کہتے ہیں کہ عموماً جنگلی جانور آدم خور نہیں ہوتے، بلکہ درندے بھی انسان سے ڈر کر بھاگتے ہیں۔ البتہ جب مدبھیڑ ہو جائے یا انسان اس انداز میں جانور کے قریب چلا جائے کہ جانور کو خطرہ محسوس ہو اور اسے لگے کہ اب بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں بچا اور انسان اسے نقصان پہنچائے ہی پہنچائے، تو تب وہ اپنی بقا کے لئے بطور آخری حربہ انسان پر حملہ کرتا ہے۔ ایک دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بیماری، معذوری، بڑھاپے یا کسی بھی وجہ سے جب درندے شکار نہیں کر پاتے تو ایسی کسی مجبوری کی صورت میں آسان ہدف تلاش کرتے ہیں اور تب بھی انسانوں پر حملے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ انسان ایک آسان شکار ہے۔ ماہرِ جنگلی حیات کہتے ہیں کہ ریچھ، شیر یا دیگر درندے بنیادی طور پر آدم خور نہیں ہوتے۔ لیکن کسی بھی وجہ سے جب ایک دفعہ کوئی درندہ انسانی خون چکھ لے تو پھر وہ آدم خور ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ میں تو ایویں ڈرتا تھا، جبکہ انسان تو بہت آسان شکار ہے۔
اس سب کے باوجود ہماری طرف سے پیشِ خدمت ہے ریچھ کہانی اور ساتھ میں گزارے لائق تصویر۔ اب یہ آپ کا حسنِ نظر ہے کہ ”ریچھ کہانی“ سے مراد تصویر والے ریچھ کی کہانی لیں یا پھر تصویر بنانے اور کہانی لکھنے والے کو ریچھ سمجھیں۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ جنگلی جانوروں اور خصوصاً پاکستان میں پائے جانے والے نایاب جنگلی جانوروں کو ان کے قدرتی مسکن میں دیکھنے میں خاص الخاص دلچسپی رکھتا ہوں۔ خاص طور پر سنو لیپرڈ، بھورا ریچھ، استور مارخور، بلیو اور مارکوپولو شیپ، پنجاب اڑیال اور مرغِ زریں وغیرہ ان میں شامل ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ فی الحال ان کی فوٹوگرافی سے زیادہ ننگی آنکھ سے دیکھنے میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ ویسے بھی میں ابھی وائلڈلائف فوٹوگرافر نہیں، یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فی الحال جنگلی حیات کی تصویر کشی کے لئے ضروری سازوسامان اور خاص طور پر اچھا ٹیلی فوٹولینز نہیں خریدا۔ اس لئے ایک عام لینز(55-250mm) سے، بڑی مشکل اور کئی خطرات مول لے کر دیوسائی میں ہمالیائی بھورے ریچھ(Himalayan Brown Bear) کی یہ تصویر تقریباً دو تین سو میٹر کی دوری سے بنائی تھی۔
میرا اور عباس مرزا کا پروگرام تھا کہ اس سال کی سیاحت جنگلی جانوروں کے نام کرتے ہیں۔ لہٰذا دیوسائی یا پھر کسی بھی نیشنل پارک میں جا کر ڈیرے ڈال دیتے ہیں اور پھر جی بھر کر جنگلی جانور دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور ہم نہ جا سکے۔ آ جا کر سیدھی سادی سیاحت کا پروگرام بنا مگر اس میں دیوسائی کے کچھ ٹریکس بھی شامل کر لئے۔ مختصراً یہ کہ اوائل ستمبر میں ہم سطح سمندر سے اوسطاً 4100میٹر بلند دیوسائی کے میدانوں میں پہنچے۔ موسم سرما میں تقریباً نومبر سے مئی تک یہ علاقہ برف سے ڈھکا رہتا ہے اور موسم گرما میں جب برف پگھلتی ہے تو شمال میں سکردو اور مغرب میں استور کے راستہ دیوسائی تک رسائی ہوتی ہے۔ دیوسائی میں جھیل شیوسر، کالا پانی اور بڑا پانی زیادہ مشہور مقامات ہیں۔ چونکہ ہم استور کی طرف سے دیوسائی میں داخل ہوئے تھے، اس لئے سب سے پہلے جھیل شیوسر آئی۔ جھیل کنارے میں اور ہمارے وائلڈ لائف فوٹوگرافر طاہر منظور عاطر صاحب اور رائٹر و فوٹوگرافر رانا عثمان کبھی کسی پہاڑی یا ٹیلے پر چڑھ کر تو کبھی کسی زاویے سے فوٹوگرافی کرتے پائے گئے۔ یوں فوٹوگرافی کی خاطر اتار چڑھاؤ کرنے والوں کے سائے لمبے ہوتے گئے اور دیوسائی پر شام اتر آئی۔ دوسری طرف کالاپانی کیمپ سائیٹ پر دولت خان ناصر بھائی ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ اور جب شام کے بعد ہم کالاپانی پہنچے تو دولت بھائی نے اپنی کیمپ سائیٹ پر ہمیں خوش آمدید کہا۔ کھانے اور چائے کافی کا دور چلا اور پھر کیمپ سائیٹ کے باورچی خانہ(کچن) میں ڈی این پی(دیوسائی نیشنل پارک) رینجر کے غلام محمد صاحب اور دولت خان بھائی سے ریچھ، دیونوء ٹُھک(دیو کی پہاڑی) اور دیوسائی کے متعلق گپ شپ ہونے کے ساتھ ساتھ لوک داستانیں بھی سنتے رہے۔ آخر اگلے دن کا پروگرام ترتیب دے کر سب سونے کو چلے گئے اور میں انتہائی سرد رات میں کیمپ سائیٹ سے تھوڑا ہٹ کر ”نائیٹ فوٹوگرافی“ کرنے لگا۔ اس دوران ایک دفعہ محسوس ہوا کہ مجھ سے تھوڑی دور کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ جب ٹارچ کی روشنی سے دیکھا تو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ میں اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کر گیا اور فوٹوگرافی میں لگا رہا۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ڈی این پی کی پوسٹ سے تیز روشنیاں ابھریں، اِدھر اُدھر گردش کرتیں مجھ پر بھی پڑیں اور ساتھ میں ”ریچھ ریچھ“ کی آوازیں سنائی دیں۔ پہلے تو یہی لگا کہ رینجر والے مجھے ہی ریچھ سمجھ رہے ہیں۔ خیر بعد میں معلوم ہوا کہ واقعی جنابِ ریچھ صاحب کیمپ سائیٹ کے آس پاس تشریف لائے تھے اور دورہ مکمل کر کے اور اپنی نشانیاں چھوڑ کر واپس چلے گئے ہیں۔ بس جی! میں نے فوٹوگرافی کا بوریا بستر گول کیا اور کیمپ میں جا کر لیٹ گیا۔۔۔
اگلی صبح دولت خان بھائی کی نگرانی میں ہماری ٹیم مکمل تیاری کے ساتھ بھورے ریچھ کی تلاش کو نکلی۔ تلاش کے دوران دیونوء ٹُھک کو سر کرنا بھی شامل تھا۔ کیونکہ دیوسائی اور اس کی لوک داستانوں کی مناسبت سے یہ دیوسائی کی سب سے اہم پہاڑی مانی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دیوسائی گئے اور دیو کی پہاڑی پر نہ گئے تو سمجھو کہ دیوسائی ہی نہیں گئے۔ لہٰذا وہ جو میں اس سے پہلے بھی دو دفعہ دیوسائی گیا تھا اور ایک دفعہ تو پورا دیوسائی عبور بھی کیا، مگر چونکہ دیو کی پہاڑی پر نہیں گیا تو وہ دو دفعہ جانا بھی نہ جانا ہی ہوا۔ لہٰذا اس دفعہ دورے کو قبولیت بخشوانے کے لئے دیو کی پہاڑی پر جانا لازم ٹھہرا۔ بہرحال ہم کالاپانی سے بڑا پانی جانے والے مرکزی ٹریک سے اترے۔ کبھی ٹیلے چڑھتے اترتے، کبھی رنگ برنگے پھولوں میں سے گزرتے تو کبھی دلدلی علاقہ۔ یوں کئی ایک ماشیاں(Marshes) عبور کیں۔ انگریزی میں ”Marsh“ دلدل کو بولتے ہیں اور مقامی لوگوں نے غالباً اسی سے لفظ ”ماشی“ بنا رکھا ہے۔ خیر ہم دیوسائی کے خوبصورت لینڈ سکیپ کی فوٹو اور ویڈیوگرافی کرتے چلے جا رہے تھے۔ موسم اور خاص طور پر ہوا کا رخ ہمارے حق میں تھا۔ یوں جس طرف ہم جا رہے تھے، اگر اُدھر کوئی ریچھ تھا تو اسے ہماری بو سے ہماری آمد کی اطلاع آسانی سے نہ ملتی۔ ریچھ کی حسِ شامہ(سونگھنے کی طاقت) بہت زیادہ ہوتی ہے اور دور سے ہی چیزوں کی بو محسوس کر لیتا ہے۔ اگر ہوا کا رخ انسان سے ریچھ کی طرف ہو تو یقیناً زیادہ بو اس طرف جائے گی۔ اسی طرح اگر رخ مخالف سمت میں ہو تو بو نہیں جائے گی یا کم جائے گی۔۔۔ ریچھ کی تلاش میں چلتے چلتے گو کہ کئی جگہوں پر ریچھ کا گوبر، اس کے پیروں کے تازہ نشانات اور ایسی گھاس دیکھی کہ جہاں وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آرام کر کے گیا تھا، مگر سچ پوچھیں تو ہمیں ریچھ نظر آنے کی امید بہت تھوڑی تھی۔ بلکہ ہم تو دل ہی دل میں دعائیں بھی کرتے کہ یاخدا! ریچھ مل جائے لیکن اس انداز سے کہ ہم اسے دیکھ لیں، تصویریں بنا لیں مگر وہ اتنا قریب بھی نہ ہو کہ ہم سے خطرہ محسوس کر کے حملہ کر دے۔ بے شک ہم نے حفاظتی تدابیر کے متعلق تحقیق کر رکھی تھی اور اس پر عمل درآمد کر رہے تھے، مگر پھر بھی ریچھ ایک درندہ ہے اور ایسا کہ اپنی آئی پر آئے تو انسان کو بھاگنے کا موقع نہیں دیتا اور چیر پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔
ریچھ کی تلاش میں چلتے رہے اور ابھی تین چار کلومیٹر ہی پیدل فاصلہ طے کیا ہو گا کہ دولت بھائی کو دوربین کی مدد سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر دور ایک ماشی میں دو ریچھ نظر آئے۔ سبھی کو رکنے، خاموش رہنے اور بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا۔ تاکہ خاص اور ایسا انداز اپنا کر ریچھوں کے قریب جایا جائے کہ وہ ہماری آمد سے بے خبر رہیں اور ڈسٹرب ہو کر بھاگیں نہ حملہ کریں۔ مگر ہوا یہ کہ ریچھوں کو دیکھتے ہی ٹیم خوشی میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہو گئی اور ہر کوئی آگے بڑھ کر تصویریں بنانا چاہتا تھا۔ ہماری بے احتیاطی کی وجہ سے ریچھوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ ان کی آنکھوں سے دوربین اور کیمروں کے پیچھے والی آنکھیں چار پانچ سات نو دو گیارہ ہوئیں۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ پہلے دونوں ریچھوں نے حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کیا اور پھر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انسان اس کرہ ارض کا سب سے خطرناک جانور ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھول اڑاتے یہ جا وہ جا۔ ایک طرف ریچھ بھاگ جانے اور گزارے لائق تصویر اور ویڈیو نہ بنا پانے کا افسوس، تو دوسری طرف ننگی آنکھ سے ان کے قدرتی مسکن میں دیکھ لینے کی بہت زیادہ خوشی بھی تھی۔ ہمیں اس دن کی اپنی پہلی منزل مل گئی۔ یعنی ہم نے ریچھ دیکھ لئے۔۔۔
ٹیم کے کچھ لوگوں نے اتنے پر ہی اکتفا کیا اور وہیں سے واپسی کا فیصلہ کیا، جبکہ کچھ لوگ دیونوء ٹُھک سر کرنے کی طرف بڑھے۔ جب ہم پچھلے پہر دیو کی پہاڑی سے ہو کر واپس آ رہے تھے تو دولت بھائی بار بار مختلف ماشیوں میں دوربین سے جھانکتے۔ اچانک انہوں نے مجھے کہا ”استاد! لاؤ ہاتھ! ایک اور ریچھ مل گیا ہے“۔ مجھے بھی دن بھر نظریں دوڑانے کے بعد کچھ کچھ تجربہ ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں نے دوربین کے بغیر ہی اسے دیکھ لیا۔ اب ہم ٹیلوں کی اوٹ میں ہو کر چوری چوری اس ریچھ کے قریب جانے کی کوشش کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھا کہ وہ ریچھ تو کالاپانی والی پہاڑی چڑھ رہا ہے۔ پہلے ہمارا خیال تھا کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے اور بھاگ گیا ہے۔ جبکہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ ہمیں دیکھ کر بھاگا نہیں بلکہ وہ تو اپنی موج مستی میں آرام سے جا رہا ہے۔ پہاڑی پر چڑھتے چڑھتے آخر وہ اتنا دور چلا گیا کہ نظر آنا بھی بند ہو گیا۔ ہم تقریباً افسردہ ہوئے اور واپسی کا سفر جاری رکھا۔ جس ماشی میں یہ تیسرا ریچھ نظر آیا تھا، جب ہم اس کے ساتھ والے ٹیلے کے قریب پہنچے تو خیال آیا کہ صبح دوسری ماشی میں جوڑا دیکھا تھا، شاید اس ماشی میں بھی جوڑا ہی ہو۔ جن میں سے ایک پہاڑ پر چلا گیا اور دوسرا یہیں کہیں ہو۔ میں نے دولت بھائی کو کہا کہ سارا دن پیدل چل چل کر اب مجھ میں ٹیلہ چڑھنے کی ہمت نہیں، آپ ہی اوپر جائیں اور دیکھیں۔ اگر ریچھ ہوا تو اشارہ کیجئے گا۔ دولت بھائی ٹیلے پر پہنچے اور اشارہ کرنے لگے۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ابھی جو میں کچھ دیر پہلے ٹیلے پر چڑھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا، مگر ریچھ کی خبر پا کر ایسی رفتار سے ٹیلہ چڑھا کہ خود پر یقین نہیں آتا۔ خیر اوپر پہنچا تو دولت بھائی نے بتایا کہ ریچھ فلاں جگہ پر ہے اور اب ہمیں فلاں جگہ سے ٹیلے کی آڑھ میں وہاں تک جانا ہو گا۔ پہلے جھک کر اور پھر بیٹھ کر بڑی مشکل سے چلتے چلتے مطلوبہ جگہ پر پہنچے۔ مگر وہاں ریچھ نظر نہ آیا۔ ہمارا خیال تھا کہ اسے ہماری بو آ گئی ہے اور وہ کہیں جھاڑیوں میں چھپ گیا ہے۔ افسردگی میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے دوڑاتے آخر دو تین سو میٹر دور مل ہی گیا۔ وہ ہماری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ گویا اسے ہماری خبر ہو گئی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی بھاگا کہ ابھی۔ بس جلدی سے کیمرہ تاڑا، شٹر مارا اور نتیجے میں یہ تصویر بنی۔ اِدھر تصویر بنی تو اُدھر جنابِ محترم ریچھ صاحب نے دوڑ لگا دی۔ اس دوڑتے کی تھوڑی سی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ جو کہ ان شاء اللہ ولاگ میں شامل کروں گا۔ بہرحال اس دن قدرت ہم پر خاص الخاص مہربان تھی۔ ایک ہی دن میں ایک تو کیا چار چار ریچھوں کی زیارت ہوئی اور بطور تحفہ ایک آدھ تصویر اور ویڈیو بھی مل گئی۔ اس دن ریچھوں کی تلاش میں اور دیونوء ٹُھک پر جانے کے لئے تقریباً 15کلومیٹر پیدل ٹریک اور کُل ملا کر 553میٹر چڑھائی کرنی پڑی۔
کہتے ہیں کہ دیوسائی کے میدان ہمالیائی بھورے ریچھ کا آخری قدرتی مسکن ہے، جہاں یہ ماضی میں آزادانہ بستے تھے۔ عرصہ دراز سے شکاریوں کا نشانہ بننے والے بھورے ریچھ کی نسل ختم ہونے کو تھی اور چند ایک ریچھ ہی باقی بچے تھے۔ لیکن پھر اس کی نسل اور مسکن کی حفاظت کے لئے 1993ء میں تقریباً 3000مربع کلومیٹر پر محیط دیوسائی نیشنل پارک قائم کیا گیا۔ یوں اس کی بقا کی امید پیدا ہوئی اور اس کی تعداد بڑھتے بڑھتے 2013ء میں تقریباً 60 تک جا پہنچی۔ اب خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تعداد 90 سے 100 تک پہنچ چکی ہے۔ دیوسائی نیشنل پارک میں ریچھوں کے قریب جانے کے لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے تخفظِ جنگلی حیات گلگت بلتستان کے تربیت یافتہ عملے کی مدد حاصل کرنی چاہیئے۔ پارک کا عملہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پارک کے مرکزی علاقے میں آنے والے سیاحوں سے ریچھوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو اور نہ ہی ماحول کو نقصان پہنچے۔ مرکزی علاقے میں جوکہ ہمالیائی بھورے ریچھ کی آخری پناہ گاہ ہے، وہاں گاڑیوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ مزید برآں پارک میں گاڑیوں کے لئے مقرر کردا راستے سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔
————-
بھورا ریچھ – چند حقائق
حیاتیاتی نام : Ursus arctos isabellinus
اوسط وزن : مادہ 60 کلوگرام سے 80 کلوگرام۔ نر 120 سے 150کلوگرام
سرمائی خوابیدگی : نومبر تا اپریل
بچوں کی پیدائش : ایک سے دو
اوسط عمر : 30 سال
بنیادی خوراک : گھاس و پودے، کیڑے مکوڑے، جنگلی اور سنہری چوہے۔
بہت اچھی تحریر ہے ، بڑا اچھا لگا پڑھکر ،
شکریہ