دس بارہ سال پہلے جلالپورجٹاں(گجرات) سے لاہور دو سوا دو گھنٹے پہنچ جایا کرتا تھا۔ پھر جس تیزی سے سڑکوں پر ٹریفک بڑھی، اس تیزی سے سڑکیں نہ بن سکیں اور دو سوا دو گھنٹے کا سفر ساڑھے تین چار گھنٹے کی اذیت میں بدل گیا۔ یہ وہی وقت تھا کہ جب لاہور شہر میں درخت کاٹ کر سیمنٹ سریا اُگایا جا رہا تھا اور حکومتِ پنجاب سارے پنجاب کو بھول کر صرف لاہور کو ہی ”لاہور شریف“ بنانے پر لگی ہوئی تھی۔ جی ٹی روڈ جیسی اہم سڑک کا کوئی پرسانِ حال نہ تھا۔ لاہور میں پُل پر پُل بن رہے تھے مگر شاہدرہ ریلوے پھاٹک پر ایک ”فلائی اوور“ بنانے کی زحمت نہ کی گئی۔ میں خود بیسیوں مرتبہ شاہدرہ پھاٹک کی ہولناک ٹریفک میں گھنٹوں ذلیل ہوا ہوں۔ پچھلے پانچ سات سال سے جب بھی لاہور جانے کا سوچتا تو جی ٹی روڈ کی ٹریفک کا حال ذہن میں آتا تو ہول اٹھتے۔ لاہور کی طرف منہ کرتے ہوئے بھی ڈر لگتا۔ پتہ نہیں جی ٹی روڈ اور خاص طور پر گجراتیوں سے کس چیز کا بدلہ لیا جا رہا تھا۔
خدا خدا کر کے 2017ء میں لاہور سیالکوٹ موٹروے بننی شروع ہوئی اور الحمد اللہ پایا تکمیل تک پہنچی۔ اِدھر وبا کے دن شروع ہوئے تو اُدھر اس سڑک کا افتتاح ہو گیا۔ سمبڑیال سے شروع ہونے والی یہ موٹروے صرف سیالکوٹ کے لئے ہی نہیں بلکہ دریائے چناب پر بننے والے شہبازپور پُل کی وجہ سے کسی حد تک ضلع گجرات کے کچھ علاقے کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔ یوں ہمارا لاہور کا سفر واپس دو سوا دو گھنٹے پر آ گیا ہے۔ ایف ڈبلیو او کے مطابق تقریباً چوالیس ارب روپے سے تعمیر ہونے والی یہ موٹروے نمبر گیارہ(M-11) ہے، جو کہ 7 انٹرچینج، 28پُل، 23 انڈرپاس، دو بڑے اور چار چھوٹے سروس ایریاز کے ساتھ 91کلومیٹر طویل ہے۔
اب ذکر ہے اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے چھٹے سال کا۔ جب اس وقت کے وزیرِ اعلی پنجاب جناب پرویز الہیٰ نے لاہور سیالکوٹ موٹروے کا منصوبہ پیش کیا۔ تمام کاغذی کاروائی مکمل ہوئی اور اس کا سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ ابھی عملی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حکومت تبدیل ہو گئی اور جیسا کہ وطنِ عزیز میں ہوتا آیا ہے کہ ہر نئی گورنمنٹ پچھلی کے منصوبے بند کر دیتی ہے۔ ایسا ہی نون لیگ کی حکومت نے کیا اور سرمائے کی عدم دستیابی کا کہہ کر لاہور سیالکوٹ موٹروے کے منصوبے کو فائلوں میں دفن کر دیا۔ وقت گزرتا رہا اور پھر دوبارہ گھڑے مردے کو اکھاڑا گیا۔ اس میں نئی جان ڈالی گئی۔ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ منصوبہ دوبارہ پیش کرایا گیا۔ کاغذی کاروائیاں دوبارہ کر کے سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے سابقہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تعمیر کا آڈر دے دیا اور اس کا ٹھیکہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن یعنی ایف ڈبلیو او کو دیا گیا۔ اور تقریباً تین سال کی مدت میں اب وزیرِ اعظم عمران خان کے دور میں پایا تکمیل کو پہنچا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے لئے سرمایا کہاں سے آیا؟ الجواب:- دراصل یہ BOT پراجیکٹ ہے۔ اجی بوٹ جوتا نہیں بلکہ بی او ٹی یعنی بلڈ، آپریٹ ، ٹرانسفر۔ آسان الفاظ میں یہی کہ BOT ایسا پراجیکٹ ہوتا ہے کہ جس میں کوئی کمپنی یا ٹھیکیدار خود سے پیسا لگا کر پراجیکٹ بناتا(پایہ تکمیل تک پہنچاتا) ہے۔ پھر اسے چلاتا اور اپنا پیسا بمع منافع وصول کرتا ہے اور جب پیسہ پورا ہو جائے تو اصل مالک مثلاً گورنمنٹ کے حوالے کر دیتا ہے۔ لاہور رنگ روڈ اور سوات ایکسپریس وے کی طرح لاہور سیالکوٹ موٹروے بھی BOT پراجیکٹ ہے جو کہ ایف ڈبلیو او نے تعمیر کیا۔ اس سے اکٹھے ہونے والے ٹال ٹیکس سے پہلے تو کمپنی اپنا پیسہ پورے کرے گی، بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔
اب دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے کام کے لئے، اس ”تحفہ“ کے لئے شکریہ کس کا ادا کرنا ہے؟ آیا ایف ڈبلیو او کا یا کسی سیاسی پارٹی کا؟ الجواب:- دیکھو بھئی! ہمارے پیسے سے ہمیں ہی تحفہ، چہ معنی دارد؟ میری نظر میں وطن عزیز کے کئی المیوں میں سے ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں ”کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے“ جیسے بھونڈے نعرے مارے جاتے ہیں۔ عوام اپنے حق کو سیاست دانوں کا احسان سمجھتی ہے اور اکثریت تو وطن سے زیادہ اپنی اپنی پسندیدہ پارٹیوں سے محبت کرتی ہے۔ اس موٹروے کی تکمیل پر نون لیگ کے حامی اسے مبارکبادیں دے رہے ہیں تو ق لیگ والے پرویز الٰہی کا منصوبہ یاد کروا رہے ہیں۔ بلکہ پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ یہ عمران خان کا کمال ہے کہ اس نے باقیوں کی طرح آتے ہی پچھلی حکومت کا پراجیکٹ بند کرنے کی بجائےجاری رکھا اور مکمل کروایا اور کئی لوگ تو ایف ڈبلیو او کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔۔۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنا اپناحصہ ڈالا ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ ہر کسی نے اپنی اپنی نوکری کی ہے۔۔۔ ایک مرتبہ پھر دیکھو بھئی! سیدھی سی بات ہے کہ سبھی حکومتیں اور ادارے وطن عزیز کے ملازم ہوتے ہیں۔ انہیں ملنے والی تنخواہیں اور باقی سارا پیسا بھی آ جا کر عوام کی جیب سے نکلتا ہے۔ وہ ہم عوام کا ہی پیسہ ہوتا ہے۔ موٹروے کے لئے سرمایا جہاں سے بھی آئے، کوئی پاس سے لگائے یا قرض لے۔ آخر نکلنا عوام کی جیب سے ہے، بوجھ عوام پر ہی ہے۔ لہٰذا میں کسی ٹھیکیدار کا شکریہ ادا کروں گا نہ کسی نون شون عین غین کا۔ میں تو صرف یہ کہوں گا ”شکریہ پاکستان، شکریہ اہلِ وطن“۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں