زندگی کی کیسی خوبصورتی ہے کہ ہم مرنے کے بعد بھی کسی کیڑے کی خوراک، کسی درخت کی شاخ، کسی پھول کی پتی بن کر زندہ رہیں گے۔ یہ بات ہمارے پیارے دوست سید رضوان بخاری نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے کہی تھی۔ ہمارے لئے اس سال 2020ء کا آغاز بہت دل دہلا دینے والا تھا۔ ابھی سال کا تیسرا دن تھا کہ اچانک بخاری صاحب رخصت ہو گئے اور ہم بس روتے رہ گئے۔۔۔ اب تو ہی بتا اے سالِ رفتہ! تجھ سے کوئی گلہ کروں یا نہ کروں؟
سال کے آغاز پر ہی کورونا کی خبریں آنے لگیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔ خیر کورونا نے پوری دنیا کا جو تیاپانچہ کیا اور کر رہا ہے، اس سے تو سبھی باخبر ہیں۔۔۔ وبا کے شروع میں لاک ڈاؤن والے دن مشکل تو تھے مگر ہم دیہاتیوں کے لئے ویسے ہرگز نہیں تھے کہ جیسے شہری لوگوں کے لئے تھے۔ دیہاتی روایت کے مطابق گھروں میں سال بھر کی گندم موجود تھی۔ کھلی فضاؤں میں سانس لینے کے لئے گھروں میں صحن اور خاص طور پر وسیع و عریض زمینیں کہ جن میں فصلیں لہلہاتیں اور قریب ہی بہتا چناب۔۔۔ بلکہ ہم دیہاتیوں کے لئے کورونا کے بعض معاملات تو عید جیسے تھے۔ مثال کے طور پر وہ جو گاؤں ویران کر کے شہروں میں جا بسے تھے، وہ وبا کے ڈر سے بھاگے تو اپنی مٹی نے ہی انہیں پناہ دی۔ سالہاسال سے بند کواڑ کھل گئے۔ محل نما گھروں میں قید مائی بابوں کے بچے لوٹ آئے۔ مکان پھر سے گھر بنے۔ یہاں ایک حکایت یاد آ گئی ہے کہ کوئی ڈاکو اپنی ماں کو چھوڑ کر کہیں چلا گیا۔ پیچھے ماں اسے یاد کرتی روتی رہتی۔ مگر اس نے کبھی ماں کی خبر نہ لی۔ پھر کرنی ایسی ہوئی کہ وہ ڈاکو پکڑا گیا۔ پولیس کی سخت چھترول سے ٹیسیں اٹھیں تو اس کے منہ سے بے اختیار ”ماں“ نکلا۔ جب ماں کو اس بات کی خبر پہنچی تو اس نے تھانیدار کو دعائیں دیں کہ بھلا ہو تیرا جس نے میرے بچے کو ماں تو یاد کرا دی۔۔۔ کچھ ایسا ہی وبا کے دنوں میں واپس لوٹنے والوں کو دیکھ کر خیال آتا کہ چلو اور کچھ نہ سہی مگر وبا نے ان کو آبائی گھر تو یاد کرائے۔
وبا کے دن تھے، کرنے کو کچھ تھا نہیں، فراغت ہی فراغت تھی۔ یوں ایک دن ہم نے گھر کے ساتھ حویلی(خالی پلاٹ) میں سے گھاس کاٹنے کا سوچا۔ خیر وہ کٹائی کم مگر تفریح زیادہ تھی۔ وہیں میز کرسیاں لگا رکھی تھیں۔ کھانے اور گپ شپ کے دور چلتے۔ اور پھر ایک روز شام کی چائے پی کر میں نے کہا کہ لو تھوڑا سا گھاس ہی کاٹ دوں۔ درانتی چلاتے چلاتے اچانک میری نظر شمال کی اور پڑی۔ بس پھر میں یہ کہتے ہوئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگا کہ ”میرے پہاڑ نظر آ گئے، میرے پہاڑ نظر آ گئے“۔ بھاگم بھاگ کیمرہ اٹھایا اور چھت پر جا کر تصویریں بنانے لگا۔ جی جی بالکل وہ تصویر اسی دن بنائی تھی کہ جس میں میرے گاؤں کے کھیت کھلیان اور ان سے پرے مقبوضہ کشمیر میں پیرپنجال کے برف پوش پہاڑ تھے۔۔۔ ان دنوں ایک مشغلہ یہ بھی اپنا رکھا تھا کہ غروب آفتاب سے تھوڑا پہلے بھانجوں کے ساتھ چھت پر جاتا اور پرندو یعنی ڈرون اڑاتا۔ محلے بھر کے بچے بھی اپنی اپنی چھتوں پر آ جاتے۔ وبا کے ان دنوں میں تفریح کے واسطے زبردست ماحول بن جاتا۔ اس بارے ہماری ڈرون کہانی لکھی تھی۔
یوں تو اس سال 2020ء کے وسط تک کورونا کی وجہ سے سیاح دوستوں سے ملاقاتیں ہو سکیں نہ محفلیں جم سکیں، لیکن پھر معاملہ کچھ بہتر ہو گیا۔ راوی کنارے والوں نے چناب کنارے آ کر ”ساڈا مان ودایا“۔ سرگودھا میں مس سدرہ عتیق خان نے ایک خوبصورت بیٹھک کا اہتمام کیا۔ اس کے علاوہ لاہور کی محفلوں نے اس سال کو چار چاند لگا دیئے۔۔۔ دوست احباب کا خیال ہے کہ سال 2020ء منظرباز کی فوٹوگرافی کے حوالے سے اچھا رہا۔۔۔ بس جی کرنے کو اور کچھ تھا نہیں تو ساری توجہ فوٹوگرافی پر رہی۔ ورنہ ماضی میں تو کسی نہ کسی سیاحتی مقام کی کھوج اور تحقیق میں ہی زیادہ وقت گزر جاتا۔ لیکن اس سال کہیں جا نہیں سکتے تھے تو ایویں ہر وقت آہیں بھرنے کی بجائے فوٹوگرافی میں زیادہ دھیان لگا لیا۔ رمضان آیا تو اکثر طلوعِ آفتاب کا نظارہ چناب کناروں پر ہوتا رہا اور اس دوران کئی اچھی تصویریں بن گئیں۔ بلکہ سالہاسال کا انتظار بھی ختم ہوا اور ایک چاندنی رات میں 103کلومیٹر دور پیرپنجال کی تصویر بننے سے دیوانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ پھر کچھ دنوں میں سورج گرہن لگنے والا تھا تو چند دن اس پر تحقیق اور فوٹوگرافی کی تیاری میں گزر گئے۔ اور پھر ایک مہمان دم دار ستارہ ”نیووائز“ زمین کے قریب آیا تو کچھ دن اس سے دل بہلاتے اور اس کی تصویریں بناتے رہے۔ اتنے میں سیاحت کھلنا شروع ہوئی تو ہم بمبوکاٹ پر بیٹھے اور چترال سے آگے وادی بروغل کا رخ کر لیا۔ اس کے بعد اندرونِ سندھ گھومنے چلے گئے اور سال کے جاتے جاتے دو دفعہ اپنے ٹلہ جوگیاں کی یاترا بھی ہو گئی۔۔۔ یوں زندگی کا ایک اور سال بیت گیا۔۔۔
اے سالِ رفتہ! وبا کی وجہ سے اکثر لوگ تجھے بُرا کہیں گے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ تو نے آنا، تو آیا اور تیری مہربانی کہ جیسے تیسے کٹ گیا۔۔۔ دعا ہے کہ آئندہ سالہاسال بہترین سے بھی بہترین ہوتے جائیں۔ سماجی جانور کو انسان بننا نصیب ہو۔ دنیا ہتھیاروں کی بجائے انسانیت کی فلاح پر توجہ دے۔ ساری عداوتیں اور نفرتیں اسی سال میں رہ جائیں اور اگلے سال میں صرف اور صرف امن و محبت ہو۔۔۔ پہاڑوں پر برفیں پڑتی رہیں… وادیاں سرسراتی رہیں… دریا بہتے رہیں… چشمے گنگناتے رہیں… اور لوگ محبت کے گیت گاتے رہیں۔۔۔ نیلے سیارے کی ہر دم خیر ہو۔۔۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں