ایک لمبی مصروفیت سے واپس گھر پہنچا تو دوسرے دن دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اب کی بار کاروں کی بجائے موٹر سائیکلوں پر یک روزہ تفریحی پروگرام بن رہا ہے۔ ظالموں کو بہت کہا کہ کسی نئی جگہ چلتے ہیں مگر۔۔۔ بہرحال لمبی چوڑی بحث کے بعد پروگرام طے پایا کہ صبح صبح نکلتے ہیں اور سکون سے کشمیر گردی کرتے ہیں۔ ”اسی آں مُنڈے گجراتی، ساڈا دن چڑھدا اے راتی“ 😀 بھلا اب صبح صبح کون اٹھے۔ شکر ہے دوستوں نے یہ بات مان لی کہ پاس ہی تو جانا ہے پھر اتنی صبح جانے کا فائدہ۔ یوں ”صبح“ نو بجے کا وقت طے پایا۔
ہمارا راستہ کچھ یوں تھا کہ جلالپورجٹاں سے فتح پور، دولت نگر، کوٹلہ ارب علی خاں اور اس سمت پنجاب کے آخری گاؤں چڑیاولہ سے ہوتے ہوئے کشمیر کے شہر بھمبر میں داخل ہوں۔ بھمبر کے بعد کوئی حتمی منزل پہلے سے طے شدہ نہیں تھی بلکہ کسے منزل بنانا ہے، ایسے فیصلے ساتھ ساتھ کرنے تھے۔ بھمبر، کشمیر کا سرحدی شہر ہے اور وہاں سے مختلف سمتوں میں راستے جاتے ہیں۔ ہم نے ذہن میں دو راستے سوچ رکھے تھے۔ ایک یہ کہ آسان راستہ چھوڑ کر پہاڑوں کے پُرخطر راستے سے قلعہ باغ سر (باغ ہسار) پہنچا جائے۔ حالانکہ قلعہ کنٹرول لائن کے قریب ہونے کی وجہ سے پاک فوج نے ہمیں قلعے کے پاس نہیں جانے دینا تھا۔ دوسرا راستہ یہ سوچ رکھا تھا کہ بھمبر سے آگے جھنڈی چونترا اور کڈیالہ کے چھوٹے پہاڑی سلسلے کو عبور کر کے ”چوکی“ شہر میں اترا جائے۔ چوکی کے ساتھ ایک مقام ڈنہ بڑوھ میں چشمے کے کنارے آرام کیا جائے۔ پھر سماہنی اور سرسالہ کے راستے واپس جھنڈی چونترا پہنچا جائے اور باقی جدھر سے گئے تھے بدھو اسی راستے سے گھر کو لوٹ آئیں۔ کشمیر کا یہ علاقہ کنٹرول لائن کے ساتھ ہے اور سماہنی سیکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وہ 11 اپریل 2014ء کا خوبصورت دن تھا۔ طاہر بٹ اور ان کا دوست طاہر یعنی طاہر کی طاقت دو 🙂 اور میں مقررہ وقت پر ”ڈیرے“ پہنچ گئے۔ جہاں ہم دوست احباب مل بیٹھتے ہیں اس جگہ کو ہم ڈیرہ کہتے ہیں اور ہم سب دوست ڈیرے دار ہیں۔ 🙂 ڈیرے کی مزید تفصیل پھر کبھی سہی۔ بہرحال ہم تین لوگ پہنچ چکے تھے۔ باقی غلام عباس، رضوان شاہ (مرشد)، میر جمال، عبدالستار، نجم، آصف اور گلزار مقررہ وقت پر نہیں پہنچے تھے۔ سارے ہمیں نہر والے پُل پر بلا کر خود غائب تھے۔ خیر پونے دس کے قریب سب اکٹھے ہوئے۔ پانچ موٹر سائیکل تھے۔ جن میں ہنڈا 125، ہنڈا پرائیڈر، ہنڈا ڈریم 70، یاماہا جنون اور یاماہا ٹو سٹروک شامل تھے۔ ہر موٹر سائیکل پر دو دو بندے تھے۔
قافلہ روانہ ہوا تو میں نے موٹر سائیکل ”مَنڈ“ کے (تیز) رکھا اور دوسروں سے کافی آگے نکل گیا۔ دولت نگر گزر کر ایک غیر معروف چھوٹے سے ہوٹل پر بریک لگائی۔ مجھے یہ تھا کہ کئی دوستوں نے ناشتہ بھی نہیں کیا، تو وہ کچھ کھا پی لیں۔ خیر ایک ایک کر کے سارے اکٹھے ہونا شروع ہوئے۔ بلکہ میر جمال اور غلام عباس نے ہمیں نہ دیکھا اور آگے نکل گئے اور مجھے ان کے پیچھے موٹر سائیکل دوڑا کر انہیں واپس لانا پڑا۔ اس کے سوا دوسرا راستہ نہیں تھا کیونکہ عموماً موبائل کال کا موٹر سائیکل پر پتہ نہیں چلتا۔ کچھ دوستوں نے ناشتہ کیا، کچھ نے چائے پی اور کچھ ویسے ہی ہمارے ساتھ بیٹھے رہے اور قافلہ پھر چل دیا۔
اب بھی میں سب سے آگے تھا۔ کشمیر کی سرحد پر بیچاری قسم کی پولیس نے مجھے روک لیا۔ سڑک پر میز کرسی لگا کر بیٹھے پولیس والے میرا شناختی کارڈ، موٹر سائیکل کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس لے کر اندراج کر رہے تھے کہ عباس بھی پہنچا آیا۔ پولیس والے نے انہیں ہاتھ دیا تو میں نے ویسے ہی کہہ دیا کہ یہ بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ حالانکہ ان کا بھی اندراج کرنا چاہیئے تھا مگر پولیس والے نے عباس کو چلے جانے کا اشارہ کیا مگر عباس پھر بھی رک گیا۔ جس پر پولیس والے نے ہنستے ہوئے کہا کہ اس کے پاس بھی کاغذات پورے ہوں گے، اسی لئے رک گیا ہے۔ ادھر ہمارا قافلہ ایک دفعہ پھر اکٹھا ہو کر چلا۔
بھمبر شہر پہنچ کر پُر خطر راستے سے قلعہ باغ سر کی طرف جانے کو شاید عبدالستار کا حوصلہ نہ ہوا اور ہمیں یہ کہتے ہوئے کہ پھر کبھی ادھر چلیں گے، جھنڈی چونترا کی طرف مڑ گیا۔ بھمبر کے فوری بعد پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا۔ پہاڑوں میں موٹر سائیکل چلانے کا بھی اپنا ہی مزا ہے۔ کہیں تیز تو کہیں آہستہ آہستہ موڑ کاٹتے پہاڑیاں چڑھ رہے تھے۔ میں پہلے بھی کئی دفعہ اس سڑک پر سفر کر چکا تھا۔ ہنڈا 70 حتی کہ 125 سی سی پر بھی ادھر گیا تھا مگر اس دفعہ پرائیڈر 100 سی سی جس طرح پہاڑ چڑھ رہا تھا وہ مزا پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ ہماری دائیں طرف تھوڑا دور کئی ایک چشمے مل کر بننے والا نالہ تھا۔ یہ وہی نالہ تھا جسے عبور کر کے ہم بھمبر شہر میں داخل ہوئے تھے۔ بھمبر سے مشرق کی طرف ایک اور بڑا پہاڑی نالہ اس میں شامل ہوتا ہے۔ دونوں مل کر نالہ بھمبر کہلاتے ہیں۔ پھر یہی نالہ بہتا ہوا گجرات شہر کے شمال سے بل کھاتا ہوا گزر کر دریائے چناب میں گرتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے اُتار چڑھاؤ پر سفر کرتے ہوئے ہم نالے کے قریب سے گزر کر بڑی پہاڑیوں کی بلندی چڑھنے لگے اور نالہ ہم سے دور ہوتا گیا مگر نظروں سے اوجھل نہ ہوا، کیونکہ اب ہم بلندی پر تھے۔ بل کھاتی اور بلند ہوتی سڑک پر تھوڑے سفر کے بعد ہم رکے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پر تقریباً ہر دفعہ کشمیر گردی کے دوران رُکا کرتے ہیں۔ یہاں سے بھمبر شہر اور نالے کا خوبصورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ دوست احباب نے ”تصویر زنی“ کی۔ وہ کیا ہے کہ جب سے موبائل میں اور دیگر ڈیجیٹل کیمرے آئے ہیں، تب سے لوگ تصویروں پر تصویریں بناتے چلے جاتے ہیں۔ یوں تصویریں بنانے کو میں تصویر کشی کی بجائے ”تصویر زنی“ کہتا ہوں۔ 🙂
قافلہ ایک مرتبہ پھر چل دیا۔ اب کی بار ہم ”جھنڈی چونترا“ رکے، بلکہ روکے گئے۔ یہاں بھی پولیس والوں نے ”تنچی“ کی۔ بقول ہمارے چین والے مرشد، چین میں غیر ملکی سیاحوں کے لئے روزانہ پولیس سٹیشن میں اپنا اندراج کروانا لازمی ہوتا ہے اور اس عمل کو چینی زبان میں ”تنچی“ کہا جاتا ہے۔ بہرحال تنچی کرانے کے دوران ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ قریب ہی ایک دربار ”شادی شہید“ ہے، کیونکہ ہمارے ایک دوست نے ابھی تک وہ نہیں دیکھا تو جلدی جلدی وہ دیکھ کر واپس جھنڈی چونترا پہنچا جائے اور پھر کڈیالہ کی طرف سفر کیا جائے۔ یوں ہم شادی شہید دربار پر پہنچے۔ دربار پر جانے کو یقیناً بعض لوگ مذہبی رنگ دیں گے، جبکہ حقیقت اس سے کافی مختلف ہے۔ بہرحال دوست احباب اِدھر اُدھر پھرنے کے بعد اکٹھے ہوئے، ٹھنڈا پیا کیونکہ پیاس لگ رہی تھی اور پھر سفر شروع ہوا۔
جھنڈی چونترا سے کڈیالہ کی طرف مڑے تو عبدالستار سب سے آگے تھا اور میں اس کے پیچھے پیچھے۔ ایک چھوٹے موڑ پر میں نے ہارن بجایا، یہ صرف اس لئے تھا کہ اگر کوئی آگے سے آ رہا ہے تو وہ آگاہ ہو جائے۔ ہارن کی آواز سنتے ہی پتہ نہیں عبدالستار کو کیا ہوا کہ اس نے رفتار بڑھا دی۔ یوں میں نے بھی اس کے پیچھے پیچھے رفتار بڑھا دی۔ تیز مگر نہایت احتیاط سے چلاتے گئے۔ بل کھاتی چھوٹی سی سڑک چیڑ کے گھنے درختوں میں سے گزر رہی تھی۔ کڈیالہ کے قریب ایک بلند مقام پر رُکے مگر دوستوں کو وہ جگہ کچھ خاص پسند نہ آئی۔ ادھر تھوڑی سی ”تصویر زنی“ ہوئی اور پھر چل دیئے۔ ویسے تو ہمارا یار ”جمال ہی کمال“ ہے مگر اب کی بار ”غلام عباس ایک وکھری کلاس“، جو کہ بندہ تو کافی سیانا اور سمجھدار ہے مگر پتہ نہیں اسے کیا ہوا کہ خطرناک سڑک پر بھی تماشے کرنے لگا۔ کبھی اچانک سڑک چھوڑ کر کسی پگڈنڈی پر موٹر سائیکل چڑھا دیتا تو کبھی چلتے ”موٹر سائیکل“ پر ٹانگوں کو ایسے چلاتا جیسے سائیکل چلا رہا ہے۔ یہ تقریباً ہر سفر پر تماشے کرتا ہے۔ ان تماشوں کے بعد ایک خوبصورت مقام آیا۔ جہاں نیچے کھائی میں ایک دوسرے سے ذرا ہٹ کے گھر بنے ہوئے تھے، جیساکہ عموماً پہاڑی علاقے میں ہوتے ہیں۔ ہم ادھر رکے اور یہاں خوب تصویر زنی کرنے کے بعد چل دیئے۔ اب اترائی شروع ہو چکی تھی۔
کسی کا تو پتہ نہیں مگر مجھے پہاڑوں میں چار پانچ موٹر سائیکل قطار میں چلتے ہوئے بہت خوبصورت لگتے ہیں۔ اسی لئے میں دوسروں سے تھوڑا وقفہ ڈال لیتا اور سبھی سواروں کو دیکھتا۔ اس علاقے میں یہ ہمارا پہلا سفر نہیں تھا، بلکہ کئی دفعہ انہیں راہوں میں خجل خراب ہو کر مزے لوٹتے ہیں۔ ایک دفعہ گئے تو بھمبر سے ہی تھے مگر پھر پونا اور پیر گلی کا لمبا چکر کاٹ کر میرپور اور منگلہ ڈیم پہنچے۔ ادھر سے دینہ اور پھر بذریعہ جی ٹی روڈ گھر واپسی ہوئی۔ ویسے کسی زمانے میں ہم کافی ”پاگل“ ہوا کرتے تھے۔ وہ کیا ہے کہ اپنی معصوم سی ہنڈا 70 سی سی پر دور دور تک جاتے۔ مری اور وادی ناران کاغان تک بھی گئے تھے۔ اب تو جھیل سیف الملوک کا ”کافی اچھا“ ٹریک بن چکا ہے مگر جب ہم گئے تو کئی مقامات پر موٹرسائیکل اٹھا کر بڑے پتھر عبور کرنے پڑے۔ خیر وہ ستر سی سی موٹر سائیکل آج بھی میرے پاس ہے جس نے جھیل سیف الملوک اور لالہ زار کی ”زیارت“ کی تھی۔ 🙂 ویسے اب ہم بڑے ہو چکے ہیں۔ وہ کیا ہے کہ اب زیادہ تر سیاحت گاڑی پر ہوتی ہے۔ بس کبھی کبھار موٹر سائیکل پر دل پشوری کر لیتے ہیں۔
اگلا حصہ:- یک روزہ کشمیر گردی کا اختتام
خوبصورت روداد ہے جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی ہم بھی آئیں گے دیکھنے ، کشمیر وادی جنت نظیر
روداد پسند کرنے اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ۔
آپ کے پاس جب بھی وقت ہو تو گجرات ضرور تشریف لائیں۔ پھر جہاں تک ہو سکا مل کر کشمیر دیکھیں گے۔ ویسے آپ کی مہمان نوازی ہمارے لئے اعزاز کی بات ہو گی۔
بہت عمدہ ۔ ۔ ۔
السلام علیکم۔
ویسے جناب اس “پار” کا کشمیر بھی بہت ہی خوبصورت ہے۔ کبھی تشریف لاکر ہمیں مہمان نوازی موقع عنایت فرمائیں۔ سفر کی روداد پڑھ کر مزہ آیا۔ شکریہ۔
چلو کشمیر چلتے ہیں
جہاں پر پھول کھلتے ہیں
جہاںپر برف گرتی ہے
جہاںپر چشمے نکلتے ہیں