو لکھتا ہوں اگر وہ شیئر کروں تو پھر اعتراضات کے جواب دینے میں ہی بہت وقت گزر جائے اور اتنا وقت ہے نہیں۔ 🙂
کہیں کوئلے کی ان کانوں کا تو ذکر نہیں کیا جارہا، فکر مت کریں جناب یہ بہت قدیم کانیں ہیں ۔
خاص ان کانوں کا ذکر نہیں، بس ایک جنرل سی بات کی ہے۔ ویسے ان کانوں کے لئے علیحدہ تحریر لکھ چکا ہوں مگر شائع کرنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہوں۔
جلنے والے کا منہ کالا ، آج تک اس فقرے تک محدود رہے مگر آج تو اس کی وضاحت بھی پڑھ لی۔محنتیوں والا کام کیا آپ نے۔۔۔
تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔ 🙂 🙂