غروب ہوتے سورج کی آخری کرنیں ہمالیہ کے پیرپنجال سلسلے پر پڑ رہی تھیں… اور میں ان سے تقریباً سو کلومیٹر دور چناب کناروں پر… فطرت کی تجربہ گاہ میں کیمرہ لگائے… برف پوش پہاڑوں پر منڈلاتے بادلوں کا ”ٹائم لیپس“ بنانا سیکھ رہا تھا… مظاہرِ قدرت استاد تھے اور میں شاگرد۔۔۔ ویسے میں تو ہمیشہ سے ہی شاگرد ہوں۔ بابا جی نے کہا تھا کہ پُتر اگر آگے سے آگے بڑھنا چاہتے ہو تو کم از کم سیکھنے کے معاملے میں انا کو مار دینا اور ہمیشہ شاگرد بن کر رہنا۔ ”باادب بانصیب“ اور ”مجھے کچھ نہیں آتا“ کی مالا چبتے ہوئے علم کے آگے سر جھکائے رکھنا، نگوں سر(Surrender) رہنا۔۔۔ بس جی! بات پلے باندھ لی، یوں ”موجاں ای موجاں“ ہیں اور آج تک طفلِ مکتب ہی ہوں۔ البتہ کبھی راہ چلتے کسی کو کوئی بات بتا سمجھا دینے یا پھر میرے آن لائن اسباق (ٹیوٹوریلز) کی وجہ سے کوئی خود کو میرا شاگرد کہہ دے تو کہہ دے، ورنہ میں خود کو استاد ہرگز نہیں سمجھتا۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ ایک لڑکا میرے آن لائن کرتوت دیکھ کر پوچھتا پچھاتا میرے گھر تک پہنچ گیا۔ میں سویا اٹھا اور آنکھیں ملتا ملتا دروازے پر پہنچا۔ اس نے سلام دعا کے فوراً بعد کہا ”سر جی مجھے اپنا شاگرد بنا لیں“۔ پہلے تو مجھے آیا گیا ہی کچھ نہ، پھر مذاق سمجھ کر ہنس دیا۔ خیر اسے بیٹھایا اور بتایا کہ بھئی! میرا باقاعدہ درس و تدریس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ تو دلپشوری کے لئے بلاگ پر کبھی کبھی ٹیوٹوریلز لکھ دیتا ہوں۔ اگر تمہیں کچھ معلومات چاہیئے تو ابھی یا جب چاہے فون پر پوچھ لینا، میرے علم میں ہوا تو ضرور بتاؤں گا۔ لاکھ سمجھایا کہ جاؤ کسی سکول و کالج میں داخلہ لو۔ لیکن میری ہر بات کے آخر پر اس کا ایک ہی اصرار کہ جو بھی ہو بس آپ مجھے شاگردی میں لے لو۔
کچھ دن نہ گزرے کہ اپنی ایک کالج فیلو کی ای میل موصول ہوئی۔ جس میں اس لڑکے کی سفارش کی گئی۔ بلکہ شغل شغل میں احسان کے بدلے احسان قسم کی سفارش کچھ یوں تھی کہ سنا ہے اب تم بہت اونچا اُڑ رہے ہو۔ اور ہمارے ایک بچے(کزن) کو دو لفظ پڑھانے کو تیار نہیں۔ حالانکہ یاد کرو، خود تو جناب کلاس میں کبھی ہوتے نہیں تھے اور ہمارے بنائے نوٹس سے ہی تمہارے پلے کچھ پڑا کرتا تھا 🙂 وغیرہ وغیرہ۔۔۔ بہرحال سفارش سے زیادہ مجھے اس لڑکے کے جذبے اور لگن نے متاثر کیا۔ اللہ کے بندے کو جب اس تعلیمی ادارے کا پتہ چلا کہ جہاں سے میں پڑھا تھا تو اس نے اپنے آس پاس اسی تعلیمی ادارے کے فارغ التحصیل لوگ تلاش کرنے شروع کیے اور اتفاق سے اسے اپنے رشتہ داروں میں ہی سفارش مل گئی۔
ایک دن اسے بلا ہی لیا اور جوان نے پہلے ہی دن سوال داغ دیا کہ آپ مجھے شاگرد کیوں نہیں بنا رہے تھے؟ الجواب: دیکھو جوان! اول میری کوئی خاص روٹین نہیں، اوپر سے میں من موجی چھلاوا، لہٰذا تمہیں کوئی ایک وقت نہیں بتا سکتا تھا کہ جب تم آ جایا کرتے۔ دوسرا یہ کہ جس طرح تم شاگرد بننے چلے تھے، میں ایسی ”استادی شاگردی“ سے بیزار ہوں۔ اس کی وجہ علم پر ناگ بنے بیٹھے اساتذہ والی وہ سوچ ہرگز نہیں کہ کوئی ہم سے سیکھ کر کہیں ہم سے ہی آگے نہ نکل جائے یا ہماری دکانداری کے برابر میں دکان کھول کر نہ بیٹھ جائے۔ آج ہی لکھ لو کہ بلاشبہ میرا یقین ہے: جو عزت اور رزق میری قسمت میں ہے، وہ میرا ہی ہے۔ پھر کوئی جو مرضی کر لے، وہ مجھے ہی ملنا ہے۔ اس لئے تم کل کو میرے برابر میں اور بے شک اچھی دکان کھولنا، مجھے کوئی اعتراض نہ ہو گا اور شاید میں تمہارا گاہک بھی بن جاؤں۔۔۔ جبکہ بیزاری کی وجہ دوسری ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے کا جو عجب چال چلن بن چکا ہے، اس میں ایسی ”استادیاں شاگردیاں“ بندے کو خجل ہی کرتی ہیں۔ وہ کیا ہے کہ معاشرے میں ایسے شاگردوں کی کمی نہیں کہ اِدھر ٹھیک طرح کام سیکھا نہیں اور اُدھر خود کو کامل سمجھنے لگے۔ ایسی صورتحال میں استاد کسی غلطی کی نشاندہی بھی کرے تو شاگرد اس سے اوٹ پٹانگ مطلب نکالتے، مثلاً استاد کو ہی اپنا حریف سمجھنے لگتے ہیں۔ اس پر ایک کہاوت مہذب الفاظ میں کہوں تو: بکری کے بچے جب تھوڑے جوان ہوتے ہیں تو اپنی ماں پر ہی ”ٹپوشیاں“ لگانے لگتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی کچھ شاگرد جب تھوڑا چلنا سیکھ لیتے ہیں تو استاد پر ہی چڑھ دوڑتے ہیں۔ لہٰذا میں راہ چلتے شاگرد پال کر اپنا سکون برباد کرنے کا قائل نہیں۔ جیسے سوچ سمجھ کر استاد چننا ہوتا ہے، ایسے ہی شاگرد بھی چھان پھٹک کر بنانا چاہیئے۔
بہرحال بہتر یہی ہے کہ احسان کرنے جیسی کسی استادی شاگردی کی بجائے تم مجھے فیس دیا کرنا اور یہ فیس پیسوں کی صورت نہیں بلکہ تم بھی مجھے کچھ سیکھا دیا کرنا۔ گویا ہم سیکھنے سیکھانے کی ترکیب سے چلیں گے۔ اس طرح حساب برابر رہے گا، یوں احسان اور شر، محسن اور احسان فراموشی کا خطرہ ہی نہیں رہے گا۔۔۔ اور جس دن سمجھو اور بے شک دو چار دن میں ہی سمجھو کہ جو تم نے سیکھنا تھا، وہ سیکھ چکے یا میرے پاس تمہیں سیکھانے کو کچھ ہے ہی نہیں تو بلا جھجھک مجھے چھوڑ کر خوشی خوشی آگے بڑھ جانا۔ مجھے امید ہے کہ تم ان باتوں کا خاص طور پر خیال رکھو گے۔ ٹھیک ہے! ہفتے میں فلاں فلاں دن آ جایا کرنا اور ہاں! آنے سے پہلے فون کر لیا کرنا۔۔۔ پھر اس جوان کے جذبے کو سلام۔ میں اپنی فراغت کے حساب سے کبھی اسے تپتی دوپہر میں بلاتا تو کبھی ٹھٹھرتی صبح۔ اور وہ دوڑا چلا آتا۔ آفرین اس پر کہ سال ڈیڑھ جتنا عرصہ سیکھنا سکھانا چلتا رہا، میں چھٹی کرتا تو کرتا مگر اس نے ایک بھی چھٹی نہ کی اور ہر حال میں پہنچتا۔ میرے سے بھی جو بن پڑتا اسے پڑھاتا سیکھاتا۔ وہ تکنیک یا گُر جو میں نے خود سالہاسال کی محنت یا بڑی مغزماری کے بعد سیکھے، وہ اسے پل بھر میں بتاتا سمجھاتا۔ ایسے ہی اس نے بھی مجھے کافی کچھ سکھایا۔
آخر ایک دن اسے کہا کہ جوان! بہت ہو گئی استادی شاگردی، اب تمہیں آگے بڑھنا چاہیئے۔ جاؤ اور مجھ سے بہتر کسی بندے سے کچھ نیا سیکھو۔ خیر آج وہ اتنا قابل ہے کہ اکثر میں ہی اس سے راہنمائی لیتا ہوں۔ گویا اب وہ میرا استاد ہے اور آج بھی نہایت ”تابع دار استاد“ ہے۔۔۔ ویسے سیکھنے سکھانے کے اُس سلسلے کے دوران ایک دن معلوم ہوا کہ جوان اپنے گھر میں میری تعریفوں کے ایسے پُل باندھتا ہے کہ اس کی ماں میرے لئے جھولی پھیلا پھیلا کر دعائیں کرتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ بلال کو اُس جیسی ماؤں اور دیگر کئی لوگوں کی دعائیں ہی لگ گئی ہیں۔ ورنہ مجھ جیسا نالائق اور سست تو گلیوں میں رُلتا۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں