ہاں تو یہ باتیں ہیں میرے، میڈیا، اردو کے رضاکاروں اور اردو کے متعلق۔ آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کیا ملا؟ جب سے پاک اردو انسٹالر بنایا ہے تب سے کسی اپنے جیسے پر کھل کر بات بھی نہیں کر پاتا۔ کئی تحاریر لکھ رکھی ہیں مگر شائع نہیں کیں کیونکہ لگتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کا بھوکا ہے یا ”انگور کٹھے ہیں“ کا طعنہ بھی مل سکتا ہے۔ مگر یارو! اب بات برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں، مجھے کچھ پرانی اور کچھ نئی باتیں کہہ لینے دیں، تاکہ میں جذبات میں کوئی الٹا سیدھا فیصلہ نہ کروں۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس تحریر میں اپنے جیسوں کے لئے کئی الٹے سیدھے الفاظ استعمال کروں مگر مجھے پوری امید ہے کہ میرے جیسے ”پاگل“ ان الفاظ کو دل پر نہیں لیں گے۔
میں کمپیوٹر پر اردو تو بہت پہلے سے لکھ رہا ہوں مگر اردو کی ترویج کے لئے تھوڑا بہت انفرادی طور پرآج سے تقریبا چھ سال پہلے یعنی 2006ء میں کام شروع کیا اور پھر ”سر پھروں“ کے کارواں میں 2007ء میں شامل ہوا۔ ابھی میں نے نئی نئی اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی کہ عمار ابن ضیاء نے ”اردو محفل کی تشہیر“ کے نام سے موضوع شروع کر دیا۔ دراصل ان دنوں اردو کو رضاکاروں کی ضرورت تھی جو کہ آج بھی ہے۔ خیر اردو محفل پر اس بارے میں کئی مشورے سامنے آئے، جن میں ایک صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ تھا تاکہ وہ اردو محفل کے متعلق لکھیں، لوگوں تک اردو کی آواز پہنچے اور مزید لوگ اس کارواں میں شامل ہوں۔ یوں تو میں اس کارواں میں لکھاری بننے کے لئے شامل ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ ابھی تو قلم (اردو کمپیوٹنگ) ہی ٹھیک طرح تیار نہیں، تو پھر لکھنے کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اردو کمپیوٹنگ کے لئے اپنی طرف سے کوشش کرنے لگا۔
جب اردو محفل سے صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ کرنے والا آئیڈیا ملا تو میں نے میڈیا کے بڑے بڑے لوگوں سے رابطے کی کوشش شروع کر دی۔ تب اردو کمپیوٹنگ میں میرا کوئی حصہ شامل نہیں تھا تو میں کھلے دل سے میڈیا والوں سے رابطہ کرتا کیونکہ تب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اپنی شہرت کے لئے ایسا کر رہا ہے۔ کالم نگاروں اور خاص طور پر اخبارات کو بھیجی گئی ای میلز اور فیکس میں میرا مقصد ان کی توجہ اردو محفل اور اردو کی ترویج کی طرف دلانا ہوتی۔ میرے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی رابطے کیے مگر کچھ خاص نہ ہو سکا۔ آسان الفاظ میں کہ میڈیا والوں نے ہمیں منہ ہی نہ لگایا۔ جب ایسا ہوتا دیکھا تو سوچا کہ ابھی ہم جتنے ہیں انہیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔ میں نے اردو کمپیوٹنگ کے لئے ٹیوٹوریل لکھنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً اخبارات سے رابطہ کی کوشش بھی کرتا رہا۔ خاص طور پر جب 2008ء میں امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا تو میں نے کئی اخبارات کو اس بارے میں اس انداز سے آگاہ کیا کہ یہ ایک اہم سنگِ میل تھا بلکہ یہ اردو کمپیوٹنگ میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری یہ رابطے کی کوشش صرف ای میل تک محدود نہیں تھیں بلکہ فیکس بھی کرتا تھا۔ میں ان اخبارات کو یونیکوڈ اردو کے فوائد لکھتا، ان کو بتاتا کہ اپنی ویب سائیٹ یونیکوڈ اردو میں بھی بناؤ، اس سے اخبار کو بہت فائدہ ہو گا۔ آپ میرے پاگل پن کی انتہا دیکھو کہ ان دنوں فرصت تھی تو میں انہیں مفت یونیکوڈ اردو ویب سائیٹ بنا کر دینے کی آفر تک کرتا۔ مگر کچھ نہ ہو سکا۔ کسی نے ہماری ایک نہ سنی، ای میل یا فیکس کا جواب تک دینا گوارہ نہ کیا، اجی وہی کہ ہمیں منہ تک نہ لگایا۔ آخر کب تک، یوں میں نے آخری کافی لمبی چوڑی فیکس روزنامہ ایکسپریس کے فیکس نمبر 0425878708 پر 24 مارچ 2009ء کو بھیجی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اس مادیت پرست دور میں ضرورت سے زیادہ خلوص بھی آپ کی اور آپ کی بات کی قدر کم کر دیتا ہے، شاید میرے ساتھ بھی وہی ہوا۔
انہیں دنوں میں اپنے صحافت کے شوق کی وجہ سے ایک لوکل اخبار میں شوقیہ کام کرتا تھا۔ اس اخبار میں صاحبِ اختیار تھا تو میں نے اردو کے متعلق جی بھر کر خبریں لگائیں۔ خیر اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے دن بدن ان صحافیوں اور میڈیا کی اصلیت میرے سامنے آنے لگی تو مجھے پتہ چلا کہ یہاں تو سب مایا ہے۔ جس طرح میں سوچ رہا ہوں ایسا کچھ نہیں۔ قومی اخبارات میں خبر وہی لگے گی، فیچر وہی شائع ہو گا، چینل پر پٹی وہی چلے گی جس سے ادارے کا یا ان کے نمائندوں کا مفاد وابستہ ہو۔ ادارے کے کسی بڑے کو لالچ/رشوت دو یا ایک نمائندے کو سیگرٹ کی ڈبی سے خریدو یا تعلقات قائم کرو، تبھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر تم سوچو کہ مفت میں یعنی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے یا ملک و قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہو تو ایسا کچھ نہیں اور اگر ایسا سوچو تو یہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ غلط طریقہ میں اپنانا نہیں چاہتا تھا تو چپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ان میں اچھے لوگ بھی موجود ہوں مگر کم از کم میں ایسے کسی کو نہیں جانتا یا میرا اس سے رابطہ کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔
خیر وقت گذررہا تھا۔ کچھ سر پھرے لوگوں نے منظم ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت رضاکارانہ طور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ نہ کوئی حکومتی سرپرستی، نہ کوئی فنڈ اور نہ کسی کی طرف سے حوصلہ افزائی۔ مگر وہ سرپھرے اپنا جیب خرچ تک اردو کی خدمت میں لگا کر، اپنی بھری جوانی میں مغز ماری کرتے۔ مگر مجال ہے کسی اخبار یا چینل کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ اردو محفل ترقی کرتی رہی۔ پاک نیٹ اور القلم جیسے فورم وجود میں آئے۔ رضاکار دن رات محنت کرتے رہے۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ کے متعلق ایک کے بعد ایک تحقیق شائع ہوتی۔ آئے دن نئے سے نئے اردو فانٹ بنتے۔ کئی قسم کے نستعلیق فانٹ بن گئے، جن میں علوی نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قرآن پاک کے اردو ترجمہ والے چند سافٹ ویئر بنے اور نہایت محنت کے ساتھ قرآن پاک کے لئے برصغیری نسخ فانٹ بنانے کے ساتھ ساتھ قرآن کے متن کی سافٹ کاپی بھی تیار ہوئی۔ نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر جہاں بے شمار اردو ویب سائیٹوں پر استعمال ہوا وہیں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ تک نے استعمال کیا۔ انپیج سے یونیکوڈ کنورٹر بنے۔ اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک طرف سافٹ ویئر انجینیئر اردو سافٹ ویئر پر تحقیق کرتا تو دوسری طرف ٹائیپسٹ بن کر کاپی رائیٹ سے آزاد اردو کتابیں بھی ٹائیپ کرتا تاکہ انٹرنیٹ پر اردو مواد زیادہ سے زیادہ ہو۔ اردو والوں کی محنتیں رنگ لانے لگیں۔ آہستہ آہستہ اہم سے اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اس کارواں نے جس کے سب سے آخر پر میں ہوں یعنی میرا نام پانی پلانے والوں میں آتا، خیر اس کارواں نے 2011ء میں اردو کو اس مقام پر لا کھڑا کیا، جہاں پر عام صارف کے لئے تمام دروازے کھول دیئے۔ جس سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو بہتر انداز میں پڑھنے، ہر جگہ لکھنے اور اردو بلاگنگ جیسے کام اتنے آسان کر دیئے کہ آج ہر کوئی آسانی سے اردو لکھ سکتا ہے۔ اس کارواں نے اردو کے لئے بے شمار فانٹ اور سافٹ ویئر بنائے، اردو کمپیوٹنگ پر کتابیں لکھیں اور اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا۔ اوپر سے سب کچھ مفت میں رکھا تاکہ ہر کوئی اس سے استفادہ کر سکے۔ آج اکثر چینل جو خبروں کی ”اپڈیٹس“ چلا رہے ہیں ان میں اور ان کی ویب سائیٹوں پر جو اردو فانٹ استعمال ہو رہے ہیں یہ انہیں رضاکاروں کی محنتوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے دن رات ایک کر کے پاگلوں کی طرح اردو کے لئے کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف میڈیا گونگا بہرہ بنا رہا تو دوسری طرف میں نے اپنے اردو محفل کے اساتذہ کی تحقیق، تجربات اور کام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا تھوڑا سا حصہ بھی اردو کی خدمت میں شامل کر دیا۔ یاد رہے میرے ان اساتذہ کی فہرست کافی لمبی ہے کیونکہ میں نے جو بھی اردو کے متعلق کام کیا ہے اس میں سب سے زیادہ ہاتھ اردو محفل کا ہی ہے اور اردو محفل پر جس سے جو کچھ بھی سیکھا ہے اسے میں استاد مانتا ہوں۔ مجھے ان لوگوں کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، کئی ایک سے کئی معاملات میں ہے بھی اور سخت قسم کا ہے، مگر اردو کے حوالے سے حقیقت یہی ہے کہ اردو محفل میری استاد ہے۔
اپنے اساتذہ کی مہربانی سے جہاں میں نے اردو تھیم بنائے، اردو اور کمپیوٹر کتابچہ لکھا اور اردو کمپیوٹنگ کے متعلق دیگر کئی ٹیوٹوریل اور تحقیقی مضامین لکھے وہیں پر 2011ء کے شروع میں اردو اور بلاگ کتاب لکھ دی۔ یوں میری طرف سے اردو کے اس کام میں تھوڑا سا حصہ شامل ہو گیا۔ آپ لوگوں نےاتنی حوصلہ افزائی کی کہ اب تو میں اخبارات والوں سے ہرگز رابطہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر رابطہ کرتا تو ”مجھے“ ایسا لگتا جیسا میں ان سے حوصلہ افزائی یا شہرت چاہتا ہوں جبکہ جس (اللہ) سے جو چاہتا ہوں وہ مجھے ان سب سے بڑھ کر دے رہا ہے۔ جون 2011ء میں پاک اردو انسٹالر بن گیا۔ آپ لوگوں نے اتنی حوصلہ افزائی کی اور تعریفوں کے ایسے انبار لگائے کہ میں ان میں دبتا ہی چلا گیا۔ کسی دوسرے پر تنقید برائے تعمیر حتی کہ خرابی بیان کرنے کے متعلق تو جیسے میرے ہاتھ ہی کٹ گئے۔ ایک ایک لفظ کئی کئی دفعہ سوچ کر لکھنا پڑتا کہ کہیں کوئی تھوڑی سی بھی بات ہو گئی تو لوگ کہیں گے کہ اس نے اردو کے متعلق کام کیا ہے تو احسان جتا رہا ہے یا خود کو بڑا تیس مار خاں سمجھتا ہے۔اردو سے متعلقہ میڈیا اور اخبارات کے بارے میں کسی بات پر تو جیسے سانپ سونگھ گیا کیونکہ لگتا کہ اگر ذرا سی بھی بات کی تو یار لوگ سوچیں گے کہ یہ اپنی شہرت چاہتا ہے یا دوسرے کا حسد کر رہا ہے۔
میڈیا پر آئے روز ایجادیوں کی برات دکھاتے تو میں اس پر تحریر لکھتا، کمپیوٹر میں محفوظ کرتا، میڈیا کی جہالت پر ہنستا اور چپ چاپ اپنے کام سے کام رکھتا۔ زاہد حسین اور پھر واٹر کٹ پر میرا صبر جواب دے گیا اور پھر پچھلی لکھی ہوئی تحاریر کو ملا کر ایک تحریر ”میڈیا لایا ایجادیوں کی برات“ شائع کر ہی دی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کئی القابات ملے، گالیاں سنیں اور لوگوں نے ذاتی پیغامات میں یہاں تک کہا کہ ”انگور کٹھے ہیں“۔ اس سب کے باوجود دل میں کوئی بات نہیں آئی کیونکہ ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ویسے بھی آپ لوگوں نے حوصلہ افزائی کی تو سب باتیں بھول گیا۔
روزنامہ جنگ سے لے کر ایک عام اخبار تک، زیادہ تر اپنی ویب سائیٹوں پر اسی اردو محفل اور دیگر رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں روزنامہ ایکسپریس نے آخر کار اپنی یونیکوڈ ویب سائیٹ بنا ہی دی مگر انہوں نے بھی وہی اردو والوں کی محنتوں کا پھل کھانا شروع کر دیا۔ باقی میڈیا دیگر رضاکاروں کی محنتوں کا پھل کھا رہا تھا اس لئے میں اس کے خلاف نہیں بول سکتا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے جس کا وہ کام ہے اس نے کوئی معاہدہ کر رکھا ہو مگر ایکسپریس والوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کے خلاف میرے بنائے ہوئے اردو فانٹ انسٹالر کا نام بدل کر اسے اپنی ویب سائیٹ پر اپنے نام سے اپلوڈ کر دیا۔ یہ حرکت مجھے اچھی نہ لگی اور کیوں نہ لگی یہ بعد میں بتاتا ہوں۔ خیر میں نے اور آپ جیسے مہربانوں نے فیس بک پر خوب جم کر احتجاج کیا اور ایکسپریس والوں نے انسٹالر اپنی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ اگر ہمارے احتجاج نے اثر کیا تو وہ انسٹالر ہٹا دیں گے۔ خیر انسٹالر ہٹانے سے کیا ہوا؟
کیا یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی؟ کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟
پہلی بات کہ کیا اردو کی تشہیر رک گئی، تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اردو اپنا لوہا منوا رہی ہے اور ان اداروں کی مجبوری ہے۔ انہیں یونیکوڈ اردو استعمال کرنی ہی ہو گی اور یہ اس کا کوئی نہ کوئی ”جگاڑ“ ضرور لگائیں گے۔ لہذا ایسی کوئی بات نہیں کہ یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی۔
کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ایکسپریس والے صرف فانٹ انسٹالر اپنے نام سے ڈاؤن لوڈ کروا رہے تھے، جس سے صرف اردو بہتر انداز میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اردو کے قارئین تو پہلے ہی بہت ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ لوگ اردو لکھ نہیں پاتے اور سرچ انجن میں اردو میں تلاش نہیں کرتے اور اصل اردو ویب سائیٹ تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اردو لکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس کے لئے اگر ایکسپریس والے پورے کا پورا پاک اردو انسٹالر اور بے شک اپنے نام سے ہی شائع کرتے تو پھر بھی شاید ہم چپ ہی رہتے کہ چلو کسی بہانے سہی مگر اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔
اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟ جی اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ایکسپریس اور دیگر میڈیا والوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ جن رضاکاروں کو ہم فراموش کرتے رہے یعنی جن کے کام کو اہمیت ہی نہیں دی آج ہمیں انہیں کے کام کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ آج ہم انہیں کے فانٹس کے محتاج ہیں۔ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کو احساس ہوا کہ یہ سرپھرے اردو کے رضاکار جو سالوں پہلے سے چیختے چلاتے آ رہے ہیں یہ واقعی درست ہیں، اصل اردو یونیکوڈ ہی ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے یونیکوڈ اردو کی طرف آ رہے ہیں۔ دنیا کو پتہ چلا کہ ان پاگل رضاکاروں نے جو کیا وہ واقعی اہمیت رکھتا ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کو بھی تو پتہ چلے کہ یہ رضاکار کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ احساس تو ان سے پیار محبت سے بات کر کے بھی تو دلایا جا سکتا تھا۔ تو غور کیجئے بڑا عرصہ ان کے ترلے منتیں کرتے رہے کہ اردو محفل اور القلم ہیں، اردو کے رضاکار ہیں، خدا کے لئے ان کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی کے لئے دو بول ہی بول دو، کچھ ان کی حوصلہ افزائی ہو جائے گی تو کچھ لوگوں کو پتہ چلے گا اور مزید رضاکار اس کارواں میں شامل ہو جائیں گے اور یوں اردو کی ترویج آسان ہو جائے گی۔ مگر کسی اخبار کو توفیق ہی نہیں ہوئی۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے م بلال م جھوٹ بول رہا ہو۔ انہوں نے رابطے نہ کیے ہوں اور میڈیا کورضاکاروں کے کاموں کا پتہ ہی نہ ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ اوپر ایک فیکس کا مکمل حوالہ لکھا ہے آپ ایکسپریس والوں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرض کریں میں جھوٹ ہی بول رہا ہوں تو غور کریں جناب! یہ میڈیا والے اردو ویب فانٹ سرور، القلم، اردو محفل اور اردو کے رضاکاروں کی ویب سائیٹوں سے فانٹ اور انسٹالر ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کر سکتے ہیں تو کیا انہیں یہ سب کچھ کرنے والے سر پھرے لوگ نظر نہیں آتے؟ نبیل کا اردو ویب ایڈیٹر تو استعمال کر سکتے ہیں مگر نبیل کیا کوئی جن ہے جو انہیں نظر نہیں آتا؟ بڑے بڑے کالم نگار اردو بلاگوں کی تحاریر کی نقل مار سکتے ہیں مگر انہیں صاحب بلاگ کیوں نظر نہیں آتا۔ واٹر کٹ فراڈ پر ڈاکٹر عطاء الرحمان کے بعد سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں اردو بلاگستان تھا، اس میڈیا کو پوری دنیا نظر آ گئی مگر اردو بلاگستان کیوں نظر نہیں آیا؟ یہ چوروں کے بچے، کرک نامہ کی تحاریر تو چوری کر سکتے ہیں مگر انہیں فہد نظر کیوں نہیں آتا؟ حضور! مجھے بتائیے کہ سارا میڈیا دھڑا دھڑ ان رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہا ہے مگر اسے اردو کے رضاکار کیوں نظر نہیں آتے؟؟؟
مجھے ایکسپریس والوں کی حرکت اسی لئے بری لگی کہ جب رضاکار تم سے رابطہ کرتے تھے تو تب تم فراڈیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ اردو کے مجنوں (رضاکار) خون دیتے رہے ہیں اور تم چُوری (محنت) کو اپنے نام سے شائع کرو۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک طرف میڈیا فراموش کر رہا ہے اور دوسری طرف الٹا رضاکاروں کی محنت پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔ آپ خود سوچو کیا یہ حالات قابل برداشت ہیں؟ مسئلہ م بلال م کا نام نہ آنے کا نہیں مسئلہ ان رضاکاروں کی محنتوں کو فراموش کرنے کا ہے جنہوں نے اردو فانٹ بنائے ہیں۔
ایسی باتیں کریں تو یار لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ شہرت چاہتے ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شہرت نہیں چاہتے۔ اس کی وضاحت بعد میں کرتا ہوں۔ فی الحال یہ فرض کریں کہ شہرت چاہتے ہیں۔ تو بھائیو! اس میں کونسا جرم ہے۔ اپنا حق مانگ رہے ہیں، کوئی خیرات نہیں مانگ رہے۔ ہم تو بہت معمولی ہیں ہم شہرت کی چاہت کر لیں تو کوئی طوفان نہیں آنے والا۔ مگر یہ اتنی اتنی عظیم کتابیں لکھنے والے، یہ کالم نگار، یہ ایجادات کرنے والے، یہ بڑے بڑے عظیم قول کہنے والے، یہ سب کے سب بڑے بڑے اور عاجز لوگ کیا شہرت نہیں چاہتے تھے؟ اگر نہیں چاہتے تھے تو پھر اپنے کام کے ساتھ اپنا نام کیوں لکھ چھوڑا؟ کتابوں کے سرورق پر اپنی تصویر کیوں چھاپی؟ فلیمنگ نے پنسلین کے ساتھ اپنا نام کیوں جوڑا، اپنی دریافت کے ساتھ کسی ”پیٹر“ کا نام لکھ دیتا۔ یہ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کیوں لکھا، کوئی ”دتہ نامہ“ لکھ کر خود گم نام ہو جاتا۔ میں اردو کے رضاکاروں کو اور ان کے کام کو بڑے لوگوں کے اور ان کے کام کے ہرگز ہرگز برابر نہیں لا رہا بس یہ بتا رہا ہوں کہ بڑے بڑے عظیم لوگ بھی اپنے کام کے ساتھ اپنا نام ہی لکھتے لکھواتے آئے ہیں، تو اگر یہ اردو کے رضاکار اپنے کام کے ساتھ اپنا نام لکھوا لیں گے تو کونسا کوئی جرم کریں گے۔ اگر یہ میڈیا ان رضاکاروں کو کسی طرح کا بھی ”کریڈٹ“ نہیں دیتا تو آپ خود فیصلہ کیجئے، کون کس کا حق کھا رہا ہے اور کون اخلاقی جرم کر رہا ہے؟
نیکی کر دریا میں ڈال۔ میرے خیال میں ایکسپریس والی مہم میں ہم نے کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ او خدا کے بندو ہم انسان ہیں، کیوں ہمیں فرشتے بنانے پر تلے ہو۔ آخر کب تک بغیر حوصلہ افزائی کے کام کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہیں گے؟ اللہ والو! ہم عام انسان ہیں، کوئی پیغمبر نہیں۔ ایک طرف یار لوگ ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہم پر ہنستے ہیں کہ دیکھو کیسے سرپھرے پاگل ہیں جو اردو کے لئے اتنی محنت کر رہے ہیں بھلا اس کی بجائے کوئی دوسرا کام کرتے تو اب تک نوٹ چھاپ رہے ہوتے۔
واہ سبحان اللہ۔ یار لوگ فرشتہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں نے پاگل قرار دے دیا۔ ہم جائیں تو کدھر جائیں؟ ان حالات میں پیسے کے علاوہ کریڈٹ مانگ رہے ہیں تو اس پر بھی طعنے۔۔۔ یہ جو ہمیں پاگل قرار دیتے ہیں، انہیں تو میں خود پاگل سمجھتا ہوں۔ باقی کئی دفعہ یار لوگوں کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ان کا دل کر رہا ہے کہ یہ کام بھی کریں اور ساتھ ساتھ دیوار سے بھی لگے رہیں۔
او خدا کے بندو! جب سب کچھ آپ کے لئے بنایا ہے اور مفت میں رکھ دیا ہے، تو پھر جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ مگر جس نے محنت کی ہے کم از کم اس کے کام کے ساتھ اس کے نام کو تو برداشت کر لو۔ ادھر رضاکار تھیم بناتے یا اردو ترجمہ کرتے ہیں، اُدھر اس کا نام تھیم سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ واہ رہے معاشرے، تیری انوکھی اخلاقیات۔
یہ سب اس لئے لکھا تاکہ یار لوگوں کو احساس ہو کہ رضاکار بھی انسان ہیں، ان میں بھی خواہشات موجود ہیں۔ تعریف اور واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا، اس کے باوجود بھی یہ پیٹ بھرنے کے متعلق کچھ نہیں مانگ رہے۔ اگر مانگ رہے ہیں تو بس اپنے کام کے ساتھ اپنا نام اور یہ کوئی جرم نہیں۔
جیسا کہ پہلے لکھا، شہرت نہیں چاہے اور یہ نام اور شہرت والی بات تو فرض کی تھی کہ اگر کوئی کام کرتا ہے اور شہرت چاہتا ہے تو بھی یہ کوئی جرم نہیں۔ باقی کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں اس ”اردو“ میں ایسی کونسی طاقت ہے کہ ان رضاکاروں میں سے کبھی کسی کو سوائے دعاؤں کے کسی اور چیز کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا۔ نہ یہ پیسے کا تقاضا کرتے ہیں اور نہ ہی شہرت کا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے تقریباً آٹھ سالوں سے یہ لوگ محنت کر رہے ہیں۔ حکومت، میڈیا یا کسی بھی ادارے کی طرف سے کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی مگر پھر بھی کام کر رہے ہیں۔ کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائے۔ یہ تو بس اس م بلال م کا دماغ پھر گیا ہے جس وجہ سے یہ سب لکھ گیا ہے اور پتہ نہیں اس پر بھی اساتذہ سے نہ جانے کتنی ڈانٹ سنے گا۔
یار لوگو! اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو یہ جو آٹھ سالوں سے کام کر رہے ہیں کیا یہ غلط طریقہ اپناتے ہوئے چند پیسے لگا کر اپنی خبر نہیں لگوا سکتے تھے؟ کیا یہ کسی چینل پر نہیں آ سکتے تھے؟ سب ہو سکتا تھا، مگر کسی نے غلط راستہ نہیں اپنایا۔ اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو ایکسپریس کی واٹ لگانے کی بجائے ان کی خوشامد کی جاتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا مقصد اچھائی ہوتا ہے وہ برائی کا سہارا نہیں لیتے۔ بس اپنی منزل کی طرف اچھے طریقے سے چلتے رہتے ہیں۔
نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر نہ جانے کہاں کہاں استعمال ہو رہا ہے، اردو محفل کی وجہ سے کتنے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، سعود ابن سعید نے اردو ویب فانٹ سرور بنایا، امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا، جمیل نوری نستعلیق کی ٹیم نے فانٹ بنایا، شاکر القادری نے نت نئے اردو فانٹ بنائے، ابرار حسین نے انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر اور اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنایا، شاکر عزیر نے اردو ڈکشنری بنائی، اعجاز عبید نے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ اور پھر کئی اہم مسائل کے لئے تحقیق کی، اسی طرح اور کئی لوگوں نے کئی ایک کام کیے، اگر نام اور کام لکھنے لگوں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی۔ بس آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان رضاکاروں کو ایسا سب کرنے سے کیا ملا؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ ان میں سے کسی بندے نے پیسے یا شہرت کا تقاضا کیا ہو؟ یوں تو فورم کی ہوسٹنگ کے اخراجات اور اس کارواں کے سفری سامان کے لئے، جب بوجھ حد سے بڑھتا ہے تو کبھی کبھی ڈونیشن کی اپیل کی جاتی ہے، جیسا کہ ایک انقلابی اردو فانٹ ”تاج نستعلیق“ کے لئے کی جا رہی ہے۔ مگر میں ان ڈویلپرز اور تحقیق کاروں کی ذات کی حد تک پیسے یا شہرت کے تقاضے کی بات کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب آپ کو دیکھنے میں آسان لگ رہا ہو، باقی سب چھوڑیے کبھی ٹیوٹوریل اور تحقیقی تحریر لکھنے بیٹھیے گا تو پتہ چلے گا کہ دیکھنے میں چھوٹی سی تحریر کتنا وقت اور دماغ کھاتی ہے۔ ان لوگوں نے تو اتنے کام کر دیئے اور سب کے لئے مفت میں رکھ دیئے۔ جو لوگ تکنیکی پچیدگیاں جانتے ہیں وہ میری باتیں سمجھ رہے ہیں مگر جو نہیں جانتے ان کو بتاتا چلوں۔ یہ جو آج یونیکوڈ اردو ویب سائیٹیں نظر آ رہی ہیں اور لوگ چند کلک سے اردو ویب سائیٹ اور بلاگ بنا رہے ہیں، اس کے پیچھے اردو کے رضاکاروں کی بہت محنت شامل ہے۔
میں نے جب پاک اردو انسٹالر بنایا تو تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ پاک اردو انسٹالر کو ادھر ادھر اپلوڈ کر دیا سونے پر سہاگہ کہ میری پاک اردو انسٹالر والی تحریر کاپی کی اور اپنے نام سے شائع کر کے داد وصول کرتے رہے۔ میرے لکھے ہوئے ٹیوٹوریلز کاپی کیے اور اپنے نام سے شائع کر دیئے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک فورم والوں نے میری ایک تحریر میں جہاں جہاں اردو محفل کا ذکر تھا وہاں اپنے فورم کا نام لکھ کر شائع کر رکھی تھی۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ پر لکھی ہوئی کتاب تک لوگوں نے اپنے نام سے شائع کر رکھی ہیں۔ ایک جگہ پاک اردو انسٹالر پر ایک بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا، کسی نے پوچھا کہ کیبورڈ لے آؤٹ کا خاکہ چاہئے تو اتفاق سے ابھی اس بندے نے جواب نہیں دیا تھا کہ میں نے وہاں پر خاکہ پوسٹ کر دیا۔ میری پوسٹ ختم کر دی گئی کہ اس خاکہ میں کسی دوسری ویب سائیٹ کا واٹر مارک لگا ہوا ہے جبکہ جس پاک اردو انسٹالر پر وہ بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا وہ اسی واٹر مارک والی ویب سائیٹ کا بنایا ہوا ہے۔ مگر میں چپ چاپ پتلی گلی سے نکل گیا کہ چلو کسی بہانے سہی اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔ گوگل کی مہربانی سے میں ایسی کئی جگہوں تک پہنچا جہاں لوگ میرے کام کو استعمال کرتے ہوئے داد وصول کر رہے تھے بلکہ ایک جگہ پر تو میں خود اس بندے کو داد دے آیا کہ واہ واہ کیا خوب کام کیا ہے۔ 🙂 کبھی فرصت ملے تو خود گوگل کی خدمات لیجئے گا تو آپ کو پتہ چلے گا کہ لوگ کہاں کہاں اور کیا کیا کر رہے ہیں۔ اور تو اور لوگ دوسری ویب سائیٹوں پر پاک اردو انسٹالر اپلوڈ کر کے ان کا لنک دے دیتے ہیں مگر میری ویب سائیٹ کا لنک نہیں دیتے۔ یہ عوام حلوہ تو بڑے شوق سے کھاتی ہے مگر حلوائی کے نام سے ان کے پیٹ میں ”مروڑ“ پتہ نہیں کیوں پڑنے لگ جاتے ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کیا آپ نے آج سے پہلے میرے منہ سے کوئی شکوہ، شکایت یا شہرت کے بارے میں سنا؟ یار لوگ بتائیں جب بھی یہ اردو یا پاک اردو انسٹالر کی ترویج کے لئے بات کر رہے ہوتے ہیں تو میں نے کبھی کوئی ضد کی ہو؟ جب بھی بولا اس انداز میں بولا کہ یہ ہم سب کا ہے جو کہ واقعی ہم سب کا ہے۔ کبھی میری طرف سے اردو کے متعلق میرے کیے گئے کام پر کوئی سخت لفظ سنا؟ وہ جو میرے کام سے داد وصول کرتے پھر رہے ہیں، وہ بتائیں کیا میں نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات کی؟
اب آپ ہی بتاؤ اس سے زیادہ اور کس حد تک ”نیکی کر دریا میں ڈال“ پر چلیں؟؟؟
دوستو! اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ لوگ اپنا بچپنا دکھاتے ہوئے، یہاں تک ای میل کر دیتے ہیں کہ یہ جو تم سب کچھ اپنے نام سے شائع کر رہے ہو یہ کسی اور بلال کا تیار کردہ ہے۔ 🙂 مجھے ہنسی آتی ہے کہ واہ جی واہ،،، وہ بلال کوئی پاگل ہے جو اپنے کام میں میری ویب سائیٹ کا لنک دے گیا۔
اتنی باتیں کر دی ہیں اور تحریر بہت لمبی ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک آخری بات۔ دوستو! میں نے آپ میں سے کسی پر یا اردو پر کسی قسم کا کوئی احسان نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ میرے ملک اور اردو کے لئے بہتر تھا تو میں نے جو معمولی سا کام کیا وہ اپنی خوشی سے کیا اور اپنی طاقت کے مطابق کرتا رہوں گا۔ اس لئے خدارا میری باتوں سے یہ نہ سوچیئے گا کہ میں احسان جتا رہا ہوں۔ یہ ساری باتیں میڈیا اور ایسے لوگوں کے لئے لکھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ اردو کے رضاکار ”سستی شہرت“ چاہتے ہیں۔ میں اپنی ذات کے لئے کسی سے، کسی قسم کا کوئی تقاضا نہیں کر رہا کیونکہ مجھے جو چاہئے وہ میرا اللہ مجھے دے رہا ہے اور اس کے بعد آپ لوگوں نے ضرورت سے زیادہ حوصلہ افزائی اور عزت دے دی ہے، جو اتنی زیادہ ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی، اس لئے مزید کچھ نہیں چاہئے سوائے تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
باقی اردو کے متعلق جو کام ہے وہ آپ کے لئے ہی تو ہے۔ جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ پاک اردو انسٹالر کے بینر اپنی ویب سائیٹ/بلاگ پر لگائیں۔ ادھر ادھر خوب بانٹیں۔ ہر مال مفت ہے۔ 🙂 وہ جو ڈاؤن لوڈ لنک اپنی ویب سائیٹ کا دینے کا کہتا ہوں اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ میں نیا ورژن شائع کر چکا ہوتا ہوں مگر لوگ ادھر ادھر سے پرانا ورژن ہی ڈاؤن لوڈ کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ کئی جگہوں پر تو وہ شروع کا ورژن جس میں ایکس پی اور سیون کے لئے علیحدہ علیحدہ انسٹالر تھا وہ ڈاؤن لوڈ کروایا جا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے مطابق تو یہ ہر ونڈوز پر کام کرتا ہے مگر یہ میرے پاس تو نہیں کر رہا۔ یار لوگ تو ادھر ادھر اپلوڈ کر کے پتلی گلی سے نکل گئے ہوتے ہیں مگر پھر مجھے صارفین کو تفصیل سمجھانی پڑتی ہے اور ابھی تک سب سے زیادہ اسی بارے میں ای میلز ہوتی ہیں اور ان کے جوابات دیتے دیتے پانچ چھ گھنٹے نکل جاتے ہیں۔
ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ مزید کچھ نہیں چاہئے بس تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
دعا ہے کہ اردو کا یہ کارواں اپنی منزل کی طرف دھوم دھام سے چلتا رہے۔۔۔ آمین
آپ “نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ” کیے بغیر اردو کی خدمت کرتے چلے جائیں۔ آپ کو آپکی محنت کا صلہ اللہ تعالی ضرور دے گا۔ جب تک آپ جیسے لوگ موجود ہیں اردو کا یہ کارواں اپنی منزل کی طرف دھوم دھام سے چلتا رہے گا۔ انشاءاللہ
جناب آپ نے بہت اچھی تحریر لکھتے ہوئے میڈیا کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
اردو زبان کی ترویج ہماری قومی زمہ داری ہے۔ ہمیں لوگوں میں اردو کی ترویج کے لئے جذبہ ابھارنا ہوگا۔ اس مقصد کے لئے بہترین لکھاری پازٹیو پراپیگنڈا کے لئے کچھ کمئین بنائیں۔ اور تمام سوشل سائیٹس اور بلاگز کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اس اردو کی طرف راغب کریں۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا
یہ تو چلتی ہے خود جیلس بتانے کے لیے
بلال بھائی ، آپ صحیح بات کر رہے ہیں انٹڑنیٹپر بہت سے لوگ اپنا نام روشن کرتے ہیںآپکے نام سے میں بھی کبھی فیس بک کی کسی پروفائل پر جاتا ہوںتو وہاں عظیم فلسفی و دانشور انکل ٹام کے اقوال لوگوں نے اپنے نام سے چھاپ کر داد وصول کی ہوتی ہیں، حالانکہ بندے کو اردو ٹائپنگ تک نی آتی ۔۔۔ اصل میں ہماری قوم کا ظڑف بہت چھوٹا ہے یہ لوگ اتنی ہمت اور اتنا حوصلہ نہیںرکھتے اور شوخیاںمارنے کا اور نمبر ٹانگنے کا بہت ہی جگر ہے انمیں ۔۔۔ یہ ایک سوشل ایشو ہے اور میرے خیال سے بلاگستان کے ان لکھاریوںکو جو سوشل ایشوز پر لکھتے ہیںاسکو موضوعِبحث بنانا چاہیے ۔
السلام علیکم بلال بھائی
حقائق تو واقعی بہت زیادہ تلخ ہیں۔ ہمارے صاحبان اقتدار نے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسن کو نہیں بخشا ان کو اردو کی ترویج و ترقی کیلیے کام کرنے والوں سے کیا سروکار؟ ان کا اسلام، پاکستان اور اردو سے کیا تعلق؟ ان کا اوڑھنا بچھونا، ان کی زبان و ثقافت انگریزی تہذیب و تمدن ہے۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آدھے سے زیادہ ملک میں سیلاب، کراچی اور لاہور میں آتش زدگی میں ہونے والا قیمتی جانی نقصان۔۔۔ ڈرون حملے ۔۔۔ خود کش حملے ۔۔۔ لوڈ شیڈنگ۔۔۔ حکمران طبقے کی بے حسی۔۔۔ ا ب ہمیں اجتماعی توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔
اللہ آپکو جزائے خیر دے اور آپکی محنت کا صلہ دے۔ آمین
مرشد!
تو عظیم ہے۔ اللہ ہی تجھے اور دوسرے رضا کاروں کو جزائے خیر دے۔
کاپی رائٹس چور بلکہ ہر قسم کے چوروں سے خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ کیا کریں۔
اور ہاں ایک بات۔ ان اردو بلاگرز کا نام تو بتا دیجیو جن کی تحریروں کے چھاپے اردو اخبارات والے لگاتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ کل کو میری کسی پوسٹ کا چھاپا نیویارک ٹائمز نے دے مارا ، تو ہوگئی نا ساری محنت اکارت۔ 🙄
بلال بھائی زندہ باد x ∞
مجھے اور کچھ نہیںکہنا 🙂
بھائی آپ اپنا کام کریں۔
باقی ہمارا کام ہم کرتے ہی ہیں۔
آپ ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔اور ہمارے لئے یہی کافی ہے۔
بس مجھے ٹینشن اس وقت ہوئی تھی کہ
جب انتہائی نفیس انداز میں فیس بک پر ایکسپریس والوں کو
کھوتے دا پتر لکھا تو
بڑوں نے میل کرکے سمجھانا شروع کر دیا کہ
مجھے ایسا نہیں لکھنا چاھئے تھا۔
چلیں جی آئیندہ مزید “نفیس انداز” میں اپنا مدعا بیان فرمایا کریں گے
جہاں پناہ تُسی گریٹ او۔۔۔ تحفہ قبول کرو۔۔۔ 😆 ایڈئیٹس صرف کام اور کام کرتے ہیں، اور دنیا دیکھتے رہ جاتی ہے، انہیں پتہ آخر میں چلتا ہے، جب ایڈئیٹس کہیں نکل چکے ہوتے ہیں۔
مجھے یقین ہے آپ ایڈئیٹ کہنے پر ناراض نہیں ہوں گے۔ 😐
تحریر کے اختتام پر مجھے ایک فلم کا وہ جملہ یاد آگیا:
“بس کر پگلے، رلائے گا کیا؟” 😛
لیکن یہ میڈیا والے ڈھیٹ ایسے ہیں کہ یہ سب پڑھ کر بھی زرداری کی طرح دانت باہر نکال لیں گے۔ ایسے
اللہ پاک تمام رضا کاروں کو حوصلہ دے کہ وہ اسی طرح خلوصِ دل اور تندہی سے اچھے کام کرتے رہیں، اور صاحبِ اختیار لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین
بہت خوب کہا 🙂
بلال بھائی، میں ایک ایسا ہی مشورہ فیس بک پر بھی دینا چاہ رہا تھا لیکن کن الفاظ میں بیان کرتا سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
بل گیٹس نے ایک بنیادی کمپیوٹر بنایا جسے گھر میں استعمال کیا جا سکتا تھا، اس چیز کو اس نے اپنے کاروبار کا ذریعہ بنا لیا، ونڈوز کے لائسنس بنا کر اسے بیچنا شروع کر دیا، اس چیز میں پیسہ انوالو ہو گیا تو یہ چیز مشہور ہوئی، پیٹنٹ بن گئی، نہ صرف میڈیا بلکہ ہر کوئی اسکا ذکر کرنے اسے استعمال کرنے پر مجبور ہو گیا، آج اس کی ترقی آپکے سامنے ہے، اور بل گیٹس، جس نے اگرچہ یہ سب کچھ پیسہ کمانے کے لیے کیا، اسکا نام آج بڑی عزت سے لیا جاتا ہے۔
دوسری مثال سٹیو جابز کی ہے، جس نے کوئی نئی چیز دنیا کو دی، آئی فون، آئی پیڈ یا آئی پوڈ، لیکن اسے بزنس کے ساتھ انوالو کر دیا، اسے پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیا، آج ایپل تقریبا دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن چکی ہے اور سٹیو جابز کو ایک لیجنڈ کا درجہ ملا ہوا ہے۔
یہ دنیا مادیت پرست اور پیسے کی ہے۔ اردو کے رضا کاروں نے جب یونی کوڈ بنایا، فونٹ بنائے، اردو ویب ایڈیٹر بنایا، اردو انسٹالر بنایا، فورمز اور دیگر سکرپٹس کا ترجمہ کیا، انہوں نے اس چیز کو کیوں پیسے کے ساتھ منسلک نہیں کیا؟ یہ ان کی غلطی تھی، وہ اس چیز کو کاروبار کی شکل دیتے ، اس کو بیچتے، اس سے پیسے کما کر نہ صرف اس کو ایک بڑے کاروبار کی شکل دے دیتے جس سے مزید سینکڑوں افراد کو ملازمت ملتی اور اچھے انداز میں ان پراڈکٹس کی تشہیر ہوتی اور آج ان سافٹ وئرز کے خالق دنیا میں محترم ہوتے
اردو محفل کی ہوسٹنگ آج اسی پیسے سے ہو رہی ہوتی، اردو انسٹالر کا خالق آج اپنے دل کے زخم سب کے ساتھ شئر کرنے کی بجائے اسی پیسے سے ایکسپریس پر کیس کر دیتا اور ہرجانے کا دعوی کر دیتا۔میرے خیال سے تو یہی آج کی دنیا ہے۔اور یہی اس کا انداز ہے۔ اور اگر ان سبھی کاموں کو کاروباری انداز میں سوچا جاتا اور کیا جاتا تو یہ ان رضا کاروں کا دنیا پر ایک احسان ہوتا، کوئی بھی یہ نہ کہتا کہ انہوں نے یہ کام پیسہ کمانے کے لیے یا ذاتی مفادات کے لیے کیا ہے۔
پچھلے دنوں جب سٹیو جابز کی وفات ہوئی، ایک ایسے بندے کی بھی وفات ہوئی جو سی پلس پلس زبان کا خالق تھا اور میڈیا نے اس کی وفات کو کوئی اہمیت نہیں دی، یار لوگ فیس بک پر اس بات پر بھی رنجیدہ تھے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سٹیو جابز کا نام تو مجھے بھی معلوم ہے ، مگر سی پلس پلس کے خالق کا نام بھول گیا۔ ہا ہا ہا
محترم سی پلس پلس کے خالق زندہ ہیں۔
سی کے خالق کا انتقال ضرور ہوا تھا لیکن انہیں ان کی زندگی ہی میں بہت شہرت اور ستائش ملی، بل کلنٹن نے اعلی ترین اعزازت سے نوازا۔
والسلام۔
good idea
جناب یاسر عمران صاحب آپ نے بلال صاحب کو جو نصیحت کی کہ آپ کو معاملات میں بہر صورت پیسوں کو شامل رکھنا چاہئے تو اس ضمن میں میری گزارش یہ ہے کہ بلال صاحب نے صدقہ کیا اور وہ بھی بہت بڑا وہ یوں کہ وہ ایسی چیز کی پیدائش کا سبب بنے جو اس سے پہلے وجود ہی نہ رکھتی تھی اور جس کی پیدائش سے پورا ایک نیا جہان وجود میں آ گیا ایسا جہان جس کا تعلق ہمارے مستقبل کی بقا اور ہماری علمی زندگی سے تھا یعنی ہماری علمی موت واقع ہو سکتی تھی بحیثیت قوم کے اور جس کا نتیجہ فزیکل موت ہو سکتا تھا بحیثیت قوم کے اور اس تمام کے ساتھ ہمارا ماضی سے جڑا علمی ورثہ بھی اپنی موت آپ مر جاتا لہذا اللہ کے اس ولی نے جو کیا اس کی اہمیت عام آدمی نہیں سمجھ سکتا۔ در اصل بات یہ ہے کہ ہمارا بکاؤ میڈیا کیا جانے کہ خدا نے جو وسائل انہیں دے رکھے ہیں اگر ان وسائل کو انہوں نے اللہ اور اور اسکے بندوں کی خدمت کے راستے سے خدا کو خوش کرنے میں نہ لگایا تو جہنم کے حقدار ہوں گے کہنے کو باتیں تو بہت ہیں لہذا بقایا باتوں کو جاننے کے لئے میری کتاب کا مطالعہ کیجئے جو میرے بلاگ پر موجود ہے۔
برادر، کچھ لوگوں کا کام محض تنقید کرنا ہوتا ہے، ان سے دلبرداشتہ نہ ہوا کریں۔ تنقید صرف ان لوگوں کی کسی کام کی ہوتی ہے جو کسی مقصد میں خود آپ کے شانہ بشانہ ہوں۔ جن لوگوں کے کریڈٹ پر ایک دھیلے کا کام نہ ہو ان کی تنقید کے لیے سندھی میں ایک محاورہ ہے لیکن دائرۂ اخلاق سے باہر ہے 🙂
آپ لگے رہیں، یہ دیکھیں کہ تنقید کرنے والوں کے مقابلے میں جو لوگ آپ کی حمایت کر رہے ہیں، وہ کیسے لوگ ہیں؟ اگر وہ اچھے لوگ ہیں تو پھر آپ کو گھبرانے کی ضرورت ہی نہیں۔
اللہ آپ کو مزید ہمت و جرات دے اور حوصلہ عطا فرمائے اور آپ ایسے ہی اردو کے لیے کام کرتے رہیں۔
اچھا کیا جی بھر کر اپنی بھڑاس نکال لی ۔۔
مگر آخر میں اللہ کے ہاں اجر سے نا اُمید مت ہویے گا کہ رب کریم کا فرمان ہے :
کہ وہ کسی نیکی کرنے والے کی نیکی کو ضائع نہیںکرتا ۔
لہذا حوصلہ بلند کرتے ہوئے اپنے مشن کو جاری وساری رکھیں ، اللہ تعالیٰ آپ کا حامی وناصر ہو۔
لکھنا ایک آب حیات ہے
کہ بندہ مر کے بھی ناں مرے
کیسے ؟
کہ اس کا نام زندہ رہے
جو کام کیا ہے اس پر شاباش کی بھی امید ناں رکھیں
تو کا کیا آمبھ لینے کو کیا تھا جی؟
کھل کر لکھیں
جس جس نے جو کام کیا ہے اس کی تعریف کریں
آئیں ایک دوسرے کی تعریف کریں
اپنی تعریف کریں
بس جھوٹ نہیں بولیں
ناں خود سے ناں دوسروں سے
اپ نے جو کام کیا
میں اس کا معترف ہوں
جو کام بلال نے کیا
جو علوی صاحب نے کیا جو نبیل صاحب نے کیا
جو نا رہ گئے ان سے معذرت کے ساتھ
کہ اپ سب لوگ اس دور کے
منفرد لوگ ہو
کام کرو جی اور اپنے نام کو بھی اجاگر کرو
میں اپ لوگوں کے ساتھ ہوں
خلوص بے لوثہے
لیکن یاسر عمران کی رائے سے متفق ہوںکہ ایجادات کو کاروبارسے مسنلک کریں
میں پربتوں سے لڑتا رہا اور چند لوگ
گیلی زمین کھود کر فرہاد ہو گئے
محترم بلال صاحب فرہاد تو وہی ہو گا جو سنگلاخ چٹانوں کو چیر کر دودھ کی نہر بہا دے اور یہ گیلی زمین کھودنے والے گورکن تو بن سکتے ہیں فرہاد نہیں۔
کارواں جب چلتے ہیں تو دھول بھی اُڑتی ہے ایسا کوئی قافلہ نہ ہو گا جو غبار کے ڈر سے ٹھہر جائے تو چلتے رہیئے اللہ پاک کا نام لے کر آخر میں باوقار وہی ہو گا جسکی ریاضت سچی ہو گی۔
ابوشامل نے لکھا
“۔۔۔۔آپ لگے رہیں، یہ دیکھیں کہ تنقید کرنے والوں کے مقابلے میں جو لوگ آپ کی حمایت کر رہے ہیں، وہ کیسے لوگ ہیں؟ اگر وہ اچھے لوگ ہیں تو پھر آپ کو گھبرانے کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔۔۔”
میں آپ کا حمایتی ہوں سو اب بالکل نہیں گھبرانا۔
آپ نے اوپر جو لکھا ہے جی وہ بلکل درست لکھا ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔
آپ کی اس بات سے تو میں اتفاق کرتا ہوں جی کہ آپ کے کاموں کی تعریف ( دوسرے بلال ) جن میں ایک میں بھی شامل ہوں ، میرے پاس بھی آتی رہتی ہے ۔ میں لوگوں کو بتا بتا کر آپ کے لنک دے دے کر تھک جاتا ہوں کہ کام میں نے نہیں کیا م بلال م نے کیا ہے ۔ مگر مجال ہے اثر پڑتا ہوں ، مجھے زبردستی منوانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کام تم نے ہی کیا ہے ۔ خیر میں ان سب کو آپ کے بارے میں بتاتا رہتا ہوں ۔ لیکن مجھے امید کم ہی رہتی ہے کہ وہ آپ سے رابطہ کرکے آپ کے کام کی تعریف کرتے ہوں گے ۔ کیوں کہ لوگوں کا جس نے جو کام کیا ہوتا ہے اس بندے کی تعریف کرتے وقت کچھ ہوتا ہے ۔ نہ جانے کیوں ؟
السلام علیکم۔۔۔
بہت خوشی ہوئی یہ جان کر میںاردو میںنئی جان ڈالنے والے رضاکاروں اور ان کے نمائندے کی تحریر پڑھ رہا ہوں۔۔۔ وطن عزیز میں دوسرے کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی جو روایت ہے اس میں نئے زمانے کے ساتھ تجدید سی ہوتی جارہی ہے۔۔۔ صحافیوں کے رویے جان کر بہت افسوس ہوا لیکن ان سب سے اس کے سوا کوئی اور توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔۔۔ انہی حالات اور رویوں کے باعث ہمارے ملک کے بیشتر ذہین اور قابل افراد ملک چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہیں(جو میرے خیال میںمسئلے کو ان کے لئے بھی اور باقی رہ جانے والوں کے لئے بھی مزید سنگین بناتا ہے) آئے تمام لوگ یہاںیہ عہد کریں کہ آئندہ اپنے ہموطنوںکی کاوشوں کا، خواہ وہ کسی بھی شعبے میںہوں، احترام کریں گے اور ان کو چوری نہیںکریں گے۔۔
السلام علیکم!
ویسے تو میں ایک قاموش قاری ہوں اور کبھی قلم کو جنبش نہیں دے سکا لیکن یہ جو مسئلہ زیر بحث ہے انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔
آپ اپنا بہترین کام جاری رکھیے یہ نقاد لوگ ایک دن خود حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے انشاءاللہ۔
آپ کے ساتھ لاکھوں لوگوں کی دعائیں ہیں۔ اور ایک مشورہ ہے کہ اب رعایت ختم کر دیجئے خاص طور سے کسی بھی گروپ کے ساتھ۔ جو کوئی کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کرے اس کے خلاف لیگل کاروائی کی جائے تاکہ کسی کی محنت پر غاصب ہونے والے یہ ‘جن’ قابو کیے جا سکیں۔
کاپی رائیٹ اور پاکستان؟ سپیشلی چور پاکستانی قوم؟ 😯
یو مسٹ بی کڈنگ مین
عرب کہتے ہیں
من لا یشکر الناس، لا یشکر اللہ – جو شخص لوگوںکا شکر ادا نہیںکر سکتا، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیںہوا کرتا
بلال بھائی، ہم آپ کی محنت کے معترف اور قائل ہیں۔ آپ کے شکر گزار ہیںکہ اردو کو کمپیوٹر پر لکھنا، پڑھنا اور بلاگنگ کرنے کو اتنا آسان بنایا۔ جزاکم اللہ خیرا باحسن الجزاء۔
کیا ہو گیا ہے جوان ؟ اتنی لمبی داستان لکھنے کی کیا ضرورت پیش آئی ۔ آپ اپنا ذوق و شوق پورا کرنے کیلئے کام کرتے ہیں تو کرتے رہیئے اور اپنا رانجھا راضی رکھیئے ۔ کیا آپ نے سکول میں خراسیئے اور اس کے گدھے کی کہانی نہیں پڑی تھی ؟ آپ اس کی طرح تو نہ بنیئے
چونکہ میں بھی گزشتہ کچھ سالوں سے یونیکوڈ اردو استعمال کر رہا ہوں اور اردو محفل کا ممبر بھی ہوں ، کسی قدر جانتا ہوں کہ آپ احباب کی محنت نے کیا رنگ بکھیرے ہیں۔ یقینا یہ آپ لوگوں کی محنت و حوصلہ قابل ستائش ہی محض نہیں بلکہ شکریہ کا حق رکھنے کے ساتھ ساتھ رضاکارانہ ساتھ کا بھی اہل ہے۔
اب میں اور کیا کہوں چوروں کے بچے چور ہی نکلے۔
اہل جنوں اور تجار میں یہ تو فرق ہے جو تاریخ کے کسی بھی دور میں مٹ نہیں سکا۔ پٹ نہیں سکا۔ اور اس دنیا میں رنگ و بو اہل جنوں کی مرہون منت ہے۔
موجد ۔ محقق ، تخلیق کندہ ۔ کے ساتھ بہت ظلم ہے کہ اسکی تخلیق کا کریڈت کوئی اور اپنے نام کر لے۔ جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کو جنم دے کر ستائش کی امیداوار ہوتی ہے اسی طرح ایک تخلیق کندہ بھی اپنی تخلیق کے ساتھ جب اپنا نام دیکھتا ہے تو اسے اپنی محنت کا پھل مل جاتا ہے۔
پاکستان کا میڈیا دنیا کا شاید بونا ترین میڈیا ہے۔ بڑے بڑے نام مگر ایک ہی ملاقات میں اپنے سبھی آدرش سبھی اصول بھول جانے والے کاغذ سیاہ کرنے والے کالم نگار۔ جن کی اوقات ہی ایک پلاٹ یا ایک لفافہ ہوتا ہے۔ جنکے درشن بڑے اور کام چھوٹے۔
اسی لئیے تو ہم جعفر بھائی کو اس لئیے بھی دل کھول کر داد دیتے ہیں کہ وہ صحیح معنوں میں انکی واٹ لگاتے ہیں۔
یاسر بھائی بھی دیسی دوائی کے قائل ہیں اور انہوں نے آپ سے محبت کی وجہ سے ایکپریس کے خلاف اپنا ہاتھ کچھ زیادہ ہی دیسی کر دیا تھا۔ اور دیگر بہت سے لوگوں نے اس بات کو عام کیا ور خوب کیا۔یہ عزت اور یہ محبتیں۔ جن کا کوئی مول نہیں یہ بھی اللہ کا ایک خاص انعام ہوا کرتا ہے۔ جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتا۔ خوش رہئیے۔
محترم! اللہ تعالیٰ آپکو اور آپکے دیگر ساتھیوں کو دن دگنی اور رات چوگنی ترقی دے۔اور کبھی اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے۔
نیرینگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
برادر گرامی قدر م بلال م !
آپ کی وجہ سے تھوڑی سی داد وصول کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہے۔ ہمارے فورم پر بہت سے دوست یہ سمجھتے تھے کہ م بلال م ، ہمارے ملک بلال بلال بھائی ہیں۔
وہ تو جب میں نے آپ کے بلاگ کا اور انسٹالر کا لنک لگایا اور تفصیلی تعارف کروایا تو یار لوگوں کے پلے بات پڑی۔ اور میں مفت کی تعریف حاصل کرنے سےمحروم ہو گیا۔ 😐
آپ کے اور میرے احساسات کافی ملتے جلتے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے میں کمپیوٹر پر پہلی بار اردو “سرخاب” اور “کاتب” نامی DOS بیسڈ سافٹ ویئرز میں دیکھی اور لکھی۔ “سرخاب” شاید نسخ میں لکھتا تھا اور “کاتب” نستعلیق میں۔ یہ Windows 3.1 کا زمانہ تھا۔ کمپیوٹر پر اردو نے تب ہی سے مجھے مسحور کر رکھا تھا۔ بعد میں اور چیزیں آتی گئیں۔ اور مجھے بھی کمپیوٹر کی کچھ شدھ بدھ حاصل ہوتی گئی۔ Windows 95 اور اس کے بعد Windows 98 نے ڈیسک ٹاپ پبلشنگ کے لیے نئی راہیں کھولیں۔ Inpage آیا۔ ان دنوں میری توجہ کمپوزنگ و ڈیزائننگ کی طرف مبذول ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ تجربات بھی جاری تھے۔ ڈیزائننگ کے لیے ان دنوں Inpage کے ساتھ Corel DRAW 5.0 استعمال ہوتا تھا۔ اس میں کئی طرح کے مسائل تھے۔ مثلا جو ٹیکسٹ Inpage سے Corel میں لایا جاتا اس کا فانٹ تبدیل نہیں ہو سکتا تھا۔ یا پھر سے Inpage کی مدد لینا پڑتی تھی۔ میں نے اس پر قابو پایا ۔ اس کے علاوہ Inpage کا کام اگر Corel کی کسی فائل میں موجود ہوتا تو اس فائل کو کھولنے سے پہلے Inpage کھولنا لازمی ہوتا تھا۔ اس جھنجٹ کو بھی حل کیا۔ اس زمانے میں یونیکوڈ کا شاید تصور نہیں تھا یا شاید مجھے علم نہیں تھا۔ لیکن میرا دل کرتا تھا کہ Inpage کے بغیر بھی میں Corel میں اردو لکھ سکوں یا MS Word میں اردو مواد کی سیٹنگ کر سکوں کیوںکہ Inpage کی نسبت Word میں سہولیات کافی تھیں۔ آخر کار میں Corel میں اردو لکھنے میں کامیاب ہوا جس میں سب سے بڑا مسئلہ کرسر کو دائیں سے بائیں چلانا تھا، یہ کیسے حل کیا یہ بتاؤں تو آپ لوگوں کو بہت ہنسی آئے گی اس لیے فی الوقت اسے رہنے دیں۔ اور Word میںبھی اردو مواد کی سیٹنگ وغیرہ کا “جگاڑ” لگایا۔ (معذرت اس وقت “جگاڑ” کے متبادل لفظ سمجھ میںنہیںآ رہا۔) حتیٰ کہ Windows کے 3D Text والے سکرین سیور میں Inpage کے مختلف فانٹس کے ساتھ “پاکستان زندہ باد” لکھا دیکھ کر بہت سے لوگ حیران ہوتے۔ آج کے زمانے میںیہ باتیں کچھ زیادہ کارنامہ نہیںلگتیں لیکن تب یہ لوگوں کے لیے بہت حیران کن تھا۔ آمدم برسرِ مطلب! ان باتوں کا مقصد اپنے لیے تعریف کے پل بندھوانا نہیں ہے۔ بلکہ یہ باتیں میں نیٹ پر آنے کے بعد پہلی دفعہ لکھ رہا ہوں۔ لیکن آپ کی تحریر پڑھ کر میرے دل کے کچھ زخم بھی تازہ ہو گئے۔ میں نے اس زمانے میں اردو کے حوالے سے ایسے کئی کام کیے جس سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اچھا خاصا مالی فائدہ بھی حاصل کیا۔ جیسا کہ فلیش میں اردو بطور ٹیکسٹ استعمال کرنے سے فلیش کہ وہ تمام ایفیکٹس جو انگلش ٹیکسٹ کے لیے مختص تھے اردو کے لیے بھی کام کرنے لگے۔ ٹی وی اشتہارات اور مووی مکسنگ کرنے والے کئی لوگوں نے میری ایسی کاوشوں سے فائدہ اٹھایا لیکن میرا حوصلہ بھی اسی جگہ پر آ کر ٹوٹا جب بہت سے لوگوں کو ان چیزوں کو اپنی کاوش اور محنت کہہ کر استعمال کرتے دیکھا۔ تب سے بس بریک لگ گئی۔۔۔۔۔!!! 🙁
ایک بار اردو محفل پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں اردو پر کئی پراجیکٹس ڈسکس ہوتے دیکھے ، بہت خوشی ہوئی کہ یہاں سب لوگ کتنی محنت سے اردو کی ترویج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ایک ٹاپک جو شاید Urdu Voice Recognition پر تھا، دوست احباب ڈسکس کر رہے تھے۔ میں نے یہ کام بھی Windows 98 کے زمانے میں کر لیا تھا اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی تھی۔ لیکن اس پراجیکٹ کو مکمل کرنے کے لیے بہت سا ٹائم اور محنت چاہیے تھی۔ لیکن جب ایسے معاملات میرے سامنے آئے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں تو میرا دل ٹوٹے ٹوٹے ہو گیا اور اس کام کو بھی ادھورا ہی چھوڑ دیا۔۔۔۔ 🙁 باتیں اور تجربات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔ حسرت ہے ان غنچوں پہ
خیر اب تو کمپیوٹر کی فیلڈ کے ایک شعبے میں گھس چکا ہوں کہ ایسے کسی کام کے لیے وقت نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھتا ہوں۔ لیکن اردو زبان سے محبت اور کمپیوٹر پر اس کی ترویج و ترقی میں آپ دوستوں کی محنت دیکھتا ہوں تو یقین مانیے دلی خوشی ہوتی ہے۔ خاص کر آپ نے جو کارنامہ اردو انسٹالر کی شکل میں سر انجام دیا یہ یقینا زریں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ بہت سے لوگ جو اپنے کمپیوٹر کو اردو زبان سکھانے کو ایک پیچیدہ عمل سمجھ کر اس سے دور رہتے تھے اب بہت اچھے سے اردو بلکہ پنجابی (شاہ مکھی) لکھتے ہیں۔
رہی شہرت والی بات ، تو وہ کسے اچھی نہیں لگتی۔ لیکن ان میں آپ جیسے پیارے لوگ بھی شامل ہیں جو شہرت کی لالچ کے بغیر اپنے کام میں مگن ہیں۔ لیکن یہ بات بھی تو بڑی زیادتی ہے کہ ایک انسان کی محنت کا پھل دوسرا کھائے اور نام بنائے۔ کم از کم اخلاقی تقاضہ تو بنتا ہے کہ جس بندے کی محنت ہے اس کا تذکرہ کیا جائے۔ میں اس سارے معاملے میں آپ کی مکمل تائید کرتا ہوں۔ بلکہ میرا حقیر سا مشورہ ہے کہ آپ لوگ جو اردو زبان کی ترویج کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں مل بیٹھ کر کوئی ضابطہ عمل طے کریں کہ آئندہ ایسے معاملات کا کوئی سدِ باب ہو سکے۔
خوش رہیں
بہت جئیں
والسلام مع الاکرام
ایم بلال ایم بھائی میں تو یاسر عمران کے مشورئے سے اتفاق کرتا ہوں۔
میں نے اکثر اخباروں میں یہ بات دیکھی ہے کہ وہ لوگ انٹرنیٹ بلاگ سے کاپی کرکے اخبارات میں لگا دیتے ہیں۔ لیکن اسکا یہ حل نہیں جو کہ آپ فیس بک کے ذریعےاحتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔بھائی آپکو اپنی تخلیق کردہ پاک اردو انسٹالر کو پیٹنٹ کرنا چاہئے تھا (اسی طرح دیگر اردو کی خدمت کرنے والے ساتھی)،
میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس طرح میرئے ساتھ ہوا ہے۔
ایک جگہ میں ایک کورس فری کروا رہا تھا ،آپ یقین نہیں کریں گے کہ لوگ مارکیٹوں میں ،بازاروں میں میری نقلیں اتارتے تھے۔وہ میرئے کورس پر ہنستے تھے۔جب مرضی ہوتی آجاتے ،جب مرضی ہوتی چلے جاتے۔
اس وقت ایک بندہ خدا نے مجھے کہا کہ جناب آپ نے بڑی غلطی کی ہےجو کہ فری کورس شروع کروادیا ہے ،فیس اسکا ضرور ہونا چاہئے تھا۔
تو جناب وہی یاسر عمران والی بات کہ ہمیں پیسے چاہئے ،آج کل کی دنیا میں کوئی گھاس کھا کر گذارا نہیں کرتا ،بلکہ اچھی زندگی کیلئے کبھی کبھی پیسوں کی اشد ضرورت ہوتی ے۔پیسہ ہوتا ہی مشکلات کے سدباب کیلئے ہے۔
یہ کیا ہوا کہ کبھی ایک چندے کی اپیل کرتا ہےبھی دوسرا۔آج کل کے کام ان معمولی چندوں سے نہیں بلکہ مضبوط معیشت سے ہوتے ہیں۔
پیسے چائے تاکہ ایک مضبوط وکیل ہو اگر اردو بلاگستا ن یا اردو محفل کا ہی کیوں نہ ہو ایک علیحدہ وکیل رکھا جائے،ایک دو پر مقدمہ تو سب سیدھے ہو جائیں گے۔
کچھ ساتھی کہیں گے کہ یہ درویش خرُاسانی لڑنے لڑانے کی بات کرتا ہے تو جناب اپنےحق کا تحفظ نہین کرو گے تو یہی حال ہوگا جو ابھی ایم بلال کا ہے ،ایک پوسٹ لکھ کر ،فیس بک میں گالیاں دئے کر کیا ہوا، یہ تو عورتوں والے کام ہیں جو کہ ہم کر رہے ہیں۔
مرد میدان میں لڑتا ہے ، اور وہ جب لڑتا ہے تو پھر کمینی گالیوں کی نوبت ہی نہیں آتی،
آخر میں وہی بات کہ پیسہ کماو اور مقدمہ کرو۔ کیس لڑاو۔
اور ایک دوسری بات کہ جب کیس لڑو گے تو ظاہر ہے میدان میں اتروگے ،تو بس انٹرویو پر انٹرویو ہونگے ،کوئی ضرورت ہیں نہیں ہوگی ،میڈیا کو فیکس اور ایمیل کرنے کی۔
کام واقعی آپ نے اردو کی خدمت کیلئےاور اللہ تعالیٰ کی رجا کیلئے کیا ہے ،لیکن کاش پیسے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اردو کی خدمت کیلئے کماتے تو کیا ہی ا اچھا ہوتا،آج آپکے اس درد دل سے بھرئے کالم کے بجائے کسی مقدمے کی رووداد پر مشتمل پوسٹ ہوتی۔
شکریہ درویش بھائی۔ ایک اور نقطہ کا اضافہ کرنا چاہوں گا، ان مفت دستیاب سافٹ وئرز کو پیسے سے منسلک کرنا کسی طور پر بھی لالچ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ معاشرے کی نفسیات ہی ایسی ہے جو چیز فری ہے اس کی کوئی قدر نہیں۔ مثال کے طور پر ایک خاتون کراچی میں کھانا گھر چلا رہی ہیں، جو ایک وقت کا کھانا فقط دو یا تین روپے میں مہیا کرتی ہیں۔ دوران انٹرویو اس خاتون نے کہا، کہ ظاہر ہے ایک وقت کے کھانے کی لاگت دو یا تین روپے نہیں ہوتی، یہ کھانا گھر ڈونیشنز یا فنڈز سے ہی چلتا ہے تاہم اگر ہم دو روپے لینا بند کر دیں اور مفت میں کھانا تقسیم کرنے لگ جائیں تو کھانا ضائع ہونا شروع ہو جائے، ہر کوئی بندہ جی بھر کر پلیٹ بھرے اور دو تین چار لقمے لگا کر چل دے۔ مجھے حیرانی ہے کہ جو بات ایک عام سی خاتون جان سکتی ہے وہ اردو کے رضا کار کیوں نہیں جان پائے۔
اردو ویب ایڈیٹر کے سافٹ وئر کا اگر لائسنس بنا دیا جائے اور ہر کسی بلاگر اور ویب سائٹ مالک سے اس لائسنس کی قیمت کے طور پر 500 روپے لے لیے جائیں تو نہ آپ لوگوں کو ہوسٹنگ کے لیے ڈونیشن مانگنے پڑیں اور نہ ہی کسی نئے پراجیکٹ کے لیے فنڈ ریزنگ کرنی پڑے۔
پہلے تو معذرت کہ اصل موضوع پر ابھی تک رائے نہیں دی۔ کیونکہ فی الحال میں صرف سب کی آراء کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
فی الحال تبصرہ اس لیے کر رہا ہوں تاکہ ایک غلط فہمی کا اذالہ کر دوں۔ پاکستان میں سافٹ وئیر پیٹنٹ نہیں ہو سکتا۔
http://ipo.gov.pk/patent/Default.aspx#UnPatentable%20Inventions%20In%20Pakistan
امریکہ میں جہاں سافٹ وئیر پیٹنٹ ہو سکتا ہے، وہاں کی سافٹ وئیر انڈسٹری کا حال دیکھ لیں کہ جہاں تخلیق کے عمل سے زیادہ مقدمہ بازی کے ذریعے پیسے کمائے جاتے ہیں۔
جن واقعات سے آپ کو شکایت ہے، ایسے واقعات سے بچینے کے لیے پیٹنٹ سسٹم کی حمایت کرنا اور ہر چیز کو قابلِ پیٹنٹ قرار دلوانے کی تحریک چلانا بھی حماقت ہوگی۔ کیونکہ اس میں ہم سب کا مجموعی نقصان زیادہ ہوگا۔
محمد سعد بھائی میرئے علم میں اس بات کے اضافے کا شکریہ۔
لیکن یہاں پیٹنت سے میرا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا طریقہ ہو کہ جس میں بندہ اپنی محنت کو محفوظ کر سکے۔مجھے اَن باتوں کا زیادہ علم تو نہیں لیکن اگر اردو کی خدمت کرنے والے دوست اس سلسلے میں غور و فکر کریں تو شائد کوئی ایسا پہلو نکل آئے کہ جس سے بندہ کی محنت محفوظ رہ سکے ،اگر محفوظ نہ بھی ہو تو کم از کم کوئی دوسرا تو اسکو اپنے نام نہ کرواسکے۔
اس سلسلے میں اگر وکلاء سے مشورئے لئے جائیں تو برا نہ ہوگا۔اردو محفل والے اگر مشترکہ طور پر اس پر غور کریں تو ضرور کوئی حل مل جائے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ
دیکھیں جی، حل تو سادہ سا ہے۔
http://creativecommons.org
لیکن اصل مسئلہ قانون کی عملداری کا ہے۔ اگر کرئیٹو کامنز لائسنس کے تحت کوئی چیز ہو تو لوگ اس کا فائدہ بھی اٹھا سکیں گے اور اگر کوئی اور اس کا استعمال کرتا ہے تو اصل شخص کو کریڈٹ بھی دینا پڑے گا۔ لیکن اگر قانون کی عملداری ہی نہ ہو تو پیسوں پر بیچنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ دو نمبر طریقے اور چور دروازے ہمیشہ موجود رہتے ہیں، جن سے صد فیصد نجات ممکن نہیں۔ ایسے ہی غیر ضروری طور پر عام لوگوں کے لیے پریشانی پیدا کرنا درست نہیں۔ یہ کام ابتداء میں ہوا ہی اس لیے تھا کہ عوام کو سہولت ہو۔ ورنہ جس کے پاس پیسہ ہو، وہ تو وہی پانچ سو روپے کسی ٹیکنیشن کو دے کر اس سے بھی تنصیب کروا سکتا ہے۔
محمد سعد بھائی میرئے علم میں اس بات کے اضافے کا شکریہ۔
لیکن یہاں پیٹنت سے میرا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا طریقہ ہو کہ جس میں بندہ اپنی محنت کو محفوظ کر سکے۔مجھے اَن باتوں کا زیادہ علم تو نہیں لیکن اگر اردو کی خدمت کرنے والے دوست اس سلسلے میں غور و فکر کریں تو شائد کوئی ایسا پہلو نکل آئے کہ جس سے بندہ کی محنت محفوظ رہ سکے ۔اگر محفوظ نہ بھی ہو تو کم از کم کوئی دوسرا تو اسکو اپنے نام نہ کرواسکے۔
اس سلسلے میں اگر وکلاء سے مشورئے لئے جائیں تو برا نہ ہوگا۔اردو محفل والے اگر مشترکہ طور پر اس پر غور کریں تو ضرور کوئی حل مل جائے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ
بلال بھائی،
دل جل گیا ہے سب کچھ پڑھ کر سن کر۔ بس اللہ پاک آپ کو ہمت حوصلہ دے، اور آپ کبھی بھی اردو بلاگ اور ہم لوگوںکو چھوڑنے کی بات نہیں کرتا، ان بد بخت کمینے اور ذات کے چور ، اچکا لوگوں کی وجہ سے دل تھوڑا نا کریں،
“بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔
ہم بہت سارے لوگ آپ کو پیار کرنے والے ہیں، آپ کی باتیں اور آپ کی کوششیںہمارے لیئے مشعل راہ ہیں۔ اردو کے لئے اگر ہم لوگ کچھ نہیں کریںگے تو کون کرئے گا۔ پہلے ہی ہماری قومیت داغ دار ہو چکی ہے قومی اساسے برباد ہو چکے ہیں، قوم کنگال اور بے حال ہے اوپر سے قومی زبان کے لیئے کی جانے والی کوششیں اور آپ جیسے مخلص لوگ بھی اگر دلبرداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ گئے تو کیا بنے گا۔
آپ کچھ ایسا طریقہ کار اختیار کریں کے لوگ ایسی حرکتوں سے باز رہیں، یاجو ایسا کرتا ہے وہ پکڑا جائے ، پھر ایسے بندے کو ہم سب ملکر آڑے ہاتھوں لیں گے۔
پلیز، آپ جانے کی بات مت کریں۔
اور ہاں میرے لائق کوئی بھی کام ہو ، یا میں کچھ کر سکتا ہوں تو ضرور یاد کیجئے۔ آپ اس قافلے میں بالکل اکیلئے نہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں، انشاء اللہ
فقط آپ کا ادنٰی بھائی۔
راشد ادریس رانا
بلال صاحب، آپ کے جذبات اور احساسات کی دل سے قدر ہے۔ اتنی محنت و مشقت کے بعد صلہ کچھ بھی نہ ملے تو آپ سے ایسی تحریر کی بجا طور پر توقع کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہماری دلی دعاؤں کے ساتھ یہ پُر خلوص مشورہ بھی ہے کہ آپ اسی طرح اسی یقین و اعتمادکے ساتھ اپنا کام جاری رکھئے اور خاطر جمع رکھیں آپ کی محنتوں کا ثمر چرانے والوں کی نسبت آپ کےخلوص، بے لوثی اور اردو سے محبت کے قدردان کہیں زیادہ ہیں۔ جن کی نیک خواہشات اور دعاؤں کے ساتھ اردو زبان جو پہلے بھی بھی دنیا کی (غالباً) تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے اور جو عربی کے بعد اسلامی ادب کا سب سے بڑا ذخیرہ لئے ہوئے ہے، دن دوگنی اور رات چوگنی کرتی رہے گی۔ انشاءاللہ!!
میں تو بلال صاحب کا شکریہ ادا کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ میں اگر اردو لکھ رہا ہوں تو وہ بلال صاحب کے انسٹالر کا ہی کرشمہ ہے ورنہ میں ابھی تک رومن استعمال کر رہا ہوتا
میں مانچسٹر یو نیورسٹی اور لیڈز یونیورسٹی میں اُردو پڑھا رہا ہوں۔ میں نے آپ کی پوسٹ پڑھی اور احباب کے تبصرے بھی۔ جہاں تک کاپی رائیٹ اور دوسرے حقوق کا تعلق ہے تو پا کستان میں تو ہنوز دلی دور است والا ہی معاملہ ہے۔ یہاں برطانیہ میں معاملہ قدرے مختلف ہے! یورپ والوں نے مسلمانوں کی کتابوں سے ہی ترقی کی ہے۔ کتابیں مسلمانوں کی لیکن نام اِن کا۔ اسی طرح کام آپ کا لیکن نام ایکسپریس والوں کا ۔ آجکل مجنوں بھی چوری کھانے والے ہی کامیاب ہے۔ سچےتو عشق میں جاں سے گذر جاتے ہیں یا پھر قصہ کہانی بن کر کسی کتاب میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور صرف حوالے دینے کے کام ہی آتے ہیں۔ بزنس والی بات البتہ دل کو لگتی ہے وہ بھی اسلئے کے جدید دور میں ہر چیز ، ہر ا حساس اور ہر جذبہ صرف بزنس بن کر ہی تو رہ گیا ہے! میں تو بس صر ف یہی کہوں گا: ایمان سلامت ہر کوئی منگدا عشق سلامت کوئی کوئی۔ بس آپ اردو سے اپنا سچا اور پکا عشق اسی طرح برقرار رکھیں باقی وقت اور وقت کے مورخ پر چھوڑیں۔ دُعاگو شیرا ز علی
آپ صاب جنون ہو، بس اپنے جنون کو کم نہ ہونے دو، آپ کے ساتھ تو ہمارا سارا سفر گزرا، آپ کے کام اور محنت کی تو میں گواہی بھی دے سکتا ہوں، پاکستان میں چور ہی چور چور کہے جارہا ہے اور لوٹے جارہا ہے، جب ملک میں ذرداری صدر بن سکتا ہے اور کوئی بھی آپ نام سے ہر چیز شائع کرسکتا ہے، رہی بات اصل اور نقل کی تو، سونا سونا ہی ہوتا اور کھوٹ کھوٹ ہی، جلد یا بدیر مگر دوسرے کا رنگ اترتا ہی ہے۔
ٹینشن ناٹ
اس کے اتنا ہی کام ہے سر پر
جس میں جتنی بھی جان ہے خرم
خاصی دکھ بھری داستان ہے۔
بلا ل بھائی فرصت نکال کے آپ کی مکمل تحریر کو پڑھا جیسے جیسے پڑھتے گیا ذہنی تکلیف بڑھتی یااللہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان جس کی بنیاد میںاردو ہے اس ملک میں اردو اور اردو کے متوالوں کے ساتھ ایسا سلوک ، ایسی ناقدری خدا رحم کرے
خیر آپ مایوس نہ ہوںاللہ آپ پر کرم کرے،
السلام و علیکم !
یوں تو بلال بلال بھائی بھائی ہوتے ہیں ویسے میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ان کی سوچیں بھی آپس میں ملتیں ہیں آپ دل چھوٹا مت کریں آپ جو کام کر رہے ہیں اگر کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو آپ کو ایوارڈ سے نوازا جاتا ہمارے ملک کا المیہ یہی ہے کہ یہاں ریسرچ ورک کرنے والے اور جدوجہد کرنے والے کی مٹی پلید کردیتے ہیں ایٹم بم بنانے والے کو جیل میں ڈال دیا پڑوسی ملک نے صدر بنا دیا یہ صلہ ہے ۔بہرحال ایک دن آئے گا کہ دنیا آپ کو پہچانے گی ۔ انشاءاللہ !
السلا م
بلال میرے پاس الفاظ نہیں جو تمھارے لہے بیا ن کروں پلیز اتنا ڈس ھارٹڈ نہ ھوا کرو تم ایسے ھی رہنا جیسے ھو کیو نکہ ھمیں تمھارئ ضرورت ہے ھم بھی معا شرے ان ھی لو گوں میں سے ہیں جو سب کا بھلا چاھتے ھین مگر تم نے وہ مقام پالیا کہ آ ج تم ھم جیسوں کے کام آرہے ھو ھمیں افسو س ہے کہ ھم کچھ نہ کر سکے ۔تمھا رے لیے بہت سئ د عا ئںیں
بھائی صاحب، میں ایک اخبارنویس ہوں، پہلے ایکسپریس میں تھا، آج کل دنیاٹی وی کے اخبار روزنامہ دنیا کو جوائن کیا ہے، کچھ لکھنے لکھانے کا شغل بھی ہے، میںنے خاصی محنت کر کے آپ کا یہ لکھا پڑھا ہے، تکرار اس میںبے پناہ ہے، خدارار اسے ایڈٹ کر کے مختصر لکھیں، جو بھی لکھنا چاہتے ہیں، باقی میں ٹیکنیکل بندہ نہیں ہوں، کچھ زیادہ سمجھ نہیں آئی، البتہ یہ اندازہ ہوا کہ آپ لوگ اردو کی ترویج کے لئے کوشاں رہے ہو، ہم تو آپ کو داد ہی دے سکتے ہیں، اللہ اس کا اجر دے گا، میںکوشش کروں گا کہ اس بارے میںمعلومات جمع کروں اور اگر کچھ کر سکوںآپ لوگوںکے لئے تو کچھ کیا جائے۔
عامر خاکوانی صاحب! آپ کو آخر کس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ آپ کل تک جس اخبار سے وابستہ تھے (ایکسپریس) اور آج کا اخبار دنیا دونوں اب یونیکوڈ اردو کا استعمال کر رہے ہیں۔ یونیکوڈ اردو کو اس مقام تک لانے میں جن لوگوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا وہ بس اپنی محنت کی داد چاہتے ہیں اور بس۔۔۔!!!
آپ چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔۔بہت کچھ
بہت توجہ اور غور سے ساری باتیں پڑھیں -پڑھ کے حیرت بھی ھوئی اور دکھ بھی ھوا کہ کہاں کہاں سے اور کیا کیا ٹھیک کیا جاے -کیا ھمارے لوگوں کے پاس نام کی بھی شرافت نہیں رھی -یہ دھوکہ دھی کی عادت کیوں خون میں سرئیت کر گئی ھے –
اللہ پاک صحیح سمجھنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین
میں بھی اپنی قومی زبان سے بےپناہ عقیدت رکھتی ھوں-اور آپ کی بےپناہ مشکور ھوں کہ آپ نے میری بہت مدد کی -اللہ پاک آپ کو آپ کی اس نیکی اور اچھے کام میں مزید کامیابیوں سے نوازے امین –
ھمارے لوگوں کا یہ المیہ ھے کہ کسی کی انتھک کوشش کو سراہنا تو دور کی بات ھے مانتے بھی نہیں -لیکن میرا زاتی خیال ھے صلاحیت اپنا آپ ایک دن ضرور منوا لیتی ھے-
زیادہ کیا کہوں کم علمی میں کوئی غلطی نہ ھو جائے -بات کو ختم کروں گی اللہ پاک سے دعا ھے کہ وہ ھی کار ساز حقیقی آپ کا حامی و ناصر ھو
اللہ حافظ
بھائی آپ نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے میں پہلے یونی کوڈ اردو نہی لکھتا تھا مگر پاک اردو کے بعد میں ہر جگہ اردو ہی لکھتا ہوں۔
آپ نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے ۔
آپ لوگوں کی فکر نہ کریں اور آپنا کام کریں
یہ دنیا م بلال م کو جانتی ہے آپ آپنا قلمی نام رکہیں
اور لکھنا نہ بند کرنا کیوں کہ آپ 100 فیصد سچ لکھتے ہیں
آپ نے اپنی آپ بیتی دِل کھول کر بیان کر دی ہے۔ باقی اِس میڈیا کا جو مسئلہ ہے وہ یہی ہے ک اِسے جِس کام میں پیسے اور ریٹنگ مِلے یہ وُہی کام کرتا ہے۔ اِنہیں تو اللہ پو چھے گا۔آپ پریشان نہ ہوں ۔ حق بات کرتے اور حق کے راستے پر چلتے ہوئے مُشکلیں پیش آتی ہیں۔ اگرکوئی مُشکل پیش نہ آئے تو سمجھیں کہ حق کا راستہ نہیں ہے۔ آپ بُہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ اِتنی اعلی اردو
یونیکوڈ میں لِکھی جائے گی کبھی سوچا بھی نا تھا۔ آپ اور آپ کے ساتھی کام کرتے رہے صِلہ دینے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
جزاک اللہ خیر۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے آپ بخیریت ہونگے
بھائی جان مسئلہ یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی عادت خراب ہوچکی ہیں بہرحال ایک اچھے انسان کا اچھا کام چپھتا نہیں ہے ایکسپریس والوں کی یہ حرکت بہے گھٹیا ہے ۔۔۔ اگر وہ محنت کرکے اپنا الگ فونٹ بناتی تو اردو دان طبقہ اچھے الفاظ سے یاد کرتی۔۔۔
بہرحال بلال بھائی آپ دل چھوٹا نہ کریں اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہیے آپ اور آپ جیسے دیگر مخلص ساتھی یعنی نبیل بھائی، علوی بھائی ، القلم والے ساتھی یاسر بھائی اور تمام ساتھی اردو سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور وہ سب آپ کو اور تمام ساتھیوں کو دعائیں دیتے ہیں
اس لئے اللہ تعالی کی رضا کو مطلوب بناکر کام کرتے رہیے پاکستان میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اور باقی آپ نے ابھی تک “ایٹم بم” نہیں بنایا اگر بنا چکے ہوتے تو ابھی قید میں ہوتے ڈاکٹر عبدالقدیرخان صاحب سے پوچھ لیجیے پاکستان میں جتنا اچھا اور بڑا کام کریں گے اتنی ہی بڑی اور بری سزا ملتی ہے۔۔۔ 😳
محترم بلال بھائی !
میں آپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور جب بھی اردو یونیکوڈ کی بات ہوتی ہے آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں ۔ اپنے طلباء اور دوستوں کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ الحمدللہ اب تک میں نے آپ ہی کے بلاگ سے پاک اردو انسٹالر انسٹال کیا ہے ۔گوگل سب سے پہلے آپ ہی کو دکھاتا ہے ۔ چوروں سے اب تک واسطہ نہیں پڑا ۔
بلال بھائی ! ہم جس قوم سے تعلق رکھتے ہیں اس کے سربرآوردہ لوگ چاہے وہ میڈیا کے ہوں ،حکومت کے یا کوئی اور سب ہی چور ہیں اور جہاں تک بات ہے میڈیا کی تو بتائیے جو اپنی قوم کو دھوکہ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑتے ہوں وہ آپ کے ساتھ کیا کریں گے ۔ یقین جانیں اگر یہ کام کوئی پاکستانی نژاد غیر ملکی یا غیر ملکی کرتا تو آپ شہ سرخیوں میں ہوتے لیکن مجھے آپ سے ہمدردی ہے کہ آپ پاکستان کے رہنے والے ہیں لہذا آپ کو اگر کوئی کریڈٹ مل سکتا ہے تو وہ صرف وہ عوام الناس ہے جس تک آپ پہنچے آپ کے لیے دعائیں ہیں اور اجر کہ جو استعمال کرے گا آپ کو دعائیں دے گا ۔
ہم سے تو غیر ملکی اچھے ہیں انہوں نے ضرورت پڑی تو اپنا فونٹ بنوایا اور اسے استعمال کیا لیکن یہ اربوں روپے قوم سے بٹورنے والے ادارے جن کا فرض منصبی ہے کہ اپنا ٹیلنٹ قوم کے سامنے لائیں وہ پورا زور اس کام میں صرف کرتے ہیں قوم کو ناکارہ ، سست ،کاہل اور گدھا ثابت کریں ۔ اور خود کو قوم کا نجات دہندہ ۔ آج یہی ہورہا ہے ۔
بہر حال جس طرح آپ جذباتی ہو گئے میں بھی ہوگیا ۔ معذرت ۔ اللہ آپ کی صلاحیتوں میں اضافہ فرمائے۔آمین
ہاں بلال بھائی! بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔اور جو تحریر یں چوری کرتے ہیں شرم ان کو مگر نہیں آتی۔