دنیا میں روز اول سے ہی ایجادات کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا کیونکہ روز اول سے ہی انسان نے اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کا بندوبست شروع کر دیا تھا جبھی تو سیانے کہتے ہیں کہ ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“۔ اگر ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو، پس ثابت ہوا ہر ”ایجاد“ کو ”ضرورت“ ہی جنم دیتی ہے۔ کبھی موسموں کی شدت سے بچنے کی ضرورت نے مکان کو جنم دیا تو کبھی پیغام جلد سے جلد دوسروں تک پہنچانے کی ضرورت نے ٹیلی فون کو جنم دیا۔ ہر دور اور ہر انسان کے حساب سے یہ ”ضرورت“ اپنی شکلیں بدل بدل کر ”ایجاد“ کو جنم دیتی رہی۔ کبھی ضرورت نے مال و دولت کی شکل اختیار کر لی تو کبھی انسانیت کی فلاح، کبھی شہرت تو کبھی عزت، کبھی پیار تو کبھی شوق۔ بس ”ضرورت“ اپنی شکلیں بدلتی رہی اور ایجادات ہوتی رہیں اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
اب دیکھئے اپنے ارد گرد کے حالات۔ ضرورت موجود ہے، حالات رستہ دیکھا رہے ہیں، ذہانت کے سمندر بہہ رہے ہیں لیکن کوئی خاص ایجاد نہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور یہی ضرورت چیخ و پکار کر رہی ہے لیکن ہمارے اکثر نوجوانوں نے صرف جنسی تسکین کو ہی ضرورت سمجھا ہوا ہے اور اس ضرورت کے تحت دن بدن ”محبت“ کے نئے سے نئے ماڈل ایجاد کر رہے ہیں، جیسے موبائلی محبت، انٹرنیٹی محبت اور فیس بکی محبت وغیرہ۔ کئی نوجوان تو اس سے بھی ایک قدم آگے نکل چکے ہیں۔ ان نوجوانوں نے ”ضرورت“ کسی جنسِ مخالف کا نام سمجھ رکھا ہے اور اس ”ضرورت“ کے لئے دن رات ایک کرتے پھر رہے ہیں تاکہ ”کچھ“ ایجاد کر سکیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ یہاں آپ کو موجد نہیں بلکہ جگہ جگہ عاشق ملیں گے۔ یہاں آپ کو سائنسی تحقیق تو نہیں البتہ لڑکی لڑکے کی دوستی کو جائز و ناجائز ثابت کرنے والی تقاریر ضرور ملیں گی۔ سب سے بڑھ کر یہاں آپ کو رہبر نہیں بلکہ نظام پر گفتگو کرتے نقاد ملیں گے۔ جو دو چار اپنے ہی جیسوں کے ”ٹاک شوز“ دیکھ کر تنقید پر تنقید کرتے پھر رہے ہیں۔ تنقید بھی ایسی کہ جس کا نتیجہ صرف اور صرف بحث برائے بحث ہے، کوئی تعمیر نہیں۔ جس تنقید کا نتیجہ حوصلہ شکنی کر رہا ہے نہ کہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے۔ دوسری طرف ذہانت نے اپنا ایک شور مچایا ہوا کہ ”جی ہمیں کوئی رہبر نہیں مل رہا“۔ ذرہ ان کی ذہانت تو دیکھو، یہ چاہتے ہیں کہ ساری رات یہ موبائل پر گپیں لگاتے رہیں اور جب دن کو سکون سے سوئے ہوں تو آئن سٹائن آئے اور ان کے سرہانے لکھی لکھائی تیار شدہ تھیوری رکھ جائے۔ ارے خدا کے بندو! محنت کرو اور خود آئن سٹائن بنو نہ کہ شارٹ کٹ کے چکر میں سوتے رہو۔ حالات خود رہبر بنے تو ہوئے ہیں اور تمہیں بتا بھی رہے ہیں کہ اگر اپنی بقا چاہتے ہو تو ترقی کی طرف جاؤ۔
اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم نے حالات کو رہبر بنا کر، ان سے سبق سیکھتے ہوئے، اپنی اصل ضرورت کے مطابق ایجادات کرنی ہیں یا پھر یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے خواب غفلت میں رہنا ہے اور فضول کاموں کو اپنی ضرورتیں بنا کر اندھیروں میں سفر کرنا ہے۔ فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم نے اپنا لیڈر آپ بننا ہے یا پھر مسیحا کا انتظار کرتے کرتے اپنی موت آپ مر جانا ہے۔
ایجادات سے مراد صرف سائنسی ایجادات ہی نہیں بلکہ یہ ایک اصطلاح استعمال کی ہے جس میں سائنسی ایجادات سے لے کر معاشی، معاشرتی اور ہر لحاظ سے ہونے والی بہتر تبدیلیاں ہیں۔ آپ جو جواور جتنا جتنا کر سکتے ہیں، خدا کے لئے وہ تو کریں۔ ہمارے اندر اخلاقیات بہت کم ہو چکی ہیں، اس وقت یہ بھی ہماری ایک ضرورت ہے۔ بہتر نظام لانے، بہتر لیڈر پیدا کرنے، بہتر ٹیکنالوجی بنانے اور بہترین معاشرہ تشکیل دینے جیسی ضرورتوں کی طرف بھی توجہ کرنی ہے۔ نوجوانوں! ”ضرورت ایجاد کی ماں ہے“ کا اصل فلسفہ سمجھو اور ”ضرورت کو بچے کی ماں“ نہ بناؤ۔ ٹھیک ہے ضرورت کے تحت بچے ”ایجاد“ کرنے پر توجہ بھی دیں اور یہ بھی ایک ”اہم“ ضرورت ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی تو دیکھیں کہ ہماری اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں اور ان ضرورتوں کے تحت اور بھی بہت کچھ ایجاد کرنا ہے۔
یہ تحریر کسی ایک صنف کے لئے نہیں بلکہ اس میں دونوں (لڑکے اور لڑکیوں ) کو مخاطب کیا ہے۔ بس کئی جگہ پر محاورے کے مطابق چلتے ہوئے صنف واضح ہو رہی ہے تو اس مراد ہرگز لڑکے یا لڑکیاں نہ لیا جائے بلکہ یہ سوچئے کہ دونوں اطراف میں یہ سب چل رہا ہے اور تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
بہت اعلی
:whistling:
:silly: اعلیٰ تحریر
لا جواب!
سُبحان اللہ ۔ ماشاء اللہ آپ فلسفی ہی نہيں واعظ بھی ہيں ۔ ليکن ۔ ۔ ۔ يہاں تو ہر عمل کا خْلاصہ جسے انگريزی ميں شارٹ کٹ کہتے ہيں کی دھُن ايسی سوار ہوئی ہے کہ ہيروئين کا نشہ بھی کيا ہو گا ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہميں جلد ہوش عطا کرے
Good work
۔ تنقید بھی ایسی کہ جس کا نتیجہ صرف اور صرف بحث برائے بحث ہے، کوئی تعمیر نہیں۔ جس تنقید کا نتیجہ حوصلہ شکنی کر رہا ہے نہ کہ کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرے
درست ومتفق
کاش کہ ہماری سمجھ میں آجائے ۔۔۔۔۔۔
بہت ہی اچھے
اچھا لکھا ہے۔
بلال بھائی آپ نے بہت خوبصورتی کے ساتھ چند تلخ حقائق کی جانب اشارہ کیا ہے ہماری نسل کی تو خیر والدین نے بڑئے اچھے طریقہ سے پرورش کی لیکن سوچیں جب وہ بچے بڑئے ہوں گئے جن کی ماوں کو سٹار پلس دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ملتی اور جن کے والدین کو کمانے سے ہی فرصت نہیں ملتی
بہت زبردست بھائی
آپ نے بہت اچھا لکھا ہے، کاش آپ کے یہ خیالات ان سٹوڈنٹس تک بھی پہنچ جائیں جو ان چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں داد دونگا کہ اپ کی تحریر میں ایک شائستگی ہے، جو کہ آجکل نہیں ملتے، یا کم از کم آسانی سے نہیں ملتا، اور جن تلخ حقائق کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے وہ اصل میں ایک کڑوا سچ ہے ، اللہ ہماری حالت پر ر حم کرے، آمین ۔
jnb tusi bht changi gal kiti ay………ub allah sano mahnat krne ki tofeq dy…sb kaho ameen
السلام علیکم :clap: بہت خوب
بہت خوب
ما شااللہ ! یہی ہمارا المیہ ہے۔ بلال بھائی آپ کی یہ تحریر میرے جیسے کئی نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہے۔ آُپ نے کتنی خوبصورتی سے سچائی بیان کی ہے۔اللہ آپ کے قلم کو اور قوت دے اور آپ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آُپ کی یہ تحریر میں آج ہی اپنی یونیورسٹی کے نوٹس بورڈ پر لگا رہا ہوں۔