آئے دن رپورٹ ہوتی ہے کہ آج ایک پاکستانی نے فلاں کارنامہ/ایجاد کر کے پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ بالکل معمولی معمولی باتوں پر ہمارے سر فخر سے بلند اور اسی طرح معمولی سی بات پر شرمندگی سے جھک بھی جاتے ہیں۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ ”چڑی موترے تے کانگ“ یعنی چڑیا پیشاب کرے تو سیلاب۔ جب لوگ معمولی معمولی باتوں سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرنے لگ جائیں تو وہاں یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں کیا عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔ جیسے معمولی سی بات پر ہمارا سب کچھ خطرے میں پڑ جاتا ہے بالکل ویسے ہی ”چڑی موترے“ تو ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا آپ لوگوں کو میری ان باتوں پر غصہ آ رہا ہو لیکن کبھی ہم نے اپنے میڈیا، انقلابیوں اور ”ایجادیوں“ پر غور کیا ہے کہ انہوں نے کیا تماشہ لگا رکھا ہے؟ میڈیا کی رپورٹوں پر غور کریں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سارے نہیں تو کم از کم نوے فیصد ”بلنڈر“ ضرور ہیں۔ اگر کوئی حقیقت بیان کرے تو یار لوگ کیا کہتے ہیں اس پر ایک علیحدہ تحریر ہو گی۔ فی الحال موضوع کچھ اور ہے۔
ہاں تو میں بات کر رہا تھا، میڈیا اور ایجادیوں کی۔ میڈیا اور ایجادیوں کے تماشوں کی چند مثالیں دیتا ہوں اور ساتھ میں حقیقت کیا ہے اس کی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کرتا ہوں۔ کچھ عرصہ پہلے غالباً پچھلے رمضان (2011ء) میں ایک صاحب جیو نیوز چینل پر آئے اور اتنے دھڑلے سے جھوٹ بول رہے تھے کہ جن کو دیکھ کر شرمائیں یہود و ہنوز۔ بات قرآن پاک کے تلاش والے اردو سافٹ ویئر کی کر رہے تھے کہ یہ پہلا سافٹ ویئر ہے، اس جیسا آج تک نہیں بنا، یہ امت مسلمہ کو میری طرف سے رمضان میں تخفہ ہے۔ اگر لوگ تعاون کریں تو میں اس سے زیادہ اچھا اور احادیث کا سافٹ ویئر بھی بنا دوں گا (لنک)۔ اینکر کامران خان نے اس بات پر انہیں پتہ نہیں امت مسلمہ کا کیا کیا بنا دیا۔ حد ہو گئی یار۔ ٹھیک ہے آپ نے قرآن پاک کا سافٹ ویئر بنایا ہے۔ اچھا کام کیا ہے لیکن اتنے جھوٹ تو نہ بولو اور جنہوں نے تم سے پہلے کئی ایک زبردست سافٹ ویئر بنائے ہیں اور بغیر کسی دنیاوی لالچ کے ان کو دیوار سے تو مت لگاؤ۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کوئی زاہد حسین نامی صاحب تھے اور ان سے پہلے کئی ایک اور ان کے سافٹ ویئر سے زیادہ معیاری سافٹ ویئر موجود ہیں، جیسے ایزی قرآن و احادیث اور نور ہدایت وغیرہ۔
آج کل ہمارے ملک کا ایک بہت بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے، گویا اس بارے میں ایک چھوٹی سی شرلی چھوڑ دو تو سارے کام ہو جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک رپورٹ دیکھی جس میں ایک صاحب ٹیوب ویل کے پانی کے بہاؤ سے بجلی بنا رہے تھے اور نتیجہ میں ایک ایل ای ڈی (LED) روشن تھی۔ صاحب فرماتے ہیں کہ اگر حکومت تعاون کرے تو میں ملک کو بجلی کے بحران سے نکال سکتا ہوں۔ او خدا کے بندے پہلے جو تربیلا اور منگلا پاور ہاؤس چل رہے ہیں وہ بھی تو اسی تکنیک پر چل رہے ہیں تو تو نے کونسا نیا تیر مارا ہے۔ ویسے بھی کئی ہارس پاور کی موٹر سے، تو ٹیوب ویل چلا رہا ہے اور پھر نتیجہ میں ایک ایل ای ڈی۔ حد ہو گئی جہالت کی۔ اس طرح کی ایل ای ڈی تو جتنی وہی ٹیوب ویل والی موٹر حرارت چھوڑ رہی ہے، اس سے جلائی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی پانی کے بہاؤ کی حرکی توانائی سے بجلی بنانے کے ایک ہزار ایک طریقے دنیا میں رائج ہیں تو پھر تو نے کونسی نئی تکنیک ایجاد کی جس وجہ سے تو اتنا اترا رہا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے ٹیوب ویل پر ایسا ”پروجیکٹ“ تیار کروں بلکہ ہمارے پاس تو اتنا بڑا دریائے چناب ہے۔ سو دو سو روپے کا ایل ای ڈی چلانے والا چھوٹا سا جنریٹر مل جائے گا، بس پھر پانی سے اسے گھماؤ گا اور مشہور ہو جاؤں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا پر آنے کے لئے ایک کنال زمین بھیجنی پڑے گی کیونکہ میرے پاس نہ تو کوئی سفارش ہے اور نہ ہی اتنے پیسے۔
ایک رپورٹ میں تھا کہ ایک صاحب نے جدید قسم کا جنریٹر تیار کر دیا۔ وہ صاحب کر یوں رہے تھے کہ انہوں نے گاڑی کی ڈِگی میں ایک بیٹری رکھی ہوئی تھی اور اسے گاڑی کے جنریٹر سے چارج کر رہے تھے۔ پھر اس بیٹری کے آگے انورٹر لگا کر پنکھا چلا رہے تھے۔ کر لو گل! ہو گیا جدید قسم کا جنریٹر تیار۔ یہ رپورٹ دیکھ کر میرا دل کر رہا تھا کہ زور زور سے چیخیں ماروں، اپنے میڈیا کی جہالت پر ماتم کروں اور میڈیا والوں کو کہوں کہ خدا کا خوف کرو، پہلے ہی دنیا میں ہماری بڑی بے عزتی ہو رہی ہے اب اس انداز سے تو نہ کرواؤ۔ اگر یہ رپورٹ کسی دوسرے ملک کے اردو سمجھنے والے، تھوڑے سے تکنیکی بندے نے دیکھ لی تو وہ ہر فورم پر ہماری جہالت پر ہنسے گا، کیونکہ ایسے کام اب بچوں کا کھیل ہیں اور تم اسے ”جدید قسم کا انوکھا جنریٹر“ کہہ رہے ہو۔
پچھلے دنوں ایک صاحب کا بہت چرچا ہوا جن کے دے انٹرویو پر انٹرویو اور رپورٹوں پر رپورٹیں کہ جناب نے پانی سے گاڑی چلائی ہے۔ میں اور میرے دوست غلام عباس نے سوچا ہو سکتا ہے کہ اس نے پانی میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ کرنے کا کوئی نیا اور زبردست طریقہ ایجاد کر لیا ہو۔ خیر ہم اس بندے کو ملنے گئے۔ سارا دن کی کھجل خرابی کے بعد اس کے گاؤں پہنچے۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ کوئی پانی سے گاڑی نہیں چل رہی تھی بلکہ وہی انیسویں صدی والی تکنیک استعمال کر کے بالکل معمولی سی ہائیڈروجن حاصل کی جا رہی تھی جو پٹرول کے ساتھ ملا کر جلائی جا رہی تھی تاکہ انجن کی تھوڑی طاقت زیادہ ہو جائے۔ اب پتہ نہیں طاقت زیادہ ہوئی بھی تھی یا نہیں لیکن پانی سے انجن/گاڑی چلانے والا سیدھا سیدھا جھوٹ تھا۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میڈیا نے اس کی اتنی جھوٹی تشہیر کیوں کی لیکن اس بندے سے مل کر ایک بات واضح ہوئی کہ وہ بندہ بذاتِ خود بہت اچھا تھا، درد دل رکھنے والا انسان ہے اور پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے خود میڈیا کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔ باقی اس نے خود مانا کہ پانی سے گاڑی نہیں چلائی جا رہی بلکہ مجھے انجن کی تھوڑی زیادہ طاقت چاہئے تھی تو میں نے اس کے لئے ہائیڈروجن والا طریقہ سوچا۔ مگر ہمارے میڈیا نے تو وہ گاڑی سو فیصد پانی سے چلوا دی تھی۔
پچھلے دنوں ایک اور شور مچا ہوا تھا کہ سوات کے نوجوان نے پانی سے جنریٹر چلا کر بجلی بنا دی۔ جس میں کہا گیا کہ اس نے پانی سے انجن چلایا اور پھر اس انجن سے بجلی بنانے والی ڈینمو گھمائی۔ اب ایک اور شوشا بڑے عروج پر ہے، اس بار تو حد ہی ہو گئی۔ وزیراور بڑے بڑے اینکر اور تو اور کئی اہم شخصیات جیسے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے چیرمین ڈاکٹر شوکت پرویز بھی اس کھیل میں اس ”شوشے“ کے حق میں کود چکے ہیں جبکہ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن فی الحال اس ”ایجاد“ کو کچھ اس طرح نہیں مان رہے کہ ان کا خیال ہے کہ ایک تو اس کی اچھی طرح جانچ ہونی چاہئے اور دوسرا یہ کہ اس طرح پانی سے گاڑی چلنا ناممکن ہے کیونکہ یہ سائنس کے بنیادی اصول توانائی کی ایک حالت سے دوسری میں تبدیلی اور تھرموڈائنامکس کے پہلے قانون کے خلاف ہے۔
پانی سے گاڑی چلانے والے بندے آغا وقار کا کہنا ہے کہ بس اس کی بنائی ہوئی ”واٹر کِٹ“ میں صرف خالص پانی ڈالتے جاؤ تو گاڑی چلتی رہے گی۔
میں سائنس کا کوئی ”راکٹ سائنس“ طالب علم نہیں مگر حیران ہوتا ہوں کہ ایسی معمولی باتیں میں جانتا ہوں تو ان ”وڈے“ لوگوں کو کیا نہیں پتہ، یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ”سب مایا ہے“ کیونکہ یہ جو پانی سے انجن چل رہے ہیں اس طریقے کی تفصیل تو میڑک کا طالب علم بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
خیر آپ کو اس کی تھوڑی سی حقیقت بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔
پانی سے انجن چلانے کے لئے فی الحال صرف ایک طریقہ ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی (Electrolysis) کی جائے اور اس میں سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اسے ایندھن کی جگہ انجن میں جلایا جائے یا پھر کسی اور طریقے سے اسی ہائیڈروجن کو استعمال میں لایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے اس سے انجن چلایا جا سکتا ہے اور ہمارے ”ایجادیئے“ ایسا ہی کر رہے ہیں، مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ پانی سے ہائیڈروجن حاصل کرنے پر کتنی توانائی لگے گی اور نتیجہ میں ہمیں کتنی توانائی ملے گی؟ ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جتنی لاگت آئے گی کیا موجودہ ایندھن جیسے ڈیزل اور پٹرول وغیرہ سے سستی ہو گی؟
اس طریقے میں سب سے پہلا مرحلہ ہے پانی کی برق پاشیدگی۔ توانائی کے سائنسی اصولوں کے مطابق اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پانی کی برق پاشیدگی پر جتنی توانائی خرچ ہو گی، پانی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن آگسیجن کے ساتھ جل کر اتنی ہی توانائی دے گی۔ عام طور پر پانی کی پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ دنیا میں فی الحال ایسے آئیڈیل حالات تیار نہیں ہوئے لہٰذا جتنی توانائی برق پاشیدگی پر لگے گی اس کا کچھ حصہ حرارتی اور دیگر توانائی کی اقسام میں تبدیل ہو جائے گا اور یوں حاصل ہونے والی ہائیڈروجن جتنی توانائی دے گی اس سے زیادہ توانائی برق پاشیدگی اور دیگر کاموں پر پہلے ہی لگ چکی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ فرض کریں کسی نے کوئی آئیڈیل حالات بنا بھی لئے ہوں (جوکہ کم از کم زمین پر فی الحال ناممکن کے قریب تصور کیا جاتا ہے) تو پھر بھی جتنی توانائی پانی کی برق پاشیدگی پر لگاؤ گے نتیجہ میں اتنی ہی توانائی ہائیڈروجن کو جلا کر حاصل ہو گی۔ اب آپ ہائیڈروجن سے انجن چلا کر اس سے گاڑی کا پہیہ گھماؤ یا پھر بجلی بنانے والی ڈینمو، یہ آپ کی مرضی مگر پانی کو توڑنے (پاشیدگی) پر جتنی توانائی لگا رہے ہو اتنی ہی توانائی حاصل کر پاؤ گے۔
اب جیسے پاشیدگی کے لئے بجلی کا استعمال ہوتا ہے تو اگر سب کچھ آئیڈیل ہو تو پھر برق پاشیدگی سے حاصل ہونے والی ہائیڈروجن کو استعمال کرتے ہوئے ہم اتنی ہی بجلی بنا پائیں گے جتنی کہ برق پاشیدگی پر لگائی تھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جتنی بجلی لگائی، اتنی ہی حاصل ہوئی۔ اسی طرح اگر ہم انجن چلانے کے لئے پانی کی پاشیدگی پر جتنی بجلی لگاتے ہیں اگر اتنی ہی بجلی سے موٹر چلائیں تو وہ بھی انجن جتنا ہی کام کرے گی۔
پانی سے ہائیڈروجن حاصل کر کے انجن تو چل گیا مگر ہائیڈروجن حاصل کرنے پر جو بجلی لگائی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟ اس بجلی کی جتنی قیمت ہو گی کیا اس سے سستی ہائیڈروجن ویسے ہی مارکیٹ سے نہیں مل جائے گی؟ کیا ہائیڈروجن کی ٹرانسپورٹ موجودہ ایندھن (پٹرول اور ڈیزل) جتنی آسان ہو گی؟ کیا ہائیڈروجن سے سستا ایندھن پہلے موجود نہیں؟
جب ہم ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پانی کی برق پاشیدگی کرنے والے طریقے پر موجودہ ایندھن کی نسبت زیادہ خرچ آتا ہے اور اس طریقے سے سستے اور آسان طریقے پہلے ہی دنیا میں رائج ہیں۔ عام لوگ بس یہی دیکھتے ہیں کہ لو جی پانی سے انجن/گاڑی چل گئی مگر کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ پانی کو کن کن مراحل سے گزارا گیا ہے اور اس پر خرچہ کتنا آیا ہے۔ آج کل جو بندہ آغا وقار بڑا مشہور ہوا ہے میرا اس بندے سے سوال ہے کہ
پانی کی برق پاشیدگی پر جو بجلی لگ رہی ہے وہ کہاں سے آئے گی؟
جواب:- گاڑی میں موجود بیٹری سے۔
گاڑی کی بیٹری کیسے چارج ہو گی؟
گاڑی کے جنریٹر سے۔
جنریٹر کیسے گھومے گا؟
گاڑی کے انجن سے۔
انجن کیسے چلے گا؟
ہائیڈروجن سے۔
ہائیڈروجن کہا سے آئے گی؟
پانی کی برق پاشیدگی سے۔
پانی کی برق پاشیدگی کیسے ہو گی؟
بجلی سے۔
بجلی کہاں سے آئے گی؟
گاڑی کی بیٹری سے۔
افف ف ف ف ف ف ف۔۔۔ یا میرے خدا ہم پر رحم کر۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے خود ہی سوال کیے اور خود ہی جواب لکھ دیئے۔ مگر ایسا نہیں سوال میرے ہیں جبکہ جواب آغا وقار کے ہی ہیں کیونکہ وہ یہ جواب مختلف پروگراموں میں دے چکا ہے۔ خیر آغا وقار کے بنائے ہوئے نظام میں صرف ہمیں پانی ڈالنا ہے۔ بس پھر گاڑی کی بیٹری سے پانی کی برق پاشیدگی ہو گی اور پھر عمل چالو ہو جائے گا یعنی ایک چکر چل پڑے گا جس میں صرف پانی ڈالتے جاؤ۔ یقین کرو اگر واقعی ایسا ہوا تو پوری دنیا بدل جائے گی اور اس طریقے سے دنیا بدلنے کی کوشش سو دو سو سال پہلے ہی سیانے لوگ کر کے تھک ہار چکے مگر آغا وقار 🙂
یارو! تیاری پکڑو! بس اب اس بندے آغا وقار کے حق میں بولنے یعنی اس کی ”ایجاد“ کو ماننے والے یعنی سب سے پہلے ہمارا میڈیا اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان، ڈاکٹر شوکت پرویز اور کئی وڈے لوگوں کی واٹ لگنے والی ہے کیونکہ انہوں نے آن دی ریکارڈ سب کچھ کہا ہے 🙂 یا پھر سائنس ایک بہت اہم موڑ پر پہنچ چکی ہے اور ایسا ”یوٹرن“ لے گی کہ ساری کائنات ”ٹرنوٹرن“ ہو جائے گی۔ آج کی فزکس منہ کے بل گرے گی۔ فزکس کے تمام نوبل انعام آغاوقار کو مل جائیں گے اور یہ دنیا کا سب سے بڑا سائنسدان کہلائے گا۔ یورپ، امریکہ اور ساری دنیا پاکستان کی مقروض ہو جائے گی۔ شاید آپ کو یہ باتیں مذاق لگ رہی ہوں مگر جناب اگر آغا وقار کے طریقے سے گاڑی چل گئی اور صرف پانی سے چلتی رہی تو پھر واقعی یہ دنیا کی عظیم ترین ایجاد میں سے ایک ہو گی اور اس سے واقعی دنیا بدل جائے گی۔ (دیوانے کا خواب)
خیر میں تو کہتا ہوں کہ اس بندے آغا وقار کو سخت سے سخت سیکیورٹی میں رکھا جائے کیونکہ اگر اسے کچھ ہو گیا تو لوگوں نے کہنا ہے کہ دیکھا ایک ”عظیم سائنسدان“ کو مروا دیا گیا ہے۔ خیر اس کے بنائے ہوئے نظام کی مکمل جانچ کی جائے اور فراڈ ہونے کی صورت میں اس کی بجائے ہمارے میڈیا کو الٹا لٹکا کر لتر مارنے چاہئے جو بغیر تحقیق کے باتیں کرتے پھرتے ہیں اور اس جیسے بندے کو اتنا منہ زور کر دیتے ہیں کہ وہ اچھے بھلے ڈاکٹر عطاء الرحمن کی بے عزتی کرتا پھرتا ہے۔ اور اگر یہ واقعی سچ ہوا تو پھر لات مارو پوری فزکس کو اپنی نئی فزکس تیار کرو۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایک عام پاکستانی اس بات پر بڑا جذباتی ہو رہا ہے کہ دیکھو ایک پاکستانی سے کتنی بڑی ایجاد کر دی۔ اے میرے پاکستانی بھائیو! خدارا کچھ ہوش کے ناخن لو۔ ہر چیز کو جذبات کے آئینے سے نہ دیکھا کرو بلکہ حقیقت کو پہچانو۔
دنیا میں بہت کچھ نیا ہوا ہے۔ سائنس نے کئی جگہوں پر یوٹرن لیا ہے۔ مگر یہ بندہ آغا وقار جو دعوہ کر رہا ہے اس پر میرا ذاتی خیال پوچھو تو میں اس طرح پانی سے گاڑی چلنے والی بات کو نہیں مانتا کیونکہ میری تحقیق کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا، یاد رہے پانی سے گاڑی چل سکتی ہے مگر اس پر خرچہ ڈیزل یا پٹرول سے زیادہ آتا ہے۔ باقی پھر کہوں گا کہ میں سائنس کا کوئی ”راکٹ سائنس“ طالب علم نہیں اس لئے میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ اجی میں کیا ہوں، اب تو جو صورت حال بن چکی ہے وہاں تو اچھے اچھوں کی واٹ لگنے والی ہے۔ مگر شرط ہے کہ آپ لوگ نہ بھولیے گا۔
میرا مقصد مایوسی پھیلانا یا اپنے پیارے پاکستانیوں کے کارناموں کو غلط ثابت کرنا نہیں، بس یہ کہتا ہوں، اللہ کا واسطہ ہے کہ پہلے کوئی کارنامہ کرو تو سہی۔ ”ایجادی“ کی بجائے موجد بنو۔ جاہل میڈیا کے بل پر عام عوام کو جاہل نہ بناؤ۔ ”کارنامے“ بلکہ میں تو انہیں کرتوت کہوں گا، کرتوت ایسے ہیں کہ جن پر سینہ چوڑا کرنا تو دور کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پاکستانیوں کو عقل دے اور ہم حقیقی معنوں میں کچھ ایجاد کر دنیا کو حیران کر دیں اور اپنے ملک کو ترقی دیں۔۔۔آمین
اپڈیٹ : 3 اگست 2012ء :- آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ہے۔ یہ دو ویڈیوز دیکھیں۔
ویڈیو نمبر 1:- آج کامران خان کے ساتھ پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
ویڈیو نمبر 2:- حسبِ حال پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
آغا وقار کی ڈاکٹر عطاالرحمان سے کی گئی بدتمیزی بہت بری لگی۔
اسلئے کہتے ہیں کہ بیوقوف سے بحث مت کرو اور ڈاکٹر صاحب نے بیوقوف سے بحث کرکے غلطی کی۔
ٹی وی کا کیا ہے اُس نے تو ٹی آر پی لینا تھا وہ لے لیا۔ پاکستان کے ایک نامور سائنس دان کو بےعزت کردی
اور جہاں تک ڈاکٹر قدیر صاحب کا معاملہ ہے تو انہوں نے بیوقوف سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسلئے کہہ دیا کہ بھئی اس کو ایک بار ایگزمن ضرور کروانا چاہئے
جنابِ والا! جو رویہ اور بکواس ڈاکٹر؟ عطاؤالرحمان نے اختیار کیا اور جس طرح ایک مخنتی اور محب وطن مسلمان پاکستانی کی کی گئیں کوششوں کو چند الفاظ کے گندےکپڑے میں لپیٹ کر پھینکنے کی گٹیا حرکت کی کیا آپ کو وہ سب کچھ نظر نہیں آیا؟ جب کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ آغاوقار صاحب نے ڈاکٹر؟ عطاؤالرحمان سے بد تمیزی کی۔ وقار صاحب نے صرف بعد میں ترکی بہ ترکی جواب دیے تھے کیوں کہ ایک شخص کی محنت کو اس آسانی سے بکواس، فراڈ، جھوٹ اور دھوکہ قرار دینا ایک حاسد، اور پڑھے لکھے جاہل ڈاکٹر ہی کا خاصہ ہوتاہے۔
الحمد للہ، اللہ نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو ایک بار پھر عزت عطاکی۔ چوں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب خود ان سب مشکلات اور رکاوٹوں سے گزرےہیں جس سے اب انجنئیر آغا وقار صاحب گزر رہے ہیں لہذا ڈاکٹر صاحب نے بالکل حق اور برمحل بات کی کہ کسی کی اتنی آسانی اور غلیظ طریقے حوصلہ شکنی کرنے کےبجائے ماہرین کی موجودگی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیا جائے، نہ کہ خود کو عقلِ کل سمجھنے والے سابقہ کرپشن ماسٹر اور ملک وقوم کی اربوں روپے ڈبونے والوں کی طرف سے اس کو طنز وتشنیع کابناکر قوم کو ایک ممکنہ محسن سے محروم کردیا جائے۔
نہایت قابل احترام محمد آصف صاحب! آپ یہ ویڈیوز دیکھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ یوں تو پہلے ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا تھا مگر اب مزید ہو چکا ہے۔
ویڈیو نمبر 1:- آج کامران خان کے ساتھ پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
ویڈیو نمبر 2:- حسبِ حال پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ کون جاہل ہے۔ اگر آپ کہیں کہ یہ میڈیا جھوٹ بول رہا ہے تو پھر میری صرف اتنی گذارش ہے کہ اگر یہ میڈیا ”جھوٹا“ ہے تو پہلے بھی اسی جھوٹے میڈیا نے ہی آغا وقار کو ہیرو بنایا ہے۔
رہی بات آغا وقار کے ترقی بہ ترقی جواب کی تو میرے بھائی ترقی بہ ترقی جواب تب ہوتے جب وہ اپنی واٹرکٹ کی سائنسی تشریح کرتا یعنی اس کی مستند وضاحت کرتا بلکہ جب اس سے کچھ نہ بن پڑا تو ذاتیات پر اتر آیا۔
مایوسی نہیں بلکہ آپ نے حق پر لکھا ہے ۔ جو لکھا ہے سچ لکھا ہے ۔ خیر میڈیا کا ایک اور کارنامہ آپ نے شامل نہیں کیا اولمپکس ہاکی میچ والا ۔ میچ ایک – ایک سے برابر ہوگیا اسپین کے خلاف پورا میڈیا لگا وا پیچھے کہ بہت بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہے ۔ اولمپکس کی تاریخ پاکستان بمقابلہ اسپین پرکھ کر دیکھیں تو شاید ایک کوئی میچ ہے جو پاکستان نے چھ – ایک سے جیتا تھا ۔ اس کے بعد برابر کرنے پر اتنی تعریف کی جارہی ہے میڈیا میں ۔ 😯
اللہ تعالی ہم سب پر رحم فرمائیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر جیسا نامی گرامی سائنسدان بھی اس فراڈیے کی حمایت کررہا ہے۔ میڈیا تو خیر خبر کا بھوکا ہوتاہی ہے چاہے سچی ہو یا جھوٹی۔
اے کیو خان نے حمایت نہیں کی، صرف اتنا کہا ہے ایک دفعہ جانچ کروا لو۔۔ وہ بحی الو کے پٹھوں کے اتنا شور مچانے کے بعد۔۔۔ کہ سامنے آجاے گا جو بھی ہے۔۔۔ اور غلط تو نہیں کہا۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔۔۔جنم جنم کے مایوسی پھیلانے آلیوۓے۔
میں اس دفعہ پاکستان گیا تو رستےمیں گیس ختم ہو گئی۔۔گاڑی کی بھئی میری نہیں 😀
ایک بائیک والے کا اللہ بھلا کرے ،بیچارے نے کہیں سے ڈبے میں پیٹرول لا کر دیا اور ہم سے نقدی میں دعائیں وصولیں۔
آغا جی کی ایجاد سے امید پیدا ہوئی تھی کہ
آئیندہ گیس بند ہوئی تو دو چار تگڑے جوانوں کو پکڑ کر کہتا موتروووووو اوئے
ساتھ میں خود بھی موترتا اور جاپان واپس آکر جاپانیوں کو اپنی مہم جوئی سناتا کہ
تاریک رات میں گاڑی بند ہوئی اور ہم سب نے موترا اور گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔
😆 😆 😆 😆
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بندے ٹھیک نی او 👿
جناب ہم عوام کا تو “بھولی مجوں” والا حساب ہے جہاں میڈیا اشارہ کرے وہاں ہو لئے۔ اور میڈیا نے قسم کھائی ہے کہ شیطانیاں کرنی ہی کرنی ہیں۔ ہر روز رات کو بھلے لوگوں کو لڑواتے ہیں۔ میڈیا کے “کالے کرتو توں ” سے تنگ آ کر ہم نے تو کب کا ٹی وی دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ تب سے قسم سے سکون ہے۔ بس کالے کرتوت آپ جیسوں کی بدولت ہم تک پہنچتے رہتے ہیں۔
good show 🙂 acha or sacha likha hai
بہت خوب اور چشم کشا تحریر ہے ۔
میں نے اپنی آٹھویں جماعت کی طالبہ بہن سے سنا کہ
Energy cannot be created or destroyed;
it can only be converted from one form to another.
واقعی یہ بات قابل غور ہے کہ بالفرض اگر
انجینئر وقار ( اگر وہ واقعی انجینئر ہے تو )
نے ۱۰۰ جول توانائي خرچ کر کے بیٹری کو چارج کیا اور
اس کے بعد ہائڈروجن کو پروسیس کر کے ۲۰۰ جول توانائی حاصل کر لی
تو اس کا مطلب اس نے واقعی اوپر مذکورہ تھیوری کو غلط ثابت کر دیا
اور اس نے یہ کام براہ راست پی ایچ ڈي مقالے کے ذریعے کیوں نہيں کیا ۔
ایک بار پھر آپ کا شکریہ بلال بھائی اتنی بہترین تحریر پر ۔
کچھ عرصہ پہلے ماہ نامہ گلوبل سائنس میں بھی ایسی ہی تحریر اشاعت مکرر کے طور پر پڑھی تھی ۔ ( جو کہ 2000ء کے اوائل میں بھی چھپی اور 2009ء میں بھی چھپی ) اس کے مطابق ہم پاکستانی ترسے ہوئے لوگ ہيں ۔
سستی شہرت اور عارضی دھوکے کے لیے اکثر اس قسم کے ڈرامے کئے گئے ہيں ۔
۱۰۰ جول توانائی استعمال کر کے پچاس جول توانائی تو حاصل کی جا سکتی ہے
مگر ۱۵۰ نہیں ۔
یہاں تک کہ بہت زيادہ بہت زيادہ ۹۰ جول تک حاصل کی سکتی ہے اس سے زيادہ کوئی تیر نہیں مار سکا ۔
Very beautifully written
بلال بھائی آپ نے تو آغا وقار کی ۔۔۔۔۔۔ ایک کرکے رکھ دی ۔ یقین کرو میں اپنے میڈیا کی انہی چولوں کی وجہ سے ٹی وی دیکھنا بند کرچکا ہوں بلکہ ان سب پہ لعنت بھیج چکا ہوں۔
شاندار تحریر ہے!!
ایسی ہی بلاگنگ کی بدولت سوشل میڈیا روایتی میڈیا کی واٹ لگا رہا ہے۔ اور ویسی ہی حرکتوں کی وجہ سے سوشل میڈیا پر فراڈیوں کی واٹ لگتی ہے۔
جناب عالى دير سے صحيح انكهـ كهـلى اپكى مارچ كے مهينے مين ڈاكٹر غلام سرور جهـلم والے نے تو دعوا كيا تها كۂ وه دو عدد موٹرز تيار كرچكے هين جو ديڑهـ ليٹر پانى پر كئى هزار كلو موٹر دوسو كلوميٹر كى رفتار سے دوڑا سكتے هين اور كها تها كۂ كٹ ٤٠ تا ٥٠ هزار روپيۂ مين تيار هوسكتے هين اور وه طريقۂ كسىكو بهى مفت سكهانے كو تيار هين ذره اپ انكى بهى خبر ليجئے.
تحریر میں ایک جگہ میں اور میرے دوست غلام عباس کی ایک بندے سے ملاقات کا ذکر ہے۔ ہماری وہ ملاقات ڈاکٹر غلام سرور سے ہی ہوئی تھی۔ ویسے ڈاکٹر غلام سرور ذاتی طور پر ایک اچھے انسان ہیں اور انہیں جو معلوم ہے وہ سب واقعی دوسروں کو سیکھانے کے لئے تیار ہیں۔ ان کی اور ہماری بات چیت کی آڈیو ریکارڈنگ جو کہ ان کی اجازت سے کی تھی وہ بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
آغآ وقار کے بنائے انجن کی استدامت یا “سسٹینبلٹی” کے متعلق سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا آیا کہ اگر فرض کروں کہ گاڑی چلانے کا ڈیمو واقعی سو فیصد “آغا وقار انجن” کی طاقت کے بل پر ہی دکھایا گیا تھا، تب بھی آغا وقار کے حامی ایک اہم چیز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ وہ گاڑی کے چلنے کا تو ذکر کر رہے ہیں لیکن اس بات پر غور نہیں کر رہے کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آغا وقار انجن کا ڈیمو دکھانے کے علاوہ وہ گاڑی روایتی ایندھن سے ہی چلتی رہی جس دوران اس کی بیٹری واپس چارج ہوتی رہی۔ اور بھولے لوگ پٹرول یا سی این جی سے مستعار لی ہوئی توانائی کو پانی سے حاصل کردہ توانائی سمجھ بیٹھے۔
جناب ِ چوہدری صاحب آپ کو تکلیف کیا ہے ہم بیچاروں کو خوش کیوں نہیں ہونے دیتے۔ کہیں سے کوئی ٹھنڈی ہوا آتی ہے تو آپ وہاں لیریں تننا (کپڑے سے سوراخ بند کرنا) شرو ع کر دیتے ہو۔ مانا کے آپ ٹھیک فرما رہے ہو پر یار ہم خوش فہم لوگ ہیں ہمیں ایسا ہی رہنے دو۔ مجھے سائنس کا کوئی خاص علم نہیں۔ ہم کسی نئے سائنس دان کی ایجاد سے خوش ہونا شروع کر ہی رہے ہوتے ہیں۔ اور آپ کا ری ایلیٹی شو شروع ہو جاتا ہے۔ میاں ہم پے ترس کھاؤ ہماری جھوٹی خوشیاں ہم سے نہ چھینو
هايڈروجن كے حصول پر جو اينرجي خرچ هوگى وه ضرورى نههين كۂ اسكے استعمال سے جو اينرجى پيدا هوى اس سے زياده هو اس لئے كۂ هايڈروجن پانى سے الگ كى جارهى هے اذ سرے نو بناى نهين جارهى. اس جملۂ كا مطلب يۂ نهين كۂ ايجاديون كا دعوا درست هے
کل ہی میں اپنے ایک یونیورسٹی کے استاد کی فیس بک پہ پوسٹ پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے فلو چارٹ کے ذریعے توانائی کے فلو کو بیان کیا تھا اور اس پانی سے چلنے والے انجن کا پول کھولا تھا۔ مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ اردو بلاگستان میں اس قسم کی تحریر پڑھنے کو مل سکتی ہے۔ براوووووو۔۔۔۔ آپ کس کس بات پہ کریڈت لیں گے بلال بھائی۔۔۔! 🙄 😀
ویسے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اتنے وثوق سے سائینسدانوں میں بیٹھ کر یہ سب کہہ رہا ہے تو اس کیلئے ایک فورم بنا کر باقائدہ تحقیق کی جائے اور زیادہ نہیں تو چند یونیورسٹی لیول کے فزکس ماہرین کے سامنے اس “ایجاد” کو پرکھا جائے۔ جو کہ اصل طریقہ ہے ایجادات کو پرکھنےکا۔ ویسے سنا ہے کہ وہ صاحب بی ایس سی انجینئر نہیں ہیں بلکہ ڈی اے ای ہیں، ایسی صورت میں تو ان کو تھیوریٹیکل فزکس کے بارے میں میٹرک لیول تک پتا ہو گا بس! 💡
بہت اعلیٰ مضمون ہے۔ میں نے اپنی فیس بک وال پہ شئیر کیا ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
The writer of this article does not know how a car battery is charged, and is uselessly arguing that ‘car battery will be charged with hydrogen’, where as a simple car mechanic will tell you that every car has an ‘alternator’ which requires ‘rotation’ which is provided NOT BY ENGINE but by car wheels and axle. As the car moves, alternator moves and produces electricity that charges the car. And I don’t understand why Dr Atta ur Rehman is calling is ‘perpetual machine’ where as Agha Waqar has never claimed it to be one.
محترم لگتا ہے آپ نے تحریر غور سے نہیں پڑھی کیونکہ میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ کار کی بیٹری ہائیڈروجن سے چارج ہو گی البتہ یہ ضرور کہا ہے کہ کار کے جنریٹر سے چارج ہو گی اور فی الحال پاکستان میں جو عام طور پر کار پائی جاتی ہے ان میں موجود بیٹری جنریٹر سے ہی چارج ہوتی ہے۔
ویسے آپ اپنی ایک درستگی کر لیں۔ ”الٹرنیٹر“ جسے عام طور پر جنریٹر کہا جاتا ہے وہ انجن سے ہی گھومتا ہے نہ کہ ایکسل یا پہیوں سے۔ کسی مکینک کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، بس آپ کار کے انجن اور جنریٹر پر غور کریں تو آپ پر یہ ”راز“ کھلے گا کہ جب کار کا انجن چل رہا ہو تو جنریٹر بھی ساتھ چل رہا ہوتا بے شک کار کے پہیے حرکت میں نہ ہوں یعنی بے شک کار سٹارٹ حالت میں کھڑی ہی کیوں نہ ہو۔ ویسے پہیوں سے جنریٹر گھمایا جائے تو اس میں کیا کیا خرابیاں یا نقصان ہیں وہ لکھنے شروع کیے تو بات کافی لمبی ہو جائے گی۔ فی الحال اسی پر گزارہ کریں اور خود ان چیزوں کا بغور جائزہ لیں۔ امید کرتا ہوں کہ جب آپ پر یہ راز کھلے گا تو آپ اپنی درستگی کرتے ہوئے اس کا اقرار ضرور کریں گے۔
بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ ڈ/عبدالقدیر خان کی تھوڑی رعایت کریں کہ انہوں نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اگر جذبات میں آکر انہوں نے اس شخص کی حمایت کر بھی دی تو کیا ہوا۔ ویسے یہ شخص آغا میرے خیال میں کم عقل ہے، معاملے کو سمجھے گا تو منہ چھپاتا پھرے گا۔
بہت اچھا جی ۔ بلاگروں کی ایسی مغز ماریاں ہم کم مغزوں کے لئے بڑی مفید رہتی ہیں۔
میڈیا نے تو بندے کو “چک”لیا ہے اور سچ میں بندہ ادھر ادھر ہو گیا (اور وہ بھی اسلام آباد یا اس کے گرد و نواح میں) تو خیر نہیں۔ میں سائنس کے اصولوں سے کچھ خاص واقفیت اسلئے یہ گرما گرمی خوب مزہ دے رہی ہے ۔
ڈاکٹر عطا الرحمن اور آغا وقار کی زبان یقینا نا پسندیدہ ہے۔
اللہ اور زیادہ ہمت دے اور جان کی حفاظت فرمائے
آمین
This is a very interesting and timely paper. I completely agree that critical thinking in Pakistan is close to zero. There is emotional attachment to ideas with violent behavior. In fact I have no desi channels and watching them or listening to them for minutes makes me so discouraged that I want to stop writing my own blog. I had re-learned writing Urdu because I saw my mother with diabetes and felt the need for up to date scientific information in Urdu language. She reads a lot in Urdu so do lots of other people. There are lots of false stories and claims of miracles etc. Some are attached to religious ideas that you can’t dare to challenge if you would like to stay safe. It’s a sad situation, a downward spiral indeed. In real life, until you have proven your experiment in a science lab and published your data in a reputable scientific journal, no claims are made
Read my post on this:
http://truthexposed123.blogspot.com/2012/07/blog-post_203.html
یار اردو محفل پر بھی یہ پوسٹ پیسٹ دے۔
ماشاءاللہ بہت ہی اعلیٰ لکھا ہے۔واقعی اخباروں میں بھی ائے روز آتا ہے کہ فلاں نے یہ چیز ایجاد کی اور فلان نے یہ۔ان باتوں کی تحقیق ضروری ہے۔ میرئے خیال مین ہوسکتا ہے کہ یہ آغائ وقار کسی منصوبے کے تحت سامنے آئے ہوں ۔بہر حال اگر اسکی اس ایجاد کو سائنسی بنیادوں پر چیک کیا جائے اور غلط ہونے کی صورت میں اسکو سرکاری مہمان بنا دیا جائے۔
آپکے کالم سے بہت فائدہ ہوا۔
اللہ تعالیٰ آپکو جزائے خیر دے۔
I want to add another hero. Aik wo bhi hero banay thy jinhon nay Dish antina per shishay laga kar TEA bnaye the and kh rhy thy agar Hakomat 😆 sath dy ti energy ka masla hal kar dain
جناب بلال صاحب! آخر کیوں ہم پہلے ہی سے اپنی “دانش” لوگوں کےذہنوں میں انڈھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ایک طرف آپ جذباتی لوگوں کو کوس رہےہیں تو دوسری طرف خود اپنے گریبان میں جانک کردیکھے کہ آپ نے بھی تو فیصلہ آنے سے پہلے ہی اپنی ذخیرہَ معلومات کےذریعے سب کو بےوقوف، جذباتی اور عقل سےعاری (مضمون کےمطابق) قرار دےدیا۔ خدا کے واسطے نتیجے کاانتظار کیاکرو۔ بعد میں اسی طرح کامضمون شایع کیاکریں تو کوئی بات ہوگی۔ ڈاکٹر عطاؤالرحمان خود اربوں روپے کا فراڈیا ہے۔ یہ ڈان میں چند مضامین شایع کراکے خود کو بڑا تیس مار خان سمجھ رہاہے۔ غدارِ وطن پرویز کے دورِ حکومت میں اس کو دنیا جہاں کی سہولتیں، روپے اور اختیارات حاصل تھے اس نے قوم کو خود کیادیا؟
کیپیٹل ٹاک میں یہ نام نہاد ڈاکٹر آغا وقار سے کہتا ہے کہ ہائیڈروجن صنعتی پیمانے پر میتھین سے بنتی ہے، بجاکہا لیکن اس بےوقوف اور فراڈیے کو کون سمجھاتاکہ یہاں “پانی کٹ” میں صرف ایک گاڑی کےلیے ہائیڈرجن بنائی جانے کی بات ہورہی تھی نہ کہ صنعتی پیمانے پر۔
محترم میں نے اپنی ”دانش“ کسی کے ذہن میں انڈیلنے کی کوشش نہیں کی۔ تحریر میں جن جن بندوں کا ذکر کیا ہے ساتھ میں ان کے ”کارنامے“ بھی لکھے ہیں اور ان کی جو حقیقت تھی وہ بیان کی ہے۔مزید جن جن کا نتیجہ آ چکا ہے ان افراد کا دو ٹوک لکھا ہے مگر کیونکہ آغا وقار کا نتیجہ آنا باقی تھا تو اس پر میں نے اپنی رائے دی ہے کہ میری نظر میں یہ ہے اور ساتھ واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔ ویسے اب تو نتیجہ آ چکا ہے اور آپ کو پتہ چل گیا ہو گا کہ یہ کام اصل میں کیا ہے اور پوری پاکستانی قوم کو کس طرح مذاق بنایا جا رہا ہے۔
ویسے سوچنے والی بات تو یہ ہے کہ ایک طرف آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور نتیجہ آنے سے پہلے شائع نہ کیا کریں، تو میرے محترم آپ نے بھی سنی سنائی اور بغیر کسی ثبوت کے ڈاکٹر عطاء الرحمان پر الزام لگائیں ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرا ڈاکٹر عطاء الرحمان سے سوائے اس کہ وہ ایک پاکستانی ہیں، کوئی لینا دینا نہیں، اگر بالفرض انہوں نے کوئی فراڈ کیے ہیں تو انہیں یقیناً سزا ملنی چاہئے۔ ویسے آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں کہ آغا وقار نے یہ تسلیم کیا تھا کہ وہ پانی کی برق پاشیدگی (الیکڑولیسز) کے ذریعے ہی ہائیڈروجن بنا رہا ہے تو عرض یہ ہے کہ جس سائز کی واٹر کٹ تھی اس سے ایک گاڑی کے لئے بھی مکمل طور پر برق پاشیدگی سے ہائیڈروجن نہیں بنائی جا سکتی بلکہ برق پاشیدگی سے ہائیڈروجن حاصل کرنا مہنگا سودا ہے اور اس سے سستی ہائیڈروجن دستیاب ہے جو کہ میتھین سے حاصل ہوتی ہے۔ بہرحال اب تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو ہی چکا ہے۔
@ محمد آصف:
بھائی صاحب، اگر آپ کو گوگل سکالر کے ذریعے تحقیقی مقالے ڈھونڈنا نہیں آتا تو کم از کم وکیپیڈیا سے تو معلوم کر ہی سکتے تھے کہ ڈاکٹر عطاء الرحمان کے تحقیقی مقالوں، کتابوں اور پیٹنٹس کی تعداد کتنی ہے۔
http://en.wikipedia.org/wiki/Atta_ur_Rahman
قوم کو جو کچھ ڈاکٹر عطاء الرحمان نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے دیا، اس کی قدر و قیمت آپ ان لوگوں سے پوچھیں جن کا پی ایچ ڈی تک پہنچنا ایچ ای سی کی بدولت ہی ممکن ہوا۔
چلیں ڈاکٹر عطاء الرحمان کو آپ فراڈیا کہتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جنہوں نے اچھی طرح واضح کر دیا کہ آغا وقار کا دعویٰ کیوں اور کیسے غلط ہے۔
ap log yahan bethay bas dosron par tanqeed hi kar sakta hein..khud b to kuch kar k dikhao..khud bas net aur dosron ki watt lagani ha comments k zaryay..khuda k bando koi acha kam karta ha ya try karta ha to kam az kam us ko tanqeed ka nashana to na bnao
یعنی آپ کا خیال ہے کہ غلط کو غلط نہ کہو اور چپ کر کے بس اپنی ”واٹ“ لگواتے رہو۔ ویسے غور طلب بات یہ ہے کہ آپ کو ہماری تنقید پر اعتراض ہے مگر آپ خود جو نیٹ پر اپنے اس کمنٹ کے ذریعے تنقید کر رہے ہیں اس پر آپ کیا فرماتے ہیں؟
بہر حال میرا خیال تو یہ ہے کہ ہر کسی کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ وہ چاہے میں، آپ یا کوئی بھی دوسرا ہو اور آپ نے جو کمنٹ کیا ہے میں اسے صدقے دل سے قبول کرتا ہوں۔
بھائی ہمیں تو خوشی ہوتی ہے جب کوئی اچھا کام کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر بات یہ ہے کہ کوئی اچھا کام کرے تو سہی بلکہ یہ نام نہاد ایجادیے جھوٹ کہتے پھرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے جو کیا وہ پہلے کسی نے نہیں کیا تو میرے بھائی یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ اپنے کام کو بڑھا چڑھا کر پیش کرو اور دوسروں نے پہلے جو کام کیا ہے اسے فراموش کر دو۔ ویسے ہم تو ہر جگہ کچھ کرنے کی صدائیں لگاتے پھرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال آپ ان دو تحاریر میں دیکھ سکتے ہیں۔
ضرورت ”بچے“ کی ماں ہے
جن کا نام ہی تاریخ ہوتا ہے
رہی بات ہمارے کام کرنے کی تو ہم سے جو بن پڑتا ہے، اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تحریر بھی اسی سلسلے کا حصہ ہے کہ خدا کے لئے کچھ کرو، ادھر ادھر کی چھوڑ کر عوام کو پاگل نہ بناؤ۔
ویسے یہی بات میں آپ سے بھی تو کہہ سکتا ہوں کہ مجھ پر تنقید کرنے سے پہلے آپ یہ تو بتاؤ کہ آپ نے کیا کیا ہے؟
جب تک کؤی بات مکمل سامنے نہیں آتی کچھ کہنا مناسب نہیں ھو گا، یقین نہ کرنے والی بات ہے کہ ایسا ممکن ھو سکے کیوںکہ جب پانی ٹوٹتا ہے تو وہ اتنی طاقت پیدا نہیں کر سکتا کہ اس سے اتنا بڑا نجن چلایا جا سکے ، یہ کوی نیوکلیر ایٹم نہیں ہے جس سے زیادہ انرجی حاصل ھو۔
اور اگر ایسا ممکن ھو گیا ھو تو میری طرف سے اس کے لیے نوبل پرائز تیار ھے 😀
اور اس اردو پیج کو دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ جس نے بھی محنت کی ہے اس کو داد دیتا ہوں
محترم محمد عمران صاحب! آغا وقار کی پانی سے چلنے والی گاڑی کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ہے۔ یہ دو ویڈیوز دیکھیں۔
ویڈیو نمبر 1:- آج کامران خان کے ساتھ پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
ویڈیو نمبر 2:- حسبِ حال پروگرام بتاریخ 3 اگست 2012ء
ویسے اگر ایسا ہو جاتا تو پھر نوبل پرائز بہت چھوٹا ہے کیونکہ آغا وقار کے مطابق تو توانائی بنائی جارہی تھی، یہ صرف ایک گاڑی کا چلنا نہ رہتا بلکہ یوں پوری کی پوری فزکس منہ کے بل گرتی اور پوری دنیا تبدیل ہو جاتی۔
باقی بلاگ پسند کرنے کا بہت بہت شکریہ، امید کرتا ہوں کہ آپ کا آئندہ بھی بلاگ پر چکر لگتا رہے گا۔
آپ تمام احباب کا بہت بہت شکریہ کہ جنہوں نے میری تحریر کو اس قابل سمجھا اور اس پر اپنی رائے دی۔ یوں تو میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر کسی کے تبصرے کا جواب دوں، مگر تبصرے زیادہ ہونے کی وجہ سے صرف انہیں کا جواب دیا ہے جن میں دوست احباب نے کوئی سوال یا اعتراض اٹھائے تھے۔ امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس بات کا برا نہیں منائیں گے۔
ایک مرتبہ پھر تمام احباب کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بے شمار خوشیاں دے۔۔۔آمین
سائنس کے بارے میں میرا تبصرہ وہی حیثیت رکھتا ہے جو عامر لیاقت کا مذہب کے بارے میں۔
اسے دیکھیے یہاں بھی اسی موضوع پر بات ہورہی ہے۔
http://anqasha.blogspot.com/2012/08/blog-post_3.html
بلال صاحب آپ لوگ سندھی لوگون سے اتنا جلتے کیون ھو
استغفراللہ۔ ارے بھائی کون کافر، سندھی لوگوں سے جلتا ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ آپ کے ذہن میں یہ کس نے ڈال دیا ہے کہ ہم سندھی لوگوں سے جلتے ہیں؟ خیر جیسے دیگر پاکستانی بھائی ہیں بالکل ویسے ہی سندھی بھی ہمارے بھائی ہیں بلکہ میری نظر میں کوئی پنجابی، بلوچی، سندھی یا پٹھان وغیرہ نہیں، ہم سب پاکستانی ہیں اور سب کے سب بھائی ہیں۔ لگتا ہے آپ میرے بلاگ پر پہلی دفعہ تشریف لائیں ہیں ورنہ آپ کو پتہ ہوتا کہ میں نے اس سے ملتے جلتے موضوع پر کئی ایک تحاریر لکھی ہیں جن میں سے اکثر تو پنجابیوں پر ہیں۔ اور تو اور اس تحریر میں بھی جن لوگوں کا ذکر کیا ہے ان میں پنجابی بھی شامل ہیں بلکہ اس آغا وقار کے فراڈ پر خود سندھی لوگوں نے تحاریر لکھی ہیں۔ باقی بھائی جان مجھے یہ لسانی اور علاقائی تعصب کے کارڈ کھیلنے نہیں آتے اور نہ ہی پسند کرتا ہوں۔ آپ کو ایک اور بات بتاتا چلوں کہ میرے انٹرنیٹ کے دوستوں میں زیادہ تر سندھی ہیں اور اللہ کا فضل ہے کہ وہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں جو اس علاقائی تعصب کے گند سے پاک ہیں۔
میں کئی دنوں سے اس ایشو سے متعلقہ خبروں اور تجزیوں کا مطالعہ کر رہا ہوں، آج ہی ڈاکٹر عطا الرحمن کا ایک مضمون بھی دیکھا اور کچھ دن پہلے پبلش ہونے والا پرویز ہود بھائی کا مضمون بھی۔ تاہم فیس بک پر آغا وقار کی طرف داری کرنے والے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں اور سندھی ہونے کی بنیاد پر آغا وقار کی حوصلہ شکنی کرنے کے الزامات لگانے والے لوگوں کو دیکھنے کے بعد میں تو یہی کہوں گا، سوری ٹو سے، لیکن ہم لوگ بے وقوفی کی انتہا کو چھو رہے ہیں، مصنوعی تیل یا تیل کا متبادل بنانے کے لیے دنیا بھر میں کروڑوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ تا کہ عرب ممالک کی تیل کی منوپلی سے جان چھڑائی جا سکے، دنیا بھر کے ممالک بشمول امریکہ ہر سال اربوں کھربوں ڈالر تیل کی خریداری میں صرف کرتے ہیں، اگر تیل کا متبادل تلاش کرنا اتنا ہی آسان ہو کہ کوئی بھی اوسط پڑھا لکھا شخص پانی سے گاڑی چلا لے تو ایسی ٹیکنالوجی سب سے پہلے امریکہ کے ہاتھ آتی، یا کم از کم کسی یورپی ملک کے ہاتھ لگتی، یہ لوگ کم سے کم تیل خرچ کرنے والی گاڑیاں بنانے کی بجائے پانی سے چلنے والی گاڑیاں کیوں نہ بنا لیتے اور اپنے اربوں ڈالر عرب ممالک کو دینے کی بجائے کسی اور کام میں صرف کر لیتے۔ جو امریکہ نیٹو رسد کے لیے چند اضافی ڈالر دینے پر آمادہ نہیں ہوتا، وہ کیا اتنا ہی بےوقوف ہے کہ اربوں ڈالر تیل میں جھونک رہا ہے۔
ہم پاکستانی حقیقت کی دنیا میں نہیں بلکہ سپنوں کی دنیا میں جیتے ہیں، ہم نے سائنس کو بنگالی بابے کا جادو سمجھ لیا ہے یا کسی پیر کا دم سمجھ لیا ہے ، ارے پاکستانی بھائیو، جاگو، یہ خواب و خیال کی نہیں حقیقت کی دنیا ہے۔
السلام علیکم۔ کیا یہ بات ثابت ہوئی کہ آغا جو گاڑی پانی سے چلا رہا تھا وہ کیسے چل رہی تھی؟
اس کا یہ ہوا جی۔ 😆
بلال بھائی پریشان ہونے کی ضرورت نہیں دراصل کچھ بجلی کی قلت کے باعث کئی لوگ “سٹھیا”گئے ہیں۔۔۔
دعاکریں حالات کچھ بہتر ہوں تو ہوسکتاہے لوگوں کا”دماغی توازن درست ہوجائے 😛