ان جوگیوں کی محبت، عزت اور حوصلہ افزائی نے ایک دفعہ تو منظرباز کو تقریباً رُلا ہی دیا تھا۔ آخر ہوا کیا تھا؟ الجواب:- ہوا کچھ یوں کہ جوگی ٹلہ جوگیاں کو پل بھر آباد کرنے ایک مرتبہ پھر۔۔۔ جی ہاں! ایک مرتبہ پھر اور اب تو یہ یاد رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے کہ یہ ساتویں مرتبہ تھا یا آٹھویں۔۔۔ خیر ہمارا کوئی اوٹ پٹانگ دعویٰ (Claim) نہیں کہ ہم اتنی مرتبہ گئے، ہم بہت پہلے گئے، ہم تنہا گئے، ہم جوگیوں کے ہمراہ گئے، بائیک پر گئے، پیدل گئے، دن کو گئے، رات کو گئے۔۔۔ بلا بلا۔۔۔ ویسے بھی ایسے دعوے تیاگ کر ہی بندہ جوگ کی راہ پر چلتا ہے اور اے منظرباز! اگر سیاحت نے تمہارے اندر ایسی تبدیلیاں نہیں کیں کہ تمہیں مقدس فطرت کا احترام نہیں سکھایا۔ اگر صحراؤں، سمندروں اور وادیوں کی وسعتوں نے تمہیں کائنات کی وسعتوں پر سوچنے کو مجبور نہیں کیا اور تمہارے دل و دماغ میں وسعت اور برداشت پیدا نہیں کی۔ پہاڑوں کی بلندیوں نے تمہیں تمہاری اوقات یاد نہیں کرائی اور تم آج بھی بس ”میں، میں“ ہی کرتے اور ”لالا“ ہی مچاتے ہو تو سن لو کہ تمہاری ساری سیاحت غارت گئی۔
گبر نے پوچھا: پہلے ٹلہ پر کتنے جوگی ہوا کرتے تھے؟ کالیا: سردار! سینکڑوں ہزاروں۔
گبر: اور تم کتنے جوگی گئے تھے؟ کالیا: صرف آٹھ۔
گبر: وہ ہزاروں اور تم صرف آٹھ۔۔۔ بہت نا انصاپی ہے، بہت انصاپی۔۔۔
ٹلہ پر لاکھوں کروڑوں سال سے غروبِ آفتاب ہو رہا ہے۔ مگر تم صرف ایک غروبِ آفتاب دیکھو گے۔۔۔ بہت ظلم ہے، بہت ظلم۔۔۔
ٹلہ ہزاروں سال آگ سے روشن رہا اور تم فقط ایک رات الاؤ جلاؤ گے۔۔۔ نہایت بے قدری ہے، نہایت۔۔۔
اور کیا جب عشق نچائے گا تو تم ناچو گے؟ کالیا: یہ ہم سے نہ ہوے۔۔۔
ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ہاہاہا
ارے او نام نہاد جوگی منظرباز! سن لے کہ جب عشق نچائے تو ناچنا پڑتا ہے۔ سب کچھ تیاگ کر بھی ناچنا پڑتا ہے۔ پھر چاہے جگ ہنسے یا سولی چڑھائے۔ تمہیں تو بس ناچنا ہی ہو گا۔۔۔
نہ سردار نہ۔۔۔ میں بہت کمزور بندہ ہوں۔ اوکھے پینڈے میرے بس میں نہیں۔ یہ تو بس ”بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ… تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں“۔۔۔ ویسے بھی سردار! میں جس معاشرے کا حصہ ہوں یہاں لوگ خدا بنے بیٹھے ہیں۔ باتیں سمجھ آئیں نہ آئیں مگر فتوے لگائیں، سولی چڑھائیں۔ حالانکہ اپنا حال تو وہی ہے کہ جو کوٹ مٹھن والے بابے (خواجہ غلام فریدؒ) نے کہا تھا کہ
تتی تھی جوگن چو دھار پِھراں
ہند سندھ پنجاب تے ماڑ پھراں
سُنج بار تے شہر بازار پھراں
متاں یار مِلم کہیں سانگ سبب
(غم زدہ جوگن بن کر چاروں طرف پھروں۔۔۔ ہند، سندھ، پنجاب اور مارواڑ پھروں۔۔۔ دشت، شہر اور بازار پھروں۔۔۔ شاید کہ کہیں محبوب ملنے کا کوئی بہانا یا سبب بن جائے۔۔۔)
ویسے سردار! لوگ سمجھیں نہ سمجھیں مگر ایک بات ہے اور وہ یہ کہ ٹلہ کی مثبت توانائیاں ہم پر مہربان ضرور ہیں۔ بے شک ہم جوگی ہوئے نہ رانجھے۔ ٹھیک ہے کہ ہمارے کان چھیدے گئے نہ ہمارا ٹلہ پر لمبا بسیرا ہوا۔ لیکن جب جب ٹلہ گئے، ہمارے کاسے میں جوگ ضرور ڈالا گیا۔ جام لبریز نہ سہی مگر آبِ حیات کی چند بوندیں ضرور ٹپکائی گئیں۔ کبھی چند گتھیاں سلجھیں تو کبھی ہم نے خوف کے اُس پار مگر ہلکا سا جھانکا۔ کبھی ہم نے ٹلہ کی چاندنی رات میں نور کے کرشمے دیکھے تو کبھی غروبِ آفتاب نے ہمارے فوٹوگرافی والے پیالے میں تصویروں کی چند بوندیں ٹپکا دیں۔
سردار! پچھلی سے پچھلی سے پچھلی مرتبہ ایسی ہی ملنے والی بوندوں کو میں نے پرنٹ کرایا۔ اور میری ڈیجیٹل فوٹوگرافی میں یہ پہلی ایسی تصویریں ہیں کہ جو میں نے خود پرنٹ کیں/کرائیں۔۔۔ فوٹوگرافی کی اس سے بڑی خوش نصیبی بھلا اور کیا ہو گی کہ جس کی، جس مقام پر اور جس نظارے کے سامنے تصویر بنی تھی، وہ اسے، اسی مقام اور اسی نظارے کے سامنے مگر کسی دوسرے وقت پر پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔۔۔ میری فوٹوگرافی نے کئی سنگِ میل عبور کئے۔ لیکن ٹلہ جوگیاں پر ہونے والی اس جوگی واردات کو میں اپنی فوٹوگرافی کا ایک اہم سنگِ میل سمجھتا ہوں۔
شکریہ دوستو۔۔۔ شکریہ جوگیو۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں