اس نے پوچھا کہ تم اردو بلاگستان کو کیا سمجھتے ہو؟
میں نے کہا کہ کہکشاں جیسا سمجھتا ہوں۔ جہاں زمین قاری ہے۔ یہ بلاگر سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ بے شک سورج، چاند اور ستارے خوبصورت لگتے ہیں مگر حقیقت میں یہ سارا کھیل زمین کے لئے ہی رچایا گیا ہے۔ ایک حساب سے یہ سبھی زمین کے محتاج ہیں۔ اگر زمین نہ ہو تو ان کی کوئی وقعت نہیں۔ اصل چیز زمین (قاری) ہی ہے۔
وہ بولا: سورج، چاند اور ستاروں کی تھوڑی وضاحت کرو۔
میں: کوئی سورج کی طرح دھکتے ہوئے ”مشرق“ سے چڑھتے ہیں۔ دھوپ سے کسی کا بدن جلا دیتے ہیں تو چند ایک کو میٹھی میٹھی کرنوں سے مزے بھی دیتے ہیں۔ ہر دن کے ساتھ نئے سورج طلوع ہوتے ہیں مگر یہ بہت جلد ”مغرب“ میں غروب ہو جاتے ہیں۔ کچھ اردو بلاگر چاند کی طرح نمودار ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں، پھر پورے آب و تاب سے چمکتے ہیں۔ ہر طرف محبت بھری چاندنی بکھیرتے ہیں۔ ایک طرف قافلے ان کی روشنی کے سہارے چلتے ہیں تو دوسری طرف رومانوی ماحول دیکھ کر کئی لوگ ہجر میں روتے بھی ہیں۔ ایک طرف چودھویں کے چاند کی تعریفیں ہوتی ہیں تو دوسری طرف پورے آسمان پر فقط چاند کے چھا جانے سے کئی ستارے اپنی اصل چھوڑ کر زمین کی طرف بڑھ کر کامیابی حاصل کرنے کے چکر میں فنا بھی ہو جاتے ہیں۔ ہائے رے افسوس! آخر چاند بھی حالات کی مار سے اپنی چاندنی کم کرتے کرتے ایک دن ڈوب ہی جاتا ہے اور پھر وقت کوئی نیا چاند سامنے لے آتا ہے۔
اردو بلاگران کی تیسری قسم ستاروں کی مانند ہے۔ جو ابھرتے ہیں، کبھی سورج کی جلا دینے والی روشنی کی وجہ سے نظر نہیں آتے تو کبھی چاند کی چاندنی کی وجہ سے نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں، مگر پھر بھی یہ ستارے چمکتے رہتے ہیں۔ یہ سکون سے چلتے ہیں اور صدیوں تک لوگوں کو راستہ سمجھاتے رہتے ہیں۔ سائنس کہتی ہے کہ ہو سکتا کئی ستارے ختم ہو گئے ہوں مگر وہ بہت دوری سے اتنی روشنی چھوڑ گئے ہیں کہ ان کے ختم ہو جانے کے باوجود ان کی روشنی آج تک زمین پر پہنچ رہی ہے۔ یہ روشنی آج بھی لوگوں کو راستے سمجھا رہی ہے۔ ستارے کسی سے مقابلہ کیے بغیر بس اپنی موج میں چلتے رہتے ہیں اور خود ختم ہو جانے کے باوجود بھی صدیوں تک کے لئے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
میری نظر میں اردو بلاگران کی تین قسمیں سورج، چاند اور ستارے ہیں۔ گو کئی طلوع ہوتے ہیں اور پھر غروب ہو جاتے ہیں، کچھ بدن جلاتے ہیں، کچھ چاندنی بکھیرتے ہیں اور کچھ ستاروں کی مانند ہوتے ہیں، مگر معاشرے کو سب کی ضرورت ہے۔ ایک کی کمی نظامِ بلاگستان کو برباد کر دے گی۔ اس بلاگستان کی خوبصورتی کے لئے ہر رنگ کی ضرورت ہے۔ دھرتی کے سبھی رنگ پیارے ہیں، انہیں سے ہی دھرتی کی خوبصورتی ہے۔
وہ بولا: کیا کسی بلاگر کو خریدا جا سکتا ہے؟
میں: کیا کبھی سورج، چاند یا ستارہ خریدا جا سکتا ہے؟ پہلی بات کہ انہیں خریدا نہیں جا سکتا، دوسری بات یہ کہ اگر کوئی ٹوٹ بھی جائے تو وہ خلاء میں دھکے کھاتا رہے گا اور اگر زمین کی طرف بڑھا تو کرہ ارض اسے جلا کر راکھ کر دے گا۔ بالفرض زمین تک پہنچ بھی گیا تو تھوڑا بہت شور مچا کر کہیں دفن ہو جائے گا۔
وہ بولا: یہ جو کسی خاص ایجنڈے کے ساتھ بلاگستان میں داخل کیے جاتے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
میں: یہ بیچارے تو مصنوعی سیارے ہیں۔ چلا چلا، نہ چلا نہ چلا۔ ان کی حرکات سے لوگ دور سے ہی انہیں پہچان جاتے ہیں۔
وہ بولا: اس کہکشاں میں تمہیں کونسی قسم پسند ہے؟
میں: اکثر لوگوں کو چاند کی خواہش ہوتی ہے مگر اس معاملے میں مجھے ستارے پسند ہیں کیونکہ چند ایک غیر حاضر بھی ہوں تو پھر بھی لاکھوں تمہاری راہنمائی کریں گے۔ ”ظلمت کے اندھیروں“ میں جب چاند اور سورج بھی ”بھاگ“ جائیں گے تو یہ ستارے پھر بھی ساتھ ہوں گے۔ ستاروں میں قطبی ستارہ، گوکہ یہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، یہی سمتیں سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ گو کہ یہ بھی کائنات کے حساب سے حرکت میں ہے مگر چونکہ یہ ہماری دنیا کے حساب سے جمود کا شکار ہے، اس لئے کئی ناسمجھ اس جمود کی وجہ سے اسے پسند نہیں کرتے۔ مگر یاد رہے اس کی اپنی ایک حیثیت ہے۔ اس کا اپنا ایک کام ہے۔ اس کی بھی ضرورت ہے تو رب نے اسے پیدا کیا ہے۔
وہ بولا: اگر تمہاری پسند دیکھی جائے تو پھر ان سورج، چاند اور مصنوعی سیاروں کی ضرورت نہیں، تو کیا انہیں ختم کر دیا جائے؟
میں: ارے بھائی! میری یا کسی کی بھی پسند ناپسند سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو ہماری سند کی ضرورت نہیں۔ جو کئی ہے سو وہ ہے۔ پہلے بھی کہا ہے کہ یہ سورج، چاند اور ستاروں کا اپنا اپنا ایک کردار ہے۔ سبھی کی ضرورت ہے اور ہمیں سبھی کو ”برداشت“ کرنا ہو گا، تبھی اس بلاگستان کا کارواں خوبصورتی سے چلے گا۔ یہ تماشہ روز اول سے چل رہا ہے اور یونہی چلتا رہے گا۔ پہلی بات یہ کہ ان میں سے کسی کو ختم کرنا ہمارے بس میں نہیں، اگر بالفرض ہم کسی کو ختم کر بھی دیں تو جان لو کہ ہم نے فطرت سے جنگ لگائی ہے اور جان لو کہ فطرت ہمیشہ ہی جیتی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں ہمیں منہ کی کھانی پڑے گی۔میرا خیال ہے، فطرت کا سیدھا سا اصول ہے کہ اگر کوئی چیز ختم کرنا ہے تو اس کی وجہ ختم کر دو، وہ چیز خودبخود ختم ہو جائے گی۔ اس لئے اگر تمہارے بس میں کچھ ہے تو پھر اس وجہ کو ختم کرو جو اس چیز کو پیدا کرنے کا سبب ہے۔ اگر وجہ ختم نہیں کر سکتے تو پھر دوسروں کو نیچا دکھانے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دو۔ جس کو ختم ہونا ہوا وہ خودبخود ختم ہو جائے گا اور جسے نہیں ہونا وہ ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ختم نہیں ہو گا۔ ہر کوئی اپنا اپنا کردار ادا کر کے ہی رہے گا۔
وہ بولا: اچھا تو اب میں سمجھا کہ تم نے فلاں فلاں انٹرویو میں ایک سوال ”اردو بلاگران کا مستقبل کیسا دیکھتے ہو؟“ کے جواب میں کہا تھا کہ ”بس دیکھتے جاؤ، ایک وقت آئے گا جب یہ اردو بلاگر آسمان پر چمکتے ہوئے ستارے ہوں گے۔“
میں: ”بالکل“ تم سمجھ گئے ہو۔ سورج اور چاند طلوع ہوتے آئے ہیں۔ اپنی مدت کے بعد غروب ہوتے رہیں گے، مگر صدیوں تک نام ستاروں کا رہے گا۔
وہ بولا: تم خود کو اور فلاں فلاں بلاگر کو کس قسم میں دیکھتے ہو؟
میں نے کہا کہ قسم کا تعین ہم نہیں کر سکتے۔ اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ ہمیں بس یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا چلیں جس کی وجہ سے وقت کسی اچھی قسم میں ہمارا شمار کرے۔
اوتوں ای لنگ گیا اے۔
بلال بھائی بہت خوبصورت انداز میں تشریح کی ہے آپ نے بلاگران کی قسمیں بیان کیں ہیں۔ آپ کا انداز تحریر بہت خوبصورت ہے ماشاءاللہ۔ ویسے مجھے بھی ستارے پسند ہیں آپ ہی کی طرح۔
بہت خوب جانب
بہت خوبصورت تحریر۔ اب ہم (قاری) زمین پر بیٹھ کر آسمان بلاگیت پر درخشاں درخشاں ستاروں کو دیکھیں گے۔
بہت اچھا اندازِ بیاں ہے ماشاءاللہ ۔ کیا خوب چاند ستاروں کی مثال دی ہے بھائی آپ نے واہ
ایک لمحہ رکے بنا پڑھتی رہی جب تک کہ ختم نہیں ہوگئی۔ بہت عمدہ تحریر ہے جناب
واہ جانی کیا بات ہے بہت خوب یار بہت مزہ آیا پڑھ کر یقین کرو اتنا سخت قسم کا مصروف ہوں کے پڑھنے ، لکھنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا۔ بہت خوشی ہوئی یہ تحریر پڑھ کر واہ یار میری بہت تھکاوٹ اتر گئی ہے سارا دن کام کرنے کے بعد ایک یہ تحریر پڑھ کر اتنا مزہ آیا کہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں بہت شکریہ یار
تحریر پڑھتے ہوئے کچھ مقامات پر سوچا کہ ان کو موضوع بنا کر تنقید کروں گا، لیکن تحریر کے اختتام پر اپنے ارادے پر قائم نہ رہ سکا۔ ریاض شاہد صاحب کے الفاظ دہراتا ہوں، بہت خوب جانب۔ 🙂
پوسٹ کو پبلش کلک دیکر “سیارہ ” پر اُترا تو ۔۔۔۔” بلاگستان کی کہکشاں کے چاند تارے ” پر نظر پڑی اِس زبردست آمد پر( ایم ۔ڈی ) کی مُبارک باد قُبول فرمائیں۔۔احسان مند۔۔
آپ کی تحریر کا جواب نہیں۔ شگفتہ اور پرمغز تحریریں تخلیق کرنا کوئی آپ سے سیکھے۔
سائنس کے ایک ناکام طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے دے کہ سورج خود بھی ایک ستارہ ہی ہے، جو زرا قریب ہونے کی وجہ سے زیادہ روشن نظر آتا ہے۔ لیکن وہ وہ جو دور ٹمٹماتے ہیں وہ زیادہ بڑے ہیں کیونکہ لاکھوں نوری سالوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اتنی جسامت رکھتے ہیں کہ نظر آجاتے ہیں۔
باقی رہا بلاگرز کی “کہکشان”، تو ایک بات یقینی ہے کہ اس کائنات میں جہاں ہر طرف “سکون” اور خوبصورتی نظر آتی ہیں وہی روز نئے ستارے بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ کوئی ستارہ ناگزیر ہے نہ کوئی چاند۔ لاکھوں چاند ہیں، کروڑوں ستارے ہیں۔ اور تعمیر و تخریب کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
فکر انگیز تحریر شیر کرنے کے لئے شکریہ۔
Good points about developing tolerance of opposing views. The point about people having hidden agendas sounds Paranoia. The persecutory beliefs, or beliefs of conspiracy concerning a perceived threat towards something, a general distrust of others. Everyone is equal with equal chance of having own ideas/way of life. A very much needed concept today
کیا خوب کہا ۔۔۔ بلاگروں کے مرزا غالب صاحب۔ دعا ہے کہ آپ سب اردو بلاگرز سدا خوش رہیں۔ آمین
بہت عمدہ خیال اور الفاظ کا انتخاب بہت خوب ہے۔ اور آپ نے اپنی بات اچھے انداز میں پیش کر دی کہ مجھ جیسے جاہل کے پلے بھی پڑ گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔دوبارہ سے بہت خوب
میں صدقے جاواں
خوب صورت تحریر ہے۔ لیکن یہ تو بتایا ہی نہیں کہ زمین کہاں ہے اس میں۔
اچھا جی۔
ویسے ۔۔۔چلو چھڈو۔ 👿