فروری 17, 2010 - ایم بلال ایم
1 تبصرہ

وہ بات ہی نہ کریں جس کو کرنے کا آپ میں دم نہیں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا کا ایک بہت عام اور سادہ سا قانون ہے کہ جو جتنے بڑے عہدے پر ہوتا ہے اس پر ذمہ داریاں بھی اتنی بڑی ہی ہوتی ہیں۔آپ کسی گھر کے سربراہ کو دیکھ لیں یا کسی بھی ادارے کے سربراہ یا باقی کام کرنے والوں کو۔ جو جتنی بڑی نوکری پر ہو گا اس پر ذمہ داریاں بھی اتنی بڑی ہوں گی۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کسی کو بڑا عہدہ یا نوکری صرف اس لئے دی جاتی ہے کہ اس نے اس نوکری پر رہتے ہوئے بڑے کام اور بڑی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوتی ہیں۔
حاکمِ وقت ہونا ایک بہت بڑی نوکری اور بہت بڑا عہدہ ہوتا ہے۔ اس عام اور سادہ قانون کے تحت حاکمِ وقت پر بے شمار ذمہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ وہ کسی ملک وقوم کا سب سے بڑا نوکر ہوتا ہے۔ ایک عام انسان پر عام سی ذمہ داریاں ہوتی ہیں جبکہ حاکمِ وقت پر پورے ملک و قوم کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اس لئے حاکمِ وقت کو ایک ایک قدم پھونک کر رکھنا ہوتا ہے۔ ہر بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنا اور اپنے درباریوں سے مشورہ کرنا ہوتا ہے۔
ہم ایک ایسی عوام ہیں جو کبھی یہ سوچتے ہی نہیں کہ ہم پر ایک قوم بننے کی ذمہ داری بھی ہے اور اوپر سے سونے پر سہاگہ کہ ہمارے حکمران بھی ہماری طرح کے ہیں کہ وہ بھی کوئی کام کرنے یا بولنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتے۔ ابھی چند ماہ پہلے غریب عوام کے پیسے سے لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے کے اشتہارات اخبارات میں چھاپے اور چھپوائے گئے۔ جن میں سب سے اوپر اپنی اور ساتھ ساتھ اپنے درباریوں کی تصاویر بھی تھیں۔ اشتہارات میں کہا گیا کہ دسمبر 2009 تک لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیا جائے گا یا پھر بڑی حد تک قابو پا لیا جائے گا۔ اسی طرح کے بے شمار بیانات بھی پڑھنے کو ملے۔ 18 جولائی 2009 کو ایک اشتہار وزارت پانی و بجلی، حکومت پاکستان کی طرف سے اکثر اخبارات میں شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ”نئے پاور پراجیکٹس۔ خوشحالی کی روشن راہیں۔ انشاءاللہ بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر مختلف نئے پاور پراجیکٹس کی تکمیل سے دسمبر 2009 تک مزید ساڑھے 3ہزار میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ ہمارا عزم۔روشن پاکستان۔ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نئی جہت۔ پاکستان الیکڑک پاور کمپنی۔” اس کے ساتھ ساتھ مختلف پراجیکٹس ، وہ کتنے میگاواٹ بجلی بنائیں گے اور کب تکمیل کو پہنچیں گے درج تھا۔اشتہار کے مطابق آخر پر مکمل ہونے والے چار پراجیکٹ بھی دسمبر تک مکمل ہو جائیں گے۔
حکومت اور ان کے درباریوں سے صرف ہم یہ کہتے ہیں کہ اب وہ دور نہیں رہا کہ آپ نے جو کہا عوام نے چپ چاپ سن لیا اور پھر کچھ عرصہ بعد بھول گئے۔ اب میڈیا بہت تیز ہو چکا ہے اور ساتھ ساتھ عوام کے ذہن بھی کچھ کچھ کام کرنا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے اب یہ سچے جھوٹے وعدوں اور باتوں کو بھی یاد رکھتے ہیں۔
ہم حکومت سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ نئے پاور پراجیکٹس کہاں ہیں؟ وہ خوشحالی کی روشن راہیں کہاں گم ہو گئیں؟ وہ دسمبر 2009 تک ملنے والی ساڑھے 3 ہزار میگا واٹ بجلی کونسی زمین نگل گئی؟ آپ کا عزم اور اس کے تحت روشن پاکستان کہاں ہے؟ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی نئی جہت تو کہیں نظر نہیں آ رہی۔ پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی کیا بس نام کی ہی تھی؟ روشن پاکستان کے خواب دیکھانے والوں کو صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ روشن پاکستان کی عوام آج بھی پندرہ پندرہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ برداشت کر رہی ہے۔ طالب علم موم بتیاں جلا کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ مزدور بے روزگار ہو رہیں۔ مگر آپ کروڑوں کے اشتہارات دے کر آخر کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں؟
حکومت سے گذارش ہے کہ کم از کم دنیا کے اس عام اور سادہ قانون کو ہی پہچان لو۔ کچھ بولنے سے پہلے کم از کم سوچ ہی لیا کرو۔ رب نے آپ کو بڑے عہدوں پر بٹھایا ہے تو آپ پر ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں۔ کچھ اپنی ذمہ داریاں اور اپنے عہدوں کا ہی خیال کیا کرو۔ غریب عوام کے پیسے سے اخبارات میں اشتہار دینے سے پہلے کچھ سروے یا کچھ درباریوں سے ہی مشورہ کر لیا کرو تاکہ بعد میں آپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے اور غریب عوام کا پیسا فضول اشتہارات میں ضائع بھی نہ ہو۔ اب بہانے بنانے سے بہتر تھا کہ بیانات اور اشتہارات دینے سے پہلے سب دیکھ لیتے کہ یہ کام آپ مکمل کر بھی سکو گے یا نہیں۔ ہم یہاں اخلاقی جرات کی بات نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ بات کی جائے تو پھر کئی وزراء کو جرات کرنی پڑے گی اور اپنی ناکامی یا اپنا جھوٹ تسلیم کرتے ہوئے وزارت چھوڑنی پڑے گی۔ اس لئے ہم وہ بات ہی نہیں کرتے جس سے آپ کو تکلیف ہو۔ ہم آپ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کرتے بس ہماری اتنی گذارش ہے کہ اپنے عہدے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور وہ بات ہی نہ کریں جس کو کرنے کا آپ میں دم نہیں۔


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”وہ بات ہی نہ کریں جس کو کرنے کا آپ میں دم نہیں

تبصرہ تحریر کریں۔

Your email address will not be published. Required fields are marked *