پاکستان کی تلاش میں نکلنے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا تھا۔ رات ٹھہرنے کے لئے جہاں کچھ نہ ہو سکا وہاں کے لئے خیمہ اور سلیپنگ بیگ، اچانک طبیعت خراب ہونے کی صورت میں ضروری ادویات، حتی کہ ایک لمبے سفر کے لئے ضرورت کی تقریباً ہر چیز سامان میں موجود تھی۔ جہاں جہاں رکنا تھا، وہاں پر دوستوں کو اطلاع کر کے مکمل پروگرام ترتیب دے لیا تھا۔ اگلے دن روانگی تھی۔ شام کا وقت تھا کہ موبائل پر ایک کال موصول ہوئی۔ فون سنتے ہی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ زندگی کی چند بڑی خوشیوں میں سے ایک بڑی خوشی کی اطلاع ملی تو دل کر رہا تھا کہ ابھی کے ابھی اڑ کر راولپنڈی پہنچ جاؤں۔ وہ کیا ہے کہ میرا بہت پیارا قریبی دوست کچھ عرصے سے بیمار بلکہ ایک حساب سے کومے میں تھا۔ جس کے لئے ہم سب دوست، دوستوں کے دوست، ہمارے رشتہ دار حتی کہ جو بھی ہمارے اس دوست کو جانتا تھا وہ اس کے لئے پریشان اور دعا گو تھا۔ سبھی آخر پریشان کیوں نہ ہوتے، ہمارا دوست ہے ہی اتنا اچھا۔ خوب سیرت اور اونچا لمبا خوبصورت جوان۔ یاروں کا یار۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا، اس کی شادی کی تاریخ تک طے ہو چکی تھی۔ پھر پتہ نہیں کس کی نظر لگی اور ہمارا دوست اتنا سخت بیمار ہو گیا۔ جب وہ بیمار تھا تو میں نے اس کے لئے کئی ایک تحاریر لکھیں۔ پھر پوسٹ نہ کیں۔ کیونکہ وہ تحاریر بہت زیادہ جذبات سے لبریز تھیں اور میری زندگی کی ان چند تحاریر میں سے تھیں جو میں نے انتہائی جذباتی حالت میں قلم آنسوؤں میں بھگو کر لکھیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا رنگ رنگ کی ہے اور اگر کوئی ان تحاریر میں موجود جذباتی کیفیت کا ذرا بھی مذاق بناتا تو میں شاید برداشت نہ کر پاتا۔ اس لئے اپنے جذبات کو خود تک ہی محدود رکھنے میں عافیت جانی۔
خیر اللہ کے فضل سے ہمارا دوست تندرست ہو گیا اور اس دن کال بھی اسی کی تھی۔ ہوش میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے میرا ذکر کیا، مجھے فون کیا، اپنے پاس بلایا اور میں فوراً پہنچ گیا۔ جب اس کے کمرے میں گیا تو ایک طرف کرسی پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔ آخر کار میں نے پوچھ ہی لیا کہ بتا میں کون ہوں تو اس نے بہت ”مزے کے مذاق“ کر کے دل کو اور زیادہ خوش کر دیا۔ تب میں اتنا خوش تھا کہ اسے کہا یار تیرے انہیں مذاق کو ہم ترس گئے تھے۔ خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی اور میں بولا میرے یار! تو خوش رہے، تجھے تو بلال کا قتل بھی معاف ہے۔
اس کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد آنا جانا لگا رہا۔ دوست کی تندرستی میں جو کمیاں تھیں وہ بھی پوری ہونے لگیں اور پھر اللہ کے فضل سے اس کی شادی کا مرحلہ آن پہنچا۔ بیماری کی وجہ سے جو شادی رک گئی تھی۔ اس کی نئی تاریخ طے ہوئی اور تیاریاں ہونے لگیں۔ اسی دوران میں کراچی کے ایک سیاحتی سفر پر بھی گیا۔ دوست کی شادی کی وجہ سے اس سفر کو انتہائی مختصر کر کے واپس لوٹ آیا۔ فی الحال آپ اس تحریر سے لطف اندوز ہوں، کراچی کے سفر کی روداد لکھ رہا ہوں، بہت جلد آپ کو تصاویر سمیت مل جائے گی۔ خیر ہمیں اپنے دوست کی شادی کی بہت خوشی تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ میں نے زندگی میں کسی بھی تقریب کی اپنے لئے اتنی خریداری نہیں کی جتنی اس شادی کے لئے کی۔
پچھلے ایک لمبے عرصے سے ہم دوست احباب تقریباً روزانہ مل بیٹھتے ہیں۔ کبھی گپ شپ تو کبھی گرما گرم بحث ہوتی ہے اور اکثر مزاح میں وقت گذرتا ہے۔ ویسے عام طور پر بیٹھکوں میں جب شادی کے موضوع پر دوست ایک دوسرے کو مذاق کرتے ہیں تو اس میں زیادہ تر شادی شدہ کو تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔ وہ کیا ہے کہ مجھ جیسے اقلیت میں ہیں۔ اس لئے ہم ہی تختہ مشق بنتے ہیں۔ یوں تو میں اکیلا ہی سب پر بھاری ہوں (اوئے! کہیں زیادہ لمبی تو نہیں چھوڑ گیا؟) خیر میں سوچتا ہوں کہ میرے بیچارے شادی شدہ دوست سارا دن کاروبار سے فارغ ہو کر گھر جاتے ہیں تو برتن دھونے، صفائیاں کرنے، بچوں کے ڈائیپر بدلنے کے ساتھ ساتھ بیوی سے ڈانٹ بھی کھاتے ہیں۔ پھر بیوی کی منت سماجت کر کے دوستوں سے ملنے کا وقت مانگتے ہیں اور اگر زیادہ جھاڑ ہو تو منہ لٹکائے دوستوں کی بیٹھک میں پہنچتے ہیں۔ اب اگر ادھر بھی ہم ان شادی شدہ کی درگت بنائیں تو بیچاروں کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے ان پر رحم کرتے ہیں اور انہیں کچھ نہیں کہتے۔ آخر میرے بیچارے، مسکین، مظلوم اور بیویوں کی ”مار“ کھانے والے دوستوں کا میں پرسان حال نہیں ہوں گا تو اور کون ہو گا۔ 😀 ہا ہا ہا ہاہا
خیر جب ہمارے دوست کی شادی قریب آئی تو ہر ادھر ادھر کی بات شادی پر ختم ہوتی بلکہ میری شادی کے متعلق مذاق ہوتے۔ ظاہر ہے کہ اقلیت ہی ماری جاتی ہے۔ کوئی کہتا کہ ہم خود چچا جان یعنی میرے والد محترم سے بات کرتے ہیں تو کوئی کہتا کہ گھر میں برتن توڑو، یوں بھی شادی ہو جائے گی۔ برتن توڑنے کی بات پر میرا جواب ہوتا کہ میں بچپن سے بہت غصے والا ہوں اور اکثر برتن توڑتا آیا ہوں، اب بھی جب برتن توڑتا ہوں تو گھر والوں کو یہی لگتا ہے کہ یہ پرانی روٹین میں ہی توڑ رہا ہے۔ 🙂 اور ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ 🙁 اس کے علاوہ دوست مذاق میں بہت کچھ کہتے۔ پچھلے دنوں دوست کی شادی کی بیٹھک میں جب سب دوست مل بیٹھتے تو مذاق مذاق میں ”ضرورت برائے رشتہ“ کے کئی اشتہاروں کا مواد ترتیب دیتے رہتے۔ جن میں چند ایک درج کیے دیتا ہوں۔
ہمارے ایک نکمے دوست کی شادی کے لئے فقط ایک عدد لڑکی درکار ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ نبض چلتی ہو۔ اس مواد پر ایک دوست بولتا کہ ارے نہیں، ہمارا یار نکما تو نہیں۔ یوں نیا مواد تیار ہوتا کہ ہمارے ایک ہونہار، کماؤ اور ویب ڈویلپر دوست کے لئے جوان لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ اس پر کوئی بولتا کہ نہیں یار! جوان لڑکی نہ لکھو بلکہ لکھو کہ ”عورت“ کا رشتہ درکار ہے۔ اتنے میں دور کونے میں بیٹھا دوست بولتا کہ اب ہمارا یار اتنا بھی گیا گزرا نہیں۔ اشتہار کو بہتر کرو اور لکھو کہ ہمارے ایک اردو بلاگر دوست کے لئے رشتہ درکار ہے۔ شرط یہ ہے کہ لڑکی کو اردو پڑھنی آتی ہو، تاکہ اس کی تحاریر پڑھتی رہے۔ جوڑی اچھی رہے گی کہ ایک لکھے تو دوسرا پڑھے۔ ورنہ اسے کسی نے پڑھنا تو ہے نہیں۔ اس پر کوئی اور دوست بولتا کہ نہیں یار! اب ایسی بھی بات نہیں ہمارے دوست کو بہت لوگ پڑھتے ہیں۔ اشتہار کچھ یوں ہو کہ ہمارے ایک مایہ ناز لکھاری دوست کے لئے دوشیزہ کا رشتہ درکار ہے۔ یہاں بھی دوستوں کی تسلی نہ ہوتی تو کوئی بول اٹھتا کہ یارو! یہ لکھاری کم سیاح زیادہ ہے۔ اشتہار ہونا چاہئے کہ ہمارے ایک ”سیاح“ دوست کے لئے ”سیاہ“ لڑکی درکار ہے۔ اتنے میں ایک دوست بولا کہ یار ایسے نہ کہو بلکہ لکھو کہ ہمارے ایک سیاح دوست کے لئے ”چھلاوا“ قسم کی لڑکی کا رشتہ درکار ہے تاکہ دونوں نگری نگری سیاحت کرتے پھریں۔ اس پر ایک دوست کو اعتراض ہوا کہ ارے ایسا ظلم نہ کرو۔ یوں تو یہ ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لئے اشتہار یہ رکھو کہ ہمارے ایک سیاح دوست کے لئے پہلوان لڑکی کا رشتہ درکار ہے۔ جو اسے باندھ کر رکھے، نہیں تو اس نے قابو نہیں آنا اور آئے دن لمبی چوڑی سیاحت پر نکل جانا ہے۔
خیر یار دوست ضرورت برائے رشتہ کا اشتہار بناتے اور میں بس سنتا یا زیادہ سے زیادہ ہنستا۔ میری اس خاموشی یا خوشی کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ چلو کسی بہانے سہی لیکن میرے دوست مجھے کماؤ، بلاگر، لکھاری اور سیاح وغیرہ تو مان رہے ہیں اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میرے مظلوم دوست جو بیچارے کمانے کے ساتھ ساتھ گھر کے سارے کام بھی کرتے ہیں اور پھر دوستوں کی بیٹھک سے اٹھ کر گھر واپس جاتے ہوئے جتنی تاخیر کرتے ہیں تو فی منٹ تاخیر کے حساب سے ڈانٹ کھاتے ہیں۔ اس وجہ سے میں سوچتا ہوں کہ چاہے مذاق کرتے ہیں اور چاہے تھوڑی دیر کے لئے سہی لیکن ان کا دل پشوری تو ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی گھر جا کر ان بیچاروں نے اپنی اپنی ”بڑی سرکار“ کے پاؤں بھی دبانے ہوتے ہیں۔ اور انہیں وجوہات کی بنا پر بیچارے میرے ساتھ لمبی چوڑی سیاحت پر نہیں جا پاتے۔ 😛 اب تو ایک اور دوست ان مظلوموں کی صف میں کھڑا ہو گیا ہے۔ اجی وہی دوست جس کا شروع میں ذکر کیا تھا۔ اس کی کہانی سنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ دیکھو! بیچارا ایک مشکل سے نکلا اور دوسری میں چلا گیا۔ رہی میری بات؟ تو دیکھیں کہ کب قسمت ”پھوٹتی“ ہے۔ اب یہ تو شادی شدہ (مظلوم لوگ) ہی بتا سکتے ہیں کہ اس ”پھوٹنے“ کو ٹوٹنا سمجھا جائے یا پھر صبح ”پھوٹنے“ جیسا سمجھا جائے؟
اے میرے دوستو! ہن آرام جے؟؟؟ ہور چھیڑو مینوں۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔ تم چاہے جتنے مرضی مذاق کر لو، لیکن میں اپنی ”لمبی چوڑی“ سیاحت کو جاری رکھوں گا۔ 🙂 ویسے آپس کی بات ہے کہ یہ سب یاروں کی دل لگیاں ہیں ورنہ میرے دوست بہت اچھے ہیں۔ اجی اب صفائی بھی تو دینی ہے۔ ورنہ مجھے ”کُٹ“ (مار) کھانے کا کوئی شوق نہیں۔ 😛
ہا ہا ہا
آپستہ آہستہ آرہے ہو لائن تے
لگدا ہے مطالبات من کے واپس بلا لیا گیا کراچی توں
دوست کی صحت یابی کی مبارک ہو
دلچسپ 🙂 تحریر اور ضرورت رشتہ کا اشتہار تو لاجواب – شادی شدہ دوستوں کو زچ کرنے اور نمک پاشی کا مزہ ہی الگ ہے
جب وہ منہ لٹکائے آئیں تو بے اختیار ہنسی آجاتی ہے
ہوں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔مظلوم۔۔۔
آپ ہو ہی سڑیل ، کوئی منہ نہیں لگاتی اور ہم شادی شدہ کی گھریلو مصروفیات کپڑے دھونا ، برتن دھونا، پاؤں دبانا کو سن سن کر جلتے ہو اور بہانہ کرکے سیاحت پر نکل جاتے ہیں۔
مان لیں آپ کے ساتھ مسئلہ صرف ایک ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پائی جی انگور کٹھے ہیں نا 😀
آپ کے دوست کو زندگی کی طرف واپسی کا سفر بہت بہت مبارک ہو، آپ لوگ واقعی اس کو مس کرتے تھے۔ آپ کی خوشیوں میں شامل ہونے کی چاہت ہے، اللہ کرے جلد یہ موقع بنے۔ آمین یا رب العالمیں۔
لفظ لکھنا بذات خود بہت بڑا نشہ ہے ۔ ایک سولو فلائیٹ کی لذت شاید ایک ہواباز ہی بتا سکتا ہے۔ لکھتے رہیں ،چلتے رہیں سفر پر نکلیںتو ہی ہمسفر ملتے ہیں ۔ بس زندگی کےہمسفر کا کھوج واقعی سب سے مشکل مرحلہ ہے کہ اسی پر ہر سفر کی کامیابی کا دراومدار ہوتا ہے۔ آپ کے دوستوں سے میں بھی کسی حد تک متفق ہوں ۔پر کچھ اور ہو نا ہو لڑکی کو اردو سے محبت ضرور ہونی چاہیے۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔ بہت مزیدار تحریر۔ لیکن مجھے نجانے کیوں “خطرے” کی بو آ رہی ہے؟ 😀
بہت اچھی تحریر ہے۔ پڑھ کر بڑا مزا آیا! 😛
کیا بات لکھتے ہو یار
ہو سکے تو یہ تحریر اپنے والدین کو دکھائیں۔
ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہونا۔
بے چارہ بلال میاں گھوڑی چڑھنے کو بے تاب ہے۔ ۔ ۔ شادی کا لڈو ہے ہی ایسا کہ جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ ۔ ۔ آپ کے دوست اگر یہ تبصرہ پڑھیں تو ان سے درخواست ہے کہ یہ بلاگ تحریر کسی طرح بلال میاں کے امی ابو تک پہنچ جائے۔ 😈 😈
دوست کی صحتیابی مبارک ہو ۔ اللہ جوڑے کو خوش و خُرم رکھے
تحریر چٹخارے دار ہے ۔ سُنا تھا کہ شادی ایسا مزا ہے کہ جس نے چکھا وہ پچھتایا اور جس نے نہ چکھا وہ بھی پچھتایا لیکن شادی کے 46 سال گذرنے کے بعد بھی خیال یہ ہے کہ یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں ۔ اپنی زندگی ہر انسان خود بناتا ہے ۔ کچھ مرد شادی کرنے کے بعد حاکم بن جاتے ہیں اور کچھ خادم ۔ یہ دونوں ہی غلط ہیں ۔ کامیابی کی کنجی درگذر ہے لیکن اس کے استعمال کا طریقہ بھی آنا چاہیئے
کوئی جونیئر شادی شہدا مل جائے تو طعنے کے انداز میں سننے کو ملتا ہے ہن ویاہ کروا لو۔
اے حالات ہو گئے نیں ساڈے ➡
لگتا ہے میووں بھرے شادی کا لڈو کی تیاری کا آرڈر دیا جا چُکا ۔۔۔۔
گھر میںہمسائیوں کے ایک دو “الامے”لائیں ۔۔۔ یاساتھ والی مسجد کے “علامہ” کو بلوا لیں۔۔ والدین شادی کر دیں گے۔۔۔ زیادہ دکھی مت ہوں۔
کئی بار اپنے پیاروں کی قدر تبھی سمجھ آتی ہے جب ان کے بچھڑ جانے کا خوف آ پکڑے۔
حالے وی ویلا جے، چنگی طراح سوچ سمجھ لوؤ۔
بلال بھائی اور تمام بلاگر دوستوں کو السلام علیکم! دوست کی صحتیابی مبارک ہو۔ ضرورت رشتہ کا اشتہار سمجھ میں آ گیا ہے۔ فکر نہ کریں آپ کی باری جلد آ جائے گی۔ مجھے تو یہی سمجھ آئی ہے کہ دوست کہ بہانے سے اپنے لیئے اشتہار دیا جا رہا ہے۔ 😀
زندگی کےہمسفر کا کھوج واقعی سب سے مشکل مرحلہ ہے
محترم بلال بھائی، اللہ پاک آپکو اپنئی حفظ و امان میں رکھے، (آمین) آپ ایسی ناامیدی کی باتین کیون کرتے ہیں، میں نے اپنے بزگون سے سنا ہے، کہ انسان کا دین مکمل ہی اسوقت ہوتا ہے۔ جب وہ شادی کر لیتا ہے۔ الحمدو للہ ہم مسلمان ہیں، اپنے پیارے نبی کریم (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) کی سنتون کو ماننے والے، امربلمعروف اور نہیٰ المنکر کو پورا کرنے والے، اور اتباعء رسول ہماری زندگی کا مقصد ہے۔ تو شادی کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ میرے خیال میں تو نیک بیوی اللہ پاک کی ایک نعمت اور عطاء ہے۔
نیک اولاد، اللہ پاک کی نعمتون مین سے ایک نعمت ہوتی ہے۔ جیسی کہ آپ اپنے والدین کے لئے ہیں۔ یقیننا آپکی والدہ اور آپکے والد کی یہ خواہش ہوگی، کہ وہ اپنی اولاد کی خوشیان دیکھیں ۔ اور دادا ، دادی بنکر اپنے پوتے پوتیون کے وساتھ اپنا پیار اور وقت بتائیں۔ اور میری طرح اپنے بڑھاپے کو رنگین بنائیں۔ تو کیا آپ انہیں اس خوشی سے محروم کردینگے۔۔۔۔۔۔۔۔سوچئیے گا۔
آپ اللہ پاک سے ایک نیک صالح، نیک سیرت، صوم و صلات کی پابند، شریک حیات کیلئے عرضی بذریعہ دو رکعات صلاتِ حاجات پڑھکر (برائے ضرورت رشتہ ) ارسال کردین۔ میرا ایمان ہے۔ آپکو اللہ پاک آپ جیسی صلاحیتون والی بیوی عطاء فرمائین گے۔ اگر میری تجویز پسند نہ آئے ہو تو معاف فرمائیے گا۔ ورنہ ایک لائیک تو بنتا ہے۔