بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارے معاشرے کی اکثریت نظام کی خرابی کا سہرا حکمرانوں کے سر سجاتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہمارے حکمران بھی ”ہماری“ طرح خراب ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے جی ”ہماری طرح“۔ حکمران نہ تو کسی دوسرے سیارے سے آئے ہیں اور نہ ہی کوئی دوسری مخلوق ہیں۔ وہ بھی ہمارے ہی ”لگدے لائی دے“ ہیں۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ اگر حکمران ٹھیک نہیں تو ہم کتنے ٹھیک ہیں؟ آج چھوٹی سی بات ہو ہم سفارش کروانے اور رشوت دینے کے لئے سب سے آگے ہوتے ہیں۔ یوں سفارش منظور کرنے والے اور رشوت لینے والے بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ بلکہ میں تو کہوں گا وہ ہم سے بہتر کام کرنے والے اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے ہیں۔
آپ خود سوچو! ان خراب حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے یا نظام کی بہتری کے لئے ہم نے ان کا مقابلہ کرنے یا اچھائی کے لئے کیا کیا؟ ہم بڑی آسانی سے حکمرانوں کو قصوروار کہہ کر پھر اپنی دنیا میں مست ہو جاتے ہیں۔ تھوڑا سا سوچو! یہی ہمارے حکمران جنہیں ہم نالائق کہتے ہیں لیکن وہ اپنے کام اور مقصد کے لئے ہم سے زیادہ محنت کرتے ہیں۔ اب ان کا کام اور مقصد ہی برائی کرنا ہے تو وہ برائی کرنے کے لئے کیا کیا نہیں کرتے۔ بچپن سے لے کر مرنے تک دشمن کے ڈر اور خوف میں رہتے ہیں۔ میڈیا سے بچتے بچاتے اپنا کام کرتے ہیں۔ کئی کئی سال جیلوں میں گذارتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے اپنے رشتہ داروں کو گنواتے ہیں۔سوچ سوچ کر پلان بناتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ راتوں کو جاگ جاگ کر میٹنگز کرتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے دن رات لوگوں سے ملتے ہیں۔ کسی کو توڑتے ہیں تو کسی کو اپنے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اپنے مقصد کے لئے انہوں نے ایک منظم گروہ تیار کر رکھا ہے۔ ایک مرتا ہے تو اس کا بیٹا، بیٹی یا دیگر کوئی وارث اس کی جگہ لے کر اپنے کام کو مزید آگے بڑھاتا ہے۔63 سال ہو گئے لیکن ان کی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ اپنے جیسوں کا بڑا برا انجام دیکھ کر بھی ان کی ہمت میں کمی نہیں آئی۔ بے شک ان کا مقصد برائی ہے لیکن وہ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ضرور ہیں۔
شاید آپ کو میری باتیں عجیب لگیں لیکن اچھے یا برے مقصد سے بالا تر ہو کر کبھی کسی سیاست دان کی زندگی کا تھوڑا قریب سے تجزیہ کیجئے گا۔ پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ وہ اپنے مقصد کے لئے کتنی محنت اور کیسی کیسی قربانی دیتے ہیں۔ تب آپ کو پتہ چلے گا کہ دوسری طرف ہم جیسی عوام کتنے پانی میں ہے۔ ہم نے ان کی برائی ختم کرنے کے لئے یعنی ان کے مقابلے میں اچھائی کے لئے کیا کیا؟ کیا ان جتنی لگن سے محنت کی؟ کیا ان جتنا کام کیا؟ وہ برائی کی خاطر ہر وقت خوف میں زندگی گزارتے ہیں اور ہم خوف آنے کے ڈر سے اچھائی ہی نہیں کرتے۔وہ برائی کے لئے میڈیا سے بچتے ہیں اور ہم اچھائی کے لئے گواہی تک نہیں دیتے۔ وہ برائی کے لئے جیل کاٹتے ہیں اور ہم جیل کے ڈر سےمست ملنگ بنے ہوئے ہیں۔وہ اپنے مقصد کی خاطر رشتہ دار تک گنوا دیتے ہیں اور ہم رشتہ داروں کی خاطر اچھائی نہیں کرتے۔ وہ کرسی کے لئے پلان بناتے ہیں اور ہمارے پاس کچھ بہتر کرنے کی سوچ تک نہیں آتی۔وہ راتوں کو جاگ جاگ کر میٹنگز کرتے ہیں اور ہم آرام سے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ وہ دن رات لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہوئے ایک منظم گروہ تیار کرتے ہیں اور ہم نے اچھائی کے لئے نہ خود کو جوڑا ہے اور نہ ان کو توڑا ہے اور سونے پر سہاگہ ہم پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان میں تقسیم ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان میں ایک مرتا ہے تو دوسرا آ جاتا ہے اور ہم مرنے کے ڈر سے اچھائی ہی نہیں کرتے۔ان کی جدوجہد 63 سال سے جاری ہے اور ہم ان کا مقابلہ کرنے کے 63 منٹ بھی نہیں نکال سکتے۔ ان کا برا انجام بھی ہوتا ہے لیکن وہ ڈرتے نہیں جبکہ ہم اچھے انجام کے لئے کوشش تک نہیں کرتے۔
کبھی خود سے سوال کرنا کہ دوسری طرف بیٹھے ہوئے بھیڑیوں کے مقابلے میں تم نے کیا کیا؟ بے شک ان کا مقصد درندگی ہے لیکن وہ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص ضرور ہیں۔ شاید عوام کا مقصد اچھائی لانے کی کوشش ہے لیکن ہم اپنے مقصد کے ساتھ مخلص نہیں۔ یا پھر ان مٹھی بھر لوگوں کے مقابلے میں اتنی بڑی عوام میں اتنی عقل اور ہمت موجود نہیں اور یہ ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ہم نظام کی بہتری کے لئے اتنے بڑے ہجوم سے چند لوگ بھی آگے نہیں لا پائے، جو ان جتنی سوچ، عقل اور ہمت رکھتے ہوں۔
بالکل درست ۔ اللہ کا فرمان غلط نہيں ہو سکتا
إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔
اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
بہت خوب بلال بھائی!
