کہتے ہیں پانی اگر قطرہ قطرہ بھی مسلسل پتھر پر گرتا رہے تو وہ انتہائی کم طاقت رکھنے کے باوجود ایک نہ ایک دن پتھر میں سوراخ کر دیتا ہے۔ دنیا میں اگر ایک چھوٹا سا پتا بھی ہلتا ہے تو چاہے نہایت ہی کم سہی لیکن اس کا اثر پوری دنیا پر ہوتا ہے۔ میں، آپ اور باقی سب چاہے تھوڑا بہت سہی لیکن اثر رکھتے ہیں۔ انسان تو بہت بڑی بات ہے، دنیا کا ایک معمولی ذرہ بھی بیکار نہیں۔ ہم تو پھر بھی انسان ہیں۔ ایک وجود رکھتے ہیں۔ اپنا ایک اثر رکھتے ہیں۔ آپ بے شک نہایت ہی معمولی اثر رکھتے ہوں لیکن بہرحال آپ اثر ضرور رکھتے ہیں۔ ہمارا عمل چاہے سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ سہی لیکن یہی قطرہ اگر مسلسل گرتا رہے تو ایک نہ ایک دن پتھر میں سوراخ ضرور کرے گا، بس ہمیں اپنے مقصد کے ساتھ سچی لگن اور اس کو حاصل کرنے کے لئے ہمت اور حوصلے سے چلنا ہو گا۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو سمندر بھی بہت سارے قطروں کا ایک مجموعہ ہی تو ہے۔
آج کی ایک بہت بڑی طاقت ”انٹرنیٹ“ بھی ایسا ہی ایک سمندر ہے، ایک دنیا ہے۔ جہاں پر ہم سب اپنا ایک اثر رکھتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی جنبش بھی اس سمندر میں بے شک ہلکا سہی لیکن ارتعاش ضرور پیدا کرتی ہے۔ ہر ایک ایک لکھا گیا لفظ اور چھوٹی سے چھوٹی معلومات کی بھی اپنی ایک اہمیت ہے۔ ہر لکھا جانے والا لفظ انٹرنیٹ کو مزید سیانا کر دیتا ہے۔
یوں تو آپ سب خود ہی بہت سیانے ہیں لیکن یہ سب باتیں ان بلاگران کے لئے لکھ رہا ہوں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تحاریر کم لوگ پڑھتے ہیں اور تبصرے بہت کم ہوتے ہیں۔ ہمارے کئی پرانے بلاگر بھی اسی وجہ سے دل چھوٹا کیے بیٹھے ہیں کہ ان کی آواز اثر نہیں کر رہی۔ اس کے علاوہ کئی نئے لوگ سوچتے ہیں کہ اتنے بڑے سمندر میں ہماری کون سنے گا۔ ہم تواس سمندر کے مقابلے میں قطرے سے بھی کم ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے گذارش ہے کہ ایسا ہرگز نہ سوچئے۔ بس بولئے، لکھئے اور اپنی آواز دوسروں تک پہنچا دیجئے۔ ویسے بھی ہمارا کام اثرات سے بلاتر ہو کر معاشرے کی بہتری کے لئے اپنے احساسات، جذبات، نظریات، تجربات اور سوچ کو دوسروں تک پہنچانا ہے نہ کہ ٹھونسنا، اور ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کے لئے ہٹ دھرمی اور انا کو چھوڑ کر دماغ کی کھڑکیاں کھلی رکھتے ہوئے ہر اچھی بات کو خوش آمدید کہنا ہے۔
اپنی زندگی کی طرح اپنی بلاگنگ کو بھی بامقصد بنائیں۔ چاہے مقصد لوگوں کو اچھے مزاح کی صورت میں تفریح فراہم کرنا ہی کیوں نہ ہو۔ بلاگنگ کے حوالے سے ایک منزل متعین کریں۔ بلاگنگ کے ذریعے دوسروں کو اور خود کو سیکھانا، تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا، اپنی اور دوسروں کی معلومات میں اضافہ کرنا اور لوگوں کی ترقی کے لئے کام کرنا وغیرہ وغیرہ بھی تو منزل ہو سکتی ہے۔ آپ اپنے علاقے کے حالات لکھتے ہیں تو گویا آپ نے مزید ایک علاقے کی معلومات دوسروں تک پہنچا دی۔ آپ اپنی سوچ لکھتے ہیں تو آپ نے کئی دیگر لوگوں کو انسان کوسمجھنے کا مواد فراہم کر دیا۔ حتی کہ آپ میری طرح بونگیاں مارتے ہیں تو گویا آپ نے دنیا کو یہ معلومات دی کہ بونگیاں مارنا بھی انسان کا ہی کام ہے۔ دنیا کو معلومات دینے کے علاوہ آپ کچھ بھی لکھ کر ایک ایسے انسان کی سوچ بہتر کرنے میں مدد کرتے ہیں جو آپ کے سب سے زیادہ قریب ہے یعنی خود آپ۔ لکھ کر آپ صرف دوسروں تک معلومات نہیں پہنچاتے بلکہ لکھنے سے آپ کی اپنی سوچ بھی بہتری کی طرف سفر کرتی ہے۔ میرے خیال میں مذہب سے لے کر جنس تک، ٹیکنالوجی سے لے کر ادب اور فلسفے تک، جہاں تک لکھنا چاہتے ہیں لکھیے بس خیال رہے اخلاقیات کا دامن نہ چھوٹے۔ اپنے لکھنے کو بامقصد بنائیں، ایک منزل کو سامنے رکھ کر لکھیں تاکہ اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ آپ کیوں لکھتے ہیں تو آپ کے پاس اس ”کیوں“ کا جواب ہو۔ ویسے اس کیوں کا ایک درست جواب یہ بھی ہے کہ ”میں اس لئے لکھتا ہوں کیونکہ میں لکھنا چاہتا ہوں“۔
خیر منزل کا تعین کرنے کے بعد اس منزل کی طرف سفر شروع کر دیں۔ سفر سست رفتار سہی لیکن سفر کم از کم ہو منزل کی طرف۔ مقصد منزل کو حاصل کرنا ہو، باقی منزل ملے نہ ملے اس کی پرواہ کیے بغیر لگن، ہمت اور حوصلہ سے چلتے رہو۔ میرے خیال میں ویسے بھی انسان کا کام بس اچھے طریقے سے سفر جاری رکھنا ہے لازمی نہیں کہ ہر کسی کو اس دنیا میں ہی منزل ملے۔ ایک منزل مل بھی جائے تو اس کے بعد کئی منازل ہیں اور یہی انسان کا کام ہے کہ سفر جاری رکھے۔ بس جو لوگ اچھے طریقے سے اچھی منزل کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں، وہ منزل پر پہنچے بغیر بھی مر جائیں تو انہیں سکون ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش تو کی۔
غالباً اسی منزل اور سفر کے بارے میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں۔
تُو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
کہتے ہیں جب آتشِ نمرود کے شعلے آسمانوں سے باتیں کر رہے تھے، کئی انسان تماشائی بنے ہوئے تھے، رب کے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکنے کی تیاری ہو رہی تھی تو ایک چڑیا جاتی اور اپنی چونچ میں ایک قطرہ پانی کا بھر کر لاتی، آگ پر پھینکتی اور پھر دوسرا قطرہ لینے چلی جاتی۔ کسی نے چڑیا سے پوچھا کہ اتنی زیادہ آگ پر تیرا یہ معمولی سا پانی کیا اثر کرے گا؟ یہ چھوٹے چھوٹے قطرے اس آگ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چڑیا نے جواب دیا، جب تاریخ دان قلم اٹھائے گا تو وہ لکھے گا کہ ایک طرف ساری دنیا تھی تو دوسری طرف صرف ایک معمولی چڑیا، جب ساری دنیا آگ جلانے میں مصروف تھی تو ایک چڑیا آگ بجھانے میں مصروف تھی۔ چڑیا بولی بے شک یہ پانی کے قطرے کوئی اثر نہیں کر رہے مگر تاریخ میں میرا نام آگ بجھانے والوں میں لکھا جائے گا نہ کہ آگ جلانے والوں میں۔
گو کہ آج آتشِ نمرود نہیں مگر بحرانوں کے جو گرداب چل رہے ہیں وہ کسی عذاب سے کم نہیں۔ گو کہ سائنس کہتی ہے کہ معمولی سے معمولی حرکت بھی اپنا ایک اثر رکھتی ہے، لیکن ہم اس اثر سے بھی بالا تر ہو کر سوچیں تو پھر بھی ہمیں اچھائی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب ساری دنیا آگ جلانے میں مصروف ہے تو ہمیں اس کو بجھانے(اچھائی) کے لئے بے شک چند ”بے اثر“ قطرے سہی لیکن اپنا نام آگ بجھانے والوں میں لکھوانا ہو گا۔
آج ہمارے پاس انٹرنیٹ ایک ایسا میڈیا ہے جس سے ہم دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ کر بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج بلاگنگ ایک ایسی طاقت ہے جس کے ذریعے ہم اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہم لکھ کر دوسروں کو تحریک دے سکتے ہیں، بلکہ لکھنے سے ہمارے اندر بھی کئی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور پھر سب کو نہ سہی لیکن کچھ کو تو ہم عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ آج کی دنیا کے اس جدید ہتھیار انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے، معلومات اور حق کی صدا لگائیے اور ان عام لوگوں تک پہنچیں جو حقیقت میں تبدیلی لاتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر ہمارے ہاں تبدیلی میں انٹرنیٹ نے اپنا اثر دکھایا تو اس میں نمایا مقام انٹرنیٹ پر اردو لکھنے اور پڑھنے والے لوگوں کا ہو گا کیونکہ یہی اردو والے عام شہری کے سب سے قریب ہیں، کیونکہ یہ عام شہری کی زبان میں بات کرتے ہیں اور کبھی عام شہری کو ہوش آیا، کبھی عام شہری نے قوموں کے فلسفے پر غور کیا اور بہتری کے لئے معلومات کی طرف دوڑ لگائی تو وہ سب سے پہلے اردو پڑھنے کو ہی ترجیح دے گا، کیونکہ نہ تو قوموں کے فلسفے ایک دو لائنوں میں بیان ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی بیگانی زبان میں فلسفے کی گہرائی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، فی الحال یہی کہوں گا کہ اس سمندر میں بے شک ایک قطرہ ہی سہی، مٹھی بھر اردو بلاگر ہی سہی اور بے شک ان کا اثر نہایت معمولی ہی سہی مگر یاد رکھیے آپ اثر ضرور رکھتے ہیں۔
! Success is a journey not a destination
السلام علیکم بلال بھائی ماشاءاللہ آپ کی جانب سے لکھی گئی تحریر اتنی پُر اثر ہوتی ہیں کہ کم سے کم میں تو سوچتا ہوں کہ میرے لفظوں کے ذخیرے میں وہ لفظ ہی نہیں ہیں کہ میں تحریر پر تبصرہ کرو۔
صرف چڑیا کی طرح اپنا نام آپ کے نیک مقصد میں شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ نے درست فرمایا!
منزل کا تعین کرنے کے بعد اس منزل کی طرف سفر شروع کر دیں۔ سفر سست رفتار سہی لیکن سفر کم از کم ہو منزل کی طرف۔ جو لوگ اچھے طریقے سے اچھی منزل کی طرف سفر جاری رکھتے ہیں، وہ منزل پر پہنچے بغیر بھی مر جائیں تو انہیں سکون ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے کوشش تو کی۔
انسان کے بس میں کوشش کرنا ہی ہے۔
اللہ پاک کسی کی محنت کو ضائع نہیں فرماتے پورا پورا صلحہ دیا جائے گا اور اپنی رحمت سے بے انتہاہ انشاء اللہ
ہم بھی آپ کے قافلے میں شامل ہیں۔ اللہ پاک آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے آمین
مجھے یہی فوٹ چاہئے اس فونت کا کیا نام ہے اور ہے کیسے ڈاون لوڈ کیا جاسکتا ہے؟ اس فونٹ کا لنک مجھے بتائیں۔ اللہ آپکو اجر دے گا۔
جناب بہت ہی پر اثر تحریر کا شکریہ
اور حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ
پرامیدیت اور حوصلہ افزائیت پر مبنی تحریر ہے۔
جہاںتک اقبال صاحب کے لیلی نہ قبول کرنے کا سوال ہے تو ان کی باقی ساری باتیں سر آنکھوں، لیکن یہ ماننے کو دل نہیں کرتا۔
واہ جی۔۔۔
کیا خوبصورت تحریر لکھی ہے۔
مجھ جیسے نئے بلاگران کیلیئے نہایت ہی حوصلہ افزاء ہے
یہ جملہ بہت پسند آیا، “ہم لکھ کر دوسروں کو تحریک دے سکتے ہیں، بلکہ لکھنے سے ہمارے اندر بھی کئی تحریکیں جنم لیتی ہیں”۔
ایسا لکھنے کا شکریہ 🙂
اچھا یار تو کہہ را تو لکھ ہی لوںگا کچھ نہ کچھ
بھائی جان خوب حوصلہ افزائی کرنےکا۔آپ کی یہ تحریرمجھےبہت پسندآئی۔
بونگیاں تو میرے جیسے انسان مارتے ہیں ، آپ کی تحاریر بونگیاں نہیں بلکہ ایک تحریک پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے اسی طرح کامیاب رہیں ۔
تحاریر پسند نہ کرنے کی وجہ جو کہ بہت بڑی وجہ ہے “حسد ” ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے سے چھوٹا جاننا ہے ۔ مجھے ایک سال ہوگیا ہے بلاگنگ کی دنیا میں لیکن میں نے یہی جانا ہے جو میں نے بیان کیا ہے ۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے جی۔ آپ کو جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں بس ذرا تبصرہ کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔
اللہ کرے آپ کی بات اُن خواتین و حضرات کو سمجھ آ جائے جن کیلئے یہ لکھی گئی ہے ۔ ویسے بقول شخصے ہماری قوم کی حالت یہ ہے “واہ چھاؤنی میں 95 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں لیکن جسے انتخابات میں ووٹ دے کر جتاتے ہیں اُس سے نہ کبھی ملے ہیں اور نہ اُسے کبھی براہِ راست دیکھا ہے”
جناب محمد بلال صاحب
میرے ای میل کا تو جواب دے نہ پلیز مجھے ایک بہت گمبھیر مسلئہ درپیش آیا ہے۔
شکریہ
ایک چیز یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں اردو کو وہ اہمیت حاصل ہی نہیں جو دیگر ملکوںمیںانکی قومی زبانوں کو ہے ، لہذا ہمارے ہاں انگریزی بلاگنگ کو تو کچھ نہ کچھ درجہ مل بھی جاتا ہے لیکن اردو کو نہیں۔ دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو کمپیوٹر پر اردو استعمال کرنی بھی نہیں آتی اور لوگ اس معاملے میں سہولیات کے باوجود بھی سستی کا شکار ہیں ۔
مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا چھا کیسے لکھ لیتے ہیں 💡 😮
بلال بھائی بہت اچھی اور حوصلہ افزا تحریر ہے ۔
السلام علیکم
بالکل ٹھیک کہا آُپ نے بلال محمود بھائ- ایک مسلمان ہر وقت پر امید رہتا ہے اور دوسروں کو بھی حوصلہ دیتا ہے- اور بے مقصد زندگی گزارنے پر بھی یقین نہیں رکھتا-
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی
اور لگتا ہے جیسے آُ پکی تحریر پر سب سے پہلے عمل کرنے والے ہم ہی ہیں- اسکے فوراً بعد ہم نے بلاگ بنا لیا 🙂
آپ جیسے کھڑپینچوں (giants) کے ہوتے ہوئے ایک نیا بلاگر یہی سوچتا ہے کہ اس کی کوئ جگہ نہیں۔۔
لیکن یہ تحریر پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہیں نہ کہیں تو جگہ بن ہی جائے گی۔
بلال بھیا ہمیشہ کی طرح، اِس مرتبہ بھی ایک نہایت پُر اثر تحریر لکھنے اور تمام بلاگرز کی حوصلہ افزائی کرنے کا بہت شکریہ۔ اگر ایسے ہی حوصلہ افزائی ہوتی رہی تو بلاگرز بلاگستان کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ نئے بلاگران کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔۔۔۔
بہت خوب لکھتے ہیں آپ اور ہر انسان اپنی جگہ اپنی بات میںاثر رکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن کچھ لوگوں کو یہ صلاحیت خدا کی ودیعت کردہ ہوتی ہے اور وہ دل سے لکھتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ دل سے لکھا ہوا دل تک پہنچ ہی جاتا ہے تو یقینآ آپ کا لکھا نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا اس کے لیے شکر گزار ہوں۔
رب کائنات آپ کو جزا دے۔
بہت عمدہ تحریر کیا ہے بھائی آپ نے ماشاء اللہ
آج اس مصبون تک پہچنا ایک عجب اتفاق ہے۔ پچھلے مہنہ میں نے اپنے بلاگ کو نئی طور سے زندہ کیا ہے مگر ایک بھی کمنٹ نہ پاکر دل پر اب مایوسی چھانے لگی تھی کہ آپ کی اس حوصلہ آفزا تحریر نے مزید تقویت پہچائی ہے۔ بلال بھائی آپ جیتے رہیں خوش رہیں ہمیشہ
مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ-
مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ
مجھے بس
صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ
مجھے بس
صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ
مجھے بس
صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ
مجھے بس
صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ماشاء اللہ
مجھے بس
صرف یہ بتا دیں کہ آپ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں ،ہیں ،ہیں ہیں
ماشاء اللہ ،
،
اسلام و علیکم
اب تک آپ کی کافی تحاریر پڑھیں اور لکھنے کا حو صلہ ھوا – معمولی سہی مگر آپ اثر رکھتے ھیں – اس حوالے عرض ھے – آپ یہ بات بظاہر بہت سادہ مگر پُر اثر ھے -آپ کا یہ موضوع بہت تحریک دیتا ھے -لکھنے کی اس طرح تبادلہ خیال ھی ھمیںایک دوسرے سمجھنے کا موقع فراھم کرتا ھے -اللہ پاک آپ ھمت اور صحت کے ساتھ یہ مشن جاری رکھنے کی توفیق عطا فرماےً امین
معزز احباب میں نے محترم بلال صاحب اور ابوشامل صاحب کے بلاگز کی راہنما تحریروں سے تکنیکی مدد لے کر اپنا بلاگ شروع کیا ہے۔ یوں محترم بلال صاحب اور برادر ابو شامل صاحب میرے غیر رسمی اساتذہ ٹھہرے۔ اس بلاگ میں کچھ تکنیکی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے بلاگرز احباب سے تکنیکی راہنمائی کا خواستگار ہوں
ہوم پیج پر دس پوسٹز سمری کی شکل میں نظر آتی ہیں مگر ہر پوسٹ کے سمری ٹیکسٹ کے آخر میں ،، مذید پڑھیئے،، یا ،، تفصیل ،، جیسے الفاظ کا لنک کیسے ایڈ کیا جائے گا؟
Enable the Atom Publishing Protocol.
XML-RPC XML-RPC Enable the WordPress, Movable Type, MetaWeblog and Blogger publishing protocols.
یہ دونوں آپشن کیا ہیں اور ان کی آپشن کو چیک کرنے اور ان چیک رکھنے میں کیا فواید اور نقصانات ہیں؟
http://farooqdarwaish.com/blog
امید ہے احباب راہنمائی فرمائیں گے۔
دعاگو
فاروق درویش
بلال بھائی آپ نے تو حد مکا دی اور مجهے اتنا جوش ہوگیا ہے لکهنے کا کہ نیند آرہی تهی وہ بهی بهاگ گئ
ماشاءاللہ
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
سلامت رہیں
امید کرتا ہوں کہ ہماری بهی اصلاح اور رہنمائی کرتے رہیں گے
دعاگو
مصطفٰی بلوچ