مئی 8, 2020
تبصرہ کریں

ارطغرل غازی – ترک ڈرامہ – پہلا سیزن

کیا ڈرامہ لگا رکھا ہے؟ امید ہے کہ اس فقرے کا مطلب سمجھتے ہی ہوں گے کہ فلمیں یا ڈرامے حقیقت نہیں ہوتے بلکہ کہانی کو دلفریب بنانے کے لئے مصالحہ ڈالا جاتا ہے۔ تخیل کے گھوڑے دوڑا کر تصوراتی اور افسانوی باتیں شامل ہوتی ہیں۔ اور اگر بات کی جائے ترک ڈرامہ ارطغرل غازی کی تو اس میں بھی حقیقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بس فکشن ہی فکشن ہے۔ لہٰذا اوسط سے بھی نچلے درجے اور کمزور پروڈکشن کے اس ڈرامے کو لے کر کوئی ”ڈرامہ“ لگائیں نہ اسے اسلام و کفر کی جنگ بنائیں اور تاریخی دستاویز تو بالکل بھی نہ سمجھیں۔ بلکہ رومانوی داستان کے حامل اس ڈرامے کی کہانی، ڈائیلاگز اور سینماٹوگرافی کا حال یہ ہے کہ←  مزید پڑھیے
اپریل 10, 2020
تبصرہ کریں

پنجاب سے نظر آتا ہمالیہ آپ کی محبت کے نام

جب سے باقاعدہ فوٹوگرافی شروع کی ہے، ان ساڑھے چار پانچ سال میں میری بنائی قدرتی مناظر کی کئی تصاویر اپنے اپنے لحاظ سے سراہی گئیں اور آپ لوگوں کی بے پناہ محبتوں نے انہیں پذیرائی بخشی۔ اسی طرح حال ہی میں یعنی وبا کے دنوں میں اپنے گھر کی چھت سے شمال کی اور نظر آنے والے پیرپنجال سلسلہ کے برف پوش پہاڑوں کی تصویر بنائی۔ اسے بھی آپ لوگوں نے ایسی پذیرائی بخشی کہ دل خوش ہو گیا۔ لہٰذا اس تصویر کا فل ورژن آپ کی محبتوں کے نام۔۔۔ ویسے جہاں یہ تصویر سراہی گئی وہیں پر بہت سارے لوگوں نے اس تصویر کے ساتھ کچھ ایسا کیا کہ←  مزید پڑھیے
فروری 8, 2020
3 تبصر ے

مجھے اپنا رانجھا راضی کرنا ہے

پہاڑوں پر شام اُتر رہی تھی مگر ہم پہاڑ چڑھ رہے تھے۔ اُس دن کی آخری چڑھائی ختم ہونے کو تھی اور میں دن بھر کی تھکاوٹ سے بے حال ہوا پڑا تھا۔ ایک جگہ سانس لینے رُکا۔ نظر اٹھائی تو سورج کی آخری کرنیں نانگاپربت کا بوسہ لے رہی تھیں۔ اس شاندار نظارے سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اچانک ایک سوال کوندا کہ میں یہاں کیوں ہوں؟ اتنا کشٹ کیوں کر رہا ہوں؟ آخر میں نے تصویریں بھی کیونکر بنائی؟ اگلے ہی لمحے کچھ لہریں دماغ تک پہنچیں، قدرت نے جوابات عنایت کر دیئے۔ یہیں پر سیاحت کی ترقی و ترویج اور لوگوں کی راہنمائی جیسے مضحکہ خیر نعرے ←  مزید پڑھیے
فروری 5, 2020
2 تبصر ے

پھل موسم دا تے گل ویلے دی

بالائی پہاڑوں پر برف پڑنے کی وجہ سے ٹھنڈ تھی مگر ارمان بہت گرم تھے۔ لہٰذا ہم دریائے کنہار کنارے جا بیٹھے۔ ہمارے پاس آم تھے اور عام تھے۔ بابا غالب کی روح یقیناً خوش ہوئی ہو گی۔ آم نکالے، دھوئے، کوئی چھری کانٹے سے لیس ہوا تو کسی نے ”امب چوپنے“ کی راہ پکڑی۔ مگر یقین کریں ذرا سواد نہ آیا۔ تبھی ہم نے جانا کہ ”پھل موسم دا تے گل ویلے دی ای چنگی ہوندی اے“۔ کیا آپ نے وہ گانا سنا ہے ”میں امب چوپن لئی گئی تے باغ وچ پھڑی گئی“۔ یوں پھڑے(پکڑے) جانا تو یقیناً بدنامی اور شرمندگی والی بات ہے مگر سارا چکر دل کے سہانے موسم کے مطابق باغ میں جانے کا ہے۔ اور اگر بے موسمی جاتی اور پھڑی جاتی اور کوئی اسے گرم دیکھ کر←  مزید پڑھیے
جنوری 22, 2020
1 تبصرہ

کرتار پور کی یاترا

اب باباجی کا ڈیرہ ایک بڑے کمپلیکس میں تبدیل ہو چکا ہے۔ پاک و ہند سے سکھ برادری کے ساتھ ساتھ مسلمان یاتری بھی جوق در جوق جاتے ہیں۔ اور ایک وقت وہ تھا کہ جب ہم گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور گئے تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ بلکہ گندم کی وسیع و عریض فصلوں کے بیچ و بیچ سفید چونے سے ڈھکی ایک عمارت تھی۔ جس کے اردگرد ماحول ایسا تھا کہ میری سوچیں بے اختیار ”ٹائم ٹریول“ کیے دیتیں اور اک باباجی کنویں سے پانی نکال کر فصلوں کر سیراب کرتے۔ پیاری پیاری محبت بھری باتیں کرتے۔ فطرت سے محبت اور امن کا پیغام پھیلاتے۔ وہ وہی بابا گرو نانک تھے کہ جنہیں مسلمان اپنا بزرگ←  مزید پڑھیے