محبت کے ساتھ، خلوص کے ساتھ، جناب فلاں صاحب کے لئے، ٹھپ دستخط۔۔۔ کچھ یوں مجھ جیسے عام قارئین کے لئے اکثر بڑے لکھاری اپنی کتاب دستخط کرتے ہیں۔ ویسے اس میں کوئی مضائقے والی بات بھی نہیں۔ کیونکہ کتاب پر لکھاری کے صرف دستخط ہونا ہی میری نظر میں بڑی بات ہے اور جب ساتھ نذرانہ/انتسابی کتبہ(Dedication) کی صورت کوئی پیغام یا نصیحت وغیرہ بھی شامل ہو تو سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ اور اگر مصنف روایتی فقروں کی بجائے قاری کے کام یا فن وغیرہ کو مدِ نظر رکھ کر کچھ لکھے تو یقین کریں وہ جو پہلا سونے پر سہاگہ ہے ناں، وہ سہاگہ بھی سونا ہو جاتا ہے اور قاری کے لئے اس کا سواد ہی وکھرا ہوتا ہے۔
اول تو میری لائبریری(بک شیلف) میں بہت کم کتب ایسی ہیں کہ جن پر مصنفین کے دستخط ہوں۔ اور جن پر ہیں تو انہیں میں افسانوں کی ایک کتاب ”سوچ زار“ بھی ہے۔ جس کی مصنفہ مریم مجید ڈار صاحبہ نے ناچیز کے لئے انتسابی کتبہ ایسا لکھا ”فطرت کے صد رنگ چہرے کو صورتِ عکس قید کرنے والے جوگی ایم بلال ایم کے لیئے“۔ ٹھیک ہے کہ یہ الفاظ میرے لئے لکھے گئے تو مجھے خوشی ہوئی، لیکن الفاظ کے چناؤ پر ذرا غور تو کریں۔ ”فطرت کے صد رنگ چہرے“ واہ کیا ہی کہنے۔ ”صورتِ عکس قید“ لاجواب۔ اور ”جوگی ایم بلال ایم“ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے۔ ایسے خوبصورت الفاظ کے لئے مصنفہ کا نہایت شکر گزار ہوں۔ منظرباز خوش ہوا۔۔۔
اب بات یہ ہے کہ مطالعہ کے شوقین خواتین و حضرات الفاظ کے اسی چناؤ سے اندازہ لگا لیں کہ مصنفہ نے کتاب میں کس بہترین انداز میں الفاظ کو برتا ہو گا۔ باقی میں کوئی ایسا نقاد تو ہوں نہیں کہ افسانوں کا آپریشن کر سکوں، البتہ ان شاء اللہ کبھی موقع ملا تو افسانوں پر اپنی تفصیلی رائے دوں گا۔ فی الحال اس پر بات کرتے ہیں کہ ”مقدمہ ابلیس و آدم و حوا“ سے شروع ہوتی ستائیس افسانوں پر مشتمل کتاب ”سوچ زار“ کی سوچ کیا ہے۔ اول تو اس کا اندازہ کتاب کے عنوان سے ہی لگائیے۔ ”سوچ زار“۔ مجھے نہیں معلوم کہ مصنفہ ان دو الفاظ کے مرکب کو کن معنوں میں لیتی ہیں۔ لیکن ”زار“ کے کئی معنی ہے۔ مثلاً ایسی جگہ جہاں کسی چیز کی کثرت ہو۔ گویا عنوان کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ”سوچوں کا مقام یا سوچوں کی کثرت کا مقام“۔ زار کے مزید معنی ہوتے ہیں ”نالہ و فریاد، گریہ کناں، مصیبت زدہ“ وغیرہ۔ یوں ہم سوچ زار سے مراد ”نالہ و فریاد کرتی سوچ، تکلیف دہ سوچ، گریہ کناں سوچ“ وغیرہ بھی لے سکتے ہیں۔ خیر جو بھی معنی لیں ہر صورت میں یہ منجمد سوچ پر ہتھوڑے چلائے، معاشرتی بگاڑ پر کوڑے برسائے اور معاشرے کو جھنجھوڑے ہی جھنجھوڑے۔۔۔ سوچ زار کتاب کا تعارف خود مصنفہ نے کتاب کے پیش الفاظ میں کیا خوب پیش کیا ہے۔ اسی پیش الفاظ سے چند الفاظ پیش کرتا ہوں۔
مریم مجید ڈار لکھتی ہیں کہ میری تخلیقات کے کردار ارضی ہیں، سماوی نہیں۔۔۔ وہ آپ بھی ہو سکتے ہیں اور میں بھی۔۔۔میں نے انہیں سڑکوں پر پایا ہے۔۔۔ خواہش کے بوجھ سے ریزہ ریزہ ہوتے مرد کی آنکھوں میں اور سڑک پر دوپہر کی دھوپ میں پانی بیچتے بچے کی پیاس میں مجھے کہانیاں ملتی ہیں۔۔۔ کبھی کبھی تو کہانیاں میری انگلی تھام کر مجھے ان دروازوں تک بھی لے جاتی ہیں جن کے پیچھے گلابوں کی سیج پر صحرائی بدن اپنے آپ کو نوچ کاٹ رہے ہوتے ہیں۔۔۔ میں نے آنکھوں کی بھوک، پیاس اور طلب کو دیکھا، سنا اور کہانی کے حوالے کر دیا۔۔۔ مجھ سے اکثر یہ سوال ہوتا ہے کہ میرے افسانوں کے انجام خوشگوار نہیں ہوتے، وہ تلخ، نمکین اور لہو کی باس میں بھیگے ہوتے ہیں اور ان میں بھوک، غربت، بے بسی اور موت کے گہرے رنگ نمایاں ہوتے ہیں۔ کیا یہ قاری کے ساتھ زیادتی نہیں؟ اور اس کے جواب میں، میں محض اتنا ہی کہتی ہوں کہ کیا آپ نے زندگی کا انجام پریوں کی کہانیوں کی مانند دیکھا ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک قریب المرگ اور سسکتے جانور کے نیم مردہ وجود پر گدھ منڈلا رہے ہوں اور اس کے ممکنہ انجام کو بدل دیا جائے؟ یقیناً نہیں! میری کہانیاں سوال نہیں اور نہ ہی جواب یا مسائل کا حل قاری کو پیش کرتی ہیں۔ وہ تو بس ”سوچ“ ہیں! سوچ!۔۔۔ اگر آپ مخصوص انجام کی خوشگوار کہانیوں کے متمنی ہیں تو یہ کتاب آپ کو مایوس کرے گی کہ اس میں زندگی کے رخ ہیں، ٹیڑھے بدھے اور کرخت روپ!۔۔۔ اور اگر آپ میں اتنا حوصلہ ہے کہ سسکتی زندگی کے پیپ آلود چہرے پر بھنکتی مکھیاں ہٹا کر معاشرے کی بے ڈھب رسومات کی اندھی گوشت خور کلبلاتی سنڈیاں جو حیات کے جوہر کو تباہ کیئے جا رہی ہیں، چننے کی ہمت کر سکیں تو سوچ زار فقط آپ کے لیئے ہے۔ میں سوچ زار کا مقدمہ خود پیش کرنے کے بجائے قاری پر چھوڑتی ہوں۔ کیونکہ کہانی کا انجام شاید سبھی کے لیئے ایک جیسا ہوتا ہو مگر زندگی کا انجام ہر ایک کے لیئے مختلف ہوتا ہے۔
سوچ کے اس خار زار میں خوش آمدید!۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں