ہم نے پہنچنے میں تھوڑی دیر کر دی اور تب تک جولاہے کی بیٹی ”گامن گدھوکن“ قتل کر کے جیل جا چکی تھی۔ بلکہ جیل کے دورے پر آئے نوجوان نواب صاحب گامن کے عشق میں گرفتار بھی ہو چکے تھے۔ اِدھر ہم پہنچے اور اُدھر گامن جیل توڑ کر فرار ہو گئی۔۔۔ بس پھر نواب صاحب ہجر میں تڑپنے اور سپاہی گامن کو ڈھونڈنے کی جان توڑ کوشش کرنے لگے۔ آخر گامن پکڑی گئی اور اس نے نواب صاحب کو ٹھوک کر جواب دیا کہ میں معشوقہ بن کر تمہارا بستر گرم نہیں کروں گی۔ اگر اتنی ہی محبت ہے تو میرے باپ سے رشتہ مانگو۔۔۔ قصہ مختصر کہ نواب صبح صادق محمد خان عباسی چہارم کی شادی گامن گدھوکن سے ہو گئی، مگر نواب صاحب کی والدہ نے غریب گامن کو بطور بہو قبول نہ کیا۔ جبکہ دوسری طرف نواب صاحب گامن میں یوں ڈوبے کہ معاملاتِ ریاست پر توجہ نہ دے سکے۔ آخر محلاتی سازشیں عروج پر پہنچیں اور کچھ عرصہ بعد گامن کو زہر دے کر مار دیا گیا۔ نواب صاحب اپنی بیگم کے ہجر میں اس قدر بے حال ہوئے کہ مجنوں سے بن گئے۔ خواجہ غلام فریدؒ نواب صاحب کے مرشد تھے۔ جب بے حال تڑپتا نواب خواجہ صاحب کے پاس پہنچا تو ان کے درمیان ہونے والا مکالمہ کافی جاندار تھا۔ نواب کی حالت اور حد درجہ التجا کہ ”مجھے گامن سے ملوا دیں“ پر خواجہ صاحب کو ترس آ گیا۔ یوں انہوں نے مر چکی گامن سے نواب کی ایک ملاقات کرانے کا کہہ دیا، مگر شرط یہ تھی کہ نواب بات چیت تو کر سکتا ہے، مگر گامن کو چھو نہیں سکتا۔ اور اگر اس نے چھوا تو خواجہ صاحب اور نواب کا مرشد و مرید والا تعلق ختم ہو جائے گا۔۔۔ اور پھر ملاقات کے دوران نواب نے مجازی اور حقیقی کی ایک سخت جنگ لڑی۔۔۔ بابا غالب کی زبان میں کہیں تو
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
اور پھر جب ہال میں روشنیاں جلیں تو ہم نے کئی پہنچی ہوئی شخصیات کو یہاں پہنچے بھی دیکھا۔ اور ہاں! بے شک ”تم“ نے بے نیازی دکھائی، مگر مجھے وہاں تمہاری موجودگی کا علم ہو گیا تھا۔۔۔ کوئی نہیں جانی! بس وقت وقت کی بات ہے اور ایک نہ ایک دن یہ وقت بھی پلٹا کھائے گا۔
الحمراء آرٹس کونسل میں ہونے والا یہ تھیٹر ڈرامہ ”میڈا عشق وی توں“ بلاشبہ ایک زبردست کاوش تھی۔ اس میں مزاح تھا، محبت تھی، عشق تھا اور تصوف تو کمال کا تھا۔۔۔ پورے ڈرامے میں میری نظر میں سب سے مزے کا کردار وہ تھا کہ جو وقتاً فوقتاً سٹیج پر آتا اور موقع کی مناسبت سے خواجہ صاحب کی کافیاں پڑھتا۔ گویا وہ کردار کہ جسے اپنے تئیں خواجہ صاحب بنایا گیا تھا۔۔۔ یہ ڈرامہ رفیعہ کاشف صاحبہ نے لکھا اور یہ ایک سچی کہانی تھی۔ مگر چونکہ یہ ایک ڈرامہ تھا تو ظاہر ہے کہ لکھاری نے قلم بھی لگایا ہو گا۔ ویسے بھی یہ نواب صبح صادق کی زندگی کے ایک پہلو کی کہانی تھی۔ جبکہ صرف 37-38 سال کی عمر پانے والے نواب صبح صادق نے ایک طرف عشق کیا تو دوسری طرف ریاست میں کئی اہم کام سرانجام بھی دیئے۔ بہاولپور کے محلات اور کئی اہم عمارتیں تعمیر کرائیں۔ جن میں سب سے خوبصورت صادق گڑھ محل ہے۔۔۔ کہتے ہیں کہ گامن سے نواب صاحب کا ایک بیٹا بھی پیدا ہوا لیکن اونچ نیچ کے ماروں نے اس بچے کو وہ عزت نہ دی کہ جو نواب خاندان کے کسی بچے کو ملتی ہے۔۔۔
ڈرامے کی کامیابی پر مسافرانِ شوق نے رفیعہ کاشف صاحبہ کو بطور تحفہ ایک تصویر پیش کی۔ اور ہمیں یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ تصویر منظرباز کی بنائی ہوئی تھی۔۔۔ اس کے بعد رات کے پہلے پہر ہمارا سفر شروع ہوا۔ کیونکہ پروگرام یہی تھا کہ پہلے ڈرامہ دیکھیں گے اور پھر اس نگری جائیں گے کہ جہاں یہ کردار حقیقت میں بستے تھے۔ یوں ہم اس نگری چل دیئے کہ جہاں نواب صبح صادق اور گامن گدھوکن کا عشق پروان چڑھا۔ جہاں خواجہ غلام فریدؒ کا پیغام ہے۔ جہاں کی ہواؤں میں فرید کی خوشبو اور اس کی صدائیں آج بھی سنائی دیتی ہیں۔۔۔
میڈا بادل برکھا، کھمڑیاں گاجاں بارش تے باران وی توں
میڈا ملک ملیر تے مارو تھلڑا روہی چولستان وی توں
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
اگلا حصہ : ایک منفرد مسجد – جامع مسجد بھونگ
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں