بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے کوشش کی کہ معاشرے میں موجود شدت پسند رویوں کو جتنا میں سمجھ سکا ہوں وہ آپ کے سامنے رکھوں اور جہاں جہاں میرے نظریات و سوچ میں مسائل ہیں، آپ ان کی نشاندہی کریں، مجھ سے اختلاف کریں، تنقید کریں، مجھے سمجھائیں، دلائل سے قائل کریں تاکہ میں اپنے نظریات میں بہتری لا سکوں۔ لیکن یہاں بھی ہماری گنگا الٹی ہی بہی۔ پتہ نہیں یار لوگ یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ ہر تحریر لکھنے والا ان پر حملہ کر رہا ہے۔ خیر اب آپ کو زیادہ تکلیف نہیں دوں گا کیونکہ اس سلسلے (شدت پسندی) کی یہ آخری تحریر ہے۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو جس سمت میں لگا ہوا ہے، اسے بس وہی کام اچھا لگتا ہے۔ میں اکثر غور کرتا کہ لوگ ایک دوسرے کی اور ایک دوسرے کے کام کی مخالفت میں بہت آگے کیوں نکل جاتے ہیں۔ عام طور پر ہم لوگ بحث، مخالفت اور اپنا کوا سفید ثابت کرنے کی کوشش میں اتنا آگے نکلتے ہیں کہ دوسرے کی اچھی بات بھی نہیں مانتے بلکہ کئی دفعہ الٹا مذاق کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو کام دونوں اطراف کے اچھے ہوتے ہیں اور معاشرے کو دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہم میانہ روی کا دامن چھوڑتے ہوئے خود کو سکالر، سب سے سیانہ اور مفکر اعظم ثابت کرنے کے لئے اچھائی کی ہی مخالفت کر جاتے ہیں۔ پھر انا میں پڑ کر سوچتے ہیں کہ اگر ہم نے دوسرے کی بات مان لی تو یہ ہماری شکست ہو گی اور پھر یہی باتیں برے نتائج سامنے لاتی ہیں۔
میری نظر میں جہاں ہمارے معاشرے میں معاشرتی اور نظریاتی لحاظ سے کئی ایک مسئلے ہیں وہاں پر ایک بڑا مسئلہ شدت پسندی بھی ہے۔ جو جس کام میں لگا ہوا ہے اس کو بس وہی کام اچھا نظر آ رہا ہے اور اس کو اچھا ثابت کرنے کے جوش میں ایسے ہوش کھوتا ہے کہ اس اچھے کام کو برائی کی حد تک لے جاتا ہے۔ ”مولوی“ کہتا ہے کہ بس نماز اور روزہ وغیرہ ہی عبادت ہے جبکہ ڈاکٹر اور انجینئر چاہے قوم کی خدمت کریں وہ عبادت نہیں۔ ”میڈم“ کہتی ہے کہ خوشحال عورت ہی سب کچھ ہے جبکہ مرد کو خوشحال کرنے کی ضرورت نہیں۔ ”مذہبی سکالر“ دین کو دنیا سے علیحدہ کر کے دکان کھولے بیٹھا ہے تو کاروباری سمجھتا ہے کہ دین کا کاروبار سے کیا لینا دینا۔ ”امام مسجد“ کہتا ہے کہ حقوق اللہ ہی سب کچھ ہیں۔ فلاحی تنظیم والے کہتے ہیں کہ حقوق العباد ہی سب کچھ ہیں۔ مدرس کہتا ہے کہ دین کی تعلیم ہی اصل تعلیم ہے۔ لیکچرر کہتا ہے کہ سائنس کی تعلیم ہی سب کچھ ہے۔
ہر کوئی اپنے کام اور سوچ میں ایسا شدت پسند بنا بیٹھا ہے کہ دوسرے کے اچھے کام کی مخالفت کرتے ہوئے جہاں تمام حدیں عبور کرتا ہے وہیں پر اپنی شدت پسندی میں اپنے اچھے کام کو بھی برائی بنا کر رکھ دیتا ہے۔ اچھائی کی، اچھائی کی مخالفت ہی اچھائی کو برائی تک لے جا رہی ہے اور ایسی جنگ چل رہی ہے کہ ایک عام انسان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا اچھا ہے اور کیا برا، کون درست ہے اور کون غلط۔ میرے خیال میں اس وقت واحد راستہ میانہ روی ہے۔
تھوڑا سا غور کریں تو کام دونوں اطراف کے اچھے ہوتے ہیں، لیکن فتح حاصل کرنے کے جوش میں ہوش کھو کر اپنے اچھے کام کو اچھا ثابت کرنے کے لئے دوسرے کے اچھے کام کو غلط ثابت کرنے پر لگ جاتے ہیں۔ کئی دفعہ اپنے اچھے کام کو اچھا ثابت کرنے کے لئے برائی کا سہارا تک لے لیا جاتا ہے۔ یہ سب شعوری ہو یا لاشعوری لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ اس جنگ میں کوئی بھی اچھے کام والا فتح حاصل کرے لیکن دوسری طرف شکست بھی اچھائی کو ہی ہوتی ہے۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ میانہ روی بھی کوئی چیز ہے۔ ایک اچھا معاشرہ بنانے کے لئے تمام اچھائیاں ضروری ہیں۔ استاد بھی چاہئے، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان،مذہبی سکالر، کاروباری لوگ بھی چاہئے، دشمن سے لڑنے کے لئے جنگ جو بھی چاہئے، تفریح کے لئے کھیل بھی چاہئے، قوم کی تربیت کے لئے اچھی مائیں بھی چاہئے، خوشحال مرد چاہئے تو خوشحال عورت بھی چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ حقوق اللہ بھی پورے کرنے ہیں اورحقوق العباد بھی ضروری ہیں۔ ایک طرف قرآن عبادات کا حکم دیتا ہے تو دوسری طرف دن اور رات کے آنے جانے میں عقل والوں کے لئے نشانیوں کا بھی بتاتا ہے یعنی ہمیں عبادات اور سائنس دونوں چاہئے۔ عبادات کے علم و عمل سے دل منور کرنا ہے تو سائنس اور دیگر شعبہ جات کے علم و عمل سے انسانیت کی بھلائی بھی کرنی ہے۔ بوقتِ ضرورت دشمن سے لڑنے کے لئے ذہن تیار کرنا ہے تو سپاہی کے لئے اسلحہ بھی ہم نے ہی بنانا ہے۔ساری بات کا خلاصہ یہ کہ ہمیں دین کے ساتھ ساتھ دنیا بھی چاہئے بلکہ ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں دین، دنیا، عبادات، رہن سہن اور سائنس سب کچھ آتا ہے پھر ہم اسلام اور دنیا کو علیحدہ علیحدہ کیسے کر سکتے ہیں۔۔۔
نوٹ:- مولوی، میڈم، مذہبی سکالر، کاروباری، امام مسجد، فلاحی تنظیم، مدرس اور لیکچرر وغیرہ کے حقیقی معنوں پر نہ جائیے گا اور سب کے بارے میں ایسا نہ سوچئے کیونکہ سب ایسے نہیں سوچتے۔ یہ اصطلاحات صرف اس شعبے کے کچھ لوگوں کی سوچ واضح کرنے اور جو کچھ ہمارے ماحول میں چل رہا ہے اس کے لئے لکھی ہیں۔ یہ ساری سنی سنائی باتیں یا ذہنی اختراع نہیں بلکہ میں نے ایسے لوگ معاشرے میں دیکھے ہیں اور ان سے بات چیت کی ہے اور ان کے خیالات جاننے کے بعد یہ سب لکھا ہے۔
واقعی کمال کی بات ہے
تحریر پسند کرنے اور تبصرہ کرنے کا بہت بہت شکریہ۔
درست کہا آپ نے بلال بھائی، لوگ تنقید کرنے والے کو اپنا دشمن، مخالف پارٹی کا نمائندہ یا پھر بارڈر پار کا بندہ سمجھتے ہیں، جب کہ تنقید تو دوستوں کے لیئے اصلاح کا ایک اچھا موقع ہوتی ہے۔
ہم لوگ احتساب احتساب کرتے ہیں لیکن کبھی بھی خود احتسابی کی طرف نہیں آتے کیوں کہ اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں آسانیاں پھیلانے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
جی میں آپ کی ان باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ راشد ادریس رانا بھائی کئی دفعہ ہمارے کئی دوست تنقید برائے تنقید میں ماحول خراب کر دیتے ہیں شاید یہ بھی ایک وجہ ہو کہ عام طور پر لوگ تنقید برائے تعمیر کو بھی غلط معنوں میں لے لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ دیکھائے۔۔۔آمین
منافقین میں ایک اور کا اضافہ،
🙁
بہت افسوس ہوتا ہے جب لوگوں کے چہرے سے نقاب اترتا ہے اور انکی اصل شکل سامنے آتی ہے،
میرے دو نوں تبصروں میں ایسا کیا گالم گلوچ تھا کہ ایک چھاپا نہیں اور دوسرا ماڈریشن میں روکا ہوا ہے 🙂
محترم بلاوجہ گمانوں میں نہ پڑو اور شدت پسند بنتے ہوئے چھوٹی چھوٹی بات پر فتوی صادر نہ کرو۔ آپ کا کوئی تبصرہ نہیں روکا اور سب شائع ہوئے ہیں کیونکہ میں کہنے کی آزادی کے حق میں ہوں، لیکن اگر آپ نے کسی تبصرے میں واقعی گالم گلوچ لکھا اور آئندہ کبھی ذاتیات پر حملہ کرتے ہوئے، موضوع سے ہٹ کر ادھر ادھر کی چھوڑیں تو پھر آپ کا کوئی تبصرہ شائع نہیں کیا جائے گا۔ جس کے لئے میں ابھی سے معذرت کرتا ہوں۔
کوشش کریں موضوع پر رہتے ہوئے اور بااخلاق لوگوں کی طرح اختلاف اور تنقید وغیرہ کریں۔ ایسی صورت میں آپ کا اختلاف اور تنقید سر آنکھوں پر۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے۔۔۔آمین
مطمئن رہو میرے تبصرے گالم گلوچ سے پاک ہوتے ہیں،
اور ذاتیات پر بھی میں جب ہی بات کرتا ہوں جب کوئی خود ہی اپنی ذات کو ننگا کر چکا ہوتا ہے!
باقی میرا تبصرہ چھاپنے کے لیئے شکریہ اور سوئے ظن کے لیئے معزرت قبول کرو!
🙂