تصویر کا دوسرا رُخ خوب بیان کیا ہے آپ نے۔ دراصل انسان کو کچھ بڑا کام کرنے کے لئے بڑی تحریک درکار ہوتی ہے یعنی جتنی بڑی منزل کا تعین آپ اپنے لئے کرتے ہیں اُس کے لئے آپ کو اُتنی ہی بڑی تحریک درکار ہوتی ہے۔ یہ ہمارے سیاستدان جو اتنے پاپڑ بیلتے ہیں اُس کے پیچھے ایک بہت بڑی تحریک کار فرما ہوتی ہے، جیسا کہ اقتدار کی ہوس، یا زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی تحریک۔ یہ تحاریک اس قدر شدید ہوتی ہیں کہ انسان کو صحیح اور غلط کی تمیز بھی نہیں رہتی اور وہ اپنی منازل کو پا لینے کے لئے اندھا دھند بھاگتا ہے۔
اس کے برعکس ایک عام آدمی کی زندگی معمولی محرکات کے تابع ہوتی ہے یعنی بساط بھر روزی روٹی اور عزت کی زندگی۔ پھر آج کے زمانے میں اخلاقی اقدار اس قدر پست اور بے قیمت ہو کر رہ گئیں ہیںکہ کوئی اُن کے پیچھے اپنی زندگی تیاگنے کو تیار ہی نہیں۔ یوں بھی اخلاقی تحاریک کی منازل بھی اس دنیا میں تو خسارہ ہی خسارہ ہے ہاں البتہ اس کا اجر اگلی دنیا میں ملتا ہے اور ہم سب بہت بے صبرے ہیں۔
اسی صورتِ حال پر طنز کرتے ہوئے ابنِ انشا نے کہا تھا:
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ ۔۔۔کچھ نہ کہو، خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو۔۔۔ ہاں اے لوگو، خاموش رہو
سچ اچھا، پر اس کے جلو میں، زہر کا ہے اک پیالا بھی
پاگل ہو؟ کیوں ناحق کو سقراط بنو، خاموش رہو
حق اچھا، پر اس کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
تم بھی کوئی منصور ہو جو سُولی پہ چڑھو؟ خاموش رہو
محترم السلام علیکم ۔میرے خیال میں ،اس بکھری ہوئی قوم کو لیڈر اور نعرہ کی ضرورت ہے ۔ جس دن یہ مل جائیں گے پاکستان کی تقدیر بدل جائیگی۔ قائداعظم لیڈر نعرہ آزادی نتیجہ پاکستان ۔افیونی قوم لیڈر ماؤ زے تنگ نعرہ لانگ مارچ ترقی نتیجہ وی۔ٹو پاور ۔لیڈر بھٹو نعرہ روٹی کپڑا مکان ،مساوات نتیجہ ایٹمی پاور ۔لیڈر اوباما نعرہ چینج نتیجہ ناقابل یقین کالا صدر غرض مثالیں اور بھی بہت سی ہیں ۔ یاد رہے نعرہ جنون کی شکل اختیار کرلے تو نتیجہ یقینی ہوتا ہے ۔آپنے موجودہ لیڈرو ں کی بات کی تو عرض ہے کہ – یہ سب نشئی ہیں طاقت کا نشہ اس نشہ پر اپنی ہر چیز قربان کرنے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ انکا نعرہ زر اور پاور ہے اسکے لئے کچھ بھی کرنے کو یہ ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ بہت شکریہ
:star:
بڑی حد تک کھری اور سچی بات کی بلال بھائی۔ عموماً اس طرح کی باتیں ہضم کرنا ہمارے شعائر میں شامل نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنے اندر موجود ہر اس برائی کا خاتمہ کرنے کی بھی ضرورت ہے جو ہم کسی دوسرے میں محسوس کرتے ہوں۔
افتخار اجمل بھوپال کے تبصرہ کا جواب
چچا جان یہی بات تو سمجھانے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی ہے۔ پتہ نہیں کب ہم سمجھیں گے۔ خیر، پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
محمد احمد کے تبصرہ کا جواب
آپ کی باتوں سے مکمل اتفاق کرتا ہوں بس اتنا کہوں گا۔ آپ نے کہا کہ ”ایک عام آدمی کی زندگی معمولی محرکات کے تابع ہوتی ہے یعنی بساط بھر روزی روٹی اور عزت کی زندگی۔“ آج کل کے حالات میں عزت کی زندگی کوئی معمولی محرک نہیں۔ یہ ایک بہت بڑی تحریک ہے۔ شاید کسی فلم کا ڈائیلاگ تھا کہ روٹی نہیں دے سکتے تو کم از کم عزت تو دو۔ کبھی غور کرنا ہمارے بوسیدہ نظام میں کیسے راہ چلتے عزت نفس کی دھجیاں اڑتی ہیں۔ چلو اگر یہ عزت کی زندگی معمولی محرک ہے تو پھر اسی کے لئے ہی محنت کر لیں کم از کم عزت تو ملے۔
md کے تبصرہ کا جواب
وعلیکم السلام
بات آپ کی ٹھیک ہے لیکن یہ لیڈر آئے گا کہاں سے؟ قائداعظم یا باقی لیڈروں نے اگر کچھ کیا تو اکیلے نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ مخلص لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ ہمارا المیہ ہی یہی ہے کہ ہم تبدیلی تو چاہتے ہیں لیکن خود کو تبدیل نہیں کرتے۔ جس دن ہم نے خود کو تبدیل کیا اس دن لیڈر بھی سامنے آئے گا، نعرہ بھی وجود میں آئے گا اور تبدیلی بھی ہو گی۔
:star: :star:
محمداسد کے تبصرہ کا جواب
آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا۔ بے شک تبدیلی تب ہی آئے گی جب ہم خود کو ٹھیک کریں گے۔
:clap: :clap: :clap:
:talktohand: :talktohand: :talktohand:
:hypnotized:
:eyeroll:
کیا آپنے مجھے بلاک کیا ہواہے؟؟؟؟؟
یا آپنے موڈریشن آن کررکھی ہے؟؟؟؟
محترم میں نے کسی کو بھی بلاک نہیں کیا ہوا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہوں۔ ہاں موڈریشن آن کی ہوئی ہے وہ بھی صرف اس لئے کیونکہ کچھ دن پہلے بیہودہ فحش الفاظ والے تبصرے کیے تھے کسی نے۔ تبصرہ کرنے والا کوئی بیمار انسان تھا کیونکہ نہ تو میرا اس سے کوئی جھگڑا تھا اور نہ کوئی بحث چل رہی تھی بلکہ اس نے ایک مبارکبادی پوسٹ پر گندے الفاظ استعمال کیے تھے تو مجبوری میں مجھے موڈریشن آن کرنی پڑی۔ کوئی جتنا چاہے اختلاف کرے بس فحش زبان استعمال نہ کرے تو فی الحال میں اس تبصرے کو نہیں روکوں گا۔ موڈریشن بیمار لوگوں کے لئے لگائی ہوئی ہے۔
بات وہی سوچ پرآتی ہےدراصل جب تک ہم سوچیں گےنہیں توکچھ کرنہیں سکتے۔حکمران ٹولہ سوچتابھی ہےاورکرنےکی ہمت وحوصلہ بھی رکھتاہے۔جب تک شعورمیں بساہواخوف نہیں ختم ہوگاہم ترقی کی راہوں میں یونہی بھٹکتےپھریں گےاوریہ حکمران ہم کوکٹ پتلیوں کی طرح ناچتےرہیں گے۔
م بلال کے تبصرہ کا جواب
بیمار معاشرے میں بیمار لوگوں کی کمی نہیں،پورا اردو سیارہ ایسے ذہنی مریضوں سے پریشان ہے اللہ انہیں نیک ہدایت دے آمین :pray:
اچھی تحریر ہے –
آج معاشرے کا جو حال ہے وہ ہے ہی اسی وجہ سے کہ جب کوی برای ہوتی تھی یا ہے تو لوگ یہ سوچ کر الگ ہو جاتے کہ ہم تو “شر یف ” لوگ ہیں اس مسلے سے ہمارا کیا تعلق ہے – مگر آچ آگ گھروں میں گھس گی ہے تو واویلہ مچا ہوا ہے – کوی جرم کرنے والا اس لیے نہیں ڈر رہا کہ اس کی بیک ہے مگر ایک شریف ڈر رہا ہے اسکی کوی بیک نہیں بلکہ اس کو کہا جاتا ہے کہ آپ تو “شریف” ہو یعنی شرافت نہ ہوی گالی ہو گی-