اگر میں کہوں کہ مجھے گوجرانوالہ سے تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر دور نانگاپربت کی چوٹی نظر آئی ہے تو کیا آپ مان لو گے؟ اور اگر اس کی تصویر بھی دکھاؤں تو کیا یقین کر لو گے؟
اس یا اس جیسے کسی بھی معاملے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کچھ سوچے سمجھے بغیر فوری کہیں گے کہ ایسا نہیں ہو سکتا اور تصویر کے متعلق فرمائیں گے ”فوٹوشاپ ای اوئے فوٹوشاپ“۔ اور بے شک خود کبھی فوٹوشاپ استعمال کیا نہ اس کی شکل دیکھی ہو۔۔۔ ویسے اب جب تک کوئی میری بنائی تصویر پر فوٹوشاپ کا الزام نہ دھرے تو مجھے سکون ہی نہیں آتا۔😜 ایسا لگتا ہے کہ کچھ منفرد قسم کی تصویر نہیں بنا پایا۔ بہرحال کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ لوگ ایسے فوری انکار یا سوچے سمجھے بغیر صرف دو لفظوں میں کسی کی محنت رد کیوں کرتے ہیں؟ دراصل ان کا اپنا کوئی مشاہدہ نہیں ہوتا اور چونکہ انہوں ایسا پہلے کبھی دیکھا یا سنا بھی نہیں ہوتا تو انہیں لگتا ہے کہ ایسا کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ جبکہ لوگوں کی ایک دوسری قسم بھی ہوتی ہے، جو کوئی بھی جواب دینے سے پہلے تحقیق کریں گے۔ بات کو سائنسی اور دیگر حوالوں سے پرکھیں گے۔ وہ حساب لگائیں گے کہ اگر گوجرانوالہ سے نانگاپربت نظر آئے تو یہ کیسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر نظر نہیں آتا تو کیوں نہیں آتا؟ اس کیوں کے جواب میں سب سے پہلا نکتہ یہ ہو گا کہ فضا میں آلودگی یا ہوا میں نمی وغیرہ ہی اتنی ہے کہ زیادہ دور تک نظر نہیں آ سکتا. بالفرض آلودگی نہ ہو اور نمی کسی وجہ سے ختم ہو جائے تو پھر بھی کیا اتنی دور کی چیز نظر آئے گی؟ یہاں دوسرا نکتہ جنم لے گا، چونکہ زمین گول ہے اور دور کی چیز اگر زیادہ بلند نہ ہوئی تو وہ زمین کی گولائی کے پیچھے چھپ جائے گی۔۔۔ بالفرض فضائی آلودگی بھی نہیں اور دور کی چیز اتنی بلند بھی ہے کہ وہ ایک حد تک زمین کی گولائی کے پیچھے نہیں چھپے گی تو کیا ایسی صورتحال میں وہ نظر آئے گی؟ اس کا جواب ہے کہ جی بالکل نظر آئے گی۔
اس کی جیتی جاگتی مثال گجرات کے ایک گاؤں سے میری بنائی مشہورِ زمانہ وہ تصویر کہ جس میں پہاڑ 103 کلومیٹر دور ہیں۔ اس تصویر کو عالمی سطح پر شہرت ملی اور اس نے پاکستان بھر میں “لانگ ڈسٹنس آبزرویشن” کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔۔۔ دوری سے پہاڑ نظر آنے کی دوسری مثال وہ تصویر ہے کہ جس میں 200 کلومیٹر دور کشتواڑ ہمالیہ کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں۔ میری بنائی وہ تصویر ایک حد تک ریکارڈ تھا مگر پھر ہم اک صبح اٹھے تو ریکارڈ ٹوٹ چکا تھا۔
اور ریکارڈ ٹوٹنے کی صبح، اک پراجیکٹ کے سلسلے میں فجر کے وقت، گوجرانوالہ کے مضافات میں ایمن آباد کے پاس، ہم لودھی مسجد کی “فو ٹاگ رافی” کرنے گئے۔ اک خوبصورت صبح کا سندیسہ لئے ہلکی ہلکی روشنی ہو رہی تھی کہ میں نے شور مچا دیا، گاڑی روکو، گاڑی روکو… وہ دیکھو پہاڑ۔۔۔ ٹیم کے باقی ممبر ذیشان رشید صاحب اور حنظہ نادر نے یقیناً یہی سوچا ہو گا کہ جس طرح بلی کے خواب میں چھیچھڑے ہوتے ہیں، ایسے ہی منظرباز کے خوابوں میں پہاڑ… بھلا گوجرانوالہ سے پہاڑ کہاں نظر آنے لگے… مگر وہ حقیقت تھی، کوئی خواب نہیں تھا۔ ہمیں نہ صرف پہاڑ نظر آئے بلکہ ہم نے ان کی تصویر بنا کر اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا۔ گویا پہلے دریائے چناب کنارے سے دو سو کلومیٹر دور کے پہاڑوں کی تصویر بنائی تھی اور اس روز گوجرانوالہ سے247 کلومیٹر دور کے پہاڑ کی تصویر بنائی… اور یہ رہی وہ تصویر۔
یہاں بتاتا چلوں کہ گوجرانوالہ اور اس کے مضافات سے پہاڑ نظر آنے کی صرف یہ تصویر گواہ نہیں، بلکہ گوجرانوالہ کے بہترین فوٹوگرافر کے آر ولید صاحب بھی کئی تصویریں بنا چکے ہیں… اس کے علاوہ ذیشان رشید صاحب نے تو موبائل سے شاہکار بنا دیا۔ ان کی تصویروں اور ہماری اس تصویر میں فرق یہ ہے کہ ان میں نزدیکی ہمالیہ کے پہاڑ ہیں، جو کہ تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر دور ہیں۔ جبکہ ہماری اس تصویر میں ہندوستان کے صوبے ہماچل پردیش کی بہائی جار(شیوا) چوٹی بھی ہے، جو کہ 6073میٹر بلند اور گوجرانوالہ سے 247کلومیٹر دور ہے… اس کے علاوہ تصویر میں دیگر چوٹیاں بھی ہیں۔ اور ان کی تفصیلی تصویر نیچے موجود ہے۔
گفٹ یونیورسٹی، اس کی انتظامیہ اور ذیشان رشید صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے گوجرانوالہ میوزیم پراجیکٹ شروع کیا اور ہم اس سلسلے میں لودھی مسجد کی فوٹاگرافی کرنے گئے تو وہاں قدرت نے انعام بخشا اور یہ پہاڑ دکھا دیئے… یہ تصویر دیکھنے میں جیسی بھی ہو مگر ہمارے لئے تو اعزاز ہے اور ساتھ ساتھ اہلیان گوجرانوالہ کے لئے بھی اعزاز ہے کہ یہ ریکارڈ ان کے شہر میں بنا۔۔۔
نوٹ:- تحریر کا عنوان غلط نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نانگاپربت یعنی ہمالیہ والا سلسلہ ہی ہے۔ 😜
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں