یہ 30 مئی 2012ء کو انگلینڈ میں اردو اساتذہ کی ایک کانفرنس میں اردو کمپیوٹنگ اور اس کے پسِ منظر پر میرا ایک لیکچر تھا۔ جو کہ میں نے آن لائن دیا۔ لیکچر کا سکرپٹ حاضر خدمت ہے۔ سوچا کہ شیئر کر دیتا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے کسی کو فائدہ ہو جائے۔ اس لیکچر میں تھوڑی سی اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ، کمپیوٹر کی اصل اردو اور تصویری اردو میں فرق، یونیکوڈ نظام اور اردو کے لئے ہونے والے تکنیکی کام کی معلومات ہے۔
آج ہم یہاں اردو کمپیوٹنگ اور اس کے پسِ منظر پر مختصر بات چیت کریں گے یعنی کب اردو کمپیوٹنگ کی ابتداء ہوئی، آج کے دور تک کیسے پہنچی اور آج کے دور میں ٹیکنالوجی کے میدان میں کیسے اردو لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔ ایک بات خاص طور پر ذہن میں رکھیئے گا کہ ابھی جو اردو کمپیوٹنگ کی تاریخ یا دیگر حوالوں سے بات کریں گے وہ مختصر ہو گی جبکہ اس میدان میں کئی لوگوں نے کام کیا ہے۔ وقت کی کمی کے باعث ابھی خاص خاص باتوں کا احاطہ کرتے ہیں۔
اردو کمپیوٹنگ کا تعارف
سب سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں کہ اردو کمپیوٹنگ دراصل کمپیوٹر پر اردو استعمال کرنےاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اردو کے متعلق اور اردو میں تعلیم و تحقیق کا نام ہے۔
ٹائیپ رائٹر پر اردو اور نستعلیق کی تکنیکی پچیدگی
برصغیر میں ٹائیپ رائٹر کی آمد کے تھوڑے عرصے بعد ہی، اردو بھی ٹائیپ رائٹر سے لکھی جانے لگی لیکن ٹائیپ رائٹر سے صرف نسخ رسم الخط یعنی نسخ فانٹ میں ہی اردو لکھی جا سکتی تھی۔ بلکہ مولانا ابو الکلام آزاد کی کچھ تصانیف کی کتابت بھی ٹائیپ رائٹر کے ذریعے ہوئی تھی۔
آپ کو بتاتا چلوں کہ نستعلیق رسم الخط تکنیکی لحاظ سے تھوڑا پچیدہ ہے۔ اگر ہم مشین پر نستعلیق لکھنے کے حوالے سے بات کریں تو لکھتے ہوئے جیسے جیسے کسی لفظ میں حرف کا اضافہ ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے پچھلے حروف نئے لکھے گئے حرف کے مطابق اپنی شکلیں اور جگہیں تبدیل کرتے ہیں۔ نستعلیق کی ایسی پچیدگیوں کی وجہ سے ماضی میں کئی لوگوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اردو کا معیاری رسم الخط فارسی والوں کی طرح نستعلیق سے نسخ کر دینا چاہئے۔
کمپیوٹر میں اردو کا آغاز
وقت گزرتا گیا اور کمپیوٹر کا دور شروع ہوا۔ اردو والوں نے کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کرنے کی کھوج لگانی شروع کی۔ تقریباً 1980ء میں پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مالک مرزا جمیل احمد نے جنگ گروپ کے تعاون سے کاروباری نکتہ نظر سے ایک نستعلیق فانٹ تیار کروایا جس کو انہوں نے اپنے والد مرزا نور احمد کے نام پر نوری نستعلیق کا نام دیا۔ یہاں سے کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد 2000ء تک کاروباری نقطہ نظر اور عام کمپیوٹر صارفین کے لئے کئی ایک سافٹ ویئرز بنے۔ ان میں جو سافٹ ویئر معیاری تھے وہ کاروباری نکتہ نظر سے بنائے گئے تھے اور ان کی قیمت عام صارفین کے بس سے باہر تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال ان پیج ہے جو کہ آج بھی تقریبا دو سے تین سو امریکی ڈالر کا ہے۔ یہاں پر ان پیج کی وجہ شہرت پر بات کرنا چاہوں گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ان پیج اپنے وقت کا ایک معیاری سافٹ ویئر تھا، لیکن اس کی وجہ شہرت شاید اس کے معیار کی بجائے اس کی چوری تھی۔ ہوا یوں کہ کسی مسٹر ڈونگل نے اس سافٹ ویئر کو کریک کر کے ہر ایک کے لئے مارکیٹ میں پھیلا دیا مسٹر ڈونگل کا اصلی نام کیا تھا یہ تو نہیں پتہ، لیکن ڈویلپرز میں وہ مسٹر ڈونگل کے نام سے ہی مشہور تھے۔ کیونکہ ہمارے ہاں سافٹ ویئر کی چوری پر کوئی پوچھ نہیں ہوتی اس لئے مسٹر ڈونگل کا کریک کردہ سافٹ ویئر ہر خاص و عام تک پہنچ گیا۔ یوں ایک عام صارف کے لئے مفت میں ایک معیاری سافٹ ویئر کے ذریعے اردو لکھنا ممکن ہوا۔ اب آپ اسے سافٹ ویئر کی چوری کہیں یا کچھ اور، شر سے خیر نے جنم لیا یا جرم سمجھیں، لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ اس جرم کے نتیجہ میں ہی عام صارف کمپیوٹر پر بہتر انداز میں اردو لکھ پایا۔ سن 2000ء کے لگ بھگ جب ہمارے ہاں کمپیوٹر عام ہونا شروع ہوا تو اس وقت سب سے مشہور اور مفت میں مسٹر ڈونگل کا وہی چوری شدہ ان پیج ہی دستیاب تھا، یوں عام کمپیوٹر صارف اردو لکھنے لگا اور پھر دیگر سافٹ ویئرز میں اور انٹرنیٹ پر اردو کے لئے ان پیج میں اردو لکھ کر، اسے تصویر کی صورت میں منتقل کر کے اپنے کام چلانے لگا۔
شروع میں کمپیوٹر کے آپریٹنگ سسٹمز میں جس طرح انگریزی کی سہولت موجود تھی اس طرح اردو کی سہولت نہیں تھی یعنی جہاں کچھ لکھا جا سکتا تھا وہاں پر انگریزی تو لکھی جا سکتی تھی مگر اردو نہیں لکھی جا سکتی تھی، اس لئے اردو کے لئے علیحدہ نظام بنا کر اور پھر اس خاص نظام کے ذریعے سافٹ ویئرز بنائے جاتے۔ دراصل ان پیج اور تب کے دیگر اردو سافٹ ویئر کا اپنا اپنا ایک الگ نظام تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان سافٹ ویئرز میں لکھی ہوئی اردو تحریر صرف انہیں میں ہی دیکھی جا سکتی تھی۔ تب اگر کسی کو تحریر کسی دوسرے سافٹ ویئر یا انٹرنیٹ پر لے جانا پڑتی تو پہلے وہ تحریر کو تصویر میں منتقل کرتے اور پھر اس تصویر کو اپنی مطلوبہ جگہ پر لے جاتے یعنی تب کمپیوٹر کی اردو نہیں بلکہ تصویری اردو تھی۔ یہ مسئلہ صرف اردو کے ساتھ نہیں تھا بلکہ دیگر کئی ایک زبانوں کے ساتھ بھی تھا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کام شروع ہوا۔ پھر ایک ایسا نظام بنایا گیا جس میں دنیا کی تقریباً تمام زبانوں کو لکھنے کی سہولت دی گئی۔ اس نظام کا نام یونیکوڈ ہے۔
گو کہ ونڈوز کے پرانے ورژن میں ہی یونیکوڈ نظام شامل کر دیا گیا تھا لیکن اردو کے حوالے سے یونیکوڈ نظام کو مکمل طور پر ونڈوز 2000 اور پھر ایکس پی میں شامل کیا گیا۔ اس سہولت کے شامل ہونے سے کسی خاص اردو سافٹ ویئر کی ضرورت باقی نہ رہی بلکہ جہاں دیگر کوئی زبان جیسے انگریزی لکھی جاتی تھی وہیں پر اردو بھی بالکل ویسے ہی لکھنے کی سہولت مل گئی اور یہیں سے اصل معنوں میں اردو کمپیوٹر میں شامل ہوئی۔
اردو ہو یا کوئی بھی زبان، کمپیوٹر صرف اسے ہی تحریر سمجھتا ہے جو اس کے تحریر لکھنے والے نظام کے تحت لکھی جاتی ہے کیونکہ اب کمپیوٹر پر تحریر لکھنے کا نظام یونیکوڈ ہے۔ لہٰذا کمپیوٹر صرف اسے ہی تحریر سمجھے گا جو یونیکوڈ نظام کے تحت لکھی جائے گی۔ یونیکوڈ نظام سے پہلے کیونکہ ہم براہ راست ہر جگہ اردو نہیں لکھ سکتے تھے اس لئے مجبوری تھی بلکہ واحد راستہ یہ تھا کہ اگر ہمیں انٹرنیٹ پر اردو ڈالنی ہے، تو اسے تصویری صورت میں منتقل کر لیں۔ یعنی تصویری اردو سے کام چلایا جاتا۔ اس تصویری اردو نے جہاں کمپیوٹر پر وقتی طور پر کام چلایا وہیں پر بعد میں اردو کی ترویج کے لئے زہر قاتل ثابت ہوئی اور ابھی تک یہ تصویری اردو ٹیکنالوجی کے میدان میں اردو کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اب جب ہم جدید تقاضوں کے مطابق بالکل انگریزی کی طرح اردو لکھ سکتے ہیں تو پھر ہمیں تصویری اردو کی کوئی ضرورت نہیں۔
اگر آپ غور کریں تو کمپیوٹر کا سب سے زیادہ استعمال جلد سے جلد اور آسانی سے معلومات کا حصول ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال انٹرنیٹ کی دنیا سے منٹوں میں بہت ساری معلومات حاصل کرنا ہے یعنی کمپیوٹر کا سب سے زیادہ استعمال معلومات کی تلاش ہے، لیکن تصویری صورت میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر پھیلائی ہوئی اردو میں سے کچھ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر نہ تو آپ گوگل میں تصویری اردو کے ذریعے کچھ تلاش کر سکتے ہیں اور نہ ہی گوگل تصویری اردو سے کچھ تلاش کر کے آپ کو مطلوبہ معلومات فراہم کر سکتا ہے کیونکہ کمپیوٹر تصویری اردو کو ایک تصویر سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا اور اس تصویری اردو کے نقصانات ہی نقصانات ہیں، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں تصویری اردو کو اردو کہنا اردو کی توہین ہے۔ چھوٹی سی بات یہ کہ تصویری اردو ایک اندھیرہ کنواں ہے، جس کے اندر سوائے اس کنویں کے مینڈکوں کے کوئی دوسرا نہیں دیکھ سکتا جبکہ کمپیوٹر کی اصل یعنی جدید یونیکوڈ نظام کے تحت لکھی جانے والی اردو میٹھے پانی کا وہ چشمہ ہے جو ساری دنیا کو سیراب کر سکتا ہے۔ یاد رہے کمپیوٹر کی نظر میں تحریر وہی ہے جو یونیکوڈ نظام کے تحت لکھی جاتی ہے۔ یونیکوڈ اردو کے فوائد ہی فوائد ہیں۔ وقت کی کمی کے باعث یہاں میں فوائد گنوانے کی بجائے صرف اتنا کہوں گا کہ جہاں جہاں کمپیوٹر دیگر کسی زبان میں کچھ کر سکتا ہے بالکل وہیں پر یونیکوڈ اردو میں اردو کے لئے وہی سب کچھ کر سکتا ہے جو کسی دیگر زبان کے لئے کرتا ہے۔ یونیکوڈ اردو اور تصویری اردو میں فرق سمجھنا ایک عام کمپیوٹر صارف کے لئے نہایت ہی آسان ہے۔ سیدھی اور سادہ بات یہ کہ جو اردو تصویر کی صورت جیسے GIFیا JPG وغیرہ میں ہو وہ تصویری اردو ہے اور جو عام تحریر، جسے ہم منتخب کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ کاپی پیسٹ کر سکیں وہ یونیکوڈ اردو یعنی کمپیوٹر کی اصل اردو ہے۔ مثال کے لئے آپ بی بی سی اردو کی ویب سائیٹ دیکھیں تو وہ یونیکوڈ اردو میں ہے جبکہ ہمارے پاکستانی اخبارات کی ویب سائیٹ تصویری اردو میں ہیں۔ جیسے روزنامہ جنگ کی ویب سائیٹ کا بہت بڑا حصہ آج بھی تصویری اردو کی شکل میں ہے۔
اردو کے تکنیکی مسائل کا حل اور ٹولز کی تیاری
ونڈوز 2000 اور پھر ایکس پی میں اردو کی مکمل سہولت شامل تو ہو گئی تھی لیکن اردو کے لئے دیگر کئی قسم کی چیزیں جیسے کیبورڈ لے آؤٹ سافٹ ویئر اور فانٹ وغیرہ تیار کرنے، اردو ویب سائیٹ بنانے اور خاص طور پر اردو بلاگنگ جیسے کام اور کئی دیگر مسائل کا حل خود اردو والوں کو کرنا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ بیسویں صدی میں جینے والے یعنی تصویری اردو سے کام چلانے والوں کو بھی سمجھانا تھا کہ جدید طریقوں سے اردو لکھو تاکہ اردو کی ترویج آسانی سے ممکن ہو سکے۔ یہ ساری کوششیں ایک عام صارف کے لئے کرنی تھیں تاکہ وہ آسانی سے کمپیوٹر پر اردو لکھ سکے۔ جبکہ کاروباری لوگ تو بہت پہلے سے کاروباری نکتہ نظر سے اور پیسے کے زور پر اپنے کام چلائے ہوئے تھے۔ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم میں اردو کی سہولت شامل ہونے کے بعد ٹیکنالوجی کے میدان میں اردو کی ترویج کے لئے انفرادی طور پر لوگ کام کر رہے تھے۔ جیسے خاکسار نے تب ہی اردو کیبورڈ لے آؤٹ اور کچھ امدادی اسباق لکھ رکھے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ادارہ کرلپ ہے جس نے ادھر ادھر سے امداد لے کر کچھ کام کیا۔
اسی دوران 2002ء میں بی بی سی اردو نے جدید یونیکوڈ نظام کے تحت اپنی ویب سائیٹ بنا دی۔ یہ ویب سائیٹ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اردو لکھنے لگی اور اس نے بہت شہرت حاصل کی۔ کمپیوٹر میں اردو شامل ہو چکی تھی تو ہر ادارے نے اس طرف دوڑیں لگا دیں۔ 2004ء میں مشہور آن لائن انسائیکلوپیڈیا یعنی وکی پیڈیا نے بھی اردو کو شامل کر لیا اور اب تو گوگل تک اردو میں دستیاب ہے۔
2005ء تک زیادہ تر انفرادی طور پر کام ہوتا رہا۔ کچھ لوگوں نے اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھی قدم رکھ دیا۔ لیکن کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا اصل کام تب شروع ہوا جب 2005ء میں چند رضاکاروں نے مل کر اردو ویب ڈاٹ آرگ ویب سائیٹ کی بنیاد رکھی۔ اسی ویب سائیٹ پر ایک فورم تشکیل دیا گیا اور اس کا نام اردو محفل رکھا گیا۔ اس فورم پر تمام رضاکار مل کر تکنیکی اور دیگر حوالوں سے اردو کی ترویج کے لئے کھوج لگانے لگے۔ خاص طور پر جدید نظام کے مطابق اردو میں ویب سائیٹ بنانے اور انٹرنیٹ کے ایک موثر ہتھیار یعنی بلاگ اردو میں بنانے پر کام کیا گیا۔ اردو ویب والوں نے شروعات میں ہی اردو سیارہ کے نام سے ایک بلاگ ایگریگیٹر بنا دیا تھا۔ آج آپ کو انٹرنیٹ پر جو اردو نظر آ رہی ہے اس میں سب سے بڑا ہاتھ اردو ویب ڈاٹ آرگ کا ہی ہے۔ خاکسار نے 2007ء کے شروع میں اردو ویب میں شمولیت اختیار کی اور ایک ادنیٰ سے کارکن کے طور پر آج بھی کام کر رہا ہے۔
گو کہ اردو ویب سے پہلے بھی کچھ لوگ اردو بلاگنگ کے میدان میں قدم رکھ چکے تھے لیکن اردو ویب کی کاوشوں سے اردو بلاگنگ میں نمایا اضافہ ہوا۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ اردو ویب کی بدولت کئی ایک اردو فورم وجود میں چکے تھے لیکن ایک اچھے نستعلیق رسم الخط کی کمی ہر جگہ محسوس ہوتی تھی۔ 2008ء میں پشاور کے ایک نوجوان امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنا کر جیسا انقلاب برپا کر دیا۔ گو کہ آج بہت کم لوگ علوی نستعلیق کے بارے میں جانتے ہیں مگر یہی علوی نستعلیق تھا جس نے فانٹ سازی کو ایک نئی راہ دکھائی۔ پھر اس راہ پر چلتے ہوئے جمیل نوری نستعلیق بنا۔ کئی مسائل کا حل تلاش ہوا۔ خیر اردو والوں کا کارواں چلتا رہا۔ دن دگنی رات چگنی ترقی کرتا رہا۔ جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں اردو کی ترویج میں آنے مسائل کا حل تلاش ہوتا رہا۔ اردو ویب سائیٹ اور بلاگنگ کے مسائل حل ہوئے۔ اردو ویب سائیٹ بنانے اور اردو میں بلاگنگ کے مسائل کے حل ہوتے گئے۔ کئی مشہور سافٹ ویئر کا اردو ترجمہ ہوا۔ یہاں تک کہ لینکس آپریٹنگ سسٹم کا اردو ترجمہ کیا گیا۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں اردو والوں کا قافلہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا لیکن ایک چیز قابل غور تھی کہ اس قافلے میں زیادہ تر ٹیکنیکل لوگ تھے۔ کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ کمپیوٹر پر اردو کی سہولت شامل کرنے کا طریقہ تھوڑا لمبا اور مشکل ہے۔ اس وجہ سے عام کمپیوٹر صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو لکھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں بلکہ کئی لوگ تو مشکل کی وجہ سے بھاگ ہی جاتے ہیں۔ان مشکلات کو دور کرنے اور اردو کی زیادہ سے زیادہ ترویج کے لئے خاکسار نے 2011ء میں پاک اردو انسٹالر کے نام سے ایک ایسا سافٹ ویئر بنایا جس کے ذریعے، صرف چند کلک سے کمپیوٹر پر اردو کے متعلق تمام سہولیات خودبخود شامل ہو جاتی ہیں۔ پاک اردو انسٹالر انسٹال کرنے کے بعد کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر جس جگہ کچھ لکھا جا سکتا ہے وہاں پر جدید تقاضوں کے مطابق اردو بھی لکھی جا سکتی ہے اور اردو بہتر انداز میں پڑھنے کے لئے اردو کے چند ضروری فانٹس خودبخود انسٹال ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اکثر ٹیکنیکل اور دیگر لوگ کسی مال و دولت کی لالچ کے بغیر اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں موقع ملتا ہے اردو کی صدا لگا دیتے ہیں، جو بن پڑتا ہے وہ کر دیتے ہیں۔ آپ سب ماشاء اللہ اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہیں، صاحب استطاعت ہیں، آپ کی بات وزن بھی رکھتی ہے جبکہ ہم ٹیکنیکل لوگ اردو سافٹ ویئر تو بنا سکتے ہیں مگر اردو کی جو صدا آپ لوگ لگا سکتے ہیں وہ ہمارے بس میں نہیں۔ گو کہ آپ سب اپنی طرف سے کوشاں ہیں بلکہ یہاں بھی اسی لئے جمع ہوئے ہیں پھر بھی خاکسار کی ایک گذارش ہے کہ اردو کی ترویج کے لئے آج کے جدید ہتھیار انٹرنیٹ کو اپنائیں۔ زیادہ سے زیادہ معلومات انٹرنیٹ پر ڈالنے کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی اردو کی طرف قائل کریں۔ آج کی دنیا کے جدید ہتھیاروں میں ایک ہتھیار بلاگ بھی ہے۔ اردو میں بلاگ لکھئے اور حق کی آواز سب تک پہنچا دیجئے۔
مزید آپ میری ویب سائیٹ سے بھی اردو لکھنے کے متعلق مکمل اور تفصیلی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر ابھی کسی کا کوئی سوال ہو تو وہ بھی پوچھ سکتے ہیں۔
تمام احباب کا توجہ دینے کا بہت بہت شکریہ۔
اللہ تعالیٰ اردو اور میرے وطن پاکستان کو ترقی دے۔۔۔آمین
پاکستان زندہ باد
بہت خوب
بہت خوب۔
خاص طور پر آپکا یہ پیرا” جدید یونیکوڈ نظام کے تحت لکھی جانے والی اردو میٹھے پانی کا وہ چشمہ ہے جو ساری دنیا کو سیراب کر سکتا ہے” تو بہت ہی عمدہ ہے۔
اگر چہ اردو لکھنے اور نستعلیق فونٹ کی صورت میں کافی کام ہو چکا ہے مگر پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کا اردو میں سرچ کرنے کا رجحان ناپید ہے۔ اس بارے میں سوچنا ہوگا۔
بلال بھائی، آئندہ کبھی آن لائن لیکچر نا دینا۔ کہنا ٹکٹ بھیجو میںلائیو لیکچر دینے آتا ہوں۔
بہت بہت شکریہ ۔آپ سب کی محنت شاید کروڑوں کا فائدہ کر گئی ہے۔اللہ آپ کو انسانیت کی مزید خدمت کی توفیق دے۔
لیکن ایک عرضہےکہ جس طرح آپ کی اس ویب سائٹ کا فونٹ لکھ رہا ہے ۔انٹرنیٹ سرچ انجن میں اس فونٹ میں کیسے لکھے گا۔طریق بتا دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء