بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ نہ کرے جب کسی انسان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے تو وہ کئی لحاظ سے بے بس ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں انرجی کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ آج ہمارے ملک کی ریڑھ کی ہڈی بُری طرح ٹوٹے ہوئے بھی ایک عرصہ ہونے کو ہے لیکن ہمارے حکمران کرسی بچانے کے چکر میں اس مرض کا علاج کرنے کی بجائے عوام کو جھوٹے دلاسے اور جھوٹے سرکاری بیان دیتے رہتے ہیں۔ انہیں بیانات اور اشتہارات پر غریب عوام کا بے شمار پیسا لگا دیا گیا ہے۔ اگر یہی پیسا اپنی واہ واہ بنانے کی بجائے کسی کام پر لگایا جاتا تو آج ہمارے حالات بالکل ٹھیک نہ سہی لیکن کم از کم آج جیسے نہ ہوتے۔
لوڈ شیڈنگ یعنی بجلی کا بحران ایک ایسا مرض ہے جو عوام کی زندگی کو ”الف“ سے لے کر ”ے“ تک متاثر کر رہا ہے۔ اس سے پوری قوم نفسیاتی مریض بنتی جا رہی ہے۔ جس کی مثالیں آپ کو جگہ جگہ ملیں گی۔ تمام شعبہ ہائے زندگی برباد ہورہےہیں۔ طالب علم اپنی جگہ پریشان ہے تو صنعتکار اپنی جگہ۔ فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں، غریب مزدور فاقوں پر مجبور ہورہا ہے۔ جو کام گھنٹوں میں ہو جاتے تھے وہ دنوں میں بھی نہیں ہو رہے۔ ساری ساری رات مچھر سے گانے سننے کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی کوفت میں رات جاگ کر گزارنے والے طالب علم دن کو کیا خاک پڑھائی کریں گے۔ اسی طرح مزدور دن کو مزدوری کرے گا یا اپنی نیند پوری کرے گا۔ اسی طرح ہر شعبہ ہائے زندگی کا حال ہے۔ آپ جہاں دیکھو جدھر دیکھو ہر محفل میں ہر دفتر میں غرض ہر جگہ لوگ لوڈ شیڈنگ کی ہی باتیں کرتے ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اور اندر ہی اندر لوڈ شیڈنگ کی وجوہات کو کوستے ہیں۔ یہ عجیب سی کیفیت ذہنی مریض بنانے کے لئے کافی ہے۔
ذرا سوچئے! نیند کی کمی، ذہنی الجھن، روزگار میں کمی، پیسے کی مشکلات، فاقوں کا ڈر، پروڈکشن میں کمی، منٹوں کا کام دنوں میں اور سست رفتاری وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ چھوٹی سی مصیبتیں ہیں؟ نہیں۔ بلکہ آج کے دور میں یہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بے شمار بیماریوں اور مسائل کو گلے لگانے پر مجبور ہیں۔ ہمارا مستقبل دن بدن تاریک سے تاریک تر ہو رہا ہے۔ ہماری پوری ایک نسل نفسیاتی مریض بن رہی ہے۔ ہمیں کمر کسنے کا کہنے والے، ہمیں جھوٹے دلاسے دینے والے، ہمیں بجلی کم استعمال کرنے کا کہنے والے خود آرام سے عیاشی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن کے گھروں اور دفتروں میں بڑے بڑے جنریٹر اور یو پی ایس لگے ہیں۔ جو جہاں جائیں وہاں بجلی بند نہیں ہوتی چاہے وہ نتھیا گلی ہی کیوں نہ ہو۔ ہمارے ٹیکسوں اور ہمارے خون پسینے کی کمائی سے ہمارے نوکر ہمیں ہی ذلت کی زندگی دے رہے ہیں۔
اور ایک ہم عوام ہیں جو بجلی جانے پر واپڈا و دیگر حکام کو چند گالیاں اور برا بھلا کہہ کر اندر ہی اندر جلتے اور تڑپتے رہتے ہیں لیکن کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھاتے۔ خود تو سوچتے ہیں اور عجیب عجیب سوچ کر خود کو نفسیاتی مریض تو بنا رہے ہیں لیکن جب آواز بلند کرنے یا کام کا وقت آتا ہے تو چپ کر جاتے ہیں۔
میں اپنی اس تحریر کے ذریعے اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ وہ ذرا اپنے گھر اور گردونواح کے لوگوں کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ اس لوڈشیڈنگ کی وجہ سے وہ خود اور باقی لوگ کن کن بیماریوں اور مسائل کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس زہر سے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ آخر پر بس اتنا کہوں گا کہ جاگو پاکستانی جاگو! اور دیکھو کہ آج کے دور میں یہ لوڈ شیڈنگ بے شمار بیماریوں اور مسائل کی جڑ ہے اور یہ کس طرح پوری ایک نسل کو نفسیاتی مریض بنا رہی ہے۔
ہم خود ہی سستی کے مارے ہیں احتجاج کیسے کریں احتجاج کرتے ہیں روزی کیسے کمائیں گے ایک مزدور اگر ایک دن احتجاج کرتا ہے تو ایک دن پورا اس کے گھر آگ نہیںجلدی
.-= خرم ابنِ شبیر کے بلاگ سے آخری تحریر … ”یہی چراغ جلے گے تو روشنی ہوگی“ =-.
ہمارے ملک میں کسی قسم کا کوئی بحران نہیں ہے یہ سب بحران خود ساختہ پیدا کیئے ھوئے ہیں ۔ انکو حرام خوروں کو صرف اپنی جیب کی ہے اور کسی کی نہیں ۔ میرے والد صاحب بتاتے ہیں کمپنی میں کسی ملازم کو دو ماہ سے تنخواہ نہیں دے رہے مالکان ۔ وجہ یہ ہے کہ کمپنی مالکان نے اپنا سارا پیسہ ملک سے باہر ٹرانسفر کروا دیا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ مسٹر 10 پرسنٹ نے ہر ایک کو تنگ کیا ھوا ہے کہ اسکی جیب بھرو۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہمیں کب احساس ھوگا کہ ہمارا حق کیا ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ہے ۔ چلیں ذمہ داری میں تو ہم سب ہی کاہل ہیں لیکن اکثریت کو اپنے حق کا ہی نہیں پتہ کہ انکا حق کیا ہے ۔
بلال بھائی کی باتیں سچ پر مبنی پر انکے حل سے آری ہوتی ہیں (یہ مذاق یا تنقید نہیں، حقیقت کی نشاندہی ہے :angel: )
آپنے حکمرانوں پر روائتی طور پر بجلی نہ ہونے کا الزام تھوپ دیا حالانکہ جو حکمران تربیلا ڈیم اور اسلام آباد جیسی چیز ہمیں دے گیا، اسکو ہمی نے کتا کتا کہہ کر فارغ کر دیا۔
یہاں بات حکمران کی نہیں، سیاست کی نہیں، بلکہ وسائل کی کریں۔ کیا ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کے وسائل ہیں یا نہیں، اسپر بات کریں۔ یاد رہے کہ یہ حکمران عوام کیلئے اسوقت تک کچھ بھی نہیںکریں گے جب تک انکے اپنے گھروں میں اے سی چلتے رہیں گے۔
سلا م وعلٰیکم۔
میرے بھا یئو۔ جیسا بلا ل نے کھا ھے۔ میں با لکل متفق ھو ں۔ ھما ری عوام جب تک نہں جاگے گی اس پا کستا ن کا کچھ ھو نے والا نہں ھے۔مجھے یا د ھے آج سے کچھ ما ہ پہلے کی با ت ھے گیس کی وجہ سے لو گ کا فی پر یشا ن تھے۔ ھما ر ے ایک کا ر کن نے جس کا نا م قد یر بٹ ھے یہ بات جلا لپو ر جٹا ں کی ھے۔ ا س نے پورے جلا لپو ر میں اعلا ن کروایا کہ کل جلسہ ھے گیس کی لو د شیڈنگ پر سب شر کت کرو تا کہ ھم اپنے حکمرا نوں کے سر پر پیٹھیں کہ وہ ایسا نہ کر یں۔۔۔۔۔۔ لیکن بڑ ے افسو س کہ ساتھ کہنا پڑتا ھے کہ ھماری عوام کہ پا س ا پنے لیے وقت نہیں ھے ۔جب قدیر بٹ جلسہ کے لیے چوک میں پہنچے تو وہا ں پہ صر ف چند لو گ تھے جو کہ تنضیم کے آدمی تھے۔ابھی عوام کو سب کچھ بھو ل چکا ھے کہ ھم کیا ٹھیک کر رھے ھیں اور کیا غلط ۔ ۔ ۔ رونا ان کی قسمت میں ھے۔ایک انسا ن ا گر اپنے لیے وقت نہں نکا ل سکتا تو ا پنی مجبو ر ہو ں کے لیے تو اس سے صا ف زاھر ھے کہ و ہ ابھی ایسا جینے کا آدی ھو چکا ھے۔۔۔۔۔ جاگو عوا م جاگو اور جگا و اپنے حکمرا نوں کو اکٹھے ھو جا و سا رے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے حق کہ لیے بھا گو مانگو حق۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے حق کے لیے لڑو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رضوان احمد بٹ
تو پھر ٹھیک ہے سستی کے مارے ہی پڑے رہتے ہیں۔ آج اپنے حق کے لئے احتجاج کرنے سے ایک دن گھر آگ نہیں جلے گی لیکن کل اسی سستی کی وجہ سے پورا گھر ہی جل جائے گا۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت کرے اور ہمیں ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کی توفیق دے۔۔۔آمین
آپ نے ٹھیک کہا یقینا ہماری اکثریت کو اپنے جائز حق کا ہی نہیں پتہ۔ یہاں تو ہم رشوت دے کر کام ہونے پر سوچتے ہیں کہ ہمیں ہمارا حق مل گیا۔
جناب میں نہ تو کوئی بیوروکریٹ ہوں اور نہ کوئی تھینک ٹینک ہوں بلکہ میں ایک عام شہری ہوں جو ایک چھوٹی سی ٹافی کی خریداری پر بھی ٹیکس دیتا ہوں اس لئے یہ وسائل اور ان کے حل میری ذمہ داری نہیں بلکہ میرے اور دیگر عوام کے ٹیکسوں سے عیاشی کرنے والے ہمارے نوکر اسی لئے ہیں۔
مجھے پتہ ہے میری تحریر روائتی ہے لیکن میں نے کوئی جھوٹا الزام نہیںلگایا بلکہ میری نظر میں یہی حقیقت ہے۔
باقی آپ کے تبصرے پر میں اب کیا لکھوں مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ آپ بات کیا کرنا چاہتے ہیں۔ نہ بات حکمرانوں کی جائے اور نہ سیاست کی پھر بھی آپ خود فرما رہے ہیں کہ حکمران عوام کے لئے کچھ نہیں کریں گے جب تک ان کے اپنے گھروں کے اے سی بند نہیںہونگے۔ اوپر سے آپ کے تبصرے میں بہت زیادہ بے ربطگی ہے یا پھر میری عقل سے سب کچھ اوپر ہے۔ اس لئے مزید معذرت۔
رضوان میرا بلاگ پڑھنے اور پھر تبصرہ کرنے کا بہت شکریہ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین
بجلی کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی تو ہے لیکن اور بھی اشیا جن کی قیمتوں سے تمام عوام الناس کی زندگیوں پر گہرا اثر پڑتا ہے پٹرول اور ڈیزل نایاب بنا دیے گئے ہیں، آٹا دال سبزی گوشت کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ یہ حال تو ان چیزوں کا ہے جو اشیا لازمی حیثیت کی حامل ہیں جن کے بغیر جینا محال ہے، اس کے برعکس ایسی اشیا جیسے موبائل کالنگ ریٹس اور ایس ایم ایس ، کیبل ٹی وی وغیرہ کی قیمتیں کم کر کے عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوایا جا رہا ہے۔
یقینن ایسے مواقع پر احتجاج ضروری ہے عوام کو سفید پوشی کا لبادہ اتار کر مشترکہ سوچ سوچنی ہو گی، جب تک ذاتی مفادات سامنے رکھیں گے یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
شکریہ بلال بھائی۔
.-= یاسر عمران مرزا کے بلاگ سے آخری تحریر … Urdu Blogs Aggregator updates =-.
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
بجلی کاشاٹ فال انتہائی اہم ہے اس کے بغیرملک پر انتہائی برےاثرات پڑرہےہیں لیکن جب تک عوام نہیں اٹھےگئی کوئي فائدہ نہیں لوگوں کواحتجاج کرناچاہیے لیکن پرامن طریقے تاکہ حکومت کوپتہ چلےحکومتی مشینری کوکیاپروا ہے وہ خودتواےسی رومزاےسی گاڑیاں اےگھرمیں رہتےہیں اوروہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی نہیں ہوتی۔
والسلام
جاویداقبال
.-= جاویداقبال کے بلاگ سے آخری تحریر … Alex será comercializado en España por Grammata =-.
ہر کوئی یہی کہتا ہے دوسرا کرئے میں کیوں ۔؟ جب تک کسی دوسرے کی تکلیف کو اپنا نا سمجھا گیا خاص کر غریب کی تو کبھی بھی ہم اچھائی کی جانب گامزن ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ یہ کام ہماری نئی نسل کر سکتی ہے ۔ اگر انکے پیچھے ہمارے بزرگوں کا ہاتھ ہو تو؟
اچھے لوگ حکومت میں ہونگے تو ہی کچھ بہتری ہو سکتی ہے۔ مگر کیسے؟ خود حکومت میں آنے کی کوشش کریں یا اچھے کوگوں کو حکومت میں آنے کے لیے تیار کریں، اور ان کی مدد بھی کریں۔ یہ بھی نہیں کر سکتے تو لوگوں کو شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام بیٹھے بیٹھائے نہیں ہو سکتے، وقت اور پیسہ لگتا ہے۔
.-= عامر شہزاد کے بلاگ سے آخری تحریر … ترجمہ سے ٹی ایم ایکس بنانا =-.
لوڈ شیڈنگ!
یہاں پردیس میں بیٹھ کر جب بھی پاکستان کے ٹکٹ لینے کا ارادہ پکڑوں، یار لوگ یہ کہہ کر ڈراتے ہیں ” پا کستان جا رہے ہو؟۔۔۔۔وہاں تو لوڈ شیڈنگ۔۔۔”
.-= عثمان کے بلاگ سے آخری تحریر … پردیس میں تبلیغ دین =-